دیو استبداد مرمو کی قبا میں پائے کوب

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

کیا مرمو کی مسکراتی تصویر دیکھ کر دیگر قبائلی ووٹر سنیتا کا درد بھرا چہرابھول جائیں گے؟
ملک کے اندر فی الحال دو قبائلی کرداروں کا چرچا ہے، ان میں سے ایک کا تعلق سیاست کے سبب خاص طبقہ سے ہے اور دوسری عام سماج سے ہے۔ دروپدی مرمو حزب اقتدار جماعت کی مدد سے صدارت کے عہدے پر فائز ہوئی ہیں جبکہ بے یارو مددگار سنیتا کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ہاں! اس کی مالکن سیما پاترا کا تعلق البتہ بی جے پی سے ہے جسے عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ ان تینوں کی مدد سے ملک کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورتحال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ وطن عزیز میں دروپدی مرمو کو پہلی قبائلی خاتون کے طور پر صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سیما پاترا تیس سال سے سیاست میں مصروفِ عمل ہے۔ سرکار دربار سے دور سنیتا اس حقیقت کی علامت ہے کہ تمام تر سیاسی تماشوں کے باوجود پچھلے 75 سالوں میں قبائلی لوگوں کی سماجی حیثیت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی اور جب تک یہ نہیں ہوتا دکھاوے کے کام بے معنی ہیں۔ سنیتا پر ظلم و جور کے پہاڑ اسی سیاسی جماعت کے رہنما نے توڑے ہیں جس نے ملک میں پہلی قبائلی خاتون کو صدر مملکت بناکر ان پر احسان عظیم کرنے کا ڈھونگ رچایا۔
64 سالہ دروپدی مرمو ریاست اڑیسہ کی رہنے والی ایک سابق ٹیچر ہیں لیکن ان کو بی جے پی کے ساتھ کئی دہائیوں کے تعلق نے صدر مملکت بنا دیا۔ دروپدی مرمو اڑیسہ کے میور بھنج ضلع میں ایک غریب قبائلی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ایک اسکول میں درس و تدریس کے علاوہ کچھ عرصہ انہوں نے اڑیسہ کے سکریٹریٹ میں ملازمت بھی کی تھی۔ 1997 میں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور ضلع رائے رنگ پور میں بی جے پی کے ٹکٹ پر میونسپل کونسلر منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور تین سال بعد وہیں سے بی جے پی کی رکن اسمبلی منتخب ہو گئیں۔ 2000ء میں اڑیسہ میں کانگریس کو بیجو جنتا دل نے شکست سے دوچار کر دیا اور بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی۔ اس وقت مرکز میں اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے اور مرمو کو اڑیسہ میں ریاستی وزیر بنایا گیا تھا۔ اپنی کارکردگی کی بناء پر انہیں 2007ء میں اڑیسہ کے بہترین رکن اسمبلی کے اعزاز سے نوازا گیا۔ مودی نے انہیں 2015ء میں جھارکھنڈ کا گورنر نامزد کر دیا، اس وقت وہاں بی جے پی کی سرکار تھی۔ مرمو کے عروج کا سفر بی جے پی کی ریاستی شکست کے باوجود جاری رہا اور اب وہ ملک کی پہلی قبائلی صدر مملکت ہیں۔
دروپدی مرمو نے اپنی نامزدگی کے بارے کہا تھا کہ ایک قبائلی عورت کی حیثیت سے انہوں نے کبھی اتنے اعلیٰ عہدے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے سارے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں تو ایک قبائلی سیاستداں جو گورنر تک کے عہدے پر فائز رہی ہو صدر بننے کا خواب کیوں نہیں دیکھ سکتی؟ اس ایک جملے میں ملک میں قبائلی طبقات کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک کی داستان پوشیدہ ہے۔ مرمو کا یہ بیان نا قابل یقین ہے کہ انہیں ٹیلی ویژن سے اپنی نامزدگی کے بارے میں معلوم ہوا اور اس خبر نے انہیں ’حیران‘ اور ’خوش‘ کر دیا۔ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی کے بارے میں اتنا بڑا فیصلہ بغیر مشورے اور توثیق کے کر دیا جائے، لیکن بی جے پی کے ذریعہ ایسی نوٹنکی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کے نام کا جس وقت اعلان ہوا تو ساتھ میں ایک ویڈیو بھی جاری ہوئی جس میں وہ اپنے محل نما کوٹھی میں جھاڑو لگاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اندھے بھکتوں کے علاوہ کوئی احمق ترین انسان بھی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک سابق گورنر اپنے گھر میں جھاڑو لگائے گی اور ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے یہ کام جاری رکھے گی تاکہ دنیا بھر میں اسے پھیلا کر وزیر اعظم کی احسان مندی کی تعریف و توصیف کی جائے۔ اس کے ساتھ وزیر اعظم کا یہ اعلان بھی نشر ہوگیا وہ ’پراعتماد‘ ہیں کہ دروپدی مرمو ایک ’عظیم صدر‘ بنیں گی یعنی بہترین ربر اسٹامپ جو ان کی مرضی کے مطابق اپنے پیش رو رام ناتھ کووند کی مانند ہمیشہ سر تسلیمِ خم کیے رکھے۔
صدارتی الیکٹوریل کالج میں آج بھی بی جے پی بلکہ این ڈی اے اقلیت میں ہے۔ ایوان بالا میں اس کے جملہ 91 ارکان ہیں کیونکہ کئی صوبائی حکومتوں کی باگ ڈور امیت شاہ کی ساری خریدو فروخت کے باوجود حزب اختلاف کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے بی جے پی کو ایک ایسا امیدوار درکار تھا جس کے نام پر کچھ اضافی ووٹ بآسانی مل جائیں اور وہی ہوا۔ اس منصوبے میں دروپدی مرموکو آلہ کار بنایا گیا۔ ان کو ’مٹی کی بیٹی‘ قرار دے کر اڑیسہ میں تمام سیاسی جماعتوں کو ان کا خیر مقدم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ریاست کے تمام قانون سازوں کی حمایت کا یقین دلانے کی نوبت آگئی۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین کے لیے بھی دھرم سنکٹ آگیا۔ ممتا بنرجی کا پائے استقلال بھی لڑکھڑانے لگا حالانکہ حزب مخالف کے امیدوار یشونت سنہا کا تعلق ٹی ایم سی سے تھا۔ خیر اس سازش اور لالچ کے نتیجے میں دروپدی مرمو 1,086,431 ووٹوں میں سے 5,77,777 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئیں جبکہ اپوزیشن کے امیدوار یشونت سنہا کو 2,61,062 پر اکتفا کرنا پڑا۔
عزت مآب دروپدی مرمو کو صدر بنا کر بی جے پی عنقریب گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں قبائلی رائے دہندگان کو رجھانا چاہتی ہے۔ ان چار ریاستوں میں 128 اسمبلی نشستیں درج فہرست ذاتوں یا قبائلیوں کے لیے مخصوص ہیں یعنی وہاں سے اسی طبقہ کا امیدوار لڑے گا اور کامیاب ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی وہاں صدر مملکت کو انتخابی مہم میں بھیج نہیں سکتی۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج گواہ ہیں کہ نام نہاد اعلیٰ ذاتوں پر مشتمل بی جے پی کی حالت ان حلقہ ہائے انتخاب میں خراب ہے۔ اس کو صرف 27 فیصد یعنی 35 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ ویسے اڑیسہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹرا، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے97 اسمبلی حلقوں میں بھی قبائلی آبادی کا غلبہ ہے۔ اس لیے بی جے پی کیچوے کی مانند صدارتی عہدے کا استعمال کرکے قبائلی رائے دہندگان کو اپنے جال میں پھنسانا چاہتی ہے۔ اسے توقع ہے کہ دروپدی مرمو کے صدر بننے سے قبائلیوں کا اعتماد حاصل ہو گا۔ موجودہ نظام میں صدر مملکت کا عہدہ ووٹ بٹورنے کا وسیلہ نہیں ہے۔ صدر کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اگر حکومت آئین اور جمہوریت کے خلاف کوئی کام کرے تو وہ اس کو نہ صرف متنبہ کرے بلکہ ضروری قدم بھی اٹھائے لیکن دروپدی مرمو سے ایسی توقع کرنا دن میں تارے دیکھنے کے برابر ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سال میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا اور آئندہ بھی امید نہیں ہے۔
دروپدی مرمو کے خیال میں ان کا صدر منتخب ہونا قبائلی برادری اور خواتین کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اس سے ان کے اندر جوش پیدا ہوا ہے کیونکہ انہوں نے چھوٹے گاؤں کی زندگی میں بہت جد و جہد کی ہے۔ یہ تو خیر بی جے پی کی بلاواسطہ تشہیر ہے مگر پارٹی نے بالواسطہ دعویٰ کر دیا کہ دروپدی مرمو کو صدر بنا کر اس نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت قبائلیوں، خواتین اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے فکر مند ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی علامتی حرکت کو فلاح و بہبود کی فکر مندی کا ثبوت تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ ماہرین کے مطابق سابقہ حکومتیں بھی صدر کے دفتر کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت تو علامتوں کی سیاست کرنے میں بے مثال مہارت رکھتی ہے۔ ایسے میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا ان لوگوں نے ملک کی عوام کو نرا بیوقوف سمجھ رکھا ہے؟ کیا سارے قبائلی اتنی آسانی سے ان کے جھانسے میں آجائیں گے۔ رام ناتھ کووند اتر پردیش کی دلت برادری سے تھے اس کے باوجود کیا ان کی وجہ سے زعفرانیوں کو ایک بھی پسماندہ ذات کے فرد نے ووٹ دیا تھا؟ وہ تو مایاوتی کی مجبوری تھی اس لیے انہوں نے ہاتھی کی پیٹھ پر کمل کا نشان چپکا دیا ورنہ یوگی آدتیہ ناتھ کا بوریا بستر تو گول ہو چکا ہوتا۔
دروپدی مرمو کی کامیابی کا چالیسواں بھی نہیں ہوا تھا کہ جھارکھنڈ میں بی جے پی کی قبائلی دوستی کا کریہہ چہرہ 29 سالہ سنیتا نے بے نقاب کر دیا۔ سنیتا پر مظالم کا پہاڑ اگر حزب اختلاف کی جماعت سے متعلق فرد توڑتا تو بی جے پی والے بڑی ہائے توبہ مچاتے جیسا کہ دروپدی مرمو کو ’راشٹر پتنی‘ کہنے پر مچایا تھا۔ دروپدی مرمو کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہانے والی سمرتی ایرانی کی زبان سے سنیتا کے لیے ہمدردی کے دو لفظ نہیں پھوٹے اور جہاں تک مودی اور شاہ کا سوال ہے وہ تو مرد ہیں ان کو درد نہیں ہوتا۔ بی جے پی والے سینہ پھلا کر کہتے کہ دیکھا! ہم نے تو ایک قبائلی ابلہ ناری کو ملک کا صدر بنادیا اور مخالف جماعت کے لوگوں نے سنیتا کے پیر توڑ کر اسے اپاہج بنا دیا۔ اس کے دانت توڑے اور چہرے کو جلایا لیکن یہ سب کرنے والی تو بی جے پی کی رہنما سیما پاترا نکل گئی۔
بی جے پی میں آج کل معطلی کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔ نوپور شرما کے بعد بنسل کو معطل کرکے پارٹی سے نکالا گیا۔ اس کے بعد حیدر آباد کے ٹی راجا سنگھ کی شامت آئی اور اب سیما پاترا کو نکال باہر کیا گیا۔ بی جے پی والے اپنے کسی فرد کو پارٹی سے نکال کر سمجھ لیتے ہیں کہ کفارہ ادا ہو گیا ساتھ ہی کبھی کبھار گرفتاری کا ناٹک کر کے خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان سنسکاری منو وادیوں کے چہرے پر لگے ہوئے داغ ایسی ڈارمہ بازی سے چھپنے کے بجائے اور بھی زیادہ پھیل جاتے ہیں۔ گھریلو ملازمہ پر آئی اے ایس افسر کی بیوی اور بی جے پی رہنما سیما پاترا نے اس قدر مظالم کیے کہ دو ہفتہ بعد بھی اس کے لیے اسپتال کے بستر سے اٹھنا بھی مشکل تھا۔ اس نے اپنے وارڈ میں بھاسکر کے نامہ نگار کو بتایا کہ میڈم (سیما پاترا) چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی اس قدر غصہ ہوتیں کہ جو ہاتھ میں آتا اسی سے مار دیتی تھیں۔ یہ سلسلہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا۔ وہ بیچاری ضلع گملا سے سیما کے گھر جھاڑو پوچا لگانے کی خاطر آئی تھی۔ تین سال پہلے تک ان کی بیٹی کے گھر دہلی میں خدمات انجام دی اور جب وہاں سے لوٹ کر رانچی آئی تو سیما کا برتاو بدل گیا اور وہ اس کے عتاب کا شکار ہونے لگی۔
سنیتا نے اپنی داستانِ الم سناتے ہوئے کہا اگر وہ کچھ دن کے لیے وہ اپنے کسی رشتے دار کے یہاں جانے کی اجازت طلب کرتی تو اسے روک دیا جاتا ہے اور دھمکی دی جاتی ہے کہ مار کر پھینک دیں گے منہ بند رکھو۔ سنیتا جب تنخواہ کے بارے میں پوچھتی تو جواب ملتا ہے بنک میں جمع کرادی ہے حالانکہ اس نے تو اب تک نہ پاس بک دیکھی ہے اور نہ اس کا اپنا آدھار کارڈ اس کے پاس ہے۔ دروپدی مرمو کے راج میں ایک قبائلی خاتون کا یہ حال ہے۔ کیا دیگر قبائلی لوگ مرمو کی مسکراتی تصویر دیکھ کر سنیتا کا درد بھرا چہرہ بھول جائیں گے؟ دروپدی مرمو کی طرح سنیتا بھی قبائلی خاتون تھی جو بچپن میں یتیم ہو گئی تھی۔ آٹھویں تک پڑھنے کے بعد 22 سال کی عمر میں 2012 میں سیما پاتر کے یہاں ملازمت کے لیے آئی یعنی پچھلے دس سالوں سے وہ ان ظالموں کے رابطے میں ہے اس کے باوجود ان کی درندگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اتنا طویل عرصہ کوئی خونخوار درندہ بھی اپنے دشمن کے ساتھ گزارے تو اس کے دل میں انسیت پیدا ہو جائے۔
سیما کو جب غصہ آتا تو وہ سنیتا کی کمر پر لات مار دیتی تھی۔ اس سے پیدل چلا نہ جاتا تو رینگ کر چلتی اور الماری یا دیوار کو پکڑ کر کھڑی ہوتی۔ اس کو بیلن، توا، کڑھائی اور فرائنگ پین جو ہاتھ لگا وہ پھینک کر مارا جاتا۔ سیما کو اس بات پر حیرت تھی کہ اس کو اتنا زیادہ مارنے کے باوجود اس کی مالکن تھکتی کیوں نہیں تھی؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ شیطان اور اس کی نسل کے لوگ ظلم کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتے۔ سنیتا کو کئی دنوں تک ایک کمرے میں بند کردیا جاتا تھا۔ اس دوران ایک مرتبہ اس نے مجبوراً پوچے والی بالٹی میں پیشاب کردیا۔ مالکن کو معلوم ہوا تو اس نے مار کر گرا دیا اور منہ پر پیشاب بہایا اور ایسا دو مرتبہ ہوا۔ کیا ایسا وحشیانہ سلوک کوئی درندہ بھی کرسکتا ہے؟ سیما کے بیٹے آیوشمان نے اپنی ماں کی شکایت دوست وویک سے کی۔ اس نے پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی۔ اس طرح پولیس سیما کو جیل اور سنیتا کو اسپتال لے گئی۔ سنیتا نے کئی دنوں کے بعد سورج کو دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے جیل سے باہر آگئی ہے۔ سنیتا کو تو خیر رہائی نصیب ہو گئی مگر کون جانے اس جیسی کتنی قبائلی خواتین قیدو بند کا شکار ہیں۔ جب تک سیما پاترا جیسے لوگ موجود رہیں گے محترمہ دروپدی کے صدر مملکت بن جانے کے باوجود ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کوئی ناخواندہ غریب اگر ایسی حرکت کرے تو اس کی ذات، سماج، مذہب اور غربت کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن سیما پاترا نے ایسے تمام لوگوں کو غلط ثابت کر دیا۔ وہ ایک پڑھی لکھی سنسکاری خاتون ہے۔ اس کے شوہر مہیشور پاترا اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سکریٹری رہے ہیں لیکن اپنی بیوی کو اس ڈساسٹر (تباہ کاری) سے نہیں روک سکے بلکہ روکنا ضروری نہیں سمجھا۔ سیما پاترا نے 1991 میں پلامو سے آر جے ڈی کے ٹکٹ پر پارلیمانی انتخاب لڑا تھا، اس سے قبل وہ دو سال تک کانگریس میں رہی اور صوبائی اکائی کے سکریٹری کا عہدہ سنبھالا۔ آگے چل کر جھارکھنڈ میں بی جے پی کو اقتدار ملا تو اس میں شامل ہو گئی۔ وہاں پر اسے شعبہ خواتین کے قومی انتظامیہ کا رکن بنایا گیا۔ مودی کے چہیتے پروجکٹ ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو مہم کی وہ ریاستی ناظمہ رہ چکی ہے۔ آزادی کے 75 سال کی تکمیل پر ہر گھر ترنگا مہم میں اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کی کئی تصاویر بڑے فخر کے ساتھ اپنے سوشیل میڈیا اکاونٹ پر پوسٹ کی مگر چراغ تلے اندھیرا گہرا ہوتا چلا گیا۔ ان واقعات کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کے غریب لوگوں کو ساڑھے سات سو سال بعد بھی شاید ہی آزادی نصیب ہو۔ ہاں اس دوران مہمات ہوتی رہیں گی اور جشن منائے جاتے رہیں گے۔ سنیتا پر صدر مملکت نے ایک معمولی ہمدردی کا پیغام دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ ان دونوں کی مجبوریوں پر علامہ اقبال کا مشہور شعر ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
دیو استبداد’ مرمو‘ کی قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے’سنیتا‘ ہے کوئی نیلم پری
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں)
***

 

***

 سنیتا کو تو خیر رہائی نصیب ہوگئی مگر کون جانے اس جیسی کتنی قبائلی خواتین قیدو بند کا شکارہیں مگر جب تک سیما پاترا جیسے لوگ موجود رہیں گے محترمہ دروپدی کے صدر مملکت بن جانے سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022