کس کا ساتھ کس کا وکاس؟

بجٹ میں اضافہ کے بلند بانگ دعوے کی حقیقت کچھ نہیں

افروز عالم ساحل

اس مرتبہ کے بجٹ میں مرکزی حکومت نے اقلیتی امور کی وزارت کے لیے کل 5020.50 روپے کروڑ کا بجٹ تجویز کیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال 2021-22 میں اس وزارت کا بجٹ 4810.77 کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔ یعنی اس بار بجٹ میں محض 210 کروڑ روپیوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس برائے نام اضافہ کو لے کر میڈیا میں طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں۔

یقیناً کاغذ پر بجٹ میں اضافہ نظر آرہا ہے، لیکن جب ہفت روزہ دعوت نے اس بجٹ کا تجزیہ کیا تو پایا کہ کبھی بھی اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ کے ساتھ حکومت کا رویہ ایماندارانہ نہیں رہا ہے۔ وہیں اس بار بھی اقلیتوں کے لیے چلائی جا رہی کئی اہم اسکیموں کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے کم کردیا گیا ہے، یعنی کئی اسکیموں کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے اور قنیچی زیادہ تر اقلیتوں سے متعلق انہی اسکیموں پر چلائی گئی ہے جس کے بہانے حکومت نے کبھی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ اور ’سب کا وشواس‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔

سماجی مساوات، ہم آہنگی اور قوم کی ترقی کے مقصد سے قائم کی گئی ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کی گاڑی اب پٹری سے اترتی نظر آ رہی ہے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ مرکزی حکومت نے اس بار اس فاؤنڈیشن کو اپنے بجٹ میں صرف ایک لاکھ روپے دیا ہے۔ جبکہ یہ فاؤنڈیشن مسلمانوں کی ترقی کے لحاظ سے کافی اہم ادارہ ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے اپنے تجزیہ میں پایا کہ گزشتہ چند برسوں سے مرکزی حکومت نے ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے بجٹ میں نہ صرف کٹوتی کی ہے بلکہ اس فاؤنڈیشن کے لیے جتنا بجٹ مختص یا جاری کیا گیا تھا وہ بھی پوری طرح خرچ نہیں کیا گیا ہے۔

دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ مالی سال 2021-22 میں ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے لیے حکومت نے 90 کروڑ روپے مختص کیے تھے، لیکن بعد میں نظرثانی کرتے ہوئے اسے 76 کروڑ روپے کردیا گیا تھا۔ وہیں مالی سال 21-2020 کے لیے اس فاؤنڈیشن کا بجٹ 82 کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا لیکن 80 کروڑ روپے جاری ہوئے اور 70.92 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جاسکے۔ سال 20-2019 میں اس فاؤنڈیشن کے لیے 90 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور وہ جاری بھی کیے گئے لیکن 37 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ ایسی ہی کہانی سال 19-2018 کی بھی ہے۔ اس سال اس فاؤنڈیشن کے لیے 125.01 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور 123.76 کروڑ روپے جاری بھی ہوئے لیکن محض 36 کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے۔

اس فاؤنڈیشن کی کئی اسکیمیں ہو چکی ہیں بند

اس فاؤنڈیشن کا مقصد سماجی مساوات اور ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ قوم کی ترقی کے لیے تعلیمی، معاشرتی و معاشی ترقی لانا تھا۔ ساتھ میں اس فاؤنڈیشن کا اہم مقصد سماج میں انصاف، آزادی، سیکولرازم اور سوشلزم کے تئیں بیداری، اقلیتوں کی پسماندگی کا پتہ لگانے کی خاطر ریسرچ، انفارمیشن اینڈ کونسلنگ سنٹرز، لائبریری اور بک بینک وغیرہ کا قیام اور خاص طور پر اقلیتوں کو معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل بنانے کے لیے ٹریننگ دینا تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آیا کہ اس فاؤنڈیشن کی کئی اسکیمیں پوری طرح سے بند ہو گئی ہیں۔

اسی فاؤنڈیشن کے ذریعے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والی ہونہار لڑکیوں کے لیے ’بیگم حضرت محل نیشنل اسکالر شپ‘ ملتی ہے۔ تو وہیں یہ فاؤنڈیشن اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو روزگار کے قابل بنانے کے لیے ’غریب نواز روزگار اسکیم‘ چلاتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مدرسے سے فارغ التحصیل طلبا اور دوران تعلیم اسکول چھوڑنے والے طلبا کے لیے برج کورس چلایا جا رہا ہے۔

لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں دیکھنے میں آیا کہ حکومت مسلسل اس کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کر رہی ہے اور ہر سال اس کے بجٹ کو بڑھانے کے بجائے کم کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں اس فاؤنڈیشن کی اہم اسکیمیں پوری طرح بند ہوگئی ہیں۔

یاد رہے کہ اس فاؤنڈیشن کی اہم اسکیم تھی ’مولانا ابوالکلام آزاد لٹریسی ایوارڈ‘ یہ ایوارڈ تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی شخصیات اور تنظیموں کو دیا جاتا تھا، لیکن سال 2005 کے بعد سے یہ ایوارڈ کسی کو بھی نہیں ملا۔ Maulana Azad Memorial Lecture & Awareness Program بھی اب فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ اور اس کے کاموں کی فہرست سے غائب ہے۔ یہ اسکیم اس فاؤنڈیشن کے ذریعہ نویں کلاس میں جانے والی اقلیتی طبقے کی لڑکیوں کو تعلیم میں بڑھاوا دینے کے مقصد سے شروع کی گئی ’’سائیکل یوجنا‘‘ بھی سال 2014 میں بند کی جا چکی ہے۔

وعدے بڑے بڑے اور بجٹ محض ایک لاکھ

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس فاؤنڈیشن کے بارے میں حکومت کی جانب سے کافی بڑے بڑے وعدے کیے گئے تھے لیکن اس کے برعکس فاؤنڈیشن کا بجٹ لگاتار کم ہوتا نظر آرہا ہے۔

اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے سال 2019 میں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی 112ویں آپریٹنگ کونسل اور 65ویں جنرل اسمبلی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پورے ملک کے مدرسوں کو مین اسٹریم تعلیم سے جوڑنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی خاطر ان کے اساتذہ کو مختلف تربیتی اداروں سے تربیت دلائی جائے گی اور اساتذہ کی تعلیم کا کام بھی شروع ہو گا لیکن اس اعلان پر عمل درآمد ابھی تک نہیں ہوا۔

سال 2017 میں اعلان کیا گیا تھا کہ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے ملک میں مسلم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی غرض سے مرکزی حکومت 51 ہزار روپے کی رقم بطور ’شادی شگن‘ دے گی تاکہ وہ یونیورسٹی یا کالج کی سطح پر تعلیم مکمل کر سکیں، لیکن مرکزی حکومت کی یہ اسکیم اب تک نافذ نہیں ہو سکی ہے۔

اس سے قبل مولانا آزاد تعلیمی فاؤنڈیشن کی جنرل باڈی کی 57 ویں میٹنگ اور گورنرننگ باڈی کی 101ویں میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے مختار عباس نقوی نے اعلان کیا تھا کہ راجستھان کے ضلع الور میں غریبوں، پسماندہ طبقے اور اقلیتوں کے لیے عالمی نوعیت کے پہلے تعلیمی انسٹیٹیوٹ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا اور یہ تعلیمی ادارہ 2020 میں کام کرنا شروع کر دے گا۔ لیکن ہفت روزہ دعوت کے پاس موجود اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس انسٹیٹیوٹ کا کام آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ حالانکہ حکومت راجستھان اس تعلیمی ادارے کے لیے ضلع الور کے راپیپالی گاؤں میں 15 ہیکٹر زمین دے چکی ہے۔

سال 2015 میں ہی سابق مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبۃاللہ نے فاؤنڈیشن کی نئی بلڈنگ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے پریس کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تقریبا 75 ہزار اسکوائر فٹ زمین پر بننے والی مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی عمارت کا خاکہ تیار کیا جا چکا ہے بلکہ سات منزلہ عمارت کی تعمیر کا کام ابتدائی تیاریوں کے آخری مراحل میں ہے۔ لیکن کڑوی سچائی یہ ہے کہ اب تک اس معاملے میں کچھ نہیں ہو سکا ہے۔

اسکل ڈیولپمنٹ انیشیٹیو کا بجٹ کم

موجودہ حکومت نے جس اسکیم کی سب سے زیادہ تشہیر کی، اب اس اسکیم کا بجٹ بھی کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ’اسکیل ڈیولپمنٹ انیشیٹیو‘ اسکیم کے لیے گزشتہ مالی سال مرکزی حکومت نے 276 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا تھا، لیکن بعد میں نظرثانی کرتے ہوئے اسے 250 کروڑ روپے کردیا گیا۔ اور اب اس مالی سال 2022-23میں اسے مزید کم کرکے 235 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ مالی سال 21-2020 میں اس اسکیم کے لیے بجٹ میں250 کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا لیکن 190 کروڑ روپے ہی جاری ہوئے۔

ایجوکیشن اسکیم برائے مدرسہ و اقلیت کے بجٹ میں بھی کٹوتی

اس بار کے بجٹ میں ’ایجوکیشن اسکیم برائے مدرسہ و اقلیت‘ کے بجٹ کو بھی کم کردیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال 2021-22 میں اس اسکیم کے لیے 174 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا، لیکن اس بار اسے کم کرکے 160 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ جبکہ اس اسکیم کو لے کر اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کافی کافی بڑے بڑے وعدے اور دعوے کرچکے ہیں۔

منزل کی جانب بڑھنے کے بجائے بھٹک رہی ہے ’نئی منزل‘ اسکیم

اسکولوں میں ترک تعلیم کرنے والے یا مذہبی اداروں میں پڑھنے والے اقلیتی طبقہ کے نوجوانوں کو جامع تعلیم روزگار حاصل کرنے کی تربیت دینے کے مقصد سے شروع کی گئی قومی اسکیم ’نئی منزل‘ کا بجٹ بھی اس بار کم کر دیا گیا ہے۔ سال 2021-22 میں اس اہم اسکیم کا بجٹ 87 کروڑ روپے رکھا گیا تھا لیکن بعد میں نظرثانی کرتے ہوئے اسے محض 47 کروڑ روپے کردیا گیا اور اس بار اس اہم اسکیم کا بجٹ مزید گھٹا کر 46 کروڑ روپے تک محدود کر دیا گیا ہے۔

اس سے قبل مالی سال 2020-21 میں اس ’نئی منزل‘ اسکیم کے لیے 120 کروڑ روپے کا بجٹ طے کرنے کے باوجود صرف 60 کروڑ روپے ہی جاری کیا گیا اور 59.84 کروڑ خرچ کیے گئے۔

’اسپیشل پروگرام برائے اقلیت‘ کا بجٹ بھی کم

ہندوستان اور سعودی عرب میں حج کے انتظام و بندوبست کے لیے ’اسپیشل پروگرام برائے اقلیت‘ کے نام پر جاری کیا جانے والا فنڈ بھی اس بار کے بجٹ میں کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔

سال 2020-21 میں ’اسپیشل پروگرام برائے اقلیت‘ کے لیے 98 کروڑ روپے رکھا گیا تھا، لیکن محض 13 کروڑ روپے جاری ہوئے جس میں سے 4.92 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مالی سال میں ہندوستان سے کوئی بھی شخص حج کے لیے نہیں جا سکا تھا۔

یہی کہانی سال 2021-22 میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس سال اس مد میں 98 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا اور جاری ہوا 12.04 کروڑ روپے، جس میں سے وزرات اقلیتی امور نے  25 نومبر ، 2021 ء تک  4.26 کروڑ روپے خرچ کر دیے ہیں۔ یہ جانکاری 29 نومبر 2021 کو اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں فراہم کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بار بھی ہندوستان سے لوگ حج کے لئے نہیں جا سکیں ہیں۔

غور طلب رہے کہ اس سے قبل اس راقم کو سال 2018 میں حج کمیٹی آف انڈیا کے اس وقت کے سی ای او ڈاکٹر مقصود خان بتا چکے ہیں کہ ’حج کمیٹی کو کوئی پانچ پیسہ بھی نہیں دیتا ہے۔ یہ پوچھنے پر کیا مرکزی حکومت سے پیسہ نہیں ملتا ہے، تو اس پر ان کا صاف لفظوں میں کہنا تھا کہ ایک پیسہ نہیں ملتا، بلکہ وزیر و سرکاری حکام کے تمام میٹنگوں کے اخراجات بھی حج کمیٹی آف انڈیا ہی اٹھاتی ہے۔‘ ایسے میں اب یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ آخر حج کے بندوبست کے نام پر گزشتہ دو سالوں میں 9.18 کروڑ روپے کی رقم کہاں خرچ کر دی گئی؟

وقف کی ترقی کے دعوے بڑے لیکن بجٹ کم

وقف کے معاملے میں آئے دن مختار عباس نقوی بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرتے رہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دعوؤں اور وعدوں کے درمیان وقف املاک کے ریکارڈ کو کمپیوٹر سے منسلک کرنے یا ڈیجیٹل بنانے اور وقف بورڈوں کو یقینی طور پر مؤثر بنانے کی خاطر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام وقف بورڈ کو مزید فنڈ کی دستیابی کے لیے شروع کی گئی ’قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم‘ اور وقف املاک کو تجارتی مقاصد کے لیے فروغ دینے کی خاطر وقف اداروں/وقف بورڈوں کو سود کے بغیر قرض کی فراہمی کے لیے شروع کی گئی ’شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا‘ کے مجوزہ بجٹ کو اس بار بڑھانے کے بجائے کم کردیا گیا ہے۔

سال 2021-22 میں ان دونوں اہم اسکیموں کے لیے ایک ساتھ 16 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، مگر 12 کروڑ روپیہ ہی جاری کیے گئے۔ لیکن اس بار ان دونوں اسکیموں کا بجٹ 15 کروڑ روپے ہے۔ گزشتہ مالی سال 2020-21میں ان دونوں اہم اسکیموں کے لیے ایک ساتھ 21 کروڑ روپیوں کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن صرف 12 کروڑ روپے ہی جاری ہوئے اور محض 3.10 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

اقلیتوں میں کچھ خواتین کو قوم کی رہنمائی کی اہم ذمہ داری سنبھالنے کے لائق بنانے کے مقصد سے شروع کی گئی Scheme for Leadership Development of Minority Women کا بجٹ بھی اس بار کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ مالی سال 2021-22 میں اس اہم اسکیم کے لیے 8 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا، لیکن محض 2.50 کروڑ روپے ہی جاری ہوئے اس بار کے بجٹ میں اس اہم اسکیم کے لیے محض 2.50 کروڑ روپے کا ہی بجٹ رکھا کیا گیا ہے۔

کم خرچ، دکھاوا زیادہ : ایک جائزہ

افسوسناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت اپنے بجٹ میں اقلیتوں کے لیے بجٹ بڑھانے کا دکھاوا تو کرتی ہے لیکن جو رقم بجٹ میں منظور کی جاتی ہے وہ بھی مرکزی حکومت اقلیتی امور کی وزارت کو مختص نہیں کرتی ہے اور پھر جو رقم مختص کی جاتی ہے اسے بھی پورا خرچ نہیں کیا جاتا ہے۔

گزشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2021-22 میں مرکزی حکومت نے اقلیتی امور کی وزارت کے لیے تخمینہ بجٹ 4810.77 کروڑ روپے تجویز کیا تھا۔ لیکن بعد میں نظرثانی کرتے ہوئے اسے 4346.45 کروڑ روپے کردیا گیا۔ وہیں  29 نومبر 2021 تک کی دستیاب جانکاری بتا رہی ہے کہ محض 1117.52 کروڑ روپے ہی خرچ کر سکی ہے۔ حالانکہ اس بات کی پوری امید ہے کہ 31 مارچ تک اس رقم کو پورا خرچ کیا جانا بتایا جائے گا۔ ہفت روزہ دعوت گزشتہ دنوں وزرات اقلیتی امور کی اہم اسکیموں کو لے کر سیریز کر چکی ہے، جس میں آپ ان خرچوں میں ہونے والی دھاندلیوں و گھوٹالوں کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

سال 2020-21 میں مرکزی حکومت نے اس وزارت کے لیے 5029 کروڑ روپے کا بجٹ تجویز کیا تھا۔ یہ رقم اس بار کے بجٹ میں تجویز شدہ رقم سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن اس میں سے صرف 4005 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ اور پھر اس جاری شدہ رقم میں سے 3920.29 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔

اس سے قبل سال 2016-17 میں مرکزی حکومت نے اس وزارت کے لیے 3827.25 کروڑ روپے کا بجٹ تجویز کیا تھا اور پوری رقم جاری بھی کی گئی، لیکن اس میں سے صرف 2832.46 کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے۔ وہیں سال 2014-15 میں یوپی اے حکومت نے اقتدار سے جانے سے پہلے اس وزارت کے لیے 3734.01 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا تھا، لیکن این ڈی اے حکومت نے اس رقم کو گھٹاکر 3165 کروڑ روپے کردیا۔ اور پھر اس رقم میں سے بھی صرف 3088.57 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

* یہ جانکاری 29 نومبر 2021 کو اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں فراہم کی ہے۔

حکومت کا اعداد و شمار کا ’کھیل‘، میڈیا بھی اس ’کھیل‘ میں شامل

دراصل حکومت ہر سال بجٹ کے نام پر اعداد و شمار کا ’کھیل‘ رچتی ہے۔ وہ ایک منصوبہ بند طریقے سے بجٹ میں اضافہ دکھا دیتی ہے تاکہ حکومت پر کوئی سوال کھڑا نہ ہو۔ پھر بعد میں حکومت اسی بجٹ میں نظرثانی کرکے اس بجٹ کو کم کردیتی ہے، اس بات سے عوام کو کوئی مطلب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس نظرثانی شدہ بجٹ پر کہیں کوئی بات ہوتی ہے۔ اس کھیل میں میڈیا کا بھی بھر پور ساتھ ہوتا ہے۔ وہ بھی بجٹ آنے کے بعد گزشتہ سال کے تخمینہ بجٹ سے موازنہ کرنے کے بجائے نظرثانی شدہ مختص بجٹ سے کرتی ہیں، جس سے لگتا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں بھاری اضافہ کر دیا ہے۔ وزرات اقلیتی امور کے بجٹ میں گزشتہ دو تین برسوں سے یہ ’کھیل‘ بخوبی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ اس ’کھیل‘ میں پہلے کی یو پی اے حکومت بھی برابر کی حصہ دار رہی ہے۔

یہی ’کھیل‘ اس بار بھی ہوا۔ یکم فروری کو جب بجٹ آیا تو میڈیا نے خبر دی کہ ’اقلیتوں پر مہربان مودی حکومت۔۔۔‘ ساتھ ہی وزرات اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے بیان کو بھی کافی اہمیت دی گئی، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ذریعہ پیش کردہ مرکزی بجٹ، آفت میں بھی ’’آتم نربھر بھارت‘‘ کے موقع کی یقین دہانی کراتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ عالمی اقتصادی بحران-کساد بازاری کے درمیان یہ بجٹ اعتماد اور ترقی کے ’’آتم نربھر بھارت‘‘ کے دھاگے سے جڑا ہوا ہے۔

یہی نہیں، کچھ ویب سائٹوں نے تو اس بار اقلیتوں کے لیے جاری بجٹ کو ایسے پیش کیا جیسے حکومت نے ملک کی ساری جائیداد ملک کے مسلمانوں کو ہی دے دی ہو۔ اسکی مخالفت کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’سرکاری ہندو‘ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے کووڈ میں اتنا خرچ کیا تو پیسے کہاں سے لائے؟ اسی لیے متوسط طبقے کو کچھ نہیں ملا ہے۔ دھیان رکھنا، متوسط طبقے میں بڑی آبادی ہندوؤں کی ہے۔ تو سنو ’سرکاری ہندوؤں! حکومت نے اس بجٹ میں اقلیتوں کے لیے نہ صرف 5020 کروڑ الاٹ کیا ہے، بلکہ گزشتہ سال کے مقابلے 674 کروڑ زیادہ اقلیتوں کو دیا ہے۔ ان اقلیتوں کے لیے پیسے کہاں سے آ گئے؟ جب آپ اقلیتوں کو دے سکتے ہو تو ہندو مڈل کلاس کو کورونا اور مہنگائی سے راحت کیوں نہیں دے سکتے؟ ووٹ تمہیں ہم دیتے ہیں یا اقلیت؟

میڈیا نے اپنی خبر کے ذریعے لوگوں کو بتایا کہ اقلیتوں کے لیے اس بار بجٹ میں 674 کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دراصل وہ گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ بجٹ سے موازنہ کر رہے تھے، جس کے نتیجے میں یہ اعداد و شمار سامنے آئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال 2021-22 میں اس وزارت کا بجٹ 4810.77 کروڑ رکھا گیا تھا۔ یعنی اس بار کے بجٹ میں صرف 210 کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بتادیں کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں اعلان شدہ 4810.77 کروڑ کی رقم میں حکومت نے نظرثانی کرکے اسے 4346.45 کروڑ کردیا تھا، یعنی سیدھے 464.32 کروڑ روپے کم کر دیے گئے، لیکن اس کی چرچہ کسی میڈیا چینل یا اخبار میں نہیں کی گئی۔

***

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022