کرناٹک حجاب تنازعہ: ملالہ یوسف زئی نے ہندوستانی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ مسلم خواتین کو پسماندگی کا شکار ہونے سے روکیں

نئی دہلی، فروری 9: نوبل انعام یافتہ اور خواتین کے حقوق کی کارکن ملالہ یوسف زئی نے منگل کے روز کرناٹک میں طالبات کو حجاب پہن کر کلاس میں جانے کی اجازت نہ دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔

ایک 19 سالہ طالبہ کے اپنے حجاب کی وجہ سے کالج سے باہر ہونے کے تجربے کے بارے میں ٹوئٹر پر اسکرول ڈاٹ اِن کے ایک آرٹیکل کو شیئر کرتے ہوئے یوسف زئی نے ہندوستانی لیڈروں پر زور دیا کہ وہ ’’مسلم خواتین کو پس ماندہ کرنے‘‘ کے عمل کو روکیں۔

یوسف زئی نے لکھا ’’لڑکیوں کو حجاب میں اسکول جانے سے انکار کرنا خوف ناک ہے۔‘‘

حجاب پہننے پر طالبات کے گروپوں کے درمیان تصادم اس وقت شروع ہوا جب اڈوپی کے گورنمنٹ ویمنز پری یونیورسٹی کالج میں مسلم لڑکیوں کو اسکارف پہننے پر کلاس میں جانے سے روک دیا گیا۔ پچھلے کچھ دنوں میں اس موضوع پر احتجاج کرناٹک کے دیگر کالجز میں بڑی تعداد میں پھیل گیا ہے۔

منگل کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی رہنماؤں نے یوسف زئی کے اس بیان پر تنقید کی، جب کہ کچھ دیگر نے مسلم لڑکیوں کو کلاس میں جانے سے روکنے کے بارے میں بات کرنے پر ان کی تعریف کی۔

دریں اثنا بی جے پی لیڈر منجیدر سنگھ سرسا نے یوسف زئی پر حقائق کی تصدیق کیے بغیر ٹویٹ کرنے کا الزام لگایا۔ انھوں نے پوچھا کہ انھوں نے ’’پاکستان میں نابالغ ہندو سکھ لڑکیوں کی جبری تبدیلی جیسے دیگر اہم مسائل پر کبھی بات کیوں نہیں کی۔‘‘

دوسری جانب کانگریس رہنما سلمان نظامی نے یوسف زئی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے حکام پر زور دیا کہ وہ لڑکیوں کو حجاب پہن کر اسکول جانے دیں۔

5 فروری کو کرناٹک حکومت نے ایک حکم نامہ پاس کیا تھا جس میں طلبا کو ایسے لباس پہننے سے روک دیا گیا تھا جو ’’مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرتے ہیں۔‘‘

بڑھتے ہوئے تنازعے کے درمیان کرناٹک حکومت نے منگل کو اعلان کیا کہ ریاست کے تمام ہائی اسکول اور کالج 9 فروری سے 11 فروری کے درمیان تین دن کے لیے بند رہیں گے۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی منگل کو حجاب پر پابندی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کی۔