آسیب زدہ

کہانی

حمیراعلیم

’’نخلہ! او نخلہ! کہاں چلی گئی ہو بھئی ایک کپ چائے بنانے کا کہا تھا۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا ہے۔ کیا پائے پکا رہی ہو؟ ‘‘ امی نے اسے گھرکا۔
’’ آئی امی!‘‘ اس نے تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے کہا۔ چائے کا بھول بھال وہ چھت پہ موجود اپنی دوست سے گپیں لگانے میں مصروف تھی۔ مائدہ کا گھر ان کے داہنی طرف تھا اور چھت جڑی ہوئی تھی۔چنانچہ جب جی چاہتا وہ اپنی اپنی چھت پہ کھڑے ہو کر بات کر لیتی تھیں۔ بقول امی کے
’’ نجانے کونسی باتیں تھیں جو ختم ہی نہ ہوتی تھیں ۔جب دیکھو یہ ایک دوسرے کے کان میں گھسی رہتی ہیں‘‘
نخلہ اپنی بیوہ ماں کے ساتھ اس گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ جبکہ مائدہ کے والدین اور دو بھائی بھی تھے۔ دونوں کالج میں بھی اکھٹی ہی جاتی تھیں اسی وجہ سے ان میں گاڑھی چھنتی تھی۔ مائدہ کی منگنی ہو چکی تھی اس کا منگیتر خالہ زاد تھا جبکہ نخلہ ابھی اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتی تھی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ پی ایچ ڈی کرے۔ امی کو بھی اس کی پڑھائی سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ابو نے کچھ دکانیں چھوڑی تھیں جن کے کرایے سے گزر بسر اچھی ہو جاتی تھی ویسے بھی دو ماں بیٹی کا خرچہ ہی کتنا ہوتا تھا۔
مائدہ ہر وقت اسے اپنے منگیتر کے قصے سناتی رہتی تھی۔
’’آج سعدی کا فون آیا تھا وہ یہ کہہ رہے تھے۔‘‘
’’ آج سعدی نے مجھے بہت پیارا سوٹ گفٹ کیا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
کالج کے گروپ میں سبھی لڑکیاں یا تو انگیجڈ تھیں یا ہونے والی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب کا موضوع گفتگو ان کا منگیتر ہی ہوتا تھا۔ نخلہ کو ان کے منگیتر نامے سے سخت چڑ ہوتی تھی۔
’’کیا ہے بھئی تم لوگوں کے پاس اور کوئی موضوع نہیں ہے بات کرنے کے لیے؟‘‘ وہ اکثر اکتا کر کہتی۔
’’تم کیوں جیلس ہوتی ہو۔ اب اس میں ہمارا کیا قصور ہے کہ تمہاری اب تک منگنی نہیں ہوئی۔‘‘ دونیہ کہتی۔
’’جیلس اور وہ بھی تم سب سے؟ ہنہ منہ دھو رکھو ۔بائی دا وے میری منگنی ہوئی بھی ہوتی نا تو میں تم چھچھوریوں کی طرح ہر وقت منگیتر کے قصیدے نہ پڑھتی رہتی۔‘‘ اس نے غصے سے کہا
’’یہ تو تب پتہ چلے گا جب تمہاری منگنی ہو گی۔‘‘ شازمہ کہتی۔
’’ما بدولت ڈائریکٹ نکاح کریں گے۔‘‘ نخلہ ان دیکھے کالر کھڑے کرتے ہوئے کہتی۔
’’منگنی کا جو مزہ ہے وہ نکاح میں کہاں؟ پہلے منگنی پہ ڈھیر سارے جوڑے، جوتے، جیولری اور گفٹس پھر ہر عید پہ عیدی اور مختلف ایونٹس پہ منگیتر کے گفٹس۔ قسم سے اتنے مزے کا پیریڈ ہوتا ہے نا منگنی سے شادی تک کا۔ اور پھر آپس میں انڈر اسٹینڈنگ بھی پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ رملا بولی۔ جس کی منگنی پہ پانچ تولے کا سونے کا سیٹ چار تولے کے کڑے اور پانچ جوڑے آئے تھے۔ اور ہر عید تہوار پہ سسرال سے الگ قیمتی تحفے ملتے تھے تو منگیتر سے الگ۔
’’یہ تو سچ ہے یار۔‘‘ باقی سب منگنی شدگان نے اس کی تائید کی۔
’’مگر اس سب کے باوجود یہ ذہن میں رکھو کہ منگیتر سے بات چیت شرعا جائز نہیں۔ تم لوگوں کا اس سے شادی تک نامحرم کا ہی رشتہ ہے۔ جبکہ نکاح کے بعد انسان اپنے میاں سے بلا خوف وخطر بات کر سکتا ہے، مل سکتا ہے۔ نہ معاشرے کا ڈر نہ اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا خوف۔ منگنی کا کیا ہے کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی یے۔‘‘ بات کہتے ہی نخلہ کو احساس ہو گیا کہ اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔ سب کے چہروں پہ ناگواری دیکھ کر جلدی سے اضافہ کیا۔
’’میرا مطلب تم لوگوں کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔ ٹوٹنے کو تو نکاح بھی ٹوٹ سکتا ہے مگر کم ازکم نکاح کے بعد نامحرم کا ٹنٹنا تو نہیں رہتا نا۔ بندے کے دل کو تسلی ہوتی ہے کہ کوئی گناہ نہیں کر رہے۔‘‘
’’اچھا تو تمہارے خیال میں ہم اگر اپنے منگیتروں سے بات کرتے ہیں اور ان سے ملتے ہیں تو یہ سب نا جائز ہے؟‘‘ شازمہ نے برا مناتے ہوئے کہا ۔
’’ہو سکتا ہے تمہیں میری بات بری لگے مگر سچ تو یہی ہے۔ تم سب نے بھی اسلامیات کے مضمون میں محرم کی تفصیل پڑھی ہی ہے۔ ان میں منگیتر کا نام تو نہیں ہے نا! تو مائی ڈئیر فرینڈز! ہر وہ رشتہ جو محرم کے علاوہ ہو وہ نامحرم ہی کہلاتا ہے اور اللہ تعالٰی نے اس سے کسی بھی قسم کے تعلق سے منع فرمایا ہے۔‘‘ ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ اگلی کلاس کی بیل ہو گئی۔
’’چلو جی کلاس شروع ہونے والی ہے جلدی اٹھو۔‘‘ اس نے بات ادھوری چھوڑ کر سب سے کہا اور کلاس کی طرف بھاگی۔
’’ہنہ آئی بڑی مسلمان۔ ہم تو جیسے مسلمان ہیں ہی نہیں‘‘ مائدہ کو حقیقت بے حد تلخ لگی تھی ’’اللہ کرے خالہ اس کی منگنی کر دیں تب دیکھوں کیسے یہ لیکچر جھاڑتی ہے۔‘‘
زندگی ایک ڈگر پہ چل رہی تھی جس میں ہلچل امی کی کسی کزن کے بیٹے کے آنے سے ہوئی۔ اشہل کراچی سے جاب کے سلسلے میں اسلام آباد آیا ہوا تھا اور جب تک کسی رہائش کا انتظام نہ ہو جاتا ان کے گھر پہ ٹھہرا تھا۔ امی خود ہی اسے کھانا اور چائے وغیرہ دے دیتی تھیں۔ نخلہ کا اس سے زیادہ سامنا نہ ہوتا تھا۔ نخلہ پردہ تو نہ کرتی تھی مگر یہ خیال ضرور رکھتی تھی کہ کسی بھی نامحرم سے آمنا سامنا نہ ہو۔مگر اشہل اس سب کا عادی نہیں تھا۔ اس کے گھر میں سب کزنز دوستوں کی طرح رہتے تھے اس لیے جب بھی نخلہ اس کے
سامنے آتی وہ بہت اچھی طرح سے اس سے بات کرتا مگر نخلہ کا روکھا پھیکا رویہ ہوتا۔
’’کیا سمجھتی ہے یہ خود کو بڑی حور پری ہے۔ اسے تو مزہ چکھا کر رہوں گا میں‘‘ اشہل نے سوچا۔ اس نے اپنی امی سے بات کی اور نخلہ کا رشتہ مانگنے کو کہا۔ نخلہ کی والدہ کو ان کا فون آیا تو انہوں نے کہا۔
’’روزینہ! اشہل ماشاء اللہ خوبصورت ہے اچھی پوسٹ پہ ہے اور شریف بچہ ہے۔ اور کسی بھی لڑکی کے لیے یہ ایک آئیڈیل رشتہ ہے مگر نخلہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہے اس لیے میں ابھی اسے تین چار سال تک اس سلسلے میں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
’’اس میں کیا مشکل ہے نائلہ۔ ہم ابھی منگنی کر دیتے ہیں شادی نخلہ کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد کر دیں گے۔‘‘ نائلہ کو یہ تجویز مناسب لگی تو انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی
چند دن بعد روزینہ آخر اسے انگوٹھی پہنا گئیں۔ یوں دونوں کی منگنی ہو گئی۔ اشہل اپنے فلیٹ میں شفٹ ہو چکا تھا مگر گاہے بگاہے نائلہ کی طرف چکر لگاتا رہتا تھا۔
’’میں ادھر سے گزر رہا تھا تو سوچا آپ سے پوچھتا چلوں کوئی کام تو نہیں ہے آپ کو‘‘ وہ آنے کا جواز بتاتا۔
’’اللہ خوش رکھے تمہیں۔ نہیں بیٹا اللہ کا شکر ہے نخلہ خود ہی سب کچھ کر لیتی ہے۔تم بیٹھو کھانا کھا کر جانا‘‘ وہ اسے کہتیں تو اشہل جو بہانے سے نخلہ سے ملنے آیا تھا بیٹھ جاتا۔ نخلہ پہلے تو اس سے ملتی ہی نہ تھی اور جو مجبورا ملنا پڑ ہی جاتا تو صرف سلام دعا کرتی۔ ایک دن اشہل آیا تو نائلہ کسی کے انتقال پر تعزیت کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ نخلہ نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔
’’آپ بیٹھیں میں امی کو فون کرتی ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکلنے لگی تو اشہل نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’رکو مجھے تم سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’ہاتھ چھوڑیے میرا۔‘‘ نخلہ کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ جو بھی بات کرنی ہے دور رہ کے کیجیے’’ اس نے کرخت لہجے میں کہا تو اشہل نے فورا اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’کیا مسئلہ ہے یار۔ وی آر فیانسیز۔ اور لڑکیاں تو مری جاتی ہیں فیانسی سے بات کرنے کو۔ ایک تم ہو کہ پہلے تو دکھائی ہی نہیں دیتیں اور اگر مل ہی جاو تو ایسے بات کرتی ہو جیسے کوئی دشمنی ہو۔‘‘اشہل جھنجھلایا۔
’’معاف کیجئے گا میرا آپ کا کوئی ایسا رشتہ نہیں کہ میں آپ کے آگے پیچھے پھروں اور آپ کی دلجوئی کروں‘‘ نخلہ کا لہجہ ہنوز سخت تھا۔
’’ایک بات بتاو۔ تم کسی اور میں تو انٹرسٹڈ نہیں ہو۔ تمہاری منگنی کہیں زبردستی تو نہیں کی گئی مجھ سے؟‘‘ اشہل نے اپنی الجھن مٹانی چاہی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی۔ گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔
’’لگتا ہے امی آ گئی ہیں‘‘ یہ کہتی ہوئی نخلہ باہر نکل گئی۔ اشہل کو سخت غصہ آیا۔ نائلہ جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں تو وہ انہیں سلام کہہ کر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ارے بیٹھو نا بیٹا۔ میں اسٹریٹ میں ایک انتقال پر تعزیت کے لیے گئی ہوئی تھی۔ اچھا ہوا جلدی اٹھ آئی ورنہ تم سے ملاقات نہ ہوتی۔‘‘
’’نہیں خالہ مجھے کچھ کام ہے پھر آوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نکل گیا۔ نائلہ پریشان ہو گئیں کہ شاید اسے کچھ برا لگ گیا ہے۔ پھر سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔
اس دن کے بعد سے اشہل نے آنا جانا کم کر دیا۔ نائلہ بلاتیں تو آ جاتا اور کام میں مصروفیت کا بہانہ کر دیتا۔ ایک دن خود سے ان کے ہاں آیا تو ساتھ میں مٹھائی اور کیک بھی لایا۔
’’خالہ میری پروموشن ہو گئی ہے اور مجھے جرمنی کی برانچ کا مینیجر بنا کر جرمنی بھیجا جا رہا ہے۔‘‘ اس نے بتایا تو نائلہ بہت خوش ہوئیں اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ روزینہ نے فون پہ بتایا۔
’’اشہل کی خواہش ہے کہ جرمنی جانے سے پہلے نخلہ کا اور اس کا نکاح ہو جائے تاکہ وہ اس کے پیپرز بنوا کر اسے جرمنی بلا سکے۔‘‘ تو نائلہ نے جواب دیا۔
’’تمہاری امانت ہے جب چاہو لے جاو۔‘‘
یوں ایک سادہ سی تقریب میں نخلہ کی چند دوستوں اور محلے داروں کی موجودگی میں ان دونوں کا نکاح ہو گیا اور اشہل جرمنی چلا گیا۔
اشہل کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے ایک دن ای میل میں نخلہ کا مس یو کا کارڈ ملا۔ اس نے فورا فون اٹھایا اور نخلہ کے موبائل پہ کال کی۔
’’السلام علیکم! آج سورج مغرب سے نکلا ہے کیا؟‘‘ جونہی نخلہ نے کال ریسیو کی اس نے کہا۔ نخلہ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ ’’جی نہیں مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اتنی دور سے یہ پوچھنے کے لیے فون کیا ہے آپ نے؟‘‘
’’آج میری ای میل میں ایک مس یو کا کارڈ آیا ہوا تھا اور وہ بھی اس خاتون کی طرف سے جو کبھی میرے سلام کا جواب بھی سیدھے منہ نہیں دیتی تھی۔ میں تو مارے حیرت کے فوت ہو جانے والا تھا۔ پھر سوچا پہلے پوچھ لوں کہ کہیں کسی اور کو بھیجتے ہوئے غلطی سے مجھے تو نہیں بھیج دیا۔‘‘
نخلہ کا نقرئی قہقہہ گونجا۔
’’جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہے وہ کارڈ آپ کو ہی بھیجا گیا تھا۔‘‘
’’ مگر اس کایا پلٹ کی وجہ جان سکتا ہوں میں؟‘‘ اشہل کو اس کا قہقہہ اور پیار بھرا لہجہ حیران کر رہا تھا۔
’’آپ کو یاد ہے کچھ عرصہ پہلے آپ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ میرا رویہ آپ کے ساتھ اس قدر روڈ کیوں ہے۔ مگر میں جواب نہیں دے پائی تھی۔ تو آج سن لیجیے۔ میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی نامحرم رشتہ قابل اعتبار نہیں ہوتا اور منگنی کوئی ایسا رشتہ نہیں جو بہت پائیدار ہو اور میں ہمیشہ سے اس بات کے حق میں ہوں کہ صرف شوہر اور بیوی کا رشتہ ایسا رشتہ ہے جس میں دونوں فریقین ایک دوسرے کے پیار اور عزت کے حق دار ہوتے ہیں۔ اس لیے میں نے اپنے تمام جذبات اپنے شوہر کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ اب جبکہ میں آپ کی منکوحہ ہوں تو اپنے پیار کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیا آپ کو برا لگا میرا کارڈ بھیجنا؟‘‘ آخر میں اس نے سوال کیا۔
’’نو! نو! ناٹ ایٹ آل۔ اونسٹلی اسپیکنگ آئی ایم ایٹ کلاوڈ نائن۔ مجھے تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ تم جیسی سخت لہجے میں بات کرنے والی اور مجھ سے ہمیشہ کترانے والی لڑکی اتنی رومانٹک بھی ہو سکتی ہے۔ مگر تمہارے خیالات جان کر مجھے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آ رہا۔ شکر ہے کہ میں نے تمہارے اس رویے کی وجہ سے منگنی نہیں توڑ دی ورنہ اتنی اچھی بیوی سے محروم رہ جاتا میں۔‘‘ اشہل نے جلدی سے وضاحت دی تو نخلہ نے قہقہہ لگایا۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔ اشہل بہت خوش تھا کہ اس کی زندگی میں بھی بہار رت آ گئی تھی۔
***

 

***

 ’’میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی نامحرم رشتہ قابل اعتبار نہیں ہوتا اور منگنی کوئی ایسا رشتہ نہیں جو بہت پائیدار ہو اور میں ہمیشہ سے اس بات کے حق میں ہوں کہ صرف شوہر اور بیوی کا رشتہ ایسا رشتہ ہے جس میں دونوں فریقین ایک دوسرے کے پیار اور عزت کے حق دار ہوتے ہیں۔ اس لیے میں نے اپنے تمام جذبات اپنے شوہر کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022