یہ رمضان گواہ رہے گا

اللہ کی رسّی ہر مشکل وقت میں مسلمانوں کے لیے مضبوط سہارا ہے

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی،لکھنو

آج رمضان المبارک کو رخصت ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ اس بار کا رمضان اس طرح آیا کہ اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ملتی، اس کی وجہ کرونا وائرس کا انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ پورے نظام زندگی پر تسلط ہے جو ہنوز جاری ہے۔ کرونا عالمی وبا کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس نے انسانی زندگی کا پورا ڈھرا ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس بار اس کی وجہ سے رمضان کا طرز بھی بدل گیا، رمضان کی آمد بھی ہوئی اور وہ رخصت بھی ہوگیا مگر اندازہ ہی نہیں ہوا وہ کب آیا اور کب رخصت ہوا۔
جسے ہم بر صغیر میں رمضان کی رونق کہتے ہیں وہ اس بار کہیں نظر نہیں آئی، نہ مسجدوں میں تراویح وشب بیداری کی رونق، نہ بازاروں میں تیار شدہ افطار کی رونق، نہ جمعة الوداع کا ازدحام اور نہ عید الفطر کی تیاریاں۔ یہ تمام رونقیں سماجی فاصلہ بندی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
ہے نا سب کچھ عجیب سا؟ یہ ویرانی نہ تو پہلے کبھی دیکھی تھی اور نہ سنی تھی رمضان کا یہ انداز نہ تو پہلے کبھی دیکھا اور نہ سنا لیکن رمضان تو رمضان ہی ہے، یہ ظاہر سے زیادہ باطن کی تربیت کے لیے آتا ہے تقوی جیسی خوبی کو نئی بلندیاں عطا کرنا اس کے تربیتی کورس کا اولین ہدف ہوتا ہے ( لعلكم تتقون)۔ اور کامیابی کی خوش خبری رمضان میں غیر ضروری تگ ودو کرنے اور ظاہر کے پیچھے بھاگنے والوں کو نہیں بلکہ انہیں سنائی گئی ہے جو ماہ رمضان کی عظیم ترین یادگار قرآن کریم کو اپنا رہنما ودستور حیات بناتے ہیں اور جو افطار سے زیادہ ایثار پر اور سحری سے زیادہ سحرگاہی پر توجہ دیتے ہیں۔ اور یہ نعمت ورحمت ثابت ہوتا ہے ان کے لیے جو عبادت وعبدیت دونوں کا یہ نرالا یک ماہی کورس پورا کر کے اللہ کی رضا کے لیے جہاد زندگانی میں نئی قوت کے ساتھ قدم رکھتے ہیں اور اسپ تازی کی طرح بھوک اور پیاس کی پروا کیے بغیر محض حق کے تقاضوں کے لیے کار زارِ حیات میں پا بہ رکاب رہتے ہیں۔
یہ وہ روزہ ہے جو مسجدوں سے بھلے دور کر دیا گیا ہو، اسے اجتماعی تراویح کی لذت سے بھی بھلے محروم کر دیا گیا ہو اور اسے ظاہری رونق کے تمام اسباب سے بھی بھلے کاٹ دیا گیا ہو لیکن وہ ایمان کی طاقت اور احتساب کی چمک سے کبھی محروم نہیں ہوتا، یہی تو وہ حقیقی روزہ ہے جو اللہ کی مغفرت کا حق دار بنتا ہے۔ فرمایا نبی کریم نے ” جس نے ایمان واحتساب کا حق ادا کرتے ہوئے روزے رکھے اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں”۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ روزہ مخصوص حالات میں ظاہری رونقوں اور سرگرمیوں کو بھلے خیر باد کہہ دے لیکن وہ ہمارے داخلی ایمان واحتساب کی دھار سے اور زیادہ پر رونق بن جاتا ہے، اس کی یہ رونق ظاہر پرست نگاہوں کو نظر نہیں آتی تاہم وہ روزہ داروں کی روح کو اندرونی طور سے اتنا جلا بخش دیتی ہے کہ ان کا وجود ہی رونق وروشنی کا مظہر بن جاتا ہے۔ ۲۰۲۰ کا یہ رمضان ہم سے رخصت ہوگیا، وہ بندگان خدا جن کی آنکھیں شب کی تنہائیوں میں رب کریم کے سامنے روتی گڑگڑاتی بھیگتی رہیں، اللہ کی رحمت ومغفرت اور اس کے عذاب سے نجات کے لیے اکیلے میں روتی اور بلکتی ہیں اور وہ جو لیلة القدر کی تلاش میں عبادت و دعا کا لمحہ لمحہ جمع کرتے رہے ہیں وہ اس بابرکت مہینے کو الوداع کہتے ہوئے ضرور اشکبار رہے ہوں گے اور یہ دعا بھی کرتے ہوں گے کہ اللہ تعالی یہ مقدس بہاریں ان پر ایک بار پھر لوٹائے اور لٹائے۔
یہ رمضان تاریخ کا حصہ بن گیا اور اپنے دامن میں خود بہت سی تاریخی یادیں سمیٹ کر لے گیا، وہ گواہ رہے گا کہ کس طرح کرونا وائرس کی عالمی وبا کا خوف بھی مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہا اور جب مسجدوں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے تو باعزم ایمان والوں نے اپنے گھروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور عبادت کا ہر وہ تقاضا پورا کیا جس میں ایمان کا اعلان اور طاغوت سے انکار تھا، وہ اس بات کا بھی گواہ ہوگا کہ کس طرح روزہ داروں نے ظالم پولیس والوں کے ظلم سہ کر بھی نماز و روزے سے ذرہ برابر کوتاہی نہیں برتی اور اللہ کی راہ میں چوٹیں کھانا اور گالیاں کھانا گوارا کر لیا لیکن خود اللہ کے دین کو کہیں سرنگوں نہ ہونے دیا، وہ یہ بھی گواہی دے گا کہ جن مسلم نوجوانوں کو محض شہریت کے کالے قوانین کے خلاف آواز اٹھانے اور مسلمان ہونے کی سزا میں فسطائی حکومت اور اس کے زر خرید کارندوں کے ذریعہ بڑی بے دردی سے اس ماہ مبارک کے دوران یا اس سے پہلے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا وہ نہ کبھی ڈرے اور نہ جھکے بلکہ اپنے صوم و صلواۃ اور ذکر وعبادت سے ہر جگہ یہ شہادت دیتے رہے کہ وہ تو بس اپنے رب کے بندے ہیں اور ان پر حکم بھی بس اسی رب کا چلتا ہے۔ یہ صبر وثابت قدمی کا وہ مرحلہ ہے جو اہل ایمان کے لیے جنت کی ضمانت بنتا ہے اور اہل کفر کے لیے تازیانہ۔ اور خدا کے جو با وفا بندے اس امتحان میں پورے اترتے ہیں ان کے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔ یہی وہ خاص لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں اللہ کی وہ مضبوط رسی ہوتی ہے جو کبھی کمزور ہو کر ٹوٹتی نہیں بلکہ ہر مشکل گھڑی میں ان کا سہارا بنتی ہے۔ قرآن کریم میں ان کی سب سے بڑی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ لوگ ظالموں کے زیر تسلط رہ کر بھی ظلمتوں کے انکار کا حوصلہ دکھاتے ہیں اور اللہ واحد پر ایمان اور طاغوت سے انکار کا برملا اظہار کرتے ہیں:
’’ پس جنہوں نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آئے وہ گویا ایسی مضبوط رسی کو پکڑے ہوئے ہیں جو کبھی ٹوٹتی نہیں‘‘ ( البقرة: 256)
یقیناً کرونا وائرس سے متاثر یہ رمضان تاریخ کی ان تمام مقدس یادوں کو ضرور محفوظ رکھے گا۔ وہ یہ گواہی بھی دے گا کہ جب دولت وثروت اور تمام اسباب و وسائل کی حامل ہماری حکومتوں نے کرونا کی مار سے بد حال ملک کے غریب مزدوروں کو گرمی اور بھوک سے مرنے کے لیے ننگی سڑکوں پر بے یار ومددگار چھوڑ دیا تھا تب یہی روزہ دار امت کے بہت سے افراد جگہ جگہ ان کے لیے اپنی آنکھیں بچھا کر بیٹھ گئے تھے اور انسانیت کی بے لوث خدمت کو رنگ ونسل اور فرقہ ومذہب کی تفریقات سے ذرہ برابر بھی متاثر نہ ہونے دیا۔ تاریخ کے سامنے یہ رمضان یہ بھی شہادت دے گا کہ جس روزہ دار امت پر کرونا وائرس پھیلانے کا الزام لگا کر مسلم دشمن عناصر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے وہی لوگ ماہ رمضان میں بھی اپنا پلازما عطیہ کر کے کرونا مریضوں کی جانیں بچانے میں اپنا انسانی کردار ادا کرتے رہے۔ خدا کرے کہ تاریخ کے روشن اوراق میں اس امت کا یہ مثالی کردار یوں ہی محفوظ رہے اور خیر امت کی حیثیت سے اس کی تب وتاب میں کبھی کوئی کمی نہ آئے۔
دعــــا
آئیے ہم سب مل کر یہ دعا کریں کہ یا رب! تاریخ ہند میں وہ لمحہ کبھی نہ آئے جب یہاں کی زمین تیرے نام لیواؤں پر تنگ پڑ جائے اور تیرا دین یہاں کے زمین وآسمان کے لیے اجنبی بن جائے۔۔ ہم تیرے ہی نام کے ساتھ اس وادی میں اترے تھے اور تیرے ہی نام کے ساتھ یہاں جینا اور مرنا چاہتے ہیں، یا رب! ہماری مدد فرما اور ہمیں اپنے ایمان کے ساتھ جینے کا حوصلہ عطا فرما۔۔۔ تو ہمیں ایک بار پھر وہی ایمان کی طاقت دے جس سے دریاؤں کے دل دہلتے ہیں اور ظلمت کدوں کے در ودیوار پر لرزہ طاری ہوتا ہے، ہمیں پھر وہی صدیقیت و فاروقیت دے جو شرک کے آتش کدوں کو ٹھنڈا کر دے اور کفر کی طغیانیوں کا رخ پھیر دے، ہمیں پھر وہی ابو عبیدہ و خالد دے جو حق کو غالب کر دیں اور اسلام کی شکست کا خواب دیکھنے والوں کو ایک بار پھر ذلیل ورسوا کر دیں۔ ہمارے بچے جیسے بھی ہیں وہ تیرا ہی کلمہ پڑھنے والے ہیں، یا رب العالمین انہیں ہمارے بعد اپنے دین پر قائم وباقی رکھیو، انہیں گفتار وکردار دونوں میں شان مومن عطا فرمائیو اور کفر وشرک کی دنیا کے جو بھیڑیے انھیں اپنا لقمہ بنانے کی تاک میں ہیں ان تمام بھیڑیوں کے لیے انہیں شیروں کا ایسا گروہ بنا دینا جنہیں دیکھ کر ہی گیدڑوں اور بھیڑیوں کی چیخیں نکل جائیں۔۔ خدایا! تو انہیں ایسا بنا دے کہ وہ جان دے دیں لیکن اپنی جان بچانے کے لیے کبھی اپنے دین وایمان کا سودا نہ کریں، میرے مولا! جو وادیاں صدیوں سے زمزمہ توحید سے آباد ہیں انھیں توحید والوں سے اور توحید کی اذانوں سے کبھی محروم نہ کرنا، حفاظت فرما اپنے دین کی اور دین والوں کی ۔۔۔ دل کی یہ سسکیاں تجھ سے جو کچھ کہنا چاہ رہی ہیں وہ جذبات کی شدت سے کہہ نہیں پا رہی ہیں، تو ہمیں اپنے سے قریب کرلے اور انہیں سن لے تو ہمارے دن بھی پھر جائیں، آنسوؤں کے یہ قطرے بھی تیری جناب میں خاموش دعا کی طرح ہیں تو انہیں قبول کرلے تو شاید اسلامیان ہند کی تقدیر بدل جائے۔ اگر تو ہم سے ناراض ہے تو بھی ہم تجھے چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟ کفر تو ہمیں ہمارے ایمان کی سزا دینے پر بضد ہے۔ اے خالق کائنات! جو دعائیں اس رمضان میں تیرے عرش تک پہنچ رہی ہیں انہیں رد نہ کرنا کہ جو ہاتھ تیرے سامنے دعا کے لیے اٹھے ہیں ان کا تیرے سوا کوئی سہارا نہیں ہے۔ یا رب قبول کر لے ان دبی سسکیوں اور ان گرم آنسوؤں کو، ہم تو اتنے عاجز ومجبور ہیں کہ ہمارے پاس دعا کے لیے وہ الفاظ بھی نہیں ہیں جو تیری شایان شان ہوں مگر تُو تو ان کہی بھی سن لیتا ہے کیونکہ تو بصیر بالعباد ہے ۔ یا ارحم الراحمین رحم فرما ہم ہندی مسلمانوں پر اور نئے ایمان والوں سے اپنے دین کو نئی قوت وتوانائی عطا فرما۔ آمین یارب العالمین۔

 

جن مسلم نوجوانوں کو محض شہریت کے کالے قوانین کے خلاف آواز اٹھانے اور مسلمان ہونے کی سزا میں فسطائی حکومت اور اس کے زر خرید کارندوں کے ذریعہ بڑی بے دردی سے اس ماہ مبارک کے دوران یا اس سے پہلے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا وہ نہ کبھی ڈرے اور نہ جھکے بلکہ اپنے صوم و صلواۃ اور ذکر وعبادت سے ہر جگہ یہ شہادت دیتے رہے کہ وہ تو بس اپنے رب کے بندے ہیں اور ان پر حکم بھی بس اسی رب کا چلتا ہے