کووڈ-۱۹ ردّ عمل سے منصوبہ بند اقدامات تک

عوام خوف ودہشت اور نفرت کے ذہنی سانچے سے باہر آئیں

ڈاکٹر محمد رضوان، ناگپور

جب وبائیں پھوٹتی ہیں تو افراد، اقوام اور حکومتی ادارے ردّ عمل کی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ بالکل طبعی بات ہے۔ پھر یہ ردّ عمل خاص اقدامات پر منتج ہو جاتا ہے۔ حکومتی ادارے اور ماہرین وبا کے لیے ذمے دار عامل (بیکٹریا یا وائرس) کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتے۔ متعلقہ محققین بیکٹیریا یا وائرس کی حیاتیاتی پیچیدگی اور اس کی بیمار کر دینے اور موت سے ہمکنار کر دینے کی صلاحیت کا صحیح اندازہ نہیں رکھتے اس لیے احتیاطی تدابیر اور دیگر ردّ عملوں میں ’’غلو‘‘ ہو جاتا ہے۔ متعلقہ عوام بھی اسی ردعمل اور خوف کی نفسیات کے دائرہ میں قید ہو جاتے ہیں۔ معلوماتی ترسیلاتی زنجیر Information Transfer Chainمذکورہ بالا حالت کو مزید پیچیدہ بنادیتی ہے۔ یہ زنجیر بالآخر Infodemic (یعنی معلومات انفجار کی وجہ سے صحیح فیصلہ نہ لینے اور صحیح فیصلہ نہ کرنے جیسی حالت) پر جا کر ٹوٹتی ہے۔ اس صورت حال سے نام نہاد ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ممالک کوئی بھی نہیں بچ پایا ہے۔ Infodemic کا ایک دوسرا پہلو غلط معلومات کو پھیلانا(Disinformation) ہے۔ یہ اصطلاح عدم معلومات (Misinformation )سے الگ اور فیک نیوز سے بھی جدا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے غلط معلومات پھیلائی جائیں۔ کووڈ-۱۹ کی وبا کو تقریباً ۵ تا ۶ ماہ گزر چکے ہیں۔ یہ عرصہ ردّ عمل سے لے کر منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات تک کے لیے کافی ہے۔ ذیل میں ان اقدامات کے حیاتیاتی پہلو اورغلط معلومات (Disinformation) سے متعلق پہلوؤں پر گفتگو کی جائے گی۔
وبائی عوامل (وائرس) پر جینیاتی وحیاتیاتی تحقیق:
کورونا وائرس کے منبع چین کے شہر ووہان میں اس وبا کے پھوٹ پڑنے کے بعد پہلا تحقیقی مقالہ جس نے اس کے جینیٹک میک اپ اور اس کے ایک جدید کورونا فیملی کے رشتہ کے متعلق سائنسی دنیا کو معارفت بہم پہنچایا وہ فروری ۲۰۲۰ میں ہی منظر عام پر آگیا۔ ہمارے یہاں مارچ میں پہلا کیس دریافت ہوا اس کے بعد پے درپے ایک ہفتے کے اندر سینکڑوں وائرس سے بیمار افراد کے نمونے ہمارے تحقیقاتی لیباریٹریز میں جمع ہونے شروع ہو گئے۔ باوجود اس کے ایک ملکی سطح کا وائرس پر تحقیق کرنے والا ادارہ یہاں موجود ہے ہم اس وائرس کے کسی بھی پہلو پر خاطر خواہ تحقیقی کام نہیں کر پائے۔ حد تو یہ ہے کہ تادم تحریر دنیا کے اس خطہ (ہندوستان میں) وائرس کی کونسی ٹائپ گردش کر رہی ہے اس کا بھی کوئی مطالعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ وائرس کے پھیلاو transmission dynamics وائرس کی تبدیلی کی صلاحیت، وائرس کی بیمار کرنے کی صلاحیت Infectivity وائرس اور میزبان (Host) کے متعدد پہلو مثلاً ایشیائی یا ہندوستانی Generic Makeup اور host python interaction جیسے بنیادی سوالات بھی جو موجودہ ذرائع و وسائل کے ساتھ ہی Adress کیے جا سکتے تھے ان پر کوئی قابل اعتنا تحقیق نہیں ہو پائی۔ حالانکہ یہ سب ممکن تھا اور سالماتی حیاتیات کے موقر ادارہ جات (CDFD, CCMB, NIV) کا موجود ہونا بھی اس کا ضامن تھا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا یہ بحث کا ایک الگ موضوع ہے اور اب جب کہ ردّ عمل کا وقت گزر چکا ہے ایک منصوبہ بند اقدامات کی سیریز اس ضمن میں روبہ عمل لائی جانی چاہیے۔ اس وائرس پر تحقیق کے لیے درکار ضروری impetus ہمارے سائنسی حلقوں میں نہیں پائے جاتے۔ ایسا کیوں ہے کہ تحقیق کے لیے درکار وسائل ہونے کے باوجود کوئی قابل ذکر پیش رفت اس ضمن میں نہیں ہوئی اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔
مابعد وبا فوبیا کا انتظام وانصرام
Post Pandemic Phobia Management
(عوام الناس وائرس اور اس سے منسلک ہر پہلو پر غلط معلومات کا تدارک)
یہ بات اب تقریباً پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ مابعد کووڈ دنیا ماقبل کووڈ دنیا سے مختلف ہوگی، مکمل طور پر نہ سہی لیکن مختلف ضرور ہوگی۔ یہ اختلاف معاشی، سیاسی اور یقیناً سماجی طور پر بھی شہری آبادی میں محسوس کیا جا سکے گا۔ اب یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ وائرس کا خاتمہ صرف دو صورتوں ہی میں ممکن ہے ایک یہ کے اس کا ٹیکہ vaccine ایجاد ہو جائے اور تمام ملکوں میں اس ٹیکہ کے ذریعے لوگوں کو immunize کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ گروہی مزاحمت Herd Immunity تشکیل پا جائے۔ دونوں صورتوں کا مستقبل قریب میں واقع ہونے کا امکان بہت کم ہے لیکن تب تک سماجی زندگی کی شکل کیسی ہوگی یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اجتماعی عبادتیں، اجتماعی شاپنگ، اجتماعی معاملات سب کے سب خوف کی ایک خاص نفسیات میں قید رہیں گے اور بیماری لگ جانے infection کا خوف وائرس کا خوف اور اس کے پھیلانے والوں سے خوف اور نفرت کا ماحول بنا رہے گا۔ کیا صرف چھینکنے سے وائرس پھیل جائے گا گرچہ کے یہ چھینک ماحول میں موجود دھول کے ذرات سے آئی ہو یا کسی الرجی کے مریض کی ہو؟ کیا ہر بخار کورونا کا بخار ہے۔ کیا برقعہ، ٹوپی، داڑھی سب انفیکشن پھیلارہے ہیں؟
شک وشبہ اور تذبذب کی یہ نفسیات عدم مساوات تک کو جنم دے سکتی ہے۔ اس پر سماجی نفسات کے ماہرین کی آراء لٹریچر میں موجود ہیں۔ خود اس کے اکا دکا واقعات پیش آنا شروع ہوگئے ہیں۔ (مغربی بنگال میں ایک واقعہ پیش آیا ہے، گو کہ اس کے سیاسی پہلو سے بھی انکار ممکن نہیں) مس انفارمیشن، فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن نے عوام کو common sense سے عاری کر دیا ہے جس کی بنیاد پر ایک خاص نفسیاتی ردّ عمل تیار ہوتا ہے جو چھوٹے موٹے جھگڑوں سے لے کر Genocide تک جا پہنچتا ہے۔اس لیے اس فوبیا کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے ان اقدامات کو ٹھوس بنیادوں پر روبہ عمل لانا چاہیے۔ محض فون کی Caller tune سے غالباً بات نہیں بنے گی۔ جتنی شد ومد سے وائرس کے متعلق حفظان صحت کے نیم درست اصولوں کو پھیلا یا گیا تھا اتنی شدت سے وائرس کی infectivity اس کے mortality rate شرح اموات کی معلومات وغیرہ کو بھی عوامی ذہن میں نفوذ کروانا ہوگا تب ہی عوام الناس اس خوف ودہشت اور نفرت کے ذہنی سانچہ سے باہر آ سکیں گے۔
فوبیا مینجمنٹ کا دوسرا پہلو fomite سے متعلق ہے۔ فومائٹ وہ غیر جاندار اشیاء ہیں جن کے ذریعے سے وائرس پھیل سکتا ہے۔ حیاتیاتی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو کورونا وائرس اور فومائٹ پر بہت زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ دیگر وائرس کے فومائٹ اثرات کو اس وائرس پر ماڈل کیا گیا ہے اس لیے فومائٹ فوبیا اب بھی عروج پر ہے۔ کیا سبزیاں بھی وائرس کو پھیلا سکتی ہیں۔ کیا نائی کا برش، لِفٹ کا بٹن اور دیگر اشیا بھی فومائٹ ہیں۔ غرض اس قبیل کے ہزاروں سوال ہیں جو اس پہلو سے متلعق ہیں۔ جدید تحقیقات وائرس کے پھیلاو فومائٹ سے نہیں بلکہ اور دیگر عوامل سے جوڑ رہی ہیں جن میں افراد کی مزاحمت کی صلاحیت، وائرس کی قسم، اس کی مقدار اور وائر سے بالمشافہ ہونے کا دورانیہ وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طریقہ سے وائرس اور ویکسین اور وائرس کے علاج کے متعلق غیر تصحیح شدہ معلومات کا مسئلہ ہے۔ مستقبل قریب میں ویکسین آنے کے امکانات کم ہی ہیں اور علاج کے متعلق ساری Disinformation تحقیق کے بعد غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ مثلاً Chloroquine کچھ دیگر علاج کے طریقے پلازمہ تھیراپی وغیرہ۔ اس لیے عوام کو اس وائرس کے ساتھ زندہ رہنے کی ترغیب دینے والے بیانات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔
ما بعد وبا نفسیاتی مسائل
وبا کے دوران اور وبا کے بعد زیادہ صحیح لفظوں میں وبا کے ابتدائی دورانیہ کے بعد نفسیاتی مسائل میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
بھارت میں نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پے در پے لاک ڈاؤن کی وجہ سے نفسیاتی مسائل غیر معمولی طور پر بڑھ گئے ہیں۔ خاص طور پر ڈپریشن، نیند نہ آنا، اضطراب، خود کشی کے اقدامات، فوبیا، پیرا نویا وغیرہ۔ یہ مسائل بوڑھے اور بچوں میں زیادہ ہیں خاص طور پر بچوں میں اسکول بند ہو جانے کی وجہ سے اور Online کلاسیس کی وجہ سے Screen Addiction یا موبائل Addiction بڑھ گیا ہے۔ اس پر ابتدائی تحقیقات آنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس ضمن میں countermeasure لینے کی ضرورت ہے۔ post pandemic trauma نفسیات کی ایک مسلَّم اصطلاح ہے۔ ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک میں نفسیاتی مسائل کا ادارک اور اس ادراک کی بنیاد پر منصوبہ بند اقدام بجائے خود ایک بڑا چیلنج ہے خاص طور پر معاشی بد حالی کی وجہ سے نفسیاتی عدم استحکام ایک زمینی حقیقت ہے یا ہوگی۔ خود کشی کی شرح کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اقدامات بے انتہا ضروری ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ خود کشی کا عمل ایک خاص نفسیاتی مشاکلہ کا آخری پڑاؤ ہے۔ اس نفسیاتی مشاکلہ کی تشکیل کے لیے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ اس طرح کی وبائیں اس درکار وقت کو خطرناک حد تک کم کر دیتی ہیں۔ psychiatric epidemiology علم نفسیات کی ایک علیحدہ شاخ ہے جو مذکورہ بالا تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ صد افسوس کہ پورے ملک میں ہمارے پاس اس کا ایک بھی ماہر موجود نہیں ہے۔ جب کہ آج ان ہی ماہرین کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ملک کے طبی نظام پر اعتماد کی بحالی
ہمارے ملک کا طبی ماڈل بعض پہلوؤں سے بالکل جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور یہ جداگانہ حیثیت منفی اعتبار سے ہے۔ وباؤں سے نمٹنے اور وباؤں کے ذریعے پیش کردہ چیلنج کے جواب میں ہمارا یہ ماڈل بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ طبی سہولیات کے اعداد وشمار اور اس کوالیٹی پر کلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن وبا کے دورانیہ اور لاک ڈاؤن کے خاتمہ کے بعد اس بات کی پوری گنجائش ہے کہ انفیکشن کا دوسرا دور ضرور شروع ہو کر رہے گا، کیا ہمارا طبی نظام اس کا متحمل ہے۔ حالاں کہ اس پہلو میں ایک زبردست قسم کی opportunity بھی چھپی ہوئی ہے۔ کووڈ-۱۹ کی وبا کے انفیکشن کے اس دوسرے دور میں عوام اور خواص دونوں کا اعتماد اس نظام پر بحال کروایا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ منافع خور اسپتال اور کارپوریٹ ہیلتھ سیلرس کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اس وبا کا علاج مہیا کروا سکیں۔
یہ محض وینٹیلیٹر اور حفاظتی اشیاء کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ پورا طبی نظام اس وبا کے موقع سے overhaul کیا جا سکتا ہے۔
طبی نظام کا اپ گریڈیشن جس کا مقصد دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی کی زنجیر کو مضبوط کرنا ہے، ایسے اقدامات ہیں جو ما بعد کووڈ-۱۹ دنیا میں عوام کا اعتماد ہمارے طبی ماڈل اور طبی نظام پر بحال کروا سکتے ہیں۔
وبا سے نمٹنے کے لیے درکار ماہرین کی تیاری:
اس وبا نے ایک قدیم مگر بالکل صحیح سوال کو پھر سے پوری شد ومد سے زندہ کر دیا ہے ۔ وہ سوال وبا سے نمٹنے کے لیے صحیح Policy input دینے والے ماہرین کے فقدان سے متعلق ہے۔ عالمی سطح پر ماہرین اب اس بات پر متفق ہو رہے ہیں کہ وائرس اور بیکٹریا سے پھیلنے والی وباؤں کا سلسلہ اب بڑھتا جائے گا اور ان کی پھوٹ پڑنے کا وقفہ بھی کم ہوگا۔ خاص طور پر ماحولیاتی بحران بالکل نئے قسم کے وائرس اور بیکٹریا کے ذریعے پھیلنے والی وباؤں کا سبب ہوگا ایسی صورت میں حیاتیاتی عوامل سے پھیلنے والی وباؤں اور ان کے ہر پہلو سے صرف ماہرین کی معتد بہ تعداد ملکوں کے لیے ناگزیر ہو جائے گی تاکہ وبا کا management ٹھوس بنیادوں پر کیا جا سکے اور وباؤں کے دوران حفظان صحت کے صحیح اور آزمائے ہوئے اصول عوام الناس تک پہنچائے جا سکیں شرح اموات کو کم کیا جا سکے اور وبا کے خطرناک اثرات کو کم کیا جا سکے۔
اس پہلو سے اگر ہم کووڈ-۱۹ سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورس کا مطالعہ کریں تو مایوسی ہوتی ہے۔ مثلاً دوسرے ملکوں کی ٹاسک فورس میں Molecular Epidemiology جو سالماتی حیاتیات کی بنیاد پر وائرس کے پھیلاؤ وغیرہ پر تحقیق کرکے رہنمائی کرتے ہیں Pathogen Evolution Biologist جو وائرس یا بیکٹریا کے ارتقاء کو اس کی بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت پر تحقیق کر کے نتائج اخذ کرتے ہیں جو وبا سے لڑنے کے لیے بہت اہم ہے۔ اعلیٰ پائے کے Biostatistics جو کہ حسابی ماڈل کے ذریعے وائرس یا بیکٹریا کے پھیلاو اور اس سے ہونے والی اموات کو صحیح تر ناپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بنیاد پر لاک ڈاون وغیرہ کے دورانیہ اور تعداد پر حکومتوں کو صلاح دیتے ہیں۔ ہیلتھ انفارمیشن جو جدید آئی ٹی کا استعمال کر کے وبا اور صحت عامہ کے لیے رہ نمائی کرتے ہیں۔ ارتقاء کے حیاتیاتی ماہرین جو بائیولوجسٹ کہلاتے ہیں وائرس یا بیکٹریا کے اندر بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت میں ارتقاء اور اس سے جڑے دوسرے پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں، ان تمام ماہرین کار کا فقدان ہے بلکہ ہمارے ٹاسک فورس میں محض صحت عامہ Public Health کے اکا دکا ماہرین ہیں جو جدید وباؤں کے انتظام وانصرام کے لیے درکار فنی صلاحیت نہیں رکھتے۔ہمارے یہاں مذکورہ بالا ماہرین تو درکنار ان میدانوں کے مضامین بھی یونیورسٹی میں نہیں پائے جاتے۔ اس ضمن میں توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان ماہرین کی تیاری کے لیے درکار پالیسی فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جس ایک آدھ یونیورسٹی میں ان مضامین کا گریجویشن موجود ہے اسے بھی Upgrade کیا جا سکتا ہے۔
آخر کار ردّ عمل سے آگے بڑھ کر منصوبہ بند اقدامات ہی اس بات کو ظاہر کرتے ہیں۔ در اصل ملکوں اور قوموں نے وباؤں سے وہ ضروری سبق سیکھا ہی نہیں جو مستقبل قریب یا بعید میں ان کی بقا اور ترقی کا ضامن ہے۔

 

اجتماعی عبادتیں، اجتماعی شاپنگ، اجتماعی معاملات سب کے سب خوف کی ایک خاص نفسیات میں قید رہیں گے اور بیماری لگ جانے infection کا خوف وائرس کا خوف اور اس کے پھیلانے والوں سے خوف اور نفرت کا ماحول بنا رہے گا۔ کیا صرف چھینکنے سے وائرس پھیل جائے گا گرچہ کے یہ چھینک ماحول میں موجود دھول کے ذرات سے آئی ہو یا کسی الرجی کے مریض کی ہو؟ کیا ہر بخار کورونا کا بخار ہے۔ کیا برقعہ، ٹوپی، ڈاڑھی سب انفیکشن پھیلا رہے ہیں؟