یوپی میں صحافیوں کا قتل حکومت پر اٹھتے سوال

کہیں الیکشن سے پہلے صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش تونہیں؟

 

صدیق کپّن کا بری ہونا یوپی حکومت پرزنّاٹے دارطمانچہ۔۔۔!
اتر پردیش میں صحافیوں کے لیے رپورٹنگ کرنا آسان نہیں ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ کو نیوز ایجنسی اے این آئی کو بائٹ (BYTE) دیتے ہوئے قابل اعتراض الفاظ استعمال کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔ جس سے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے سامنے صحافیوں کی کیا عزت ہے معلوم ہوا۔ یو پی میں رہ کر صحافت کرنا ناک سے لوہے کے چنے چبانا ہے۔ چنانچہ جب صحافی صدیق کپّن کیرالا سے نکل کر یو پی پہنچے تاکہ حکومت کی پول کھول سکیں تو انہیں دھر لیا گیا اور ان کے خلاف کئی مقدمے درج کر لیے گیے نتیجے میں وہ تقریباٌ 18 مہینوں سے متھرا جیل میں قید تھے لیکن 16 جون کو ایک کیس سے انہیں بری کر دیا گیا۔ متھرا کی ایک مقامی عدالت نے صدیقی کپن اور تین دیگر لوگوں کو دفعہ (6) 116 امن وامان کو خراب کرنے کے الزام سے بری کر دیا کیونکہ پولیس اس معاملے کی جانچ مقررہ وقت چھ مہینوں میں مکمل نہیں کر سکی۔
ایک رپورٹ کے مطابق دفاعی فریق کے وکیل مدھوبن دت چترویدی نے کہا کہ انہوں نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی عدالت میں عرضی دائر کر کے ان سے گزارش کی تھی کہ ملزمین کے خلاف معاملے کو رد کر دیا جائے، کیونکہ پولیس متعینہ چھ مہینے کی مدت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ اس کے بعد عدالت نے تکنیکی بنیاد پر ملزمین کو بری کر دیا۔ مجسٹریٹ کے حکم کے مطابق چونکہ سی آر پی سی کی دفعہ (6) 116 کے تحت کارروائی مکمل کرنے کی حد ختم ہو گئی تھی اس لیے چاروں ملزموں کے خلاف چارج ہٹا دیا گیا۔
صدیق کپن کا کہنا ہے کہ ’’مجھے اب بھی ملک کے آئین پر اعتماد ہے لیکن انصاف میں تاخیر ہوئی ہے‘‘۔ واضح ہو کہ صدیق کپن کو پچھلے سال پانچ اکتوبر کو ہاتھرس اجتماعی عصمت دری و قتل معاملے کی رپورٹنگ کے دوران یو پی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی سے چار لوگوں نے مبینہ طور پر عصمت دری کی تھی جس کے بعد علاج کے دوران اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس کیس میں یو پی پولیس بھی سوالوں کے گھیرے میں آئی تھی کیوں کہ اس نے بغیر متوفیہ کے افراد خانہ کی اجازت کے اس کی آخری رسومات ادا کردی تھیں۔ صدیق کپن نے اسی کھیل کو اجاگر کرنے کے لیے کیرالا سے ہاتھرس کا سفر کیا تھا لیکن ایک رپورٹ کے مطابق چار لوگوں کو متھرا میں سماجی وفلاحی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے ساتھ مبینہ تعلق کے الزام میں گرفتار کیا اور چاروں کی پہچان کیرالا کے ملا پورم کے صدیق کپن، مظفر نگر کے عتیق الر حمٰن، بہرائچ کے مسعود احمد اور رام پور کے محمد عالم کے طور پر کی گئی تھی۔ ان کے خلاف آئی پی سی کے دفعہ 124 اے (سیڈیشن)، 153 اے (دو فریقوں کے بیچ دشمنی بڑھانے)، 295اے (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے)، یو اے پی اے کے دفعہ 17/18 (دہشت گردی کی کارروائی کے لیے فنڈ جمع کرنے) اور 120B (سازش) کے تحت مقدمات درج ہوئے تھے۔
یو پی حکومت نے صدیق کپّن پر ظلم یہ بھی کیا کہ جب وہ متھرا جیل میں کورونا مثبت پائے گئے تب انہیں علاج کے لیے اچھے اسپتال میں بھی بھرتی نہیں کرایا گیا۔ ان کا علاج جانوروں کی طرح کیا گیا۔ صحافی صدیق کپن کی بیوی نے دعویٰ کیا تھا کہ کپن کو متھرا کے میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں ‘جانور کی طرح بیڈ سے باندھا گیا ہے وہ نہ تو کھانا کھا پا رہے ہیں اور نہ ہی قضاء حاجت کے لیے بیت الخلا جا پا رہے ہیں۔ اگر فوراً کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے تو ان کی بے وقت موت بھی ہو سکتی ہے۔ صدیق کپن کی زوجہ نے اس بارے میں چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھ کر انصاف کی اپیل کی تھی۔ وہیں گیارہ ممبران پارلیمنٹ نے بھی چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھ کر صدیق کپن کے لیے مناسب علاج اور دیکھ بھال کا مطالبہ کیا تھا۔ جبکہ ایڈیٹرس گِلڈ آف انڈیا (EGI) نے یو پی حکومت کی اس انسانیت سوز کارروائی پر سخت لفظوں میں مذمتی بیانات بھی جاری کیے تھے۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنرائی وجین نے بھی یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی کو اس حوالے سے خط لکھا تھا جس کے بعد صدیق کپن کو ایمس میں ایڈمٹ کیا گیا تھا اور سات مئی کو صحتیاب ہونے کے بعد انہیں پھر متھرا جیل منتقل کر دیا گیا۔
یو پی میں ملک کے خلاف بغاوت (sedition) کا مقدمہ درج تو کیا جا رہا ہے لیکن اسے ثابت کرنے میں پسینے چھوٹے جا رہے ہیں۔ شاید اسی لیے یو پی میں صحافیوں پر حملہ کر کے ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔
تازہ معاملہ اے بی پی گنگا کے رپورٹر کی مشتبہ حالت میں موت کا ہے۔ پرتاپ گڑھ میں سڑک حادثے کو موت کا سبب بتایا جا رہا ہے جبکہ اپنی موت سے دو دن پہلے صحافی سلبھ سریواستو نے پولیس (ADG) کو تحریر لکھ کر دی تھی کہ شراب مافیا غیر قانونی شراب سے متعلق ان کی خبروں سے ناراض ہیں لہذا وہ اپنے اور اپنے کنبہ کے تحفظ کے حوالہ سے پریشان ہیں۔ لیکن ان کی درخواست پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے
سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کر کے لکھا کہ ریاست میں شراب مافیا اور انتظامیہ کے مابین گٹھ جوڑ ہے، اسی گٹھ جوڑ کے سبب شراب مافیا بلا خوف وخطر جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور انتظامیہ ان کے خلاف آنے والی کسی بھی شکایت پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ انہوں نے اس سارے معاملے کی سی بی آئی سے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بندیل کھنڈ میں صحافی ونئے تیواری نے منریگا کے تحت مزدوروں کو کام دینے کے بجائے مشینوں کے غیر قانونی استعمال پر سوال اٹھایا تھا جس کے بعد ونئے تیواری کی پٹائی کی گئی تھی۔ 19جون 2020 کو اُناؤ کے رہنے والے شُبھ منی ترپاٹھی کا قتل ہوا۔ 20 جولائی کو غازی آباد کے وکرم جوشی کو مار دیا گیا۔ 24 اگست کو بلیّا کے رتن سنگھ کا قتل کیا گیا۔ حال ہی میں نجی چینل کے صحافی رتن سنگھ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
واضح ہو کہ 2019 میں صحافی گیتا سیشو اور اروشی سرکار نے ‘گیٹنگ اوے ود مرڈر‘ کے عنوان سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والے صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد پر سن 2014 سے 2019 کے درمیان 198 سنگین حملے ہوئے۔ صرف 2019 میں ان حملوں کی تعداد 36 رہی۔ رپورٹ میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے لیے سرکاری ایجنسیوں، سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد، مذہبی جماعتوں سے عقیدت رکھنے والوں، طلبہ گروپوں، جرائم پیشہ گروہوں اور مقامی مافیا کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے اب تک یو پی پولیس آٹھ مہینے سے جیل میں قید ومشقت کی سزا کاٹ رہے صدیق کپن کے خلاف ثبوت کیوں نہیں پیش کر سکی؟ کیا یو پی میں صحافیوں پر جھوٹے مقدمے لگا کر قید کر لیا جاتا ہے؟ صرف یو پی ہی نہیں بلکہ جب سے بی جے پی حکومت آئی ہے تب سے ملک سے سیڈیشن کی دفعات کے تحت کئی صحافیوں کے خلاف مقدمے درج کر کے انہیں جیلوں میں ٹھونسا گیا ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کے مطابق 2014 میں بغاوت (sedition) کے 47 مقدمات درج کیے گئے تھے تاہم 2015 میں ان مقدمات کی تعداد 30 ہو گئی، پھر 2016 میں بڑھ کر 35 ہوئی اور 2017 میں 51 ہو گئی اور 2018 میں بڑھ کر 70 ہو گئی۔
رواں سال مارچ میں راجیہ سبھا میں دیے گئے ایک جواب میں مرکزی مملکتی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا تھا کہ 2019 میں بغاوت (sedition) کے 93 مقدمات درج کیے گئے تھے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ 96 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور 76 افراد کے خلاف چارج شیٹس دائر کی گئی تھیں وہیں عدالت نے 29 افراد کو بری بھی کر دیا۔
میڈیا سائٹ آرٹیکل 14 ڈاٹ کام (article-14.com) انصاف کی ناکامیوں اور قانونی نظام میں خامیوں پر رپورٹ کرتا ہے جس کے مطابق 2010 کے بعد سے اب تک سیڈیشن کے 816 واقعات درج کیے گیے ہیں۔ ان میں سے 65 فیصد پر مئی 2014 کے بعد فرد جرم عائد کی گئی تھی۔دی ویک (THE WEEK) کی ایک رپورٹ کے مطابق منموہن سنگھ کی حکومت (2010 – 2014) کے دوران سیڈیشن کے الزام میں 279 مقدمات درج کیے گئے تھے جس کے تحت 3,762 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ لیکن مودی سرکار (2014-2020) کے دوران 7,136 افراد کے خلاف سیڈیشن کے 519 مقدمات درج کیے گئے جن کی سب سے زیادہ تعداد بہار (168) تمل ناڈو (139) اتر پردیش (115) جھارکھنڈ (62) اور کرناٹک (50) میں ہے۔
فیض احمد فیض نے تو کہا تھا
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
لیکن یو پی میں خاص طور پر زبان کترنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ آزاد لبوں کو زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے جبکہ بعض کا حال ’یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے‘ کے مصداق ہو گیا ہے۔ ایسے میں صحافی برادری پر مزید ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ اور عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے اپنے اپنے طور پر آواز کو صحیح اور سلیقے سے اٹھانے اور حکومت کی ناانصافیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
***

یو پی میں خاص طور پر زبان کترنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ آزاد لبوں کو زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے جبکہ بعض کا حال ’یہ زباں کسی نے خرید لی یہ قلم کسی کا غلام ہے‘ کے مصداق ہو گیا ہے۔ ایسے میں صحافی برادری پر مزید ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ اور عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے آگے آنا ہو گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021