ملک پر منڈلا رہے ہیں نفسیاتی مرض کے مہیب سائے

40فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار۔’ مینٹل ہیلتھ اسکیم‘ کو مؤثر بنانا حکومت کے لیے ناگزیر

افروز عالم ساحل

کووڈ۔19کی روک تھام کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں ذہنی امراض کے معاملات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز اینڈ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھاریٹی کے اشتراک سے ملک کے عوام کو کووِڈ کے دوران نفسیاتی مدد دینے کے مقصد سے کونسلرز کے لیے تیار کردہ ٹریننگ مینول میں ایک سروے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تقریباً 40.5 فیصد آبادی anxiety یا ڈپریشن کی شکار ہے، وہیں 74.1 فیصد یعنی ہر چار میں سے تین افراد کسی نہ کسی طرح کی ذہنی پریشانی میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ یہ ٹریننگ مینول اپریل 2021 میں جاری کیا گیا ہے۔

اس سے قبل ملک میں ماہرین نفسیات کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن ’انڈین سائکیاٹرک سوسائٹی‘ ایک سروے کے حوالے سے بتا چکی ہے کہ کووڈ۔19کی آمد کے بعد ملک میں ذہنی امراض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اچانک 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

غور طلب ہے کہ ’انڈین سائکیاٹرک سوسائٹی‘ نے یہ رپورٹ 31 مارچ 2020 کو ہی جاری کر دی تھی، یعنی یہ اضافہ لاک ڈاؤن کے ابتدا میں ہوا تھا۔ جون 2015 میں مختلف رپورٹوں میں یہ بات کہی جا چکی تھی کہ سال 2020 تک ملک کا ہر پانچواں شہری کسی نہ کسی طرح کی ذہنی پریشانی یا امراض کا شکار ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ۔19کے بعد اب ملک میں اگلی وبا ’مینٹل ہیلتھ‘ کو لے کر آسکتی ہے۔ کیونکہ کووڈ کی دوسری لہر کے سبب لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے اور غیر معمولی تعداد میں ہونے والی اموات کی وجہ سے ملک میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔

ایسے میں ملک کے عام شہری مرکزی حکومت سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ وہ اس کے روک تھام کے لیے اقدامات کرے تاکہ ملک میں اس کے علاج کو مزید آسان بنایا جا سکے، لیکن اس کے برعکس اس مرض کی روک تھام کے لیے ملک میں چل رہے ’نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘ کا بجٹ بڑھائے جانے کے بجائے حکومت اس میں کٹوتی کرتی نظر آرہی ہے۔

ہفت روزہ دعوت کے پاس موجود اہم دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اہم اسکیم کبھی بھی مرکزی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ جبکہ یہ اسکیم اس ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کے ایک ضروری اسکیم ہے۔

دستاویز شاہد ہیں کہ جب سے این ڈی اے حکومت اقتدار پر آئی ہے لوگوں کی مینٹل ہیلتھ سے منسلک اس اہم اسکیم کا بجٹ سال در سال گھٹاتی جا رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومت نے اس اسکیم کے لیے جتنا بجٹ مختص کیا یا جاری کیا وہ رقم بھی موجودہ حکومت خرچ نہیں کر سکی۔ مگر کانگریس کی قیادت والی یو پی اے اس اسکیم کو لے کر زیادہ سنجیدہ نظر آرہی ہے۔

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یو پی اے کے دور حکومت میں سال 2009-10 سے سال 2013-14تک اس ’نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘ کے لیے 523کروڑ 28 لاکھ روپے کا بجٹ طے تھا اور اس طے شدہ بجٹ میں صرف 330 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے۔ وہیں یہ حکومت ان پانچ سالوں میں 314کروڑ15 لاکھ روپے خرچ کر سکی تھی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں این ڈی اے حکومت نے اپنے اقتدار کے سات سالوں 2014-15 سے لے کر سال 2020-21تک اس اسکیم کے لیے 395کروڑ روپے کا بجٹ رکھا تھا اور جاری کرنے کی باری آئی تو اس اہم اسکیم کے لیے صرف 167کروڑ 36 لاکھ روپے ہی جاری کیے گئے اور خرچ کی باری آئی تو چھ سالوں میں محض 117کروڑ47لاکھ روپے ہی خرچ کر سکی۔ سال 2020-21 کے خرچ کی جانکاری اس میں شامل نہیں ہے۔

آپ کو جان کر حیرانی ہو گی کہ سال 2014 میں اقتدار بدلنے سے پہلے یو پی اے حکومت نے ’نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘ کا بجٹ 200 کروڑ روپے کا رکھا تھا۔ اسی سال اقتدار کی تبدیلی ہوئی اور اقتدار میں آنے کے بعد این ڈی اے حکومت نے اس بجٹ کو برقرار رکھا لیکن جب بجٹ کو منظور کرنے کی باری آئی تو اس رقم کو گھٹا کر 15کروڑ روپے کر دیا گیا۔ سرکاری دستاویزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا کا پورا فنڈ وزارت کی تجوری میں ہی پڑا رہ گیا ایک پائی بھی عوام تک نہیں پہنچ سکی۔

اگلے سال یعنی سال 2015-16 میں اس اسکیم کے لیے 35 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور 35کروڑ روپے جاری بھی کیے گئے اور پوری رقم خرچ بھی کر دی گئی۔ سال 2016-17میں بھی یہی کہانی نظر آئی۔ لیکن سال 2018-19کے آتے آتے اس اسکیم میں مرکزی حکومت کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ یہ کہانی تب کی ہے، جب ملک میں 29 مئی 2018 کو ’مینٹل ہیلتھ کیئر ایکٹ 2017‘ نافذ کیا گیا اور اسی سال انڈین جرنل آف سائکیاٹری کی تحقیق میں یہ کہا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق اس ایکٹ کے نفاذ پر 95 ہزار کروڑ روپے کاخرچ آئے گا۔

سال 2018-19کے میں اس اہم اسکیم کے بجٹ میں اضافہ تو کیا گیا لیکن رقم جاری کرنے میں حکومت نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 2018-19کے میں اس اسکیم کے لیے 50 کروڑ روپے کا بجٹ طے کرنے کے باوجود صرف 5 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے اور اس میں بھی محض 2 کروڑ ایک لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

سال 2019-20 میں اس اسکیم کا بجٹ گھٹا کر 40کروڑ روپے کر دیا گیا، لیکن 5 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے اور خرچ صرف 2کروڑ 51لاکھ روپے ہی کیے جا سکے۔ سال 2020-21میں بھی 40کروڑ روپے کا ہی بجٹ رکھا گیا۔ ملک میں ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھی لیکن اس کے باوجود حکومت نے اس اسکیم کے لیے 27کروڑ 36لاکھ روپے ہی جاری کیے۔ سال 2021-22میں 40کروڑ روپے کا بجٹ برقرار رکھا گیا ہے۔ جبکہ متعدد رپورٹوں میں کووڈ وبائی مرض کے دوران ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہونے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ حکومت اس فنڈ کا کیا کرتی ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اس سے صورتحال کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

آپ کو معلوم ہو گا کہ لوگوں میں مینٹل ہیلتھ کی اہمیت کو اجاگر کرنے، ذہنی ودماغی امراض کی روک تھام اور بچاؤ کے لیے اقدامات کرنے اور ذہنی عارضوں کے ہر طرح کے بوجھ سے نمٹنے کے لیے اس اسکیم کی شروعات مرکزی حکومت کے ذریعے 1982 میں کی گئی تھی، تب سے یہ اسکیم ملک میں جاری ہے۔ 12 مارچ 2021 کو لوک سبھا میں کیے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں وزیر مملکت برائے صحت وخاندانی بہبود اشونی کمار چوبے نے بتایا کہ حکومت ملک کے 692 اضلاع میں ’نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘ کے تحت ڈسٹرکٹ مینٹل ہیلتھ پروگرام کے نفاذ میں مالی مدد کر رہی ہے۔ اس کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے ہر ضلع کو ہر سال 4 لاکھ روپے کا فنڈ لوگوں میں بیداری لانے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان اضلاع میں چلنے والے مراکز کے اخراجات کے لیے 12 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں تاکہ اسکولی طلباء کی ذہنی صحت پر کام ہو سکے۔ اب ذرا سوچیے کہ حکومت یہ کام بھی کتنی ایمانداری سے کرتی ہو گی؟ اگر وہ 692 اضلاع کو صرف یہی رقم دینے لگے تو اندازہ کیجیے کہ کتنے بجٹ کی ضرورت ہو گی؟ بتا دیں کہ ڈسٹرکٹ مینٹل ہیلتھ پروگرام کا آغاز 1996 میں اسی ’نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘ کے تحت کیا گیا تھا۔

حکومت اس ملک کے باشندوں کی ذہنی صحت کے بارے میں کتنی فکر مند ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے 12 فروری 2021 کو رکن پارلیمنٹ بریجندر سنگھ کے ذریعے لوک سبھا میں پوچھے گئے تحریری سوال کا جواب پڑھ لینا کافی ہے۔ وزیر مملکت برائے صحت وخاندانی بہبود اشونی کمار چوبے نے صاف لفظوں میں بتایا کہ ’حکومت نے کوویڈ-19 سے متاثر لوگوں کی ذہنی صحت یا انہیں خود کشی پر اکسانے والے عنصر کا پتہ لگانے کے سلسلے میں کوئی تحقیق نہیں کی ہے۔‘

مینٹل ہیلتھ پر حکومت کے رویے کے سوال پر ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں ماہر نفسیات ایس امین الحسن کہتے ہیں کہ ملک میں ہیلتھ انفراسٹرکچر کیا ہے یہ تو ہمیں کووڈ کی دوسری لہر میں ہی معلوم ہو گیا ہے، عقلمندی یہ ہے کہ تیسری لہر آنے سے پہلے ملک کے ہیلتھ انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا جائے۔ ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کووڈ کی وجہ سے جو مینٹل ہیلتھ کرائسس آنے والا ہے اس سے کیسے نمٹا جائے۔ اس کے لیے کونسلرز کو تیار کرنا، ان کی ٹریننگ کرنا، آن لائن یا ٹیلی کونسلنگ کے سنٹرز قائم کرنا وغیرہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ حکومت ’نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘ جیسی اہم اسکیم کا بجٹ ہی کم کرتی جا رہی ہے۔ یہ حکومت کی جانب بہت غلط قدم ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر لوگوں کی مینٹل ہیلتھ کمزور ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں اکنامک پروڈکشن کم ہوجائے گا اور ذہنی بیماریوں کی وجہ سے گھروں میں مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اب آنے والے دنوں میں لوگوں کی مینٹل ہیلتھ پر مزید توجہ دے اور اس کی روک تھام کے لیے موجود اسکیموں کے بجٹ میں اضافہ کرے۔ بتا دیں کہ ایس امین الحسن جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ہیں اور ایک سوِل انجینئر ہونے کے علاوہ ماہر نفسیات بھی ہیں۔ نفسیاتی علوم کی ایک شاخ ’این ایل پی‘ ہے، امین الحسن صاحب اس کے ماہر اور ٹرینر بھی ہیں۔

غور طلب ہے کہ ترقی یافتہ ممالک دماغی صحت کے لیے اپنے سالانہ بجٹ کا پانچ تا اٹھارہ حصہ فیصد مختص کرتے ہیں۔ مختلف رپورٹوں میں شائع ہونے والے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ انگلینڈ اپنے ہیلتھ بجٹ کا 10.8 فیصد تو امریکہ 6.2 فیصد رقم مینٹل ہیلتھ پر خرچ کرتا ہے۔ وہیں بنگلہ دیش بھی اپنے ہیلتھ بجٹ کا 0.44 فیصد رقم مینٹل ہیلتھ پر خرچ کر رہا ہے۔ ہمارا ملک اس معاملے میں دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے کافی پیچھے ہے۔ حالانکہ حکومت ہند نے سال 2025 تک ملک کے ہیلتھ بجٹ کو 1.3 فیصد سے بڑھا کر 2.5 فیصد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اب اس ہیلتھ بجٹ کا کتنافیصد مینٹل ہلیتھ پر خرچ ہوگا، یہ دیکھنے والی بات ہو گی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کینیڈا، برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کی حکومتوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملکوں میں شہریوں کی ذہنی صحت کووڈ۔19کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، ایسے میں ان ممالک کی حکومتوں نے خود کشی کی روک تھام اور ذہنی تندرستی کو اولین ترجیح بنایا ہے۔

کیا مینٹل ہیلتھ ہوگی ہندوستان کی اگلی وبا؟

ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ۔19کے بعد اب ملک میں اگلی وبا ’مینٹل ہیلتھ‘ سے منسلک ہو گی۔ کووڈ۔19کی پہلی اور دوسری لہر کے بعد ملک میں ہوئی اموات اور معاشی بحران کی وجہ سے ذہنی صحت کا بحران پیدا ہونا طے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان اس کے لیے تیار ہے؟ تو یقیناً اس کا جواب نفی میں ہو گا۔ قومی سطح پر چار لاکھ افراد پر صرف دو سائکیاٹرسٹ اور ایک سائیکولوجسٹ موجود ہیں۔ وہیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے 2019 تک کے اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں نو کروڑ سے زیادہ افراد کسی نہ کسی طرح کی ذہنی پریشانی یا مرض میں مبتلا ہیں۔ دی لانسیٹ سائکیاٹری جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں 1990 اور 2017 کے درمیان ڈپریشن اور anxiety میں مبتلا افراد کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

ماہر نفسیات ایس امین الحسن کا کہنا ہے کہ کووڈ کی دوسری لہر کے بعد خاص طور پر اٹھارہ تا بیس سال کے نوجوانوں میں مینٹل ہیلتھ کے معاملے بہت بڑھے ہیں۔ خود کشی کرنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ کووڈ-19 وبا کے بعد اب مینٹل ہیلتھ کا معاملہ شدید ہونے والا ہے، بالخصوص ان ممالک میں جہاں حکومتیں کرپٹ ہیں اور ہیلتھ انفرااسٹرکچر کمزور ہے، مینٹل ہیلتھ کرائسس ہونا طے ہے۔ ہندوستان وہ ملک ہے، جہاں ایک بڑی آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ وہیں گزشتہ ایک سال کے اندر لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریباً تین کروڑ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، اب اس معاشی بحران کا اثر لوگوں کے ذہن پر پڑنا تو ہے۔

ملک میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہر چار منٹ میں ایک شخص اپنی زندگی ختم کر رہا ہے، وہیں ہر روز اوسطاً 381 افراد مختلف اسباب کی بنا پر خود کشی کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ سال 2019 میں کی گئی خود کشی کے بنیاد پر تیار کی گئی ہے، جسے این سی آر بی نے ستمبر 2020 میں جاری کیا تھا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ سال 2020 اور 2021 کے اعداد وشمار میں خود کشی کے معاملوں میں کافی اضافہ ہونے والا ہے کیونکہ عام لوگوں کے ساتھ ملک کے ڈاکٹروں میں بھی خود کشی کا رجحان بڑھا ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کووڈ۔19مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں میں ذہنی دباؤ بڑھا ہے اور اسکی وجہ سے کئی ڈاکٹروں کی خود کشی کی افسوسناک کہانیاں سامنے آچکی ہیں۔

این سی آر بی کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں خود کشی کے رجحان میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2019 میں کل 1,39,123 افراد نے مختلف اسباب کی بنا پر خود کشی کی تھی، جبکہ سال 2018 میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد 1,34,516 تھی۔ وہیں سال 2017 میں 1,29,887 خود کشی کے معاملے درج ہوئے تھے۔

این سی آر بی کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2019میں خود کشی کرنے والوں میں 70.2 فیصد مرد اور 29.8فیصد خواتین تھیں۔ ان میں 32.4فیصد لوگوں نے خاندانی مسائل (شادی سے متعلق معاملات کو چھوڑ کر) کی وجہ سے خود کشی کی تھی۔ وہیں شادی سے متعلق معاملات کی وجہ سے 5.5 فیصد نے اور بیماری سے تنگ آکر 17.1 فیصد نے اپنی جان لے لی تھی۔ اعداد وشمار یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود کشی کرنے والوں میں 67فیصد یعنی 90 ہزار سے زائد 18سے 45برس کے لوگ تھے اور ذہنی امراض ان خود کشیوں کی ایک اہم وجہ تھی۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سائیکولوجسٹ، کونسلر امرین سیفی بتاتی ہیں کہ اب تک کے موجود اعداد وشمار کے مطابق مرد ہی زیادہ تعداد میں خود کشی کرتے رہے ہیں، لیکن کووڈ کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن نے خواتین کو بھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان دنوں گھروں میں ذہنی طور پر سب سے زیادہ پریشان خواتین ہی ہیں۔ انہیں جہاں ایک طرف مسلسل بچوں کو سنبھالنا پڑ رہا ہے وہیں گھر میں موجود مردوں کی ہر فرمائش بھی پوری کرنی پڑ رہی ہے۔ شہروں سے باہر رہنے والے لوگ بھی گھر پہنچ رہے ہیں تو ایسے گھروں میں میاں بیوی کی خود کی پرائیویسی بھی ختم ہو گئی ہے جس سے ان کے درمیان جھگڑے بڑھے ہیں۔ شہروں میں پڑھائی یا نوکری کے لیے رہ رہی لڑکیاں اکیلے پن کی شکار ہیں۔ ان میں زیادہ تر اپنی نوکری کے چلے جانے کی وجہ سے ذہنی طور پر پریشان ہیں۔ ملک میں ایسی خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جنہوں نے اپنے شوہر یا بچوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے اور گھر میں ان کی دیکھ بھال کے لیے اب کوئی نہیں ہے۔ ایسے میں ان کا ذہنی طور پر پریشان ہونا فطری ہے۔ اگر ان تمام معاملوں میں ان کی جانب توجہ نہیں دی گئی تو وہ خود کشی کرنے کے بارے میں سوچ سکتی ہیں۔

وہیں مینٹل ہیلتھ پر کام کر رہی افشاں خان کے پاس خواتین کے ذہنی پریشانیوں کو لے کر بے شمار کہانیاں ہیں۔ وہ ان کہانیوں کے درمیان ایک ہی بات کہتی ہیں کہ ہمیں سماج میں پیدا ہونے والی خلیج پاٹنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ذرا سوچیے کہ کووڈ کے اس دور میں کسی گھر میں ماں باپ دونوں ہی اپنے پیچھے بچوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلے گئے جس کے بعد محض کووڈ کے ڈر سے کوئی ان کے حالات پوچھنے نہیں آ رہا ہے تو ان بچوں کے ذہنوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔

افشاں کا کہنا ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی ذہنی پریشانی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ جہاں ان کی نوکری چلی گئی یا چلی جانے کا ڈر ہے وہیں گھر میں اگر کوئی کوویڈ کا شکار ہو گیا تو علاج کے لیے پیسوں کا انتظام کرنے یا علاج کے خاطر لیے گئے قرض چکانے کا بھی دباؤ ہے۔ این سی آر بی کے ان اعداد وشمار سے ہٹ کر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں ہر سال تقریباً 2.2 لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہندوستان کو جنوب مشرقی ایشیاء میں خود کشیوں کا دارالحکومت کہا جاتا ہے۔ یہاں نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان ہر سال بڑھتا جا رہا ہے اور یہ ہمارے معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ذہنی امراض کا مہنگا علاج، کتنا ہوتا ہے خرچ؟

ہندوستان میں اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا ایک مہنگا کام ہے۔ ہفت روزہ دعوت نے ایسے کئی لوگوں سے بات کی جو گزشتہ چند سالوں سے ذہنی پریشانیوں کے شکار تھے۔ بعض نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کونسلنگ اور سائکیاٹرسٹ کے علاج سے وہ ان ذہنی پریشانیوں سے تو ابھر چکے ہیں لیکن اس علاج میں ایک اچھی خاصی رقم بھی خرچ کر چکے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے ایک نے بتایا کہ ان کو صرف کونسلنگ تھراپی کے نام پر ہی قریب 60 ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔

وہیں ایک دوسرے شخص نے بتایا کہ زندگی میں ایک لڑکی سے دھوکا کھا جانے کی وجہ سے میں کافی پریشان رہا، جب میرے خود کے حالات بگڑنے لگے تو میں نے سائکیاٹرسٹ سے رجوع کیا، انہوں نے میری کونسلنگ کی اور کچھ دواؤں کے ذریعے مجھے ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ فی الحال میں اس صدمے سے تو ابھر گیا لیکن اس پورے پروسیس میں ایک لاکھ سے زائد رقم خرچ ہو گئی۔ تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ غریب شخص اگر ذہنی بیماری کا شکار ہو گیا تو اپنا علاج کیسے کرا سکے گا۔ ایسے میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک جانب مینٹل ہیلتھ کی خدمات مہنگی ہیں تو دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ فیس ادا کر سکتے ہیں وہ بھی صحیح سائکیاٹرسٹ یا سائیکولوجسٹ تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔

اس معاملے میں بات کرنے پر ایس امین الحسن بتاتے ہیں کہ مینٹل ہیلتھ کے تین طرح کے معاملے ہوتے ہیں۔ پہلا بیہیورل ایشو اور دوسرا ایموشنل ایشو۔ یہ دونوں ایشوز کونسلنگ سے ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ تیسرا نیوریکل ایشو ہوتا، اس میں آپ کو ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کو سائکیاٹرسٹ کے پاس جانا پڑنا ہے۔ سائیکولوجسٹ آپ کے خیالات کو بدلتا ہے، لیکن سائکیاٹرسٹ کیمیکل کے ذریعے آپ کا علاج کرتا ہے۔

مینٹل ہیلتھ کے علاج پر آنے والے خرچ کے بارے میں پوچھنے پر امین الحسن بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں کونسلنگ یا اس سے منسلک دیگر چیزوں کے لیے ریٹ طے نہیں ہے۔ سب کی اپنی من مانی ہے۔ یہاں کے سائیکولوجسٹ کونسلنگ کے لیے پانچ سو روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے فی گھنٹہ چارج کرتے ہیں، بیرونی ممالک کے سائیکولوجسٹ یہی رقم ڈالر میں لیتے ہیں۔

ہیپی نیس انڈیکس میں کہاں ہیں ہم؟

اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ سلوشن نیٹ ورک کی جاری کردہ ورلڈ ہیپینیس رپورٹ 2021 کے 149ممالک کی فہرست میں ہندوستان کا مقام 139 ویں نمبر پر ہے۔ اس معاملے میں افغانستان کو چھوڑ کر ہمارے تمام پڑوسی ممالک ہم سے بہتر حالات میں ہیں۔

بتا دیں کہ ورلڈ ہیپینیس رپورٹ 2021میں جنوبی ایشیائی ملکوں میں نیپال سب سے آگے ہے۔ نیپال 87ویں نمبر پر ہے، تو بنگلہ دیش 101 نمبر پر اور پاکستان 105 ویں نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ میں افغانستان کا مقام آخری ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ماہر نفسیات ایس امین الحسن کا کہنا ہے کہ سماج کے مختلف طبقات و ہر عمر والے افراد کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کا انتظام کیا جائے۔ کونسلنگ سنٹرس (آن لائن) کام کریں۔ بچوں کی صحت مند تفریح کے اختراعی طریقہ ایجاد کیے جائیں۔ لوگوں میں عزم اور حوصلہ پیدا کیا جائے۔ عزم اور حوصلہ زندگی کے مقصد کو متعین کرنے سے آتا ہے۔ لوگوں کو ایک بڑا خواب دیکھنے کی ترغیب دیں، بڑا خواب زندگی کے اعلیٰ مقصد سے آگاہی اور انسان کو حوصلہ دیتا ہے۔ فرد کے اندر قوت، ولولہ اور جوش پیدا ہوتا ہے۔ آخری اور بنیادی بات یہ ہے کہ لوگوں کو رجوع الی اللہ کی تلقین کریں، اللہ سے رشتہ مضبوط کریں، اس پر توکل کریں، قدر پر اپنا عقیدہ پختہ کریں، موت سے گھبرائیں نہیں بلکہ مومن کے لیے موت تو اللہ سے ملاقات کا اعلان ہے۔ موت سے کسی کو فرار نہیں۔ مسلمان کے لیے خوش گوار دن تو وہ ہے جس دن وہ اللہ سے ملاقات کے لیے اس دنیا کو وداع کرتا ہے۔ اس کی بار بار تذکیر ہو۔ اس عقیدے کو مضبوط کیا جائے۔ جن کا انتقال اس وباء سے ہوا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں شہید کا درجہ عطا فرمائے اور ہم پر سے اس وبا کو جلد از جلد ٹال دے۔

مینٹل ہیلتھ پر حکومت کے رویے کے سوال پر ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں ماہر نفسیات ایس امین الحسن کہتے ہیں کہ ملک میں ہیلتھ انفراسٹرکچر کیا ہے یہ تو ہمیں کووڈ کی دوسری لہر میں ہی معلوم ہو گیا ہے، عقلمندی یہ ہے کہ تیسری لہر آنے سے پہلے ملک کے ہیلتھ انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا جائے۔ ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کووڈ کی وجہ سے جو مینٹل ہیلتھ کرائسس آنے والا ہے اس سے کیسے نمٹا جائے۔ اس کے لیے کونسلرز کو تیار کرنا، ان کی ٹریننگ کرنا، آن لائن یا ٹیلی کونسلنگ کے سنٹرز قائم کرنا وغیرہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ حکومت ’نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘ جیسی اہم اسکیم کا بجٹ ہی کم کرتی جا رہی ہے۔ یہ حکومت کی جانب بہت غلط قدم ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021