سیاست ، مجرموں کی جنت کیوں ہے؟

بے داغ عوامی نمائندوں کے انتخاب کے لیے بیداری پیدا کرنے کی ضرورت

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

کہا جاتا ہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، یہاں کے جمہوری نظام میں ہم خود اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ ملک کے نظام کو چلائے یعنی ایک طرح ہم ان کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ملک میں حکمرانی کی ذمہ داریاں ادا کریں، لہٰذا یہ بات اہم اور بہت ضروری ہو جاتی ہے کہ سیاست میں آنے والے اور اس میدان میں کام کرنے والے افراد اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل ہوں ۔ لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملک کی ساری سیاست کو ہی مجرم بنا دیا گیا ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے لیے نہ صرف نقصان دہ ہے بلکہ یہ کیفیت سارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گی۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ ہمارا نمائندہ ایک مجرم ہے۔ ملک کے سیاست دانوں کے اثر و رسوخ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ جتنے بڑے درجہ کے مجرم ہوں گے اتنا ہی ان کی عزت و اکرام میں اضافہ ہو گا۔ سیاسی جماعتیں بھی جرم کی دنیا میں جو جتنا نامور ہو گا اسے ہی ٹکٹ دیتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ انفرادی مجرم سے سیاسی مجرم بن جاتا ہے اور مزید طاقتور بن جاتا ہے اور بعد میں یہی ہمارا قائد اور ہمارا ہیرو بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے آبا و اجداد نے آزادی کے لیے جد وجہد کیا اسی وقت کے لیے کی تھی؟ کیا انہوں نے ایسے ہی ملک کا خواب دیکھا تھا؟ یقیناً ہمارا جواب نفی میں ہو گا لیکن حقیقت یہی ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں ضایع ہو رہی ہیں آج ان کے خواب بکھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مجرمانہ سیاست ہمارے کے لیے دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔
ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ تو کر سکتا ہے لیکن وہ مثالی و شفاف اور جرائم سے پاک نمائندوں کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، کیونکہ انتخابات میں مجرمانہ کردار کے حامل امیدواروں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، چاہے وہ پارلیمنٹ کے امیدار ہوں یا ریاستی اسمبلیوں کے، ان کے خلاف بے شمار فوجداری مقدمات عدالتوں میں زیر دوراں ہیں۔ میلان وشنو نے اپنی مشہور کتاب ’’وین کرائم پیس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’کس طرح ملک کی سیاست میں پیسہ اور طاقت کا استعمال ہوتا ہے‘‘۔ انہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی کہ کس طرح غنڈے اور مافیا ملکی جمہوریت و سیاست کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی سیاست میں انہوں نے اپنی جگہ بنانا شروع کر دی تھی اور اب یہ اس کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔ قانون میں اس بات کی اجازت ہے کہ ایسے افراد جن کے خلاف فوجداری مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں وہ بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کا قانون ایسے افراد پر پابندی عائد نہیں کرتا جن پر سنگین جرائم کے تحت مقدمات درج ہیں۔ حیرت انگیز اور شرمناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ جرم کا ارتکاب کرنے اور اپنے خلاف سنگین مقدمات درج ہونے کے باوجود پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں جنہیں ہم ملک کے اعلیٰ ترین باعزت مقامات تصور کرتے ہیں۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ایسے افراد کو قانون ساز اداروں کا رکن بناتے ہیں جو خود مجرم ہیں یا مجرمانہ کردار کے حامل ہیں۔ اے ڈی آر (ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز) جو ملک میں جمہوری اصلاحات کی کوششیں کرتی ہے اس کا تجزیہ ہے کہ ایسے افراد جن پر فوج داری مقدمات دائر ہیں ان کے کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں بالمقابل ایسے افراد کے جن کا کردارصاف و شفاف ہوتا ہے جو بااخلاق ہوتے ہیں۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیوں مجرمانہ کردار کے حامل سیاستدانوں کا انتخاب کرتے ہیں؟ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ لوگ ان کے خوف سے انہیں ووٹ دیتے ہیں لیکن یہ بات چند لوگوں پر صادق آ سکتی ہے ساری عوام تو خوف سے ووٹ نہیں دیتی پھر کیا وجوہ ہے کہ وہ بہ آسانی جیت جاتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عوام اپنے اپنے مذہبی اور سماجی گروہ کے نمائندے کو ووٹ دیتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا کردار کیا ہے۔ سیاست کو مجرمانہ کرنے میں کئی ایک عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسے پولیس محکمے سیاسی کنٹرول میں رکھنا، بدعنوانی، کمزور قوانین، اخلاقی اقدار کی کمی، ووٹ بینک کی سیاست، انتخابی عملہ کا جانب دارانہ رویہ، قانون کا عدم نفاذ اور الیکشن کمیشن کے کاموں میں بھی جانبداری، کاموں میں سیاسی رکاوٹیں وغیرہ شامل ہیں۔
مجرمانہ سیاست نے اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کرلی ہیں کہ قانون سازی سے لے کر اس کا نفاذ کرنے والے اداروں تک اداروں سے لے کر عدلیہ تک اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر ) کی رپورٹ کے مطابق مجرمانہ کردار کے حامل امیدواروں کا تناسب ۲۰۰۹ میں ۱۵ فیصد تھا جو بڑھ کر ۲۰۱۴ کے انتخابات میں ۱۷ فیصد ہو گیا اور یہ تناسب ہر بار کے انتخابات میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۲۰۱۹ میں ہونے والے انتخابات میں یہ شرح بڑھ کر ۱۹ فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۲۰۱۹ میں انتخابات لڑنے والے تقریباً ۱۳ فیصد امیدواروں پر گھناؤنے جرائم کا الزام ہے جن میں قتل، اقدام قتل، اغوا، عصمت دری اور خواتین کے خلاف دیگر جرائم شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ۲۰۰۹ میں لوک سبھا اراکین میں سے ۳۰ فیصد ممبروں کے خلاف مختلف جرائم کے مقدمات درج تھے اور یہی تعداد بڑھ کر ۲۰۱۴ میں ۳۴ فیصد ہو گئی۔ ۲۰۱۹ کے آتے آتے لوک سبھا کے منتخب ممبروں میں ۴۳ فیصد ارکان پر مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ اس تصویر کا دہشت ناک پہلو یہ ہے کہ ۲۰۱۹ میں منتخب ہونے والے ممبروں میں سے ۲۹ فیصد ارکان نے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا اعلان کیا ہے۔
ریاست اتر پردیش جہاں بی جے پی کی حکومت ہے بی جے پی نے ۲۰۱۷ میں ۳۱۲ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اس کے ۱۱۴ ارکان نے اپنے حلف ناموں میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان پر فوجداری مقدمات درج ہیں ان میں سے ۸۳ ارکان نے تو گھناؤنے جرم میں ملوث ہونے اور ان پر مقدمہ درج ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ گجرات میں ۲۶ فیصد ارکان پر فوجداری مقدمات درج ہیں اور اسی طرح مہاراشٹر اس میں سرفہرست ہے (اے ڈی آر) کے مطابق ۶۲ فیصد (۱۷۶ ایم ایل اے) کے خلاف فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ ۴۰ فیصد ارکان (۱۱۳ ممبران اسمبلی) پر سنگین فوجداری مقدمات درج ہیں۔
یہ بیماری کسی ایک خاص جماعت یا کسی ایک ریاست تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں اور ریاستیں اس بیماری کا شکار ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ مجرمانہ پس منظر کے حامل ارکان کو حکومت کی جانب سے سب سے پہلے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاست کا یہ مجرمانہ پن اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اسے برائی تصور نہیں کیا جانے لگا ہے۔ یہ جمہوریت کے حقیقی تصور کو تباہ کرتا جارہا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت مجرمانہ پس منظر کے حامل افراد کو اپنی جماعت میں شامل کرنے نہ کرنے انہیں سیاست سے دور رکھنے کے اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کو اس خطرے کو روکنے کے لیے کچھ سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے انہیں کچھ ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے مجرم پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہونے کے بجائے کال کوٹھری میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے لیکن ہم بے اختیار بھی نہیں ہیں اور ہم لوگوں یعنی رائے دہندے مل کر یہ کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے اندر یہ شعور ہونا چاہیے کہ ہم ایسے لوگوں کا انتخاب نہ کریں جو مجرمانہ کردار کے حامل ہوں یا جن پر مقدمات ہوں بلکہ ہمیں ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو ہمیں ہمارے حقوق انصاف کے ساتھ دلا سکتے ہوں غیر جانبدار ہوں جو نوٹ کے بدلے ووٹ کے قائل نہ ہوں اور بدعنوان نہ ہوں۔ اگر ہم ایک صاف ستھری جمہوریت چاہتے ہیں تو ہمیں صاف ستھرے اور بد عنوانی سے پاک امیدواروں کا انتخاب کرنا ہو گا اور ساتھ ہی صاف ستھرے انتخابات کے لیے ہمیں جدوجہد بھی کرنی ہو گی۔ انتخابات کے دوران ہمیں چوکس رہنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ کوئی بدعنوانی نہ کر سکے۔ اگر سیاسی جماعتیں مجرمانہ پس منظر کے حامل افراد کو یا مجرموں کو روکنے میں ناکام ہوتی ہیں تو عدالتوں کو چاہیے کہ مجرموں کو اور ایسے افراد کو سیاست میں داخل ہونے پر روک لگائے جن پر الزامات ہوں اور انہیں انتخابات لڑنے سے روک دیاجائے۔
***

مجرمانہ سیاست نے اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کرلی ہیں کہ قانون سازی سے لے کر اس کا نفاذ کرنے والے اداروں تک اداروں سے لے کر عدلیہ تک اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر ) کی رپورٹ کے مطابق مجرمانہ کردار کے حامل امیدواروں کا تناسب ۲۰۰۹ میں ۱۵ فیصد تھا جو بڑھ کر ۲۰۱۴ کے انتخابات میں ۱۷ فیصد ہو گیا اور یہ تناسب ہر بار کے انتخابات میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۲۰۱۹ میں ہونے والے انتخابات میں یہ شرح بڑھ کر ۱۹ فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021