خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

یہ دھرم پردھان دیش ہے
دنیا میں بھارت کو ’’دھرم پردھان‘‘ دیش کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے زیادہ تر لوگ دھارمک یا مذہبی ہیں۔ دھرموں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔ مذہب در مذہب کا سلسلہ بہت دراز ہے۔ عقائد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ شیڈولڈ ٹرائبس کی تعداد تو شاید ہزاروں میں ہے۔ برہمن (آر ایس ایس) ان سب کو ہندو قرار دیتا ہے۔ پہاڑوں، جنگلوں اور الگ تھلگ رہنے والے قبائلیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون انہیں کیا کہتا ہے۔ آر ایس ایس کے اندر ایک گروہ وہ ہے جو چاہتا ہے کہ جس طبقے کو اس نے ہندو قرار دے دیا ہے وہ بھی خود کو علانیہ ہندو کہے لیکن بعض طبقے ہیں جو خود کو ہندو نہیں کہتے اور ہندو کہے جانے پر سخت اعتراض کرتے ہیں۔ مثلاً دلت لیڈر وامن میشرام وغیرہ۔ کچھ طبقات ہیں جنہوں نے خود کو باقاعدہ اور قانوناً ہندو دھرم سے علیحدہ ایک اقلیت قرار دیا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک ہے جین دھرم ہے لیکن وہ اس علیحدگی کا پرچار نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس ہندو دھرم کے تمام کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ مگر ہندوؤں کے لیے یہ شاید کافی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جین برادری خود کو علی الاعلان ہندو کہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آج کل مغربی یو پی کے کیرانہ، کاندھلہ اور شاملی قصبات میں انوپ منڈل نام کا ایک گروپ جینیوں کے خلاف سرگرم مہم چلا رہا ہے۔
جین دھرم کی پریشانی
اس علاقے میں جین برادری کافی پریشان ہے۔ اس نے کاندھلہ تھانے میں شکایت درج کرا رکھی ہے۔ وہ لوگ انوپ منڈل پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہاں یہ وہی علاقہ کیرانہ ہے جہاں چند سال قبل بی جے پی کے ایک لیڈر نے شوشہ چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کے خوف سے ہندو پریوار گھر بار چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کچھ دن میڈیا نے بھی اسی جھوٹ کو گرم رکھا تھا۔ کچھ دن بعد اس لیڈر کی موت واقع ہو گئی۔ بی جے پی نے اس کی بیٹی کو لوک سبھا کا ٹکٹ دیا، مگر ہار گئی، اس کے ساتھ ہی افواہ نے بھی دم توڑ دیا۔ جین برادری کے خلاف تازہ مہم سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہر جگہ کچھ شرارت پسند ہوتے ہیں جن کا مشغلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی کے خلاف کچھ نہ کچھ کرتے رہیں۔ شرارت اور مکر وفریب ان کے رگ و ریشے میں پیوست ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جین برادری عقائد کے لحاظ سے ہندو دھرم سے بالکل مختلف ہے۔ ماضی میں اُن لوگوں نے جنہوں نے سرزمین ہند سے گوتم بدھ کے دھرم کو تباہ وبرباد کیا تھا جین دھرم کے خلاف بھی بہت کچھ کیا تھا مگر چونکہ جین برادری تجارت پیشہ ہے، کاروبار میں بہت آگے ہے، اس لیے اس نے ہندو دھرم کی تیسری ذات ویش کا درجہ قبول کر لیا۔ اب ان کا مخالف طبقہ غالباً یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے رسوم و رواج ویش ذات کے مطابق کر لیں۔
یہ لوگ کیا چاہتے ہیں
ویسے ابھی نہیں معلوم کہ جین برادری کے خلاف انوپ منڈل کی حقیقت کیا ہے، اس نے یہ مہم کیوں چھیڑ رکھی ہے۔ اسے جین فرقے سے کیا شکایت ہے۔ مین اسٹریم میڈیا نے بھی اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا لیکن بہرحال حقیقت یہ ہے کہ بھارتی سماج یعنی انڈین سوسائٹی میں کچھ طبقات ہیں جو شرارتوں کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ موجودہ مرکزی وزیر داخلہ خود جین برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اگر کیرانہ کی خبر میں کچھ بھی صداقت ہے تو حقیقت حال سامنے آنی چاہیے۔ جین فرقے میں دو بڑے گروپ ہیں۔ دگمبر جین اور دیشمبر جین۔ راجستھان وغیرہ میں ان میں آپس میں بھی کشمکش رہتی ہے۔ باہمی کشمکش اور اختلافات تقریباً تمام مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اک سنگھٹن ایک نان ریلیجن کو ریلیجن قرار دے کر چاہتا ہے کہ تمام دھرم اسی کے تحت چلیں۔ جین دھرم نے خود کو اقلیت اس لیے قرا دے لیا کہ اس کے خیال میں اقلیتی مذاہب کو بہت ساری سرکاری سہولتیں حاصل ہیں۔ جین مت چیریٹی کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور سرکار سے ٹیکس کی سہولت حاصل کرتا ہے۔ انوپ منڈل جیسے گروپ حقیقتاً کیا چاہتے ہیں یہ سرکاری سطح سے عوام کو معلوم ہونا چاہیے ورنہ غلط فہمیاں اور شکوک وشبہات پھیلائے جاتے رہیں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021