یوپی:ناکامیاں چھپانے اوچھی بیان بازی

ہندو ووٹروں کو متحد کرنے ’ابا جان‘ کاشوشہ چھوڑاگیا

جیسے جیسے یوپی میں انتخابات قریب آرہے ہیں ، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اپنی حکومت کی کوتاہیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سماج میں فرقہ وارانہ صف بندی کی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے یوگی ادتیہ ناتھ نے اس بار ‘ابا جان’ کا شوشہ چھوڑدیا ہے۔ ابا جان سے ان کی مراد کیا ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ یہ وہ ترکیب ہے جسے مسلمان پیار سے اپنے والد کو پکارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ یوپی کے کشی نگر میں ایک پروگرام میں وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’ پی ایم مودی کی قیادت میں منھ بھرائی کی سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’ کیا آپ سب کو راشن ملتا ہے ؟ جب مجمع میں سے کچھ لوگوں نے مثبت جواب دیا تو رد عمل کے طور پرانہوں نے کہا کہ 2017 سے پہلے یہ راشن ’ابا جان‘ کہنے والےہضم کر جاتے تھے۔ یوگی نے پی ایم مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے ملک کا سیاسی ایجنڈا مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ یوگی نے کہا کہ’’1947 میں شروع ہونے والی سیاست ذات ، مذہب ، علاقے اور زبان ، خاندان اور نسب تک محدود تھی پی ایم مودی نے اسے دیہات ، غریبوں ، کسانوں ، نوجوانوں ، عورتوں اور بچوں تک پہنچایا ہے۔‘‘
اس بیان پر سوشل میڈیا پر صارفین نے شدید تنقید کی ہے۔ لوگ یوگی ادتیہ ناتھ کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے بیانات کی مذمت کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پر اس کی سخت مذمت کی ہے ۔ عمر عبداللہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ بی جے پی کے پاس مسلمانوں کے خلاف کھلے عام نفرت کا اظہار کرنے کے علاوہ انتخاب لڑنے کوئی سیاسی ایجنڈا ہی نہیں ہوتا ہے ۔ایک وزیر اعلیٰ کھلے عام الزام لگا رہا ہے کہ راشن مسلمان کھا گئے ۔
لوگوں کا خیال ہے کہ یوگی کا یہ بیان انڈین ایکسپریس اخبار میں حالیہ اشتہار سے پیدا ہونے والے تنازعہ سے توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہو سکتی ہے۔ انڈین ایکسپریس کے پہلے صفحے پر شائع ہونے والے اشتہار میں یوگی کے دور حکومت میں یوپی میں ہوئی ترقی کو دکھانے کے لیے کولکتہ کے فلائی اووَر کی تصویر استعمال کی گئی تھی اس اشتہار سےبھی ان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہوا تھا ۔ جواب میں سوشل میڈیا پر لوگوں نے دنیا کے مختلف ترقی یافتہ شہروں کی خوبصورت تصویروں کو یو پی کی تصویریں بتا کر یوگی ادتیہ ناتھ کا خوب مذاق اڑایا تھا ۔
اس اشتہار کی اشاعت کے بعد شدید تنقیدوں کے گھیرے میں آئے یوگی ادتیہ ناتھ کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔شدید تنقید کے بعد انڈین ایکسپریس نے معافی مانگ لی تھی۔ انڈین ایکسپریس نے معافی مانگتے ہوئے لکھا ’’اتر پردیش حکومت کے ایک اشتہار میں نادانستہ طور پر ایک غلط تصویر شامل کی گئی تھی۔ غلطی پر دل سے معذرت، تصویر کو اخبار کے تمام ڈیجیٹل ایڈیشنز سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ ریاست میں اگلے سال ہونےوالے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر دراصل یوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی میں اقتدار برقرار رکھنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا ہے جنہیں اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی ، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور کانگریس کی طرف سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔
گزشتہ چار ماہ قبل مئی میں اتر پردیش میں ہوئے پنچایت کے انتخابات میں بی جے پی کو بڑا دھکا لگا ہے۔ پوری طاقت جھونک دینے اور پارٹی کی کئی اعلیٰ سطحی میٹنگوں اور اعلیٰ قیادت کے ساتھ حکمت عملی طے کرنے کے بعد بھی بھاجپا کو کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ ضلع پنچایت اور علاقائی پنچایت نشستوں پر اتنی توجہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ بی جے پی کو تمام ضلع پنچایتوں کے کلیدی عہدوں پر بٹھایا جا سکے ۔ چونکہ بہت بڑے بجٹ کے ساتھ ضلع میں تمام ترقیاتی کاموں کی نگرانی پنچایت کرتی ہے۔ اس لیے بھی انہیں پنچایت پر توجہ دینا ضروری تھا مگر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ان کے ہاتھ زیادہ کچھ نہیں لگا اور پنچایت انتخابات میں شکست کے باعث بی جے پی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔اب جبکہ اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے پارٹی ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے جد و جہد کر رہی ہے جو ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
بعض ذارئع سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ بی جے پی ریاست میں دوبارہ اقتدار حاصل نہیں کر سکے گی۔ لوگوں میں حکومت کی ناکام طرز حکومت پر جو غصہ ہے اس کی وجہ سےآزاد امیدوار بی جے پی کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بی جے پی کو 3050 پنچایت نشستوں میں سے صرف 918 نشستیں ملی تھیں۔
بی جے پی کی گھٹتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پارٹی کو ایودھیا ، متھرا اور کاشی جن کے نام پر بی جے پی ہمیشہ سیاست کرتی آئی ہے وہاں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی ہے۔ بی جے پی نے ایودھیا میں 40 میں سے صرف 6 ضلع پنچایت نشستیں جیتی ہیں۔ ہندوتوا کا گڑھ سمجھے جانے والے ایودھیا میں بھی بی جے پی کو بڑا دھکا لگا ہے۔‌ اسی طرح متھرا میں بھی بی جے پی کو دھکا لگا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی کو یہاں صرف سات سیٹیں ملی ہیں۔ بی جے پی کو مشرقی اور مغربی اتر پردیش دونوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2017 کے فسادات کے بعد مظفر نگر فرقہ پرستی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرقہ وارانہ دوریاں پیدا ہوئیں لیکن کسانوں کی تحریک کی وجہ سے یہ بڑی حد تک کم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مغربی یو پی میں ہندو مسلمانوں میں بھائی چارہ پیدا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس علاقے میں ہار گئی ہے۔ شکست کے ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ ووٹروں کو ہندو-مسلم کے خانوں میں بانٹنے اور سیاسی ماحول گرم رکھنے کے لیے آنے والے دنوں میں ’ ابا جان ‘ جیسے مزید نعرے اچھالےجا سکتے ہیں ۔
(اشفاق الحسن۔ انڈیا ٹومارو۔ترجمہ و تلخیص: سالک ندوی)

 

***

 ’ابا جان‘ پر کور اسٹوری کا منصوبہ مہنگاپڑا
’اوٹ لک‘ کے گروپ ایڈیٹر ان چیف برخاست
میڈیا پر سرکاری دباؤ کی کئی مثالیں اب تک سامنے آ چکی ہیں ۔ جن صحافیوں نے سرکار کی چاپلوسی کرنے کی بجائے حق و صداقت کی آواز بلند کی ان پر ہمیشہ ہی شکنجہ کسا گیا ہے ۔ تازہ معاملہ ’ آؤٹ لک ‘ میگزین کے گروپ ایڈیٹر ان چیف روبن بنرجی کے ساتھ پیش آیا جنھوں نے 33دنوں کی چھٹی کر کے دفتر آنے کے بعد سینئر ایڈیٹرز سے اگلی کور اسٹوری کے لئے’ اباجان اوریوگی‘ پر اسٹوری کرنے کو کہا جس کے محض دو گھنٹے بعد ہی انہیں نوکری سے برخاست کردیا گیا۔ کمپنی کےچیف ایگزیکٹیو اندر نیل رائے نے انہیں بے ضابطگی کے الزام میں کام سے نکال دینے کی بات کہی ہے ۔روبن بنرجی کا کہنا ہے کہ پریشانی میگزین کی مواد کو لے کر ہوئی تھی۔ ہم جس طرح کے مواد شائع کررہے تھے ، انتظامیہ اس سے خوش نہیں تھا۔ انہوں نے پیگاسس وغیرہ پر شائع مواد کی مثالیں دیں۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک میں ان دنوں کس طرح سرکاری مفادات کو ٹھیس پہنچانے والی میڈیا کی آواز کو دبایا جا رہا ہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021