’’شہید صحافی مولوی باقر ملک کے لیے ہمیشہ ہیرو رہیں گے‘‘

دلی پریس کا پہلے شہید ایڈیٹر کے اعزاز میں سالانہ تقریب و ایوارڈ کا اعلان

(دعوت دلی بیورو)

ملک کے ناموروں نے جنگ آزادی میں مسلم صحافت کے کردار پر روشنی ڈالی
1857ء کی جدوجہد آزادی کے شہداء میں ایک صحافی ایڈیٹر کا نام سب سے اوپر درج ہے جنہیں انگریزوں نے گرفتار کیا اور بغیر کوئی مقدمہ چلائے قتل کر دیا۔ جدوجہد آزادی کے اس پہلے شہید صحافی کا نام مولوی محمد باقر ہے۔ ان کی 164 ویں برسی کے موقع پر پریس کلب آف انڈیا میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں پریس کلب آف انڈیا کے ممبرز جے شنکر گپتا، پریس کلب آف انڈیا کے اوماکانت لکھیڈا، اروند کمار سنگھ، اے یو آصف، ستیش جیکب، اعجاز احمد اسلم، میم افضل، ایس کے پانڈے، کئی سینئر ایڈیٹرز، صحافی اور ادیبوں نے مولوی محمد باقر کو یاد کیا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر مولوی باقر میموریل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ پی سی آئی نے ہر سال 16 ستمبر کو شہادت کے موقع پر خصوصی پروگرام اور ’’شہید مولوی باقر‘‘ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی سی آئی دنیا کا سب سے بڑا پریس کلب ہے۔ پریس کلب آف انڈیا کا یہ بڑا قدم موجودہ حالات میں قابل تعریف ہے۔
کئی سینئر ایڈیٹرز اور مصنفین نے مولوی محمد باقر کی جدوجہد ،صحافت اور ملکی خدمت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔
اس پروگرام میں اعجاز احمد اسلم نے بحیثیت ایڈیٹر "Radiance” اور ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے بحیثیت ایڈیٹر ’’افکار ملی‘‘ شرکت کی اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔
اعجاز احمد اسلم نے کہا کہ مولوی محمد باقر کی اپنے اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ میں 1857 کے واقعات کی رپورٹنگ آزاد اور بے باک صحافت کی اعلیٰ مثال اور 1857 غدر کی مکمل تحریک ہے جس میں انہوں نے اپنی جان دے دی۔ قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ان کی صحافت نے دراصل ظالم انگریز حکمرانوں کے ظلم کو اجاگر کیا جوکہ آج بھی اس وقت کو جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔
مولوی محمد باقر 1780میں دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دلی کالج میں تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے محکمہ ریوینیو میں تحصیلدار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اس کے علاوہ دلی کالج میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ لیکن انہوں نے اپنا مقصد صحافت اور ملک کی خدمت بنایا اور ملک کی خدمت کرتے ہوئے ہی ان کو شہادت ملی۔ جنوری 1837 میں مولوی محمد باقر نے اردو ہفتہ وار ’’دہلی اخبار‘‘ شروع کیا، یہ اخبار 21 سال تک جاری رہا جس کے دوران اس کا نام دو بار تبدیل کیا گیا۔ 3 مئی 1840 کو اس کا نام تبدیل کرکے ’’دہلی اردو اخبار‘‘ رکھا گیا جبکہ 12 جولائی 1857 کو دہلی اردو اخبار کا نام بدل کر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے نام پر ’’ اخبر الظفر ‘‘ رکھ دیا گیا۔ اس کے آخری دس شمارے اسی نام کے ساتھ شائع ہوئے۔ دہلی اردو اخبار قوم کے جذبات کا داعی تھا۔اخبار نے عوام میں سیاسی بیداری لانے اور انہیں غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اخبار نے آزادی کی شمع کو روشن کیا اور برطانوی راج کے خلاف ریلی نکالنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ 1857 کی پہلی آزادی کی جدوجہد کے آغاز کے فوراً بعد وہ خود ایک جنگجو بن گیا۔ 10 مئی 1857کو میرٹھ میں بھڑکنے والی آزادی کی آگ نے مجاہدین کو 11 مئی تک دہلی پہنچنے میں مدد دی۔مولوی محمد باقر ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے۔ جب آزادی کی جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے انگریزوں نے عوام میں اختلاف کا بیج بونا شروع کیا تو دہلی اردو اخبار نے انہیں چیلنج کیا اور لوگوں کو نوآبادیاتی حکمرانوں کے ہتھکنڈوں کے خلاف خبردار کیا۔ مولوی محمد باقر کے ان تمام اقدامات نے انگریزوں کو غضبناک کر دیا چنانچہ انہوں نے انہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
4 جون 1857 کو مولوی محمد باقر نے عوام کو انگریزوں کی سازشوں سے خبردار کیا اور عوام سےمتحد رہنے کی اپیل کی۔ مولوی محمد باقر کو 14ستمبر 1857 کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بغیر مقدمہ چلائے انہیں 16 ستمبر 1857 کو میجر ولیم ایس آر ہڈسن (William S.R. Hudson) نے گولی مار دی۔ اس طرح مولوی محمد باقر پہلےایڈیٹر بن گئے جنہوں نے اپنی جان ہندوستان کی آزادی کے لیے قربان کر دی۔جنگ آزادی میں صرف ہندو ہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی اپنی قربانیاں دیں۔ بے شمار حریت پسند مسلمانوں نے ہندوستان کو برطانوی راج سے آزادی دلانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جنگ میں تمام مذاہب کے لوگوں نے حصہ لیا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نام صرف تاریخ کے صفحات پر ہیں۔ سیکر وہ سرزمین ہے جہاں کبھی بھی ہندوؤں اور مسلمانوں میں دشمنی نہیں پیدا ہوئی۔ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر آزادی کی جنگ لڑی۔
‏انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز "نواب سراج الدولہ” جنگ آزادی کا پہلا شہید جس نے میدان میں انگریزوں کے چھکے چھڑا دیے لیکن اپنے مشیرِ خاص کی غداری سے مارا گیا۔ شیرِ میسور ٹیپو سلطان، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت سید احمد شہید، مولانا ولایت علی صادق پوری، ابو جعفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر، علامہ فضل حق خیرآبادی، شہزادہ فیروز شاہ،مولوی محمد باقر شہید،بیگم حضرت محل،مولانا احمد اللہ شاہ،نواب خان بہادر، عزیزاں بی، شاہ عبدالقادر لدھیانوی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام جیسے جانبازوں کی فہرست کافی لمبی ہے، سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔
ان تمام مشہور شخصیات کے علاوہ لاکھوں دوسرے مسلمانوں نے جنگ آزادی میں سب کے ساتھ اپنا خون بہایا ہے۔ تاریخ داں مہاویر پروہت کہتے ہیں کہ سیکر میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر ہمیشہ ملک کی آزادی کے ساتھ اتحاد اور سالمیت کے لیے کام کیا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021