مسلمان معیاریتعلیم کےحصول کو ترجیح دیں

ملّت کو ملک کی تعمیر میں رول ادا کرنے کے لائق بنائیں

محمد نوشاد خان

سرسید تعلیمی انقلاب مشن کے روح رواں حاجی نسیم الدین سے انٹرویو
حکومت اترپردیش کے سبکدوش افسر وماہر تعلیم حاجی نسیم الدین معیاری تعلیم کو گھر گھر عام کرنے کے مقصد سے 2011 میں قائم کردہ سرسید ایجوکیشنل ریوولوشن (تعلیمی انقلاب) مشن کے بانی صدر نشین ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مسلم امت کے اندر تعلیم کی قدر میں اضافہ ہوا ہے لیکن اسے معیاری تعلیم کی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ مقدار تعلیم سے صرف ہماری شرح خواندگی بڑھے گی یا روزگار فراہم ہوگا لیکن ملت صحیح معنوں میں اسی وقت ترقی کر سکتی ہے اور اثاثہ بن کر ملک کی تعمیر میں تعاون کر سکتی ہے جب اسے معیاری تعلیم فراہم ہو۔ حاجی نسیم الدین نے کہا کہ اتر پردیش کے محکمہ دیہی ترقی میں بطور افسر انہوں نے دیہی علاقوں میں غریب، کمزور اور مراعات سے محروم طبقات کو دیکھا تو انہیں خیال ہوا کہ تعلیم کے شعبے میں ابھی بہت سا کام باقی ہے اور سماج صرف تعلیم کے ذریعے ہی تبدیل ہو سکتا ہے۔ اگر تعلیم کے میدان میں کام نہ کیا جائے تو ملت کی صورتحال بد سے بدتر ہو گی اور وہ ہر شعبہ میں پچھڑتی چلی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ 27 مارچ 1898 کو سر سید احمد خان کی وفات کے بعد علی گڑھ تحریک نے اپنی رفتار کھو دی تھی۔ اگر یہ تحریک مطلوبہ روح کے ساتھ اگر آج تک جاری رہتی تو اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کا فیصد اسّی سے زیادہ ہوتا۔ آج نہ صرف علی گڑھ تحریک کو نئی زندگی دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں ملک کے ہر گھر تک پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ سرسید تعلیمی انقلاب مشن کے آغاز کے بعد ہمیں جو تعاون حاصل ہورہا ہے وہ اطمینان بخش ہے لیکن ابھی راستہ کافی طویل ہے اور اس سمت میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے صرف نام کے لیے ہیں۔ آج ہمارے پاس دلی پبلک اسکول، ڈان باسکو، سینٹ جوزف، جیسے معیاری اسکول نہیں ہیں۔ سرسید تعلیمی انقلاب مشن کے تحت ہم ہندوستان کے مختلف حصوں میں معیاری اسکول قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہمار منصوبہ ہے کہ ہندوستان بھر میں 313 معیاری اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں غریب طلبہ کے لیے کوئی فیس نہیں ہو گی بلکہ صرف امیر طلبہ سے فیس لی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان اسکولوں کو نفع اور نقصان کی پروا کیے بغیر چلائیں گے۔ اس سوال پر کہ آیا ان اسکولوں کے قیام کے لیے کوئی متعینہ وقت یا کوئی نشانہ مقرر ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبہ کا گزشتہ سال آغاز کیا گیا اور ہمارا ہدف آئندہ پانچ برسوں کا ہے۔ کئی مقامات پر ہم نے اراضیات کی نشاندہی کی ہے۔ دیگر کئی مقامات پر یہ کام جاری ہے۔ یہ اسکول متعلقہ علاقوں کے عوام کی شراکت سے قائم ہوں گے۔
اس سوال پر کہ شعبہ تعلیم کی کونسی چیز آپ کو افسردہ اور کونسی چیز خوش کرتی ہے؟ حاجی نسیم الدین نے کہا ’’مسلمانوں نے دل وجان سے جس شعبہ سے بھی وابستگی اختیار کی اس میں شاندار مظاہرہ کیا ہے۔ اگر والدین مکمل ذمہ داری کے ساتھ اپنے بچوں پر توجہ دیں تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ وقت پڑنے پر والدین اپنے بچوں کو مالی تعاون تو فراہم کرسکتے ہیں لیکن وہ نفسیاتی توجہ دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کتنے والدین اپنے بچوں سے کہیں گے کہ وقت پر ٹی وی دیکھیں یا حسب ضرورت دیکھیں۔ جب خود ان کا اپنا منصوبہ نہیں ہوتا تو وہ اپنے بچوں سے کیا کہیں گے۔ والدین کو ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جو ان کے بچوں کے لیے حصول تعلیم میں مددگار ثابت ہو سکے۔ مجھے اس وقت خوشی محسوس ہوتی ہے جب مسلم طلبہ ترقی کرتے ہیں لیکن میرے لیے یہ بات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ والدین ان دنوں زیادہ پیسہ، جہیز، شادیوں کی تقاریب اور سماجی چیزوں پر خرچ کرتے ہیں لیکن مطلوبہ طریقہ پر اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ نہیں کرتے۔ ہماری ملت میں پیسہ کی کمی نہیں ہے لیکن مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ مساجد کی تعمیر کے لیے کبھی پیسے کی قلت نہیں ہوتی لیکن اچھے اور معیاری اسکولوں کے قیام کے لیے پیسہ کم پڑ جاتا ہے۔ مسجد کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن ملت کو تعلیم اور معیاری اسکولوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ آج تمام علماء کرام اور ہر مکتب فکر کی یہ رائے ہے کہ ملت کو جدید تعلیم اور عصری ٹکنالوجی کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔ اس کام کے بغیر ملت ترقی نہیں کر سکتی اور جب ترقی نہیں ہو گی تو خوشحالی بھی نہیں آئے گی۔ جب تک ٹکنالوجی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی انہوں نے دنیا پر حکومت کی۔ بارہویں اور چودھویں صدی تک علم کے صرف دو مراکز تھے ایک ہسپانیہ میں اور دوسرا بغداد میں۔ اسی دور میں زیادہ تر اختراعات اور دریافتیں مسلمانوں نے کیں۔ اسرائیلی ریاست اپریل 1949 میں قائم ہوئی اس وقت یہودیوں نے دنیا بھر سے سو کروڑ ڈالر اکٹھا کیے اور یہودی مذہبی پیشوا (ربی) کو بہترین عبادت گاہ بنانے کے لیے دیے تو اس نے کہا کہ اس رقم کا ایک حصہ تعلیم کے لیے مختص کریں اور دوسرا حصہ مستقبل میں استعمال کے لیے محفوظ رکھیں کیونکہ ہم عبادت کسی بھی جگہ کر سکتے ہیں۔ پھر اس نے تعلیم کے لیے مختص رقم سے کتب خانے، کالجس اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کی ہدایت دی۔ آج اسرائیل کی اعلیٰ تعلیم میں شرح خواندگی 98.2 فیصد ہے جبکہ عیسائیوں میں چالیس فیصد، ہندووں میں گیارہ فیصد اور مسلمانوں میں محض دو فیصد ہے۔ ہمیں اس تناسب کو نہ صرف بڑھانا ہے بلکہ قابل لحاظ حد تک اضافہ بھی کرنا ہے۔ حاجی نسیم الدین کہتے ہیں مسلمانوں میں تعلیمی تناسب کو اسّی فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے اس ضمن میں سرسید تعلیمی انقلاب مشن جتنا ممکن ہو سکے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مسلمانوں کے اندر تعلیم کا حجم بڑھا ہے لیکن معیاری تعلیم کی ضرورت ماضی میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرسید تعلیمی انقلاب مشن کا ایک اور اہم مقصد ان طلبہ کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے جنہوں نے گریجویشن تو کیا ہے لیکن مالی موقف ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے قاصر ہیں۔ سرسید تعلیمی انقلاب مشن آئی اے ایس بننے کے خواہاں معاشی طور پر کمزور طلبہ کو مفت کوچنگ فراہم کر رہا ہے۔ ان سے صرف maintenance fees ہی لی جاتی ہے۔ نیز ایسے طلبہ جو یتیم ہو گئے یا جن کی سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں تو مشن کے ذریعے ان کی خوراکی اور دیگر ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال مشن نے NEET/JEE اور IIT کی کوچنگ شروع کی ہے اور ہندوستان میں چالیس مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں ٹسٹ لیا جائے گا۔ توقع ہے کہ ان مراکز سے تقریباً چھ سو طلبہ نکلیں گے جنہیں تمام سہولتوں کے ساتھ کوچنگ اور ہاسٹلس کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں حاجی نسیم نے کہا ’’ہم ہر گھر تک اپنے مشن کے ذریعے تعلیم کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ریاستی اور ضلعی کوآرڈینیٹرس مقرر کیے ہیں حتیٰ کہ موضع اور تحصیل کی سطح پر بھی یہ کام کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد تمام اہم پروگراموں کو ضلع اور دیہاتوں کی تک پہنچانا ہے۔ تعلیمی بیداری پروگرامس بھی ان کوآرڈینیٹرس کی مدد سے ہر جگہ پہنچنے چاہئیں۔ ہم ان سب لوگوں سے اپیل کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں کہ وہ کوششوں میں ہمارا ساتھ دیں اور مشن کے ویژن کو آگے بڑھائیں۔
اس سوال پر کہ اتر پردیش اسملی انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں کیا آپ کے خیال میں عوام کو سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے منشور میں تعلیم کو ترجیح دیں اور جب منتخب ہو کر اقتدار میں آئیں تو اپنا وعدہ پورا کریں؟ انہوں نے کہا کہ یقیناً ایسا ہونا چاہیے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو اہمیت دیں۔ آج تک تعلیم کے لیے مختص بجٹ اتنا نہیں ہے جتنا کہ درکار ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے لہٰذا حکومت اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو سب سے اوپر رکھیں۔
(انٹرویو نگارانگریزی رسالہ ریڈیئنس ویوز ویکلی سے وابستہ ہیں)
***

 

***

 ہم ہندوستان کے مختلف حصوں میں معیاری اسکول قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہمار منصوبہ ہے کہ ہندوستان بھر میں 313 معیاری اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں غریب طلبہ کے لیے کوئی فیس نہیں ہو گی بلکہ صرف امیر طلبہ سے فیس لی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان اسکولوں کو نفع اور نقصان کی پروا کیے بغیر چلائیں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021