وجود ،کہیں بوجھ نہ بن جائے!

ڈانٹ ڈپٹ پر ہی یقین رکھنے والوں کے لیے غور و فکر کے کچھ پہلو

برھان احمد صدیقی

روشن دان اس تاریک کمرے میں اس کا تنہا ساتھی تھا۔ ہاتھوں میں ہتھکڑی نہیں تھی۔ پیر اس کا بوجھ اٹھا رہے تھے البتہ جیل کی چہار دیواری نے اسے قید کر رکھا تھا۔ وہ اپنی سزا کا ایک ایک دن بڑی بے صبری سے کاٹ رہا تھا ۔ہر پل وہ اپنے بچے کو یاد کرتا، یہ سوچ کر سہم جاتا کہ کہیں کوئی اس پر زیادتی نہ کررہا ہو۔ اس کی بیوی نے مجبوراً پڑوس میں کام شروع کردیا تھا۔ ہر پل اسے فکر رہتی کہ گھرکی مالکن کا نہ جانے اس کی بیوی کے ساتھ کیسا رویہ ہوگا؟ خیالات ہی اس کی مجلس کے شرکاء تھے۔ ان ہی سے سرگوشیوں میں اس کے ایام گزر رہے تھے۔
صبح نمودار ہوئی۔ باہر سے آنے والی روشنی میں ایک سایہ نظر آرہا تھا جس کا تعاقب کرتے نظریں اوپر اٹھیں۔ روشن دان پر کچھ لٹک رہا تھا۔ غور سے دیکھنے پر احساس ہوا کہ سانپ کی کیچلی ہے جسے اتار کر وہ چل دیا ہے، اب وہ اس کیچلی سے آزاد تھا۔ سانپ اسے اتار کر ایسا چل دیا کہ اب اسے نہ اس کی ضرورت ہے نہ اس کی پروا۔ اس کیچلی سے اب وہ بالکل آزاد تھا۔
وہ اس کیچلی کو دیکھتا اپنے بدن کو ٹَٹول رہا تھا ’’کاش میں بھی اپنے وجود کو یہیں اتار کر آگے بڑھ سکتا‘‘ آہ! اس وجود کا بوجھ اب اذیت دیتا ہے، خودی سے فرار تلاش کرتا ہے۔ یہ وہی تھا جس کی پیدائش پر ابا نے محلے بھر میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔ امیر تو وہ نہیں تھے ہاں! مگر اپنے بچے پر جان ضرور نچھاور کرتے تھے ۔محنت ومشقت سے گھر چلا رہے تھے نہ محنت کُشا زندگی کا شکوہ تھا نہ غربت کو عیب سمجھتے تھے۔ محنت مزدوری کرکے رزق حلال کماتے تھے۔ اپنے بچے کو بھی شریفانہ زندگی کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد وہ بھی اپنے والد کی طرح مطمئن زندگی جی رہا تھا۔ خواہشات کم تھیں غلط عادتیں نہ تھیں اس لیے اس کی کمائی اس کے لیے کافی تھی۔ ہاں! عزت نفس کے معاملے میں بڑا حساس تھا۔ ہر ایک سے عزت کے ساتھ پیش آتا تھا اور دوسروں سے بھی یہی توقع کرتا تھا کہ وہ اس کی عزت کا خیال رکھیں، کم سے کم ذلیل تو نہ کریں۔
بھلا اس کے ان جذبات کی پروا کون کرتا۔ اگرچہ وہ اپنا کام بہت محنت سے کرتا تھا تب بھی انجینئر اس پر چیخنے چلانے سے باز نہیں آتا تھا۔ یا تو گالی دے کر یا ناشائستہ القاب ہی سے وہ اسے پکارتا تھا۔ سنا ہے سماج میں اس کی عزت تھی۔ انجینئر صاحب! کے نام سے اسے لوگ جانتے تھے لیکن نہ جانے کیوں وہ یہی عزت ان مزدورں کو دینے کا قائل نہ تھا۔ وہ اپنے اسی تیور میں تھا جب مزدور کا بیٹا کھانا لے کر اپنے باپ کو دینے آیا اور بیٹے سے ابھی چند ایک بات ہی کی ہو گی کہ انجینئر نے آنکھیں دکھاتے ہوئے گالم گلوج شروع کردی۔ یوں تو وہ انجینئر کی بدکلامی کو ہمیشہ نظر انداز کرتا آیا تھا لیکن آج ضبط نہ کرسکا۔ اپنے بیٹے کے سامنے یوں رسوائی برداشت نہ ہوسکی۔ ہاتھ میں جو کدال تھی وہی انجینئر کو دے ماری۔ بغیر اس کی پروا کیے کہ انجینئر کو کتنی چوٹ آئی وہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہوا: مُنا! میری طرح کمزور مت بننا، سماج میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا کیوں کہ یہ سماج غریب کو کمزور اور شریف کو بزدل سمجھتا ہے اور ہاں تو ان جیسا بھی نہ ہو جانا۔
یوں ایک جفاکش مزدور سلاخوں کے پیچھے چلا گیا جہاں اسے اپنا وجود آج بوجھ لگ رہا تھا جسے وہیں اتار کر آگے بڑھ جانا چاہتا تھا۔ اس نے ہمت یکجا کی تھی، عزت نفس کی پاسداری نبھائی تھی، شاید اس کا طریقہ غلط تھا۔ وہ کہا کرتا تھا میں نے کتنا بڑا جرم کیا؟ بات یہاں سے شرو ع نہیں ہوتی ہے بلکہ میں نے جرم کیوں کیا؟ یہ نقطہ آغاز ہے۔ میں نے پلٹ کر جواب دیا ورنہ سماج میں خاموش ظلم کو برداشت کرنے والے بازاروں میں بھی ہیں، گھر کی دیواروں میں بھی ہیں، وہ خاموش ہیں اور ان کا پرُسانِ حال کوئی نہیں۔
باپ کی نصیحت کو سینے سے چمٹائے اس کا بیٹا مُنا زندگی کی دوڑ میں لگ چکا ہے، پڑھائی کے ساتھ ساتھ، ہوٹل پر کام بھی کرتا ہے، ٹیبل صاف کرنا، چائے کی پیالیاں دھونا، ساتھ ہی ساتھ اس کی اُس کی ڈانٹ سننا، اسی میں اس کا دن گزر جاتا ہے۔ ایک سبزی والے نانا ہی ہیں جو اس کے ساتھ محبت سے پیش آتے ہیں اور وہ بھی خالی وقت میں ان ہی کے پاس بیٹھا رہتا ہے، وہ ان سے اکثر پوچھا کرتا تھا: نانا! کیا میں ہوٹل کی ان پیالیوں کے درمیان اپنے وجود کو چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ سکوں گا؟
بیٹا وجود ایسی چیز نہیں جسے چھوڑ کر آگے بڑھا جا سکے بلکہ اسے بدلنا ہوتا ہے، نہ جانے لوگ اپنے رویوں کو کب بدلیں گے۔ ہاں ہمیں خود کو بدلنا ہوتا ہے۔ دیکھتے نہیں میں خراب سبزیوں کو چھانٹ دیتا ہوں اور اچھی سبزیوں کو سجا کر رکھتا ہوں۔ اپنی کمیوں کو اسی طرح چھاٹنا ہوتا ہے، اپنی خوبیوں کو سنوارنا ہوتا ہے تب جا کر ہماری شخصیت سنورتی ہے۔ ہم کامیابی کی طرف رواں ہوتے ہیں، لوگ ہماری عزت کرنے لگتے ہیں۔ لیکن ہاں! یہ سب وقت کے رہتے کرنا ہوتا ہے۔ اگر دیر کر دی توبڑھاپے میں یہ باتیں صرف نصیحت کے کام آتیں ہیں۔ نانا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ارے سمجھا بھی مُنا؟ چل سمجھ جائے گا۔
سبزی والے نانا مُنا کو جاتا ہوا دیکھ کر سوچ رہے تھے کیوں نہ میں اس کا ہاتھ تھام لوں؟ وقت پر جو میں نہ کر سکا کیوں نہ اسے بتاؤں؟ آج اسے اپنا وجود بوجھ لگتا ہے، کبھی میری مُنی کو بھی تو اس کا وجود بوجھ لگنے لگا تھا، جب میں نے اس کی شادی کی تھی۔ نیا گھر اسے نہ عزت دے سکا نہ الفت۔ ہاں ہر پل طعنے بے عزتی اور تکلیف اس کا مقدر بن گئی تھی۔ اور ہار کر ایک دن اس نے مجھ سے کہاں تھا بابا! کیا میں اپنے وجود کو سسرال میں چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتی؟ کیا میں اپنا وجود نہیں بدل سکتی؟ اور جب وہ اپنے وجود سے آزاد ہوئی تو اس دنیا کو ہی الوداع کہہ دیاتھا۔ نم آنکھوں سے ایک دن ڈولی اٹھائی تھی اور سسکیوں کے درمیان اس کی میت کو کاندھا بھی دیا تھا۔ اپنے ٹھیلے پر بیٹھے وہ اب تیز تیز رو رہے تھے۔ کوئی جانتا نہ تھا کہ وہ رو کیوں رہے ہیں؟ اور انہیں بھی اس بھیڑ کا احساس نہ ہو سکا۔ ایک تیز کی ہچکی آئی، سینے پر ہاتھ رکھتے آخری بار وہ چیخے تھے، منا نے دوڑ کر ان کو تھام لیا۔ محبت اور بے چارگی سے وہ اسے تکتے اپنے سارے غم سینے میں سمیٹے اس دنیا سے چل بسے اور منا اپنے چاہنے والے خیر خواہ سے محروم ہو گیا۔
کیا ہوا! ابھی تو اچھے بھلے تھے، معلوم نہیں کیوں رو رہے تھے؟ دل کا دورہ پڑا ہے شاید۔ سب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اندر سے کتنے ٹوٹ چکے تھے۔ اگر اب وہ کچھ کہہ پاتے تو انہیں بتاتے کہ میں ان میں سے ایک تھا جن کی زندگیاں اپنوں نے اجیرن بنا رکھی تھیں، میں ان میں سے تھا جنہیں زَک پہنچانے کا موقع کوئی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ میری موت کی وجہ دریافت کرنا چاہتے ہو تو اپنے گریباں میں جھانکو!
کہیں تمہارے ساتھ رہنے والے کسی فرد کی زندگی تم نے اجیرن نہ کر رکھی ہو جس کا تمہیں احساس تک نہیں ہے، کیونکہ بے حسی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے رویے سے عاجز، کوئی دل ہی دل میں کڑھ رہا ہو، اپنے وجود کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتا ہو۔ اور اگر ایسا ہے تو نہ جانے تنہائی میں وہ اپنے پروردگار سے کیا کہتا ہو گا، کیوں نہ ایک قدم آگے بڑھ کر کسی بے سہارا کو تھام لو، کیوں نہ اپنے رویوں کو بدلو، کیوں نہ دوسروں کو تکلیف دینے سے توبہ کرلو تاکہ ہمارا مصاحب اپنے وجود سے نالاں نہ ہو، ہمارے درمیان رہ کر وہ خود کو محفوظ اور شادماں سمجھے۔
دیکھو جس پروردگار کے پاس میں جا رہا ہوں اور جس کے پاس تمہیں بھی جانا ہے اس کا فرمان ہے :’’ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، پڑوسی رشتے دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی سے اور مسافر سے اور ان سے جو تمہارے ماتحت ہیں ان سے احسان کا معاملہ رکھو‘‘۔
سب سبزی والے نانا کی میت کو دفن کر کے واپس جا رہے تھے۔ منا ہی تھا جو ان کی لحد کے پاس اداس بیٹھا تھا، وہ کبھی جانے والوں کو دیکھتا کبھی آسمان کی طرف تکتا ’’اے پروردگار! جنہیں میری فکر تھی یا تو وہ قید میں ہیں یا تو نے انہیں واپس بلالیا ہے۔ اب میں اس بے حس معاشرہ میں تنہا کیسے رہوں؟ آنکھوں سے گرم گرم آنسو اس کے رخسار سے ہوتے ہوئے گریباں کو تر کر چکے تھے۔ وہی گریباں جس میں کوئی جھانکنے کو تیار نہیں۔ ہاں! یہی گریباں دوسروں کا ہوتا تو اسے تار تار کرنے میں کوئی پیچھے نہیں رہتا! کوئی چہار دیواری میں قید اپنے وجود کے بوجھ سے کراہ رہا ہے تو کوئی کھلی فضا میں بھی اپنے وجود کو قید پاتا ہے ۔ آہ! یہ بوجھ۔۔۔۔
***

 

***

 سب سبزی والے نانا کی میت کو دفن کر کے واپس جا رہے تھے۔ منا ہی تھا جو ان کی لحد کے پاس اداس بیٹھا تھا، وہ کبھی جانے والوں کو دیکھتا کبھی آسمان کی طرف تکتا ’’اے پروردگار! جنہیں میری فکر تھی یا تو وہ قید میں ہیں یا تو نے انہیں واپس بلالیا ہے۔ اب میں اس بے حس معاشرہ میں تنہا کیسے رہوں؟ آنکھوں سے گرم گرم آنسو اس کے رخسار سے ہوتے ہوئے گریباں کو تر کر چکے تھے۔ وہی گریباں جس میں کوئی جھانکنے کو تیار نہیں۔ ہاں! یہی گریباں دوسروں کا ہوتا تو اسے تار تار کرنے میں کوئی پیچھے نہیں رہتا! کوئی چہار دیواری میں قید اپنے وجود کے بوجھ سے کراہ رہا ہے تو کوئی کھلی فضا میں بھی اپنے وجود کو قید پاتا ہے ۔ آہ! یہ بوجھ۔۔۔۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021