یومِ خواتین مبارک ہو!

بیٹی رحمت ہے تو پھر بیٹوں کو ترجیح کیوں ؟

خان مبشرہ فردوس،ایڈیٹر ھادیہ ای۔ میگزین

 

جب خبر ملتی ہے کہ زید کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے تو بکر کے اہل خانہ کے یہاں دورانِ گفتگو افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ کاش پانچواں ہی سہی بیٹا ہو جاتا۔ پھر اگلے ہی لمحہ کہا جاتا خیر جانے دو اللہ نے اپنے حضور ﷺ کو بھی تو بیٹیاں ہی عطا کی تھیں۔ بیٹی تو رحمت ہے رحمت۔
(قریب کھڑی ہوئی چار بیٹیاں بغور یہ رویہ دیکھ رہی ہوتی ہیں)
حالانکہ بکر اور زید کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے، وہ صرف ملاقاتی ہیں۔
’’جب انہیں بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو ان کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے‘‘
(ایسی جگہ بیٹی تو رحمت ہے کا استعمال ایک کمزور سہارے اور بطور تسلی کے کچھ نہیں ہے) جبکہ پیارے نبیﷺ کی یہ خوبصورت بات بیٹی کو رحمت کہنا نظام قدرت میں بیٹی کا رول مراد ہے، اس رول کے ساتھ اس کے رحمت ہونے پر غور کیے بغیر کس طرح ہم اس جملے کا استعمال دلی کیفیت کو تسلی دیتے ہوئے کرتے ہیں؟ گویا کہ فطری محبت پر بیٹے کی پیدائش پر ہونے والی خوشی غالب آجاتی ہے۔
سننے والی بیٹی پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ کئی ہیومنسٹ کے نزدیک اس طرح بے محل جملے کے غلط استعمال پر ایشو بنتا ہے اور نئی نسل کو وہ سمجھاتے ہوئے دین سے تنفر پیدا کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ مسئلہ ہمارے فیم کا ہے اور کٹہرے میں دین کی تعلیمات ٹھہرتی ہے۔ اس کی تفصیل پھر کبھی۔
جب آپ کس لڑکی سے پوچھتے ہیں
کتنے بہن بھائی ہو؟
جواب ملتا ہے جی! ہم دو بہنیں ہیں۔
سوال کیا جاتا ہے بھائی نہیں ہے؟
آپ کا مکالمہ اشارہ ہے کہ آپ کے نزدیک بیٹی سے زیادہ حیثیت بیٹے کی ہے۔(قریب ہی آپ ہی کی رحمت آپ کو نگاہ اٹھا کر دیکھتی اور جھکا لیتی ہے) کسی کے گھر بیٹے کی پیدائش کی خبر پہنچتی ہے تو ماشاءللہ ۔۔کہہ کر جو باچھیں کھلتی ہے نا اسے بھی آپ کے گھر کی رحمت آپ کے چہرے کی رونق دیکھ بہت کچھ سیکھ اور سمجھ لیتی ہے۔
فلاں کو ماشاءاللہ چار بیٹے ہیں بیٹی ایک ہی ہے۔ یہ تبصرہ بھی آپ کے گھر کی رحمت دل کا چھلنی کر دیتا ہے۔
فلاں صاحب کو ماشاء اللہ چار بیٹیوں کے بعد اللہ نے بیٹا عطا کیا۔ مبارک بادیوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ پورا گھر مع معصوم بیٹیوں کے اس بچے کو ہتھیلی کا چھالہ بنا کر رکھتے ہیں تبھی زبان حال سے آپ اپنی گھر کی رحمت کو یہ سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے کس جی سے تمہیں قبول کیا ہمارا رب ہی جانتا ہے۔
جب اپنی بیٹی کے سامنے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے تاکہ مستقبل میں اونچ نیچ ہو تو کسی پر منحصر نہ رہے تو زبان حال سے آپ اسے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ سسرال میں اگر کچھ غلط ہوجائے تو اسے اپنی ذمہ داری خود سنبھال لینا ہوگا۔
فلاں کی بیٹی کو دیکھو پڑھ لکھ کر جاب کر کے کس طرح اس نے حالات کو بدل دیا یا نام روشن کر رہی ہے۔ تم کو بھی یہی کرنا چاہیے۔
ہم بیٹی کی صلاحیت سمجھے بغیر جب گائیڈ لائن دے رہے ہوتے ہیں تب دبے الفاظ میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ کر سکو تو ٹھیک ہے ورنہ تمہاری پرورش لا حاصل ہے اور تم تو ہو ہی پرایا دھن۔
بیٹی کے بہترین ماں اور بہترین بیوی اور داعیہ بننے کے رول کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
لڑکیوں کو جس طرح قبول کرنا چاہیے اس طرح قبول نہیں جاتا اور پھر لڑکیوں میں زمانہ اعتماد ڈھونڈرہا ہوتا ہے۔
لڑکی میں بااعتماد ہونے اور معاملہ فہم ہونے میں والدین کے رویے کا بڑا دخل ہے۔ سب سے بڑا رول اس کے والد کا ہے کہ وہ کس طرح اپنی بیٹی کو باصلاحیت ہونے کا احساس دلا کر مواقع فراہم کرتے ہیں۔
باپ کا اعتماد بیٹی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ وہ زمانے سے نہیں گھبراتی بلکہ ایک موثر شخصیت بن کر میدان عمل میں جم جاتی ہے۔
تربیت کے نام پر دباؤ اور معاشرے سے ڈر اور خوف کے ماحول میں سہمی ہوئی لڑکیاں اپنے والدین سے یہ بھی نہیں کہہ پاتی ہیں کہ محلہ کا شریر لڑکا مجھے تنگ کر رہا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کالج جانا اس کے والد بند کروادیں گے، بھائی گھر میں تماشا کرے گا اور بدنامی کے خوف سے اس کی شادی کسی کے بھی ساتھ طے کر دی جائے گی (شادی کو معاشرے نے خود سزا بنا دیا ہے)
اس ماحول میں پرورش پانے والی خواتین سے زمانہ سوال کرتا ہے خواتین میں اعتماد نہیں، خواتین بے اثر ہیں، وہ سیاست میں معاشرت میں، تجارت میں، سیادت میں دیگر اقوام کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔
معاشرے کی عائشہ، رفیدہ جیسی بے شمار بچیاں سراپا سوال بنی ہوئی معاشرے سے کہہ رہی ہیں میری پشت پر ۔۔۔
تم جو ہوتے تو زندگی مجھ سے
تلخ لہجے میں بات کیوں کرتی
حق ہمارا بھی گر خوشی پر تھا
دن ہمارے وہ رات کیوں کرتی
اس 8 مارچ سے دوسرے 8 مارچ تک ہم اس عمومی رویہ کو بدل سکیں تو کہہ پائیں گے۔
یوم خواتین مبارک ہو!

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021