چینی ایغور مسلمانوں کی نسل کشی اور ملت کی سرد مہری

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

ظفرعاقل ( حیدرآباد )

 

ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے چین کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا خواب کوئی آج کا نیا نہیں ہے۔ انسانی فطرت جب حیوانی جبلت میں تبدیل ہوجاتی ہے تب خود کو روندنے کا جرم کر بیٹھتی ہے۔ یہی وہ اسٹیج ہے جسے دنیا بھر کے انسانوں پر حکمرانی کا خواب کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ ہوتا ہے دیوانے کا خواب۔ انسان خالق کون و مکاں کا پسندیدہ تخلیقی شاہکار ہے اور زمین پر اس کا خلیفہ بھی ہے۔ انسانوں پر ظلم و جور کے معاملہ میں بھی ایک حد فاصل ہے اور اس کے آگے بس غضبِ خداوندی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ گوری چمڑی کے سوپر پاور کی تاناشاہی کو چیلنج کرنے والا قدیم تہذیب کا حامل چین تاریخ کے مد و جزر اور فطرت کی زجرو توبیخ سے کیا کوئی سبق حاصل کرنا نہیں چاہے گا جبکہ وہ خود اپنے ہی مسلم ایغور شہریوں کی نسل کشی کے در پے ہے؟ مسلمانوں کی تہذیب اور دین و مذہب کو بدلنے کے لیے بدنام کیمپوں کو آباد کیے جا رہا ہے۔ عزتوں و عصمتوں کا کھلواڑ ہو رہا ہے اور تعلیم نَو کے نام پر دنیا جہاں کو دھوکہ دے رہا ہے۔
چین میں انقلاب 1911 کی وجہ سے Qing Dynasty ختم ہوئی اور یکم جنوری 1912 کو ریپبلک بنے اس ملک میں جس کا رقبہ 95,96,961km ہے اور 2019 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی میں اکثریتی ہان قوم کے علاوہ پچپن اقلیتں بشمول %0.79 ایغور آباد ہیں۔ جن کی نسل کشی کا مرتکب پیوپلز رِیپبلک آف چائنا (PRC) ہو رہا ہے۔ کُل آبادی کا %74.4 لا مذہب کے علاوہ بدھسٹ %18.3، عیسائی%5.2، مسلم %1.6 اور دیگر %0.4 ہیں۔ چین UN سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ تیز ترقی پانے والی اکنامی کے علاوہ دنیا کا دوسرا بڑا دولت مند ملک ہے اور 2020 میں جس کا GDP 24.7 ٹریلین ڈالر تھا۔نیوکلیر پاور رکھنے والا چین دنیا کا دوسرا بڑا دفاعی بجٹ اپنی فوج پر خرچ کرتا ہے اور دنیا کی Largest Standing Army چین کے پاس ہے۔ وہیں وہ صنعت کاری اور اکسپورٹ کے میدان میں بھی اونچی پوزیشن کا حامل ہے۔ تعجب ہے کہ ان تمام میدانوں میں عروج کی منزلوں کو فتح کرنے والا یہ ملک اپنے ہی شہریوں کی بابت اُوچھی حرکتوں کا مرتکب کیوں کر ہو رہا ہے۔ چین دنیا کی قدیم ترین تہذیب و تمدن کا حامل ملک ہے اس لیے اس کو صاحبِ ظرف اور وسیع القلب ہونا چاہیے۔ دین اسلام اور اسلامی ثقافت کی مخالفت میں اپنے ہی ایغور شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا اس کو زیبا نہیں دیتا۔ سیاسی لحاظ سے چین کی بہتری مسلم بلاک سے قربت میں زیادہ فائدہ مند اور پائیدار ہے۔ یہی حال مذہبی حکمت عملی کے عنوان سے بھی ہے۔سیکولر یورپ اور امریکہ ودیگر مغربی ممالک میں عیسائی حکمرانی کے بالمقابل مسلمان اپنے وسائل اور طرز حیات نیز نظام تمدن اور عددی کثرت کے باعث بہتر نتائج کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اپنے مفادات کو اولیت دینے والے مغرب کے مقابلے میں مشرق کا ایک پُر امن بلاک دنیا کے لیے بھی راحتِ ِجاں بن سکتا ہے۔
نسل کش چین کی طرح مسلم قوم کے غافل ومسلط جابروں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کسی قوم کو درکار وسائل میں کونسی چیز ہے جو آج دنیا میں مطلوب ہے اور وہ مسلم ممالک اور مسلم ملت کو میسر نہیں ہے۔ تب سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ غریب و لاچار ملت کے حقوق کی ادائیگی میں مال و منال کے مالکین کا رویہ کیا ہے؟ نصف صد سے زائد ممالک پر مسلم حکمرانوں کا تصرف ہے، کثرتِ دھن دولت کی قارونیت کا نشہ ان پر طاری ہے اور اب تو اسلامی اخلاق سے زیادہ کارپوریٹ کلچر ان کے معاملات و تجارت پر غلبہ پا چکا ہے۔ تب پوچھا جانا چاہیے کہ دینی اعتبار سے رشتہ اخوت میں بندھے ہوئے عرب و عجم کے شاہوں کو کبھی توفیق بھی ملی کہ لب کھولیں، کچھ بولیں؟ میانمار اور چین میں مسلم نسل کشی اور ظلم و بربریت کا ننگا ناچ جاری ہے اور ان کے بند لبوں کی مہر ہے کہ ٹوٹتی ہی نہیں ہے!!!۔
دنیا کے بہترین علاقوں پر ان کی حکمرانی ہے۔قطب شمالی یا جنوبی کے اطراف برف کے میدانوں میں نہیں بلکہ خدا کی بہترین نعمتوں سے بھری زمینوں کے بہترین علاقوں کے یہ مالک بنے بیٹھے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال مسلم قوم کی تیسری بلکہ چوتھی نسل ہے جو دنیا بھر کو اِنرجی فراہم کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور بدلے میں چاروں سمتوں سے دولت سمٹ کر اِن کی گود میں ایسے آ رہی ہے جیسے قبر میں میت سما جاتی ہے۔ عددی اعتبار سے آج دوسری بلکہ شاید پہلے مقام کی حامل یہ مسلم قوم بن چکی ہے، تاہم یہ زاویہ نگاہ تصفیہ طلب ہے کہ ملت کے وقار اور سمندر کے جھاگ میں کثافت کی بازی کس کے ہاتھ ہے۔ غور فرمائیے کہ قدرت کی جانب سے عطا و بخشش کی کوئی حد نہیں جو تشنہ چھوڑ ی گئی ہے اور ملت سے غفلت کی کوئی حد نہیں جو انہوں نے توڑی نہیں ہے۔ سب سے بڑی مجرمانہ غفلت غیروں کے چنگل میں پھنسے بے بس اقلیتی مسلمانوں سے متعلق ہے جن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ سابق میں چیچنیا وغیرہ اور حالیہ میانمار کے روہنگیاوں اور چین کے ایغوروں کی صدائیں ان کے بہرے کانوں تک پہنچ ہی نہیں پا رہی ہیں۔
چین کے ایغور مسلمانوں کی بابت BBC کے علاوہ CNN کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ کس منظم پیمانے پر Detention Camps میں ان کی بھرتی کی جا رہی ہے۔ ظلم و بربریت کے علاوہ تعلیم کے نام پر ان کو مذہب و ثقافت سے بیگانہ کرنے کی باضابطہ سازش کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ کا بھی چین پر الزام ہے کہ وہ ایغور مسلم اور دیگر مسلم اقلیتوں کو ان کیمپوں میں ٹارچر، جنسی ہراسانی، بالجبر برتھ کنٹرول اور ابارشن کا گھناؤنا کھیل کھیل رہا ہے۔ ڈیٹنشن کیمپ کی ٹیچر Qelbinur Sidik جس کو قیدیوں کی تعلیم کے لیے مجبور کیا گیا تھا CNN کو بتایا کہ اس کی نظروں کے سامنے ایک عورت کے مردہ جسم کو دو سپاہی لے کر گئے ٹارچر کی وجہ سے جس کی بلیڈنگ ہو رہی تھی۔ ایک خاتون پولس آفیسر جس کو Rape Cases کی تحقیقات کے لیے ان کیمپوں میں تعینات کیا گیا تھا ٹیچر Sidik کو بتایا کہ ایسے کئی ایک واقعات ہوتے رہے ہیں۔ 28 سال سے پیشہ تدریس سے وابستہ Sidik نے جو اب نیدر لینڈ میں مقیم ہے CNN کو یہ بھی بتایا کہ 2017 میں اس کی کلاس میں لائے گئے 100 مردوں کے علاوہ عورتوں کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہیں آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر تھیں اور عورتیں چیخ اور کراہ رہی تھیں۔ کیمپوں میں جب لائے جاتے صحت مند ہوتے لیکن جلد ہی وہ بیمار و کمزور ہوجاتے تھے۔ ان کو داڑھی رکھنے اور حجاب کرنے پر گرفتار کیا جاتا اور سیاسی مخصوص نظریات کوذہن نشین کرایا جاتا۔
ایک دوسری خاتون Tursunay Ziyawddun نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن پہلی مرتبہ اپریل 2017 میں جب وہ اپنے گھر (Xinjiang) پہنچی اسے گرفتار کیا گیا۔ اس کے شوہر Halmirza Halik نے CNN کو بتایا کہ پھر میں نے کھوج کی تو پتہ چلا کہ وہ Vocational School میں مقید ہے۔ سلاخوں کے پیچھے سے روتے ہوئے میری بیوی نے کہا کہ مزید 20 عورتیں اس کیمپ میں ہیں جن کو بس تھوڑا سا کھانا پانی دیا جاتا ہے۔ حکام نے ایک ماہ کے بعد Ziyawudun کو رہا کر دیا لیکن مارچ 2018 میں وہ پھر اگلے 9 ماہ کے لیے گرفتار کرلی گئی اور تفتیش ہوتی رہی کہ آیا اس کے ایغور مسلمانوں سے روابط ہیں؟ تفتیش کے دوران ایک مرتبہ ایک چھڑی (Stun Bation) اس کے اندرونی جسم میں داخل کر دی گئی، شاک دیا گیا۔دوسری مرتبہ مرد گارڈس کے ایک گروپ نے اس کے ساتھ Gang Rape کیا اور ایسا کئی بار ہوا۔ دوسری عورتوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ سب تشدد پسند اور جنونی تھے۔ فی الحال وہ اور اس کا شوہر Halik پڑوسی ملک قازقستان میں پانچ سال سے مقیم ہیں۔ CNN نے کہا کہ ضیادن کی کہانی جس کو پہلے بی بی سی نے رپورٹ کیا ایک اور ستم رسیدہ Gulbakhar Jalilova کی آپ بیتی سے مماثلت رکھتی ہے جس نے جنسی زیادتی کرنے والے سپاہی سے پوچھا کہ کیا اس کی کوئی ماں یا بہن نہیں ہے کہ شرم محسوس کرے جس پر نوکدار لاٹھی سے مارتے ہوئے کہا کہ تم لوگ انسان نہیں ہو۔ 26 ستمبر 2019 کو جلی لوا کو چینی حکام نے تاکید کرتے ہوئے رہا کیا کہ وہ کیمپ کے ظلم وستم کا باہر تذکرہ نہ کرے۔ CNN کے استفسار پر چینی حکام نے راست جواب دینے کے بجائے دوسری ہانک کر جھٹلانے لگے۔ 3 فبروری 2021 کو چینی حکام نے پریس کانفرنس میں ایک خاتون گریجویٹ کو اس دعوی کے ساتھ پیش کیا کہ وہ اسی سسٹم سے پڑھ کر تعلیم یافتہ ہوئی ہے۔ چناچہ عصمت دری اور تشدد کے الزامات بالکلیہ واہیات ہیں۔ لیکن Ziyawudun نے چینی دعویٰ کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ میں اب ان سے ڈرنے والی نہیں ہوں کیونکہ اُنہوں نے میری روح کو پہلے ہی ختم کر دیا ہے۔ ٹیچر Sidik نے کہا کہ چینی حکام کا میرے شوہر پر دباؤ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بیان کردہ داستان ظلم و ستم کو غلط ٹہرائے۔ چنانچہ میرے شوہر نے کہا کہ میں اب کبھی سنکیانگ نہ آؤں۔
دوسری طرف اسلام کے روشن میناروں کی بنیادوں میں ریزہ ریزہ کرنے والی ’’قومیت‘‘ کی لعنت زدہ کشکول بھی ہے جو دَورِحاضر میں اس غیور قوم کے دست و بازو کا عصائے پیری بن چکا ہے۔ تیل سے مالا مال یہ صاحبانِ جاہ و جلال گوری چمڑی کے سامنے اپنے اہل و عیال سمیت ایسے بِچھ جاتے ہیں جیسے فرش سے پاپوش (جوتی) کو نسبت ہوتی ہے۔ فکری پراگندگی و غلامی کی اسفل ترین روایات کو جنم دینے والے یہ صاحبانِ تکاثر دراصل دورِ حاضر کی قارونی باقیات ہیں۔ حیرت تو اس لیے بھی کہ ان کو حاصل مال و منال میں ان کے کسب کی کوئی رتّی بھی شامل نہیں بلکہ جو کچھ ہے سب عطا و بخشش خداوندی ہی ہے۔ مزید حیرت اس لیے بھی ہوتی ہے کہ قارون کی دولت اس کے اپنے تحویل میں تھی اور وہ اس کو اپنے اونٹوں پر لاد کر لانے لے جانے پر قادر تھا لیکن یہ قارون عصر اس سے بھی گئے گزرے ہیں کہ اپنی چیزیں بھی اپنی تحویل میں رکھ سکیں اور جب اور جہاں چاہے لے جا سکیں۔ اُلٹا رِنگ ماسٹر کے اشاروں پر ان کے کھاتے منجمد کر دیے جاتے ہیں۔
قومی و اجتماعی زندگی میں دوسری تباہ کر دینے والی چیز اسلام کے طریقہ حیات کے بالمقابل غیر کا چسکہ ہے۔ مغربی علم وفن اور یورپی تہذیب و تمدن کا اندھا پن ہے۔ جو اِن کی عقل، شعور و ضمیر پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ نوجوان قیادت کی تو مَت ہی ماری گئی ہے۔ اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لینے کا فن کوئی ان احمقوں سے سیکھے۔ انجام کو پہنچنے والوں کے لچھن دیکھ کر کوئی عبرت حاصل کرنا چاہے تو دعوتِ نظارہ عام ہے۔ جانور بھی اپنی نسل کو اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے ہاتھوں پروان چڑھاتے ہیں اور قابل پرواز بن جانے تک حصارِ ذات میں رکھتے ہیں۔
منگولوں کی حکمرانی کا آغاز تقریباً نقطہ صفر سے ہوا اور ظلم و بربریت کے ریکارڈ توڑ عروج کے بعد حاشیوں پر ہانک دیے گئے۔ ملکہ عالیہ برطانیہ کے دورِ اقتدار کے لیے مثل مشہور تھی کہ سورج اُن کے احاط اقتدار میں اِدھر سے اُدھر ہوتا رہتا ہے اور آج وہ خود سمٹے بیٹھے ہیں۔ خود پیدا کردہ پیچیدگیوں سے باہر نکلنے (Brexit) میں الجھے بیٹھے ہیں۔ سکندر اعظم کے عروج نے اس کی زندگی میں ہی زوال کے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیے تھے۔ کفن کے باہر رکھے اس کے خالی ہاتھ۔۔ عبرت کے کئی ایک سبق یک مشت ازبر کرا دیتے ہیں۔امویوں اور عباسیوں سے لے کر دور عثمانیہ تا ہند کے صاحبان اقتدار سب ایک کے بعد دیگرے آسمانِ تاریخ کے ڈوبتے ستارے بن گئے ہیں۔ فانی زندگی کے عروج و زوال کی بے رحم کہانی ذہن و فکر پرنقش بن کر چپک جاتی ہے۔ مدہوش مسند نشینوں کے لیے یہ ایک سبقِ عبرت اور تازیانہ ہے۔ امریکی گورے میاں کی پوزیشن نمبر وَن حاصل کرنے کے لیے جی جان کھپا دینے والے چھوٹے ناٹے چینی اہل فکر ودانش کے لیے فکر نو کا سامان ہے۔ ایغور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے والا چین ہی کیوں اس دنیا کے ماباقی موجودہ حکمرانوں بشمول بالخصوص ’’زعفران گزیدہ نوشہ بیتاب‘‘ کے لیے بھی سبق ونصیحت ہے۔ گر نصیحت کوئی قبول کرنا چاہے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم ICIJ نے چین کی سرکاری دستاویزات کے افشا ہونے پر کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں سنکیانگ میں بنائے گئے تربیتی سنٹرز میں ایغور مسلمانوں کے خیالات اور فکر کی تبدیلی کی منظم مہم چل رہی ہے۔ یہاں دس لاکھ سے زائد لوگ قید ہیں۔ China Cable نامی گروپ کے ذریعہ چین کی سرکاری دستاویزات کے افشا ہونے پر سنکیانگ کے تربیتی مراکز کی پول کھل گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ان سنٹرس میں تعلیم کے نام پر مسلمانوں کے ذہنی خیالات کو زبردستی تبدیل کیا جا رہا ہے۔ چین کے سفارت خانے اور قونصل خانے بھی اس میں شریک ہیں۔ ان تربیتی مراکز میں دس لاکھ سے زائد افراد حراست میں ہیں جس میں اکثریت ایغور مسلمانوں کی ہے جنہیں بغیر کسی مقدمہ کے قید رکھا جاتا ہے اور جہاں ہر فرد کے ہر پل کی زندگی پر حکومتی نظر رکھی جاتی ہے۔ ایغور نسلی طور پر ترک النسل مسلمان ہیں جو چین کے مشرقی خود مختار علاقہ سنکیانگ میں آباد ہیں جو شاہراہ ریشم (قدیم وجدید) کی گزرگاہ ہے۔ کوہ و صحرا پر مشتمل اس علاقہ کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد ہے۔ لیکن اس علاقہ پر چین کا 1949 سے زبردستی قبضہ ہے۔ ایغوروں کا ماننا ہے کہ یہ علاقہ ترکمنستان کا ہے۔ چناچہ یہ لوگ آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں تاکہ وہ اپنی الگ شناخت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ چین کا الزام ہے کہ ان کو مسلم انتہا پسند القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کا سپورٹ حاصل ہے۔ سنکیانگ کی سرحدیں انڈیا، افغانستان، پاکستان، تاجکستان، کرغیزستان، قازقستان، روس اور منگولیا سے ملتی ہیں۔ چین کا مشہور شہر کاشغر بھی اسی علاقے میں واقع ہے جس کا علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ذکر کیا ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
‏نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
بین الاقوامی برادری میں ایغور اور چین کا مسئلہ گاہے گاہے اُٹھتا ہی رہا ہے۔ ابھی چند یوم قبل 4 مارچ 2021 کو BBC نے جان شروٹ کی رپورٹ پیش کی اور کہا کہ اس کے پاس شواہد ہیں کہ چین کی ایغور پالیسی کا اصل مقصد ان کو اس علاقے سے نکال باہر کر کے ہزاروں کیلو میٹر دور سنٹرل چین میں بکھیر دینا ہے تاکہ وہ اپنی ثقافتی ومذہبی شناخت کھو دیں۔ ایغور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بہت دور فیکٹریوں میں بھرتی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ زبردستی قومی ترانے گانے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور دوسرے ورکروں کی طرح فیکٹری کے باہر جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔ چین کے ایک ہائی رینک آفیسر کو دی گئی رپورٹ جو غلطی سے میڈیا میں لیک ہو گئی اس میں یہ ساری تفصیلات موجود ہیں۔ اس کے ردّ عمل میں چین نے کہا کہ بی بی سی کو ملی اسٹڈی رپورٹ آفیسر کے شخصی خیالات ہیں۔ چین کو جاننا چاہیے کہ جو تجربات وہ ایغور کے ساتھ کر رہا ہے وہ نئے نہیں ہیں۔ صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادی گئی سابقہ سرپھروں کی داستانیں ہیں۔ مسلم ملت کی ستم ظریفی، غفلت اور کم ہمتی نے چین کو جری اور بے خوف بنا دیا ہے۔ لیکن خود چین کے اصحاب دانش جانتے ہیں کہ حالات کا اُلٹ پھیر تاریخ کی فطرت ثانیہ ہے اور ملت مرحومہ قیامت تک کی باقیات میں شامل ہے چنانچہ وہ اپنے مدّ مقابل کسی منتقم کو لانے کا غیر دانشمندانہ عمل نہ کرے۔
ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کو حالات کی نزاکت، اپنے بزرگوں اور منتشر و منقسم اور متقابل قیادتوں کی بے حسی و مجبوری کو اور اپنی ہمالیائی ذمہ داریوں کو اپنی عقابی نگاہ و فکر میں رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ مٹی کے برتن جب پرانے ہو جاتے ہیں اور عمر رفتہ و اَرذل کو پہنچ جاتے ہیں تو افادیت کھو دیتے ہیں۔ کارِ مفوضہ میں انہماک کی بجائے آپسی سر پھٹول، شور شرابہ اور ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔ عرصہ ہو گیا ملت ان کے جاگنے جگانے کا انتظار کرتے تھک سی گئی ہے۔ اس لیے اُن میں جو بہترین باقیات صالحات ہیں ان کی قدر، مفید مطلب رہنمائی سے ضرور فیض یاب ہوں لیکن آئندہ ربع صدی میں اس ملت کے عروج نَو کے لیے نئے علوم و فنون، بصارت وبصیرت، بیدار مغزی و ہنرمندی کے ساتھ اپنے مقصد موعود وحیات کی طرف صدق دل سے مراجعت کریں اور لازماً توبہ وندامت اور استعانت باللہ کو ہتھیار بنائیں، یکسو ہو جائیں، یک جان ہوجائیں اور مثل خورشید مبین بن جائیں تاکہ دنیا فیض یاب و سیراب ہو سکے۔
***

تمام میدانوں میں عروج کی منزلوں کو فتح کرنے والایہ ملک اپنے ہی شہریوں کی بابت اُوچھی حرکتوں کا مرتکب کیوں کر ہو رہا ہے۔ چین دنیا کی قدیم ترین تہذیب و تمدن کا حامل ہے اس لیے اس کو صاحبِ ظرف اور وسیع القلب ہونا چاہیے۔دین اسلام اور اسلامی ثقافت کی مخالفت میں اپنے ہی ایغور شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا اس کو زیبا نہیں دیتا۔ سیاسی لحاظ سے چین کی بہتری مسلم بلاک سے قربت میں زیادہ فائدہ مند اور پائیدار ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021