انصاف سے فرار

امریکہ کی اسرائیل نوازی۔ عالمی عدالت کی عمل داری قبول نہیں

مسعود ابدالی

 

بارہ سال بحث و مباحثے کے بعد انسانیت کش جرائم کے ذمہ داروں کو سزا دینے والی عالمی عدالت (International Criminal Court) یا آئی سی سی نے کثرتِ رائے سے فیصلہ دے دیا کہ 1967کے بعد قبضہ کیے جانے والے عرب علاقے غزہ، غرب اردن کا مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں ہے۔ عدالت ان علاقوں میں انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے متولی (Prosecutor) تعینات کر سکتی ہے۔ تاہم فیصلے میں بہت صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ آئی سی سی کو ریاستی حدود کے تعین یا علاقائی تنازعات پر رائے دینے کا اختیار نہیں۔
آئی سی سی ایک عالمی عدالت ہے جس کا کام بین الاقوامی نوعیت کے جرائم، نسل کشی، انسانیت کے خلاف اقدامات اور جارحیت سے متعلق قضیے نمٹانا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیر اہتمام اٹلی کے دارالحکومت روم میں جولائی 1998 کو ایک سفارتی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پر عالمی جرائم کی شفاف تحقیقات کی غرض سے ایک عدالت کے خدوخال پر غور کیا گیا۔کئی مشاورتی اجلاسوں کے بعد بنیادی اصول پر اتفاق ہوگیا جسے ضابطہِ روم یا Rome Statute کا نام دیا گیا۔ اس اصول کے تحت یکم جولائی 2002 کو آئی سی سی کا قیام عمل میں آیا۔ تا دمِ تحریر دنیا کے 123 ممالک خود کو اس عدالت کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں جبکہ ہندوستان، پاکستان، اسرائیل، چین، امریکہ اور روس سمیت 42 ممالک آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری طرف ضابطہ روم کے تحت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کی قانونی جغرافیائی حدود ائی سی سی کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں۔ یعنی عملداری یا Jurisdiction آئی سی سی تسلیم کرنے سے مشروط نہیں۔ یہ عدالت ہالینڈ کے شہر دی ہیگ The Hague میں مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ ائی سی سی کے قاضی القضاۃ کو صدر کہا جاتا ہے جن کی معاونت کے لیے دو نائب صدور ہیں۔ عدالت کے قاضیوں کی تعداد 12 ہے۔ شکایات کی تفتیش و تحقیق اور فرد جرم کی تیاری کے لیے Chief Prosecutor کی سربراہی میں اعلیٰ پائے کے متولی بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
یہ ادراہ، دارفور (سوڈان) قتل عام، کانگو میں نسل کشی، بوسنیا قتل عام، برما، افغانستان وغیرہ کے معاملات اٹھا چکی ہے۔ آئی سی سی نے لیبیا کے سابق سربراہ کرنل قذافی اور سوڈان کے سابق صدر عمرالبشیر سمیت 40 سے زیادہ افراد کے وارنٹ جاری کیے۔ تاہم بڑی قوتوں کی جانب سے انکار کی بناپر یہ عدالت اب تک غیر موثر ہے۔
سن دوہزار نو میں مقتدرہ فلسطین نے ’اپنے ملک‘ پر آئی سی سی کی عملداری تسلیم کرنے کا اعلان کیا جس کے ساتھ ہی فلسطینی مقتدرہ نے الزام لگایا کہ اسرائیل اس علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اسرائیلی فوج کی بعض کارروائیاں فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔ لیکن متولی کے دفتر نے تحقیقات کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ فلسطین ایک آزاد ریاست نہیں چنانچہ آئی سی سی کے دائرہ اختیار سے خارج ہے۔ تین سال بعد نومبر 2012 میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کر لی جس کے تحت مقتدرہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دیدیا گیا جس کے بعد مقتدرہ فلسطین نے ایک بار پھر آئی سی سی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور 2014 میں ائی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر محترمہ فاتو بن سودہ نے رائے دی کہ اقوام متحدہ سے مبصر کا درجہ حاصل ہونے کے بعد ضابطہِ روم کے تحت فلسطینی علاقے بھی آئی سی سی کی عملداری میں آ گئے ہیں۔ اسرائیل نے آئی سی سی کے موقف کو یکلخت مسترد کر دیا۔ اسرائیلی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فلسطین خود مختار ریاست نہیں اور نہ اسرائیل آئی سی سی کو تسلیم کرتا ہے۔
گامبیا کی ساٹھ سالہ فاتو بن سودہ عالمی قانون خاص طور سے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی سے متعلق عالمی قوانین کی ماہر ہیں۔ وہ گامبیا کی وزیر انصاف اور اٹارنی جنرل رہ چکی ہیں۔ محترمہ کو 2004 میں آئی سی سی کے چیف جسٹس فلپ کرش کی سفارش پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نامزد کیا گیا اور انہوں نے روانڈا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی کامیابی سے تحقیق کر کے کئی ملزمان کے خلاف فرد جرم مرتب کی۔ جون 2012 میں بن سودا صاحبہ آئی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر مقرر کی گئیں۔مضبوط اعصاب کی افریقی خاتون نے اسرائیلی حکومت کے موقف کو غیر منطقی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائے تو علاقے میں انسانی حقوق کی پاسداری اسرائیل کی ذمہ داری ہے جبکہ ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ تل ابیب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بن سودہ صاحبہ نے اسرائیل کی مخالفت کے باوجود 2015 کے آغاز پر تحقیقات شروع کر دیں۔
اپنی ابتدائی رپورٹ میں بن سودا نے کہا کہ غرب اردن، غزہ اور مشرقی بیت المقدس میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں اسرائیلی وزارت انصاف کا ایک بیان بھی نقل کیا گیا جس میں اسرائیلی حکومت نے کہا تھا کہ ان کے ملک میں جنگی جرائم کے مرتکبین کو قرارِ وقعی سزا دینے کے لیے سخت قوانین موجود ہیں اور اسرائیلی محکمہ انصاف انسانی حقوق کی خلاف وزیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ محترمہ بن سودا نے کہا کہ انہیں اسرائیل کی جانب سے بھیانک جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ چیف پراسیکیوٹر کے مطابق بعض حلقوں نے حماس اور دوسرے مسلح فلسطینی دھڑوں پر بھی جنگی جرائم کا الزام لگایا ہے اور آئی سی سی ان الزامات کی بھی شفاف تحقیقات کرے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم ابتدائی رپورٹ پر آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے ائی سی سی کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کی تحقیق کو مشرق وسطیٰ کی ’اکلوتی جمہوریت‘ کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا یہ صداقت و انصاف کے لیے ایک سیاہ دن ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے تحقیقات کو یہود کش یا Anti-Semitism قرار دیا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو بھی سخت مشتعل تھے۔ انہوں نے کہا اسرائیل کو ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جرمنی نے آئی سی سی کی تحقیقات کی حمایت کی جبکہ دوسرے یورپی ممالک نے خاموشی اختیار کرلی۔
گزشتہ برس اپریل تک تحقیقات کافی آگے بڑھیں اور محترمہ بن سودا نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ شواہد کے محتاط تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے اور ضابطہ روم کے تحت آئی سی سی کو ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔ اب عدالت کی مکمل بینچ نے مقبوضہ عرب علاقوں پر آئی آی سی کی عملداری تسلیم کرتے ہوئے بن سودا صاحبہ کو تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔
اس فیصلے کے بعد 3 مارچ کو بن سودا نے کہا کہ ان کی ٹیم خوف و طمع کے بغیر فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم اور نسل کشی کی شفاف اور منصفانہ تحقیقات کر رہی ہے جس کے مکمل ہوتے ہی ذمہ داروں پر فرد جرم عائد کر دی جائے گی۔ آئی سی سی پراسیکیوٹر آفس نے حماس کی کچھ سرگرمیوں کو بھی مشکوک قرار دیا ہے، جس پر حماس کے ترجمان حمزہ قاسم نے تحقیقات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر ان کا کوئی ساتھی یا گروہ جنگی جرائم میں ملوث ثابت ہوا تو حماس اسے گرفتار کر کے ائی سی سی کے حوالے کر دے گی۔
دوسری طرف اسرائیل نے ایک بار پھر ان تحقیقات کو یہود دشمن قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور ماضی کی طرح امریکہ نے بھی اس معاملے پر اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے عالمی عدالت کے فیصلے پر ’افسوس‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج کے خلاف تحقیقات عالمی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ فاضل وزیر خارجہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا لہٰذا تحقیقات اسرائیل کے اندرونی معاملے میں مداخلت کے مترادف ہے۔
تین مارچ کو تحقیقات کے بارے میں آئی سی سی کے فیصلے کے ساتھ ہی امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے فون پر بات کرتے ہوئی اسرائیلی قیادت کو یقین دلایا کہ آئی سی سی کی جانب سے تحقیقات کے معاملے پر امریکہ اسرائیلی موقف کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ محترمہ ہیرس نے کہا کہ فلسطینی علاقے آئی سی سی کی عمداری سے باہر ہیں اور عالمی عدالت کو ان علاقوں میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات کا حق حاصل نہیں۔ ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ علاقے میں اردن کے علاوہ کوئی بھی ملک آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتا۔ فلسطین کے چار میں سے تین پڑوسی یعنی مصر، شام اور لبنان بھی آئی سی سی کے رکن نہیں۔
اسرائیل کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق اور انصاف وقانون کے عالمی اداروں کو تسلیم نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی (HRW) مزدوروں کے حقوق، یکساں اجرت اور محنت کشوں کے خلاف نسلی، مذہبی اور صنفی امتیاز کے سدباب کے لیے کام کرنے والے ادارے ILO حتی کہ اسرائیل عالمی ادارہ صحت پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکا ہے اور اس ہٹ دھرمی کو امریکہ بہادر کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
برسوں کی ناکہ بندی سے غزہ میں غذائی صورتحال سخت تشویشناک ہو چکی ہے۔ بجلی کی بندش سے گھر اور بلدیات کے نلکوں میں پانی نہیں آ رہا ہے۔ شہر میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں اور وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہروقت سر پر منڈلا رہا ہے۔ آئے دن کی بمباری نے بڑے علاقے کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ اسپتال اور اسکول تقریباً ختم اور آبی ذخائر تباہ ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ذرایع نے متنبہ کیا تھا کہ اگر غزہ کی ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو بھوک اور بیماری سے ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ مسلم وعرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات نے جہاں فلسطینیوں کو سفارتی طور پر تنہا کر دیا ہے وہیں عرب ممالک نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی اعانت بھی تقریباً ختم کر دی ہے۔
گزشتہ سال عرب ممالک نے فلسطین کو صرف 4کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کی جبکہ 2019 میں یہ رقم 27کروڑ ڈالر کے قریب تھی۔ سعودی عرب فلسطینیوں کو ساڑھے 17 کروڑ ڈالر فراہم کرتا تھا لیکن 2020 میں ریاض نے صرف سوا تین کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ مجموعی طور پر عالم اسلام نے 2019میں فلسطنیوں کو 53کروڑ 83لاکھ ڈالر کی مدد فراہم کی تھی جو گزشتہ سال کم ہو کر 37کروڑ ڈالر رہ گئی۔ حالانکہ کورونا وائرس کی وجہ سے فلسطینیوں کو اضافی مدد کی ضرورت ہے۔ غزہ میں اب تک کرونا کی جدرین کاری (Vaccination) نہیں شروع ہو سکی۔ گزشتہ دنوں مقتدرہ فلسطین نے غزہ کے لیے 1000 ٹیکے مختص کیے تھے لیکن تادم تحریر اسرائیلی کابینہ نے اس کی منظوری نہیں دی۔ مقتدرہ فلسطین کے مالی بحران کا یہ حال ہے کہ کئی کئی مہینوں سے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل سکیں۔
جب کسی بھی عدالت کے سامنے جواب دہی سے انکار ریاستی پالیسی بن جائے تو کئی دہائی پرانے اس تنازعے اور خونریزی کا اختتام کیونکر ممکن ہو؟ امریکہ نے آئی سی سی کے فیصلے پر لیبیا اور سوڈان کو دہشت گرد ملک قرار دے کر ان پر بدترین پابندیاں لگا دیں لیکن وہ اسی عدالت کو فلسطین میں جاری انسانی حقوق کی خلاف وزری کی تحقیقات کا مجاز نہیں سمجھتا۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم لاکھوں فلسطینی داد رسی کے لیے اب کون سا دروازہ کھٹکٹائیں؟ مغربی دنیا اس بات پر فخر کرتی ہے کہ قانونی کی بالادستی ان معاشروں کی پہچان ہے لیکن ان مہذب لوگوں کو فلسطینیوں کی انصاف سے محرومی پر کوئی تشویش نہیں۔ عدالت تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے۔ اقوم متحدہ کے چارٹر سمیت دنیا کے ہر دستور میں عدلیہ تک رسائی کو مسدود و محدود کرنا بدترین جرم ہے جسے حصولِ انصاف کی راہ میں رکاوٹ یا Obstruction of Justice کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدور رچرڈ نکسن اور بل کلنٹن کے مواخذوں میں جو فرد جرم عائد کی گئی تھی ان کا بنیادی نکتہ ہی Obstruction of Justice تھا۔ صدر نکسن کے معاملے میں ثبوت اتنے واضح تھے کہ گلو خلاصی کے لیے وہ مستعفی ہو گئے اور مواخذے کی نوبت نہ آئی۔ صدر ٹرمپ کے خلاف پہلے مواخذے اور 2016 کے انتخابات میں روسی مداخلت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI نے جو رپورٹ جمع کرائی تھی اس میں بھی امریکی صدر کے خلاف انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے دس الزامات لگائے گئے۔
آئی سی سی کو فلسطینی علاقوں میں تحقیق سے روکنا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کی بدترین شکل ہے جس کا اسرائیل کے ساتھ امریکہ بھی مرتکب ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم بن یامین کی اس ہٹ دھرمی سے ان فلسطینیوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جو طاقت کے جواب میں تشدد کے بجائے تنازعات کو بات چیت اور ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے حامی ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ
کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

جب کسی بھی عدالت کے سامنے جواب دہی سے انکار ریاستی پالیسی بن جائے تو کئی دہائی پرانے اس تنازعے اور خونریزی کا اختتام کیونکر ممکن ہو؟ امریکہ نے آئی سی سی کے فیصلے پر لیبیا اور سوڈان کو دہشت گرد ملک قراردے کر ان پر بدترین پابندیاں لگادیں لیکن وہ اسی عدالت کو فلسطین میں جاری انسانی حقوق کی خلاف وزری کی تحقیقات کا مجاز نہیں سمجھتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021