ملک کے نظامِ عدل پر سوالیہ نشان؟

پہلے عمل سے اور اب قول سے۔۔۔!

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی معنی خیز باتیں
سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی نے کولکاتہ میں منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے بڑے حیرت انگیز انکشافات کیے۔ انہوں نے عدالتوں کے موجودہ نظام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’عدالتوں میں کون جانا چاہے گا؟ اگر آپ عدالت کو جاتے ہیں تو آپ کو افسوس ہی کرنا پڑے گا‘‘ ایسے لوگ ہی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں جن کے پاس وقت اور پیسہ ہو جو اس کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہوں، جیسے بڑے بڑے کارپوریٹ کمپنیاں وغیرہ۔
رنجن گوگوئی نے ملک کے عدالتی نظام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ لوگ فیصلوں کے لیے عدالتوں کو جانا نہیں چاہتے کیوں کہ ہر عدالت میں کیسس کی اس قدر بھرمار ہے کہ فیصلے ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے اس طرح کے نظام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں بھی عدالتوں میں جانا نہیں چاہوں گا‘‘۔ وہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ ’’اگر آپ عدالت جاتے ہیں تو آپ عدالت میں پڑی گندگی ہی صاف کرتے ہیں عدالتوں سے آپ کو کوئی فیصلہ نہیں ملتا‘‘۔
گوگوئی نے عدالتی نظام کی بحالی کے لیے روڈ میپ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اپنے ملک کی معیشت کو 5 کھرب ڈالر کی بنانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس کمزور اور بوسیدہ عدالتی نظام ہے جو سست روی سے چلتا ہے‘‘۔ وبائی مرض کورونا کے دوران ٹرائل کورٹ میں ساٹھ لاکھ، ہائی کورٹ میں تین لاکھ اور عدالت عظمیٰ میں تقریباً سات ہزار مقدمات کا مزید اضافہ ہوا ہے۔ نظام کی درستگی کے لیے ایک منصوبہ ہونا چاہیے ایک روڈ میاپ ہونا چاہیے اور صحیح اور قابل شخص کا جج کے عہدے پر تقرر ہونا چاہیے۔ جج بننا ہمہ وقتی کام ہے یہ کوئی جز وقتی عہدہ نہیں ہے۔ کام کرنے کے کوئی اوقات نہیں ہوتے اسی لیے ان کی اچھی تربیت ہونی چاہیے۔
یہ وہی گوگوئی ہیں جنہوں نے 2018 میں دیگر ججوں کے ساتھ مل کر عدلیہ سے متعلق پریس کانفرنس کی تھی۔ جی ہاں! یہ وہی جج صاحب ہیں جنہوں نے اپنی خدمات سے سبکدوشی سے محض آٹھ دن پہلے بابری مسجد کے دہائیوں پرانے مقدمے کا فیصلہ دیا جس پر ملک کے ماہرین قانون نے تنقید بھی کی۔ اس فیصلے نے براہ راست بی جے پی و دیگر ہندتو وادی تنظیموں کی مدد کی۔ ان کے فیصلے نے ہی بی جے پی کو اپنے انتخابی وعدہ کو پورا کرنے میں مدد فراہم کی۔ بمشکل چھ ماہ بھی نہ گزرے کہ بی جے پی نے انہیں ایوان بالا کا رکن بنا کر ایک طرح سے احسان کا بدلہ چکا دیا۔ حالاں کہ وہ باضابطہ طور پر کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح وہ پہلے چیف جسٹس بن گئے جو اپنی سبکدوشی کے بعد راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے 2018 میں بہ حیثیت چیف جسٹس، وزیر اعظم کو عدالت عظمیٰ کی رونق افروزی کے لیے مدعو کیا تھا۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں کسی بھی چیف جسٹس نے وزیر اعظم کو عدالت عظمیٰ میں مدعو نہیں کیا تھا۔
ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس دن چیف جسٹس آف انڈیا پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا اس دن سے عدلیہ کا تقدس بھی پامال ہونے لگا ہے‘‘۔ مزید یہ کہ عدالت جسے مقدس جگہ سمجھا جاتا تھا اب اس کا وہ تقدس باقی نہیں رہا۔ اس کا تقدس اس وقت پامال ہوا جب اس کے برسرکار چیف جسٹس پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا اور وہ خود ہی اس مقدمے کی سنوائی بھی کرنے لگے اور اس سے بری بھی ہو گئے۔ پھر اپنی سبکدوشی کے محض 3 ماہ کے اندر Z پلس سیکیورٹی کو حاصل کرتے ہوئے ایوان بالا کی نامزدگی بھی قبول کرلی۔
یہ بھی بڑا عجیب اتفاق ہے کہ ان کے برادر عزیز انجن گوگوئی جو بحیثیت ایئر مارشل سبکدوش ہوئے انہیں نارتھ ایسٹرن کونسل کا ہمہ وقتی ممبر بنا دیا گیا جو ملک کے شمال مشرقی خطے کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی نوڈل ایجنسی ہے جو مرکزی حکومت کے محکمہ برائے وسطی و شمال مشرقی خطہ (ڈو این ای آر) وزارت کے تحت کام کرتا ہے۔ این ای سی کا نامزد ممبر وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔ انجن گوگوئی کو اس کا ممبر نامزد کیا گیا ہے چنانچہ فوج سے تعلق رکھنے والے وہ پہلے ایسے شخص بن گئے ہیں جنہیں اس طرح کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ این ای سی کی تاریخ میں جو چار دہائیوں پر مشتمل ہے اس طرح کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ اتفاقات بھی عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر رہے ہیں۔
ان کے دو اور بیانات بھی تعجب خیز ہیں۔ پہلا انہوں نے گیارہ فروری کو انڈیا ٹوڈے کانکلیو کے دوران دیا جو آسام میں شہریت کے اندراج (این آر سی) سے متعلق ہے جو عدالت عظمیٰ کی ایک بنچ کی نگرانی میں جاری ہے۔ دوسرا، شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے متعلق ہے۔ اس قانون کو مودی حکومت نے 2019 میں منظور کیا تھا جو حقیقت میں 1985 کے آسام اکارڈ کی کھلی خلاف ورزی کرنے والا ہے۔ یہ قانون خاص طور پر آسام پر جو ان کی آبائی ریاست بھی ہے، منفی اثرات ڈالنے والا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “این آر سی سیاستدانوں کا ایک بہت بڑا کھیل ہے۔ حقیقت میں کوئی سیاسی جماعت بھی این آر سی نہیں چاہتی چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی کوئی بھی اسے لاگو کرنا نہیں چاہتے۔ عدالت نے اس معاملے میں کافی محنت کی ہے اس پر ہمیں کوئی پچھتاوا نہیں ہے یہ وژن دستاویز ہے، یہ مستقبل میں کام آنے والی دستاویز ہے۔ ایک سیاسی جماعت غیر قانونی تارکین وطن کو یقین دلاتی ہے کہ اگر آپ ہمیں ووٹ دیں تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے وہیں دوسری جماعت کہتی ہے کہ تارکین وطن ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں، ہم ان کو نکال باہر کریں گے اگر آپ ہمیں ووٹ دیں گے۔ کوئی ان سے تحفظ فراہم کرنے کے نام پر ووٹ مانگتا ہے تو کوئی ان کو بے دخل کرنے کے نام پر۔ اصل میں یہ ایک سیاسی کھیل ہے جسے آسام کی عوام پچھلے پچاس سالوں سےجھیل رہے ہیں۔ گوگوئی ہمنتا بسوا سرما کے اس بات کا جواب دے رہے تھے جو 7 نومبر 2020 کو انہوں نے انڈین ایکسپریس سے کہی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’الیکشن کے بعد ہم مکمل این آر سی لائیں گے‘‘۔ گوگوئی کا سوال ہے کہ اس این آر سی میں کیا غلطی ہے؟ اس کو نافذ کریں یہ عدالت کی راست نگرانی میں تیار کیا گیا ہے۔
انہوں نے سی اے اے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’سی اے اے اب ایک قانون بن چکا ہے قطع نظر اس سے کہ یہ کسی کو پسند آتا ہو یا نہ آتا ہو، کوئی اسے ضروری سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو۔ اس قانون سے چھٹکارے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اس کو منسوخ کر دیا جائے یا عدالت عظمیٰ کے ذریعہ اس کے نفاذ پر روک لگائی جائے۔ آسام معاہدے کی شق 6 کے تحت جو مقامی لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے اس سے متعلق مرکزی حکومت نے کیا کیا؟ کچھ بھی تو نہیں کیا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے بیانات توہینِ عدالت یا تحقیرِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتے؟ اگر کوئی طنز و مزاح میں حکومت کے فیصلوں پر تنقید کرتا ہے تو اسے توہینِ عدالت کا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور اس کی پاداش میں اس پر مقدمہ بھی چلایا جاتا ہے کیا یہ نا انصافی نہیں ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں دو الگ الگ قانون نافذالعمل ہیں ایک صاحب اقتدار یا کارپوریٹس کے لیے تو دوسرا عام شہریوں کے لیے۔ گوگوئی کا وہ بیان بھی بڑا تعجب خیز ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’’عدالتوں کو کون جانا چاہتا ہے؟ میں بھی جانا نہیں چاہوں گا۔ اگر آپ عدالت جائیں گے تو آپ کو افسوس و پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، عدالتوں میں فیصلے کہاں ہوتے ہیں؟‘‘ اس طرح کے بیان کا کیا مطلب نکالا جائے؟ کیا انہوں نے یہ بات کہہ کر عدالتوں پر سوالیہ نشان نہیں لگایا ہے؟ کیا واقعی عدالتوں میں حق پر مبنی فیصلے نہیں ہوتے؟ اب تک جو فیصلے ہوئے ہیں اس کو کس نگاہ سے دیکھا جائے؟ چاہے وہ بابری مسجد کا فیصلہ ہو یا اظہار آزادی رائے سے متعلق فیصلے ہوں یا کوئی اور فیصلہ۔ کیا وہ صحیح فیصلے تھے؟ کیا رنجن گوگوئی نے عدالتی نظام اور اس کی کارکردگی سے متعلق ہمیں آئینہ نہیں دکھایا ہے؟ یا پھر انہوں نے گفتگو برائے گفتگو کی ہے؟ اگر صورت حال یہ ہے تو عام شہری انصاف کے لیے کہاں جائے کس سے امید لگائے کس سے منصفی چاہے کس کو وکیل کرے۔ یہ بہت ہی اہم سوالات ہیں جن کے جوابات انہیں سیدھے اور صاف الفاظ میں دینے ہوں گے ورنہ اس طرح کی گفتگو سے عوام میں عدالتوں سے متعلق عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو گی۔
***

ہم اپنے ملک کی معیشت کو 5 کھرب ڈالر کی بنانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس کمزور اور بوسیدہ عدالتی نظام ہے جو سست روی سے چلتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021