ہندوتو قو م پر ستی: تہذیبی جارحیت سے خونین فسطائیت تک

قسط ۔1

ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

ہمارے گزشتہ مضمون میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ فسطائی قوم پرستی کس طرح تہذیبی قوم پرستی کے پیٹ سے جنم لیتی ہے۔ اسے تین مراحل میں تقسیم کرکے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کیسے یہ خونیں درندہ، حالات و مواقع کے لحاظ سے مرحلہ وار اپنے جارحانہ چہرے کو آہستہ آہستہ بے نقاب کرتا ہے۔ قوم پرستی چاہے وہ ہندوتو قوم پرستی ہو یا جرمن قوم پرستی اس کا ہدف پہلے دن سے ایک فسطائی و جابرانہ نظام کا قیام ہوتا ہے جس کے سہارے وہ اپنے تمام فسطائی ایجنڈوں کو بعد میں پورا کرتی ہے۔ اٹلی اور ہٹلر کے جرمنی کا فسطائی نظام اسی تصور پر مبنی تھا، بھارت کی آر ایس ایس ہندوتو قوم پرستی کا ماڈل، جیسا کہ گولوالکر نے خود لکھا ہے جرمن کی یہی فسطائیت ہے جس کا آغاز ہٹلر نے عام سیاسی پارٹی کے طور سے کیا تھا ، اور بالآخر اس نے جارحانہ جرمن قوم پرستی کا سہارا لے کر وہاں بہت جلد سیاسی غلبہ حاصل کیا اور بعد میں اپنے تمام فسطائی منصوبوں کو پورا کیا جس نےجرمنی سمیت پوری دنیا کو تباہ کرکے رکھدیا تھا۔
آر ایس ایس کا سابق سر سنگھ چالک ایم ایس گولوالکر ہٹلر اور ان تمام لوگوں کو بہت پسند کرتا تھا جو نسل پرست اور نسل کشی کے چمپیئن تھے، اس کے یہ الفاظ جو 1939 میں لکھی گئی اس کتاب میں درج ہیں بھارت کے مستقبل کے نقشے پر سرخ لکیروں کی طرح تھے جنہیں نظر انداز کرنے کی غلطی کر کے یہ ملک آج آگ اور خون کے دہانے پر کھڑا ہے، وہ لکھتا ہے:
’’جرمنی نے اپنی قومیت اور تہذیب کی اصلیت ( purity) کو باقی رکھنے کے لیے اپنے ملک کی سامی النسل قوموں ( مراد یہودی) کو بالجبر ختم کرکے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔۔ اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مختلف قومیتوں اور تہذیبوں کو ایک جگہ رکھنا ناممکن ہے۔۔یہ ( نسلی تطہیر) ہمارے لیے ہندوستان میں ایک اچھا سبق ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے‘‘
(We or Our Nationhood Defined ,MS Golwalkar: 1939, P: 55)
یہ ہے اس ہولناک ہندوتو قوم پرستی کا منشور جس کا پہلا مرحلہ ہے تہذیبی قوم پرستی جس میں ایک مخصوص تہذیب کو ملک کی تمام قوموں پر تھوپنے کا عمل قوم پرستی کے نام سے کیا جاتا ہے تاکہ ان پر اعتراض کرنے والوں کو قوم دشمنی کے الزامات کے خوف سے خاموش رکھا جا سکے۔ اس کا دوسرا مرحلہ ہے تہذیبی جارحیت یا جارحانہ قوم پرستی ہے، اس مرحلے میں ملک کی اقلیتوں پر جبرا مخصوص مذہبی کلچر کو تھوپا جاتا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دے کر جارحیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا تیسرا مرحلہ خونیں فسطائیت ہے جس میں نسلی تطہیر کے نام سے اکثریت کے بالمقابل دیگر قومیتوں کو مٹانے کی ہمہ جہت کوشش کی جاتی ہیں۔ اس خونیں فسطائیت کے بھی دو مرحلے ہیں ، پہلے مرحلے میں نسلی تطہیر کا نشانہ بننے والی قوم پر بہیمانہ ظلم و تشدد اور قتل عام کے حربے آزمائے جاتے ہیں، اسے خوفزدہ کرنے کی ہر کوشش کی جاتی ہے تا کہ ان کی اکثریت اپنے آپ اپنے تہذیبی وجود سے دستبردار ہوجائے، جب کہ اس کے دوسرے مرحلے میں نسلی صفائی یعنی اکثریتی قوم کے علاوہ دیگر قوموں کو ختم کرنے یا انھیں تمام انسانی حقوق سے محروم کرنے کے حتمی منصوبے پر سرکاری طور سے کام شروع کردیا جاتا ہے۔
ہندوتو کے فکری موسسین، خاص طور سے ساورکر اور گولوالکر کی کتابوں میں اس منصوبے کی پوری آؤٹ لائن بغیر کسی دقت کے دیکھی جا سکتی ہے جہاں مساوی انسانی حقوق تو دور مسلمانوں کا وجود ہی ناقابل تسلیم ہے۔ یہی فسطائیت کا آخری روپ ہے جس پر سنجیدگی سے بحث و تحقیق کی ضرورت ہے۔ گولوالکر کے الفاظ اور آج کے ہندوستان پر جن کی شعوری نظر پے انہیں موجودہ حالات میں ان دونوں کو تطبیق دینے مین ذرا بھی مشکل نہیں ہوگی، آر ایس ایس کے والنٹیرز نے فسطائیت کے جرمن ماڈل کو اس ملک میں نافذ کرنے اور اپنے سر سنگھ چالک کی نصیحت کے مطابق اس سے بھر پور ’’فائدہ اٹھانے‘‘میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اور یہ ہمارا نہیں دنیا کے ہر صاحب نظر کا احساس ہے کہ اس مذموم مقصد کےحصول کے لیے آج ہندوستان میں پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ تک ہر وہ حربہ استعمال کیا جارہا ہے جس سے یہاں کی زمین مسلمانوں پر پوری طرح تنگ کر دی جائے۔
اس وقت اس ملک میں تہذیبی قوم پرستی یا سرکاری طور سے ہندو تہذیبی روایات کی ترویج و اشاعت کی عملی مثالیں تو آپ کو اب ہر روز ہر جگہ نظر آ سکتی ہیں، لیکن زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب اس کا جارحانہ رخ بھی بالکل عام ہوتا جارہا ہے، مسلمانوں پر ہجوم ظلم و تشدد کے بڑھتے واقعات، ان پر پولیس عملے کے بڑھتے مظالم، فرقہ وارانہ فسادات، مدارس و مساجد پر ہندوتو کی سرکاری و غیرسرکاری فورسز کے ذریعہ ہونے والے آئے دن کے حملے، اسلامی شعائر کی کھلے عام بےحرمتی، مسلمانوں کے تعلق سے حکومت و عدلیہ کا بڑھتا ہوا متعصبانہ و جانبدارنہ رویہ اسی ہندوتو فسطائیت کے برگ و بار ہیں، حکومتی جانب داری کی ایک بڑی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ محض گائے کے گوشت اور ٹوپی، داڑھی جیسی علامتوں کے بہانے موب لنچنگ میں درجنوں مسلمانوں کو گزشتہ تین سالوں میں قتل کیا گیا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن ہمارے وزیر اعظم کی طرف سے کسی متاثرہ فیملی سے تعزیت تو دور کسی ایک مخصوص واقعہ پر بیان دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے تعلق سے عدلیہ کے غیر منصفانہ فیصلوں نے اس رجحان کو مزید تقویت بخشی ہے۔ فسطائیت کی راہ ہموار کرنے والا تہذیبی جارحیت کا یہ وہ مرحلہ ہے جس کا آغاز یہاں تین دہائیوں پہلے ہو چکا تھا۔ اس خونیں فسطائیت کے حتمی مرحلے کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
اگر ہم اس صورت حال کو سوشل ایڈجسمنٹ کے نظریہ سے دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سب یہیں تک محدود رہتا تو بھی اقلیتیں یہاں اپنے لیے جینے کی کوئی راہ نکال لیتیں، لیکن تشویش کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ یہاں ہندوتو نامی فسطائیت کی رتھ ابھی رکنے کو تیار نہیں ہے، بلکہ اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کا بگل بجا چکی ہے، یہ مرحلہ وہ ہے جہاں باقاعدہ اقلیتوں کے وجود کو دوطرفہ طور سے گھیرنے کی نہ صرف تیاری ہوچکی ہے بلکہ اس کا منحوس آغاز بھی ہو چکا ہے۔ یعنی یا تو وہ ہندو تہذیب میں ضم ہوجائیں یا ملک (یا اس کی شہریت) چھوڑنے کو تیار ہو جائیں ۔یہی اس حتمی مرحلہ ہے جواقلیتوں، خصوصا مسلمانوں کی نسل کشی اور نسلی صفائے( Ethnic Cleansing) کے طویل منصوبے سے تعلق رکھتا ہے اور یہی فسطائیت کے اس دوسرے مرحلے کا سب نمایاں ایجنڈا ہے، اس کے آ جانے کے بعد جارحانہ قوم پرستی کی مار سے بچنے کے تمام دروازے ایک ایک کرکے مظلوموں پر بند کردیے جاتے ہیں، مقننہ، پولیس، عدلیہ یہاں تک کہ میڈیا بھی پوری طرح فسطائی قوتوں کے ساتھ ہوجاتی ہے اور تمام ذرائع پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ ان کی ہیبت سے اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے ایسے انصاف پسند افراد کی تعداد دن بدن سکڑنے لگتی ہے جو حق و انصاف کے ساتھ کھڑے ہوکر مظلوموں کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہیں یا اٹھا سکتے ہیں اور دوسری طرف مظلوم قوم کی اکثریت خوف کی نفسیات میں اس حد تک مبتلا ہوجاتی ہے کہ اس کی بڑی تعداد حالات سے سمجھوتہ کرنے پر راضی ہوجاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسے چند بڑے واقعات ہوئے ہیں جو ہماری اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آر ایس ایس – بی جے پی کی موجودہ مرکزی حکومت کے تحت ہندوستان بھی سابق جرمنی اور اسرائیل کی غاصب صہیونی ریاست کی طرح، ایک جمہوری ریاست ہونے کے باوجود آر ایس ایس کے تصورات کے زیر اثر عملا ایک فسطائی ریاست بن چکا ہے اور اس کے فطری نتائج بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ اسرائیل اور چین کی طرح مسلمانوں کے لیے ڈیٹیشن سنٹر کھولنے کی تیاری یہاں بھی ہورہی ہے، شہریت کے نئے مسلم کش ضابطوں کے بہانے آسام میں ’’ڈیٹنشن سنٹر‘‘ قائم کر کے بے شمار آسامی مسلمانوں کو غیر قانونی قرار دے کر اس میں ٹھونسنا اس کی پہلی بڑی مثال ہے اور اس کے بعد پورے ملک کے لیئے نئے امتیازی شہری قوانین بنا کر اس کے نفاذ کا منصوبہ بنانا اس فسطائی قوم پرستی کا دوسرا سب سے خطرناک اقدام ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پورا کھیل سرکار (جو اس وقت آر ایس ایس کے کنٹرول میں ہے)، ہندو کے نام پر کھیل رہی ہے جب کہ آر ایس ایس کی قیادت میں کام کرنے والی فسطائی قوتیں اسے ہندوتو کے نام سے آگے بڑھا رہی ہے لیکن سرکاری ہندو اور مسلم دشمن ہندوتو میں اس وقت یہی تعلق ہے جو استعماریت پسند صیہونیت اور اسرائیلی یہودی میں ہے، یعنی دونوں کا ہدف ایک ہے لیکن سرکار کی دکھاؤٹی مجبوریوں کی وجہ سے لیبل بدل دیا جاتا ہے، اس ذہنی وفکری مناسبت کی وجہ سے ماہرین عمرانیات نے ’ہندوتو‘ کی روح کو سمجھانے کے لیے ’’صہیونیت‘‘ کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ یعنی جس طرح ہندوتو کا تعلق ہندو سے ہے اسی طرح صہیونیت کا تعلق یہود سے ہے۔ اسے انسائیکلو پیڈ یا آف بریٹانیکا اور انسائیکلو پیڈیا آف ورلڈ ریلیجن – مریم ویبسٹر میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔(صفحہ نمبر 464)۔
ہم یہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ تہذیبی قوم پرستی اور تہذیبی جارحیت کے بعد فسطائیت کا دور آتا ہے اور اس کا دوسرا سب سے خطرناک مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ظالم فسطائی قوتیں بات بات پر مظلوم اقلیتون کو اپنا اور ملک کا دشمن قرار دے کر ان کو اور ان کی تہذیبی شناخت کو نیست و نابود کرنے پر تل جاتی ہیں۔
ہندوتو کی فسطائی قوم پرستی اصل منصوبہ مسلمانوں کی نسل کشی ہے، ‘یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ جس کا جی چاہے ساورکر اور گولوالکر کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لے جن کی تصویریں آر ایس ایس کے ہر چھوٹے بڑے پرچارک کے گھروں اور دفتروں میں لٹکی ہوئی ملیں گی۔ دو ہزار بیس کا ہندوستانی مسلمان آج ہندوتو کی ایسی ہی فسطائی قوتوں کی زد میں ہے۔ پہلے تو صرف اس کی جان و مال کو خطرہ لاحق رہتا تھا اور وہ انسیکوریٹی ( عدم تحفظ) کے خوف میں مبتلا رہتا تھا لیکن اب فسطائی قوتیں نئے نئے حیلوں سے اس ملک میں اس کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور اب خاص طور سے حکومت کے ذریعہ نئے شہری قوانین متعارف کرائے جانے کے بعد اسے انسرٹینٹی ( بے یقینی) کا سامنا ہے۔ اسی کا نام خونیں فسطائیت ہے جو اپنے علاوہ سب کو مٹا دینا چاہتی پے۔ جیسا کہ بتایا گیا ہہ مقصد پہلے دن سے آر ایس ایس کے ایجنڈے کا بنیادی جز رہا ہے، لیکن اب جب کہ انھیں مودی حکومت کی شکل میں اس کی تکمیل کا ’’سنہرا‘‘ موقع ملا ہے تو وہ اپنے دوسرے مرحلے کا فسطائی منصوبہ پورا کرنے کی عجلت میں ہیں اور اب یہاں جو کچھ شب و روز مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ قوتیں اپنے آخری ہدف تک پہنچنے کی تیاری کر چکی ہیں۔ یہ تیاری کس مرحلے میں ہے۔ آئیے اس پر ایک سرسری نظر ڈال لین۔
آج مسلمان اپنے ملک میں جس طرح کھلی ہوئی فرقہ وارانہ زیادتیوں کا تجربہ کر رہا ہے وہ فسطائیت کی ابتدائی ہی نہیں اس کی انتہائی صورت کی واضح مثالیں ہیں۔ گجرات سے لے کر کشمیر تک اور بنارس سے لے کر بامبے تک مسلم کش فسادات کی داستان جن کے ذہنوں میں محفوظ ہے اور جو ۔۔۔۔گجرات فساد، بامبے فساد اور میرٹھ فساد پر ملکی عالمی کمیٹیوں کی رپورٹوں اور ہیومن رائٹس واچ گروپ کی تفتیشی نتائج سے آگاہ ہیں، بابری مسجد کا دن دھاڑے انہدام، موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات، گھر واپسی کے نام سے مسلمانوں کو دوبارہ ہندو مذہب میں لے جانے کی منظم کوششوں کا جنہیں علم ہے، کشمیر سے متعلق ایکٹ دفعہ ۳۷۰ کا خاتمہ، اس کی تقسیم اور کشمیریوں پر ریاستی دہشت گردی کی جنہیں خبر ہے ، اس کے علاوہ گوشت اور ٹوپی جیسی علامتی وجوہات سے دادری کے اخلاق احمد، اور جنید و پہلو خان جیسے درجنوں بے قصور مسلمانوں کی جانیں لینے والےموبلنچنگ ( ہجومی تشدد) کے بڑھتے واقعات سے جو باخبر ہیں، شریعت سے متصادم ٹرپل طلاق کے سرکاری حکم نامہ کے اثرات کا جنہیں اندازہ ہے، جو دلی کے حالیہ فسادات کی بعض نئی صورتوں سے اور دلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ سے واقف ہیں اور مذہبی تفریق کی بنیاد پر بننے والے نئے شہری قوانین، جن کی مدد سے اس ملک میں مسلمانوں کا تہذیبی وجود ہی نہیں ان کا فزیکل وجود بھی مخدوش ہوگیا ہے ، کے نتائج جن کی نظر میں ہیں انھیں یہ یقین کرنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ اس وقت ہندوتو قوم پرستی” "تہذیبی قوم پرستی” اور "تہذیبی جارحیت” سے بھی بہت آگے نکل چکی ہے ، اور اب وہ خون آلود فسطائیت کی اپنی مطلوبہ منزل میں ہے جہاں مظلوم اقلیتوں کے وجود کو مٹانے یا کمزور کرنے کے عملی اقدامات شروع ہوچکے ہیں۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہندوتو کی جارحانہ برانڈ جسے آر ایس ایس اس ملک میں جلد از جلد عملی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے کے کچھ بدلتے پہلووں کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ اس وقت حال یہ ہے (جیسا کہ آر ایس ایس کے بعض ممبر، جو میری یونیورسٹی میں استاذ ہیں نے مجھ سے خود بتایا)، اس کے سر سنگھ چالک "سنگھ سیوکوں” اور مقامی "سنگھ پرچارکوں” کے سامنے وزیر اعظم سے لے کر عام سبھاسدس تک کو حسب مراتب پیشانی رگڑنی پڑتی ہے اور سنگھ کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا عہدہ بھی نہیں مل سکتا۔ آر ایس ایس کی یہ ہندوتو برانڈ اس وقت کیا چاہتی ہے؟ پونے یونیورسٹی کی ایک قابل پروفیسر سواتی دیاہدرائے ( Swati Dyahadroi) نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور آر ایس ایس کا یہ ہندوتو برانڈ پہلے سے کہیں زیادہ برہنہ ہو چکا ہے اور اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ مستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیار کرےگا ۔ ان کا کہنا ہے ہے کہ ہندوتو کے جارح ترین روپ اور اس کے مقاصد کے اظہار کے لیے "انہوں نے سیتا والے رام کے مجسمے کو اب تیر کمان والے مجسمے میں بدل دیا ہے، وجہ یہ ہے کہ بابری مسجد کے بعد سے آر ایس ایس ہندوتو کے سب سے زیادہ خونیں برانڈ پر کام کر رہی” ہے” ( ڈیلی ہندو: دو فروری ۲۰۲۰)
"Look at how they have been projecting lord Ram with just a bow and arrow in their literature”
ملک کے سیاسی و اقتصادی اور انتظامی ڈھانچے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا ہندوتو فسطائی قوم پرستی کا ایک بڑا منصوبہ ہے، کالے دھن کی واپسی، نوٹ بندی کا فیصلہ اور دستوری ترمیمات سے متعلق حکومت کے حالیہ اقدامات کو ہمیں اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے ، اس کا ایک بڑا مقصد میڈیا سمیت ملک کی تمام بڑی سیاسی و اقتصادی طاقتوں کو اپنا غلام بنانا ہے۔ سیاسی نظام کے معاملات یا عام ملکی و شہری قوانیں کسی مذہبی عصبیت سے محفوظ رہیں اور وہ فسطائی نظریات کی بھینٹ نہ چڑھیں اس کی یاد دہانی آزادی کے بعد بہت سے رہنماوں کی طرف سے بار بار کی گئی تھی، ان رہنماوں میں ابوالکلام آزاد، سروجنی نائیڈو، سبھاش چندربوس اور جواہر لال نہرو کا نام نمایاں ہے، نہرو کی یہ یاددہانی آج بھی غیر متعلق نہیں ہے: "قوم کے معاملات سیاسی اصولوں کی بنیاد پر ہی طے ہوں، نہ کہ مذہبی جذبات پر”۔
لیکن افسوس کہ ان یاد دہانیوں پر نہ تو بعد میں سیاسی پارٹیوں نے توجہ دی اور نہ ہماری حکومتوں نے بلکہ جب تک اس ہندوتو کو اقتدار نہیں ملا تھا اس کے افراد ملک کی سبھی بڑی سیاسی پارٹیوں میں کالی بھیڑوں کی طرح گھس کر اپنے منصوبے پر کام کرتے رہے اور اب جب کہ انھیں اقتدار حاصل ہوگیا تو اپنا ہر منصوبہ حکومت اور قومی اداروں کی مدد سے پورا کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین سیاسیات اس کے اس روپ کو ہندتو (تہذیبی قوم پرستی) کی جارح ترین برانڈ
(Most Agressive Brand of Hindutva) قرار دے رہے ہیں۔
اس جارح ترین ہندوتو کی تین بڑی علامتیں ہیں جو اس وقت پوری طرح ظاہر ہو چکی ہیں: پہلی یہ کہ اقلیتوں کی قانونی نسل کشی (Legalisation of Ethnic Cleansing) کے لیے امتیازی قوانین لا کر اس کی تیاری کی بنیادیں رکھی جارہی ہیں، دوسرے یہ کہ اس مذموم کام کے لیے پولیس اور عدلیہ کو اتنا متعصب و جانبدار کردیا گیا ہے کہ وہاں اقلیتوں کے لیے انصاف کے دروازے دھیرے دھیرے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ اور تیسری بڑی علامت یہ ہے کہ اس دور میں اقلیتی طبقے کو بار بار سرکاری یا غیر سرکاری حربوں کی مدد سے ذلیل کیا جا رہاہے اور اس کے مقابلے میں اکثریتی طبقے کے جارح و متشدد عناصر کو تمام طرح کے گھناونے جرائم کرنے کی آزادی ملتی جارہی ہے اور فسطائیت کے کارکنوں کو اس بات کے لیے ہری جھنڈی دکھادی گئی ہے کہ وہ اقلیتوں کے خلاف جو چاہیں کریں کہ اب وہ دستور و قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔(جاری)

***


"حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور آر ایس ایس کا یہ ہندوتو برانڈ پہلے سے کہیں زیادہ برہنہ ہو چکا ہے اور اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ مستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیار کرےگا۔”
(پروفیسرسواتی دیاہدرائے )