امریکہ کو کورونا اور ٹرمپ کی دوہری مار

سرمایہ دارانہ استعمار کی عالمی بساط کے الٹنے کا وقت آن پہنچا!

ڈاکٹر سلیم خان

کورونا وائرس کے معاملے میں امریکہ فی الحال ہر دو طرح سے پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ مریضوں کی تعداد میں تو بہت پہلے اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اب ہلاکتوں کی بابت بھی وہ سرِ فہرست ہوگیا ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور ترین ملک کی اس حالت میں کورونا سے بڑا کردار صدر ٹرمپ کی عدم سنجیدگی کا ہے۔ 18 مارچ، 2020 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کو چین سے پھیلنے والے چینی وباء کے نام سے منسوب کر دیا۔ یہ اس دن کی بات ہے جب تک کہ امریکہ کے اندر 5 ہزار سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہوچکے تھے اور 91ہلاکتیں بھی ہوچکی تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ اعدادو شمار اس وقت چین کے مقابلے بہت کم تھے لیکن اب یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ صدر ٹرمپ آنے والی مصیبت کا اندازہ لگانے میں بری طرح ناکام رہے۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کےمصداق امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کورونا وائرس کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے وُہان وائرس قرار دیا ۔ اتفاق سے جس طرح فی الحال ہندوستان مودی اور شاہ کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہے اسی طرح امریکہ میں بھی ٹرمپ اور پومپیو کی رام ملائی جوڑی آئے دن نت نئے گل کھلا رہی ہے ۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چین پر الزام تراشی کے جواب میں چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس خطے میں کورونا وائرس کو لانے والی امریکی افواج ہیں ۔یہ چین سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف ایک گہری سازش کا حصہ تھا۔ چین نے اس وقت نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ بیان کو مسترد کردیا تھا بلکہ امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ وہ چین کو بدنام کرنے کی بجائے اپنے معاملات پر توجہ دے۔ الزام تراشیوں سے قطع نظر اگر امریکی حکمراں چین کی اس نصیحت پر توجہ دیتے تو شاید آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ امریکہ کے صدر اور وزیر خارجہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابتدائی ایام میں چین کی جانب سے مناسب اقدامات کے فقدان پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ یہ بہتان طرازی بے بنیاد ہے۔ 31 دسمبر 2019 کو چین نے اقوام متحدہ میں عالمی صحت کے ادارے کو خبردار کردیا تھا کہ وُہان شہر میں 12 تا 29 دسمبرکے درمیان ایک نئے وائرس کا پتہ چلا ہے۔ اس کے بعد ہوانن کا مچھلی بازار بند کر دیا گیا۔ ۵ جنوری کو چین نے انکشاف کیا کہ یہ وائرس سارس یا میرس سے مختلف ہے اور ۷ جنوری کو اسے نوول کورونا وائرس کا نام دیا گیا۔ ۱۱ جنوری کو چین میں اس سے پہلی موت ہوئی اور ۱۲ جنوری کو یہ وائرس ایک چینی باشندے کے ذریعہ سرحد عبور کرکے تھائی لینڈ پہنچ گیا ۔
امریکہ کے دارالخلافہ واشنگٹن میں کورونا کی آمد کا اشارہ 21 جنوری کو مل گیا تھا ۔ ۲۲ جنوری کو اس کے انسانوں کے ذریعہ پھیلنے کی تصدیق ہوگئی اور اسی دن وُوہان سے باہر جانے والوں کے لیے ہوائی اڈہ اور ریل کی خدمت بند کردی گئی۔ اس لیے کہ تب تک چین میں ۵۴۷ لوگ متاثر اور ۱۷ ہلاک ہوچکے تھے۔ ۲۳ جنوری کو ڈبلیو ایچ او نے اس پر تشویش کا اظہار تو کیا مگر اسے عالمی وباء تسلیم نہیں کیا۔ ۲۹ جون کو قصر ابیض(وائٹ ہاوس) نے ٹاسک فورس بنا کر کے وائرس کے پھیلاو کی نگرانی کا اعلان کیا۔ ۳۰ جون امریکہ میں کورونا کے مریض کی سرکاری تصدیق ہوگی اور اسی اقوام متحدہ کے ادارے نے اسے عالمی وباء قرار دے دیا۔ ۳۱ کو ٹرمپ انتظامیہ نے ۱۴ دن کے اندر چین کا سفر کرنے والوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ ۲ فروری کو فلپائن کے اندر بھی کورونا سے متاثر ایک فرد کی موت ہوگئی اور ۸ فروری کو چین کے اندر ایک امریکی شہری ہلاک ہوگیا جس کی تصدیق سفارتخانے کے ذریعہ کی گئی۔ اتفاق سے ارضِ چین پر کورونا سے یہ پہلا غیر ملکی ہلاک ہوا تھا ۔ یہ تمام واقعات ذرائع ابلاغ میں آتے رہے لیکن دنیا کے مختلف ممالک کی طرح امریکہ نے بھی انہیں قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔ چین نے چونکہ ایک ماہ کے اندر حقیقت حال سے دنیا کو آگاہ کر دیا تھا اس لیے دوماہ بعد واویلا مچانا بے معنیٰ ہے۔
صدر ٹرمپ کو یہ غلط فہمی تھی کورونا صرف چین سے دیگر ممالک کو بر آمد ہوتا ہے اس لیے وہ بڑی ٹھاٹ باٹ کے ساتھ ہندوستان کے دورے پر آگئے اور کورونا کی عالمی وبا کے دور میں احمد آباد کے اندر ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا۔ ہندوستان سے لوٹ کر جب ۲۶ فروری کی صبح وہ امریکہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا ہوگا کہ کیلی فورنیا میں ایک ایسا شخص کورونا سے ہلاک ہوگیا جس نے نہ تو غیر ملکی سفر کیا تھا اور نہ کسی مسافر کے رابطے میں آیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے اندر بیرونی ذرائع کے بغیر بیماری کا پھیلاو شروع ہو چکا تھا جسے کمیونٹی ٹرانسفر ( یعنی معاشرتی پھیلاو ) کہا جاتا ہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس کے بعد اس طرح کی وبا پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس روز کورونا وائرس کی ان دیکھی کرنے پر حکومتِ امریکہ کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے مجبور ہوکر نائب صدر مائیک پینس کو سرکاری نگرانِ کار مقرر کیا گیا ۔ ۲۹ فروری کو واشنگٹن کا وہ پہلا مریض بھی لقمۂ اجل بن گیا۔
کورونا کی متوقع تباہی کا ڈونلڈ ٹرمپ نے تو نہیں لیکن ملک میں مختلف ریاستوں کے گورنرس نے اعتراف کرنا شروع کیا۔ یکم مارچ کو فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سانٹس نے عوامی حفظان صحت کی ایمرجنسی نافذ کردی اگلے چند دنوں میں کن ٹکی ، نیویارک ، میری لینڈ ، اوتاہ اور اوریگون میں اسی طرح کی ایمرجنسی لگائی گئی۔ لیکن عوام کا اس کے ساتھ کیا جانے والا معاملہ ہندوستان کے اندر برپا ہونے والے تالی تھالی اور دیا بتی کے جشن کو بھی شرمندہ کردینے والا تھا۔ اس ایمرجنسی کے 18 دن بعد جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وائرس کو چینی وباء قرار کہہ کر اس کا تمسخر اڑا رہے تھے فلوریڈا شہر میں متاثرین کی تعداد 328 تک پہنچ چکی تھی۔ فلوریڈا کی انتظامیہ نے پیش آئندہ خطرات سے نہ صرف عوام کو خبردار کر دیا تھا بلکہ ایک جگہ جمع ہونے کو ممنوع قرار دے دیا تھا ۔ اس کے باوجود ہزاروں لوگ بہار کا جشن منانے کی خاطر ساحلِ سمندر پر جمع ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ حکمراں کی غیر سنجیدگی عوام کی نفسیات پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
لوئزانا میں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جہاں گورنر جان بیل ایڈورڈ نے 50 سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگادی۔ اس کو پامال کرتے ہوئے ایسٹ بیٹن کے ایک چرچ میں سیکڑوں لوگ گورنر کے احکامات کے برخلاف عبادت کے لیے جمع ہوگئے۔ امریکہ کے پڑھے لکھے لوگ ذرائع ابلاغ کی سہولت سے لیس ہیں۔ جس دن مندرجہ بالا واقعات رونما ہورہے تھے اسی میڈیا انہیں بتا رہا تھا کہ فلوریڈا کے رکن پارلیمان ماریو ڈیاز بالارٹ اور اوہایو سے پارلیمانی رکن بین میک آدم کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ کین ٹکی سے میئر گریگ فشرکی اہلیہ کے کورونا سے متاثر ہونے کی خبر بھی عوام تک پہنچائی جارہی تھی لیکن کوئی ان پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ایک ہی دن میں وقوع پذیر ہونے والے یہ سارے واقعات امریکی عوام میں عدم سنجیدگی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ امریکہ کی موجودہ دگر گوں صورتحال کے لیے چین نہیں بلکہ یہ لا ابالی طرزِ زندگی ذمہ دار ہے۔
علاقائی سطح پر تو چین پہلے ہی مشرق بعید کا سپر پاور بن چکا ہے۔ اس کی فطری خواہش ہے کہ وہ عالمی پیمانے پر اپنا لوہا منوائے۔ عالمی قیادت کا خواب صرف اسلحہ کی دہشت سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا۔ قوت وحشمت سے لوگ دبک کر بیٹھ تو سکتے ہیں لیکن کوئی پیروی نہیں کرتا۔ علم و فن، عزم وحوصلہ ، یقین وایمان ، صبرو استقامت، دلیری و شجاعت، عدل و انصاف ، حسن اخلاق اور آزمائش کی گھڑی میں بے لوث خدمت خلق جیسی صفاتِ عالیہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اقوام عالم کو امامت کے درجہ پر فائز ہونے کا مستحق بناتی رہی ہیں۔ امریکہ کے فوجی غرور کو تو افغانستان کے اندر مجاہدین اسلام نے پاش پاش کردیا لیکن دیگر امور میں اس کی برتری پر کورونا کی وبا نے بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ امریکہ کے خلاف اول مقام حاصل کرنے کے لیے جو چین کی کشمش ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اس کے انجام سے صرف عالم الغیب واقف ہے۔ کورونا کی وبا چونکہ چین میں پھوٹی اور وہی سب سے پہلےاس پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ اس لیے وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے طبی معلومات کا بیش بہا خزانہ اس کے پاس موجود ہے ۔ ابتداء میں چین کے اعدادو شمار اس کی ناکامی کا اشارہ کرتے تھے لیکن اب اگر دوسرے ممالک سے اس موازنہ کیا جائے تو وہی سرخرو نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مشاہدات اور تجربات سے دوسرے ممالک استفادہ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ چین اس وقت وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ادوایات بلکہ و ڈسپوزیبل اشیا مثلاً دستانے، جراثیم سے محفوظ رکھنے والے سوٹ وغیرہ بنانے والا بہت بڑا ملک ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر چین کو طبی ساز وسامان بنانے کی دنیا کی سب سے بڑی ورکشاپ کہنا مبالغہ نہیں ہے۔ اس کے اندر حسبِ ضرورت اپنی مذکورہ صلاحیت میں اضافہ کی استطاعت بھی موجود ہے۔ چین اس کا بھرپور استعمال بھی کر رہا ہے۔
یوروپ جب کورونا کی آفت کا شکار ہوا تو امریکہ نے اٹلی سمیت یورپ کے بیشتر ملکوں سے آنے والوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر نے کا اعلان کردیا۔ اس کے برخلاف چین نے بلا تفریق دوست ودشمن متاثر ممالک کو نہ صرف آلات اور امدادی سامان فراہم کیا بلکہ اپنا طبی عملہ بھی روانہ کرنا شروع کر دیا۔ ایران اور سربیا اس کی مدد کے اولین حقدار بنے لیکن اس سے آگے بڑھ کر اس نے امریکہ کے حلیف ممالک مثلاًجاپان ، جنوبی کوریا اور یورپی ملکوں کی خدمت میں بھی طبی تعاون کرکے انہیں اپنا احسان مند بنا لیا۔ اپنے حریف کی اس پیش رفت کو دیکھ کر امریکہ بہادر کو اپنی عزت و وقار کا خیال آیا اور اس نے امریکی فضائیہ کی ایک موبائل طبی سہولت کا دستہ اٹلی روانہ کیا مگر اس وقت تک اتنی تاخیر ہوچکی تھی کہ اس کی جانب کسی نے توجہ دینے کی زحمت نہیں کی اور عالمی سطح پر اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔
نئی عالمی صورتحال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ زبردست نہیں رہا بلکہ زیر دست بن گیا ہے۔ ٹرمپ کے عدم تحفظ کا یہ عالم ہے کہ اس نے 11 اپریل کو بڑے فخر کے ساتھ دو کروڑ 90 لاکھ ہائیڈروکسی کلوروکوین کی گولیوں کے ذخیرے کا اعلان کیا حالانکہ اس دوائی کی افادیت ہنوز مسلمہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 2 اپریل کو چین سے فرانس کے لیے تفویض شدہ ماسک (mask consignment) کو قبضے میں لینے کے لیے امریکی خریداروں نے ڈالر اچھالے۔ 3 اپریل کو یہ خبر آئی کہ این 95 قسم کے دو لاکھ ماسک جو چین سے جرمنی جارہے تھے انہیں تھائی لینڈ سے امریکہ لے جایا گیا۔ کورونا کے پھیلاو میں جرمنی چوتھے نمبر پر ہے۔ اس خود غرضی کے مظاہرے نے یہ پیغام دیا کہ صدر ٹرمپ سمیت امریکی کسی اور کے حق کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اپنے مفاد کی خاطر ناجائز حربہ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ چین نے امریکہ کو ایک ہزار وینٹی لیٹرس مفت میں خیرات کردیے ٹرمپ نے اپنی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی صنعتوں کو کناڈا یا جنوبی امریکہ کے ممالک کا تعاون کرنے سے بھی روک دیا۔ وہ یہاں تک گر گئے کہ ڈیموکریٹس کے زیر نگیں ریاستوں پر الزام لگا دیا کہ وہ نیویارک کی مدد نہیں کررہے ہیں ۔
کورونا کے معاملے میں ٹرمپ سے پہلی غلطی تو یہ ہوئی کہ وہ اس خطرے کی سنگینی کا اندازہ لگانے میں چوک گئے اور پھر جب یہ آفت آن پہنچی تو ان پر ’امریکہ فرسٹ‘ کا آسیب سوار ہوگیا اس لیے امریکی نظام کی فرضی برتری کو ثابت کرنے میں جٹ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عالمی قیادت سے اس نازک موقع پر جس جذبۂ سخاوت، وسعت قلبی اور کشادہ دلی کی توقع تھی وہ پوری نہیں ہوسکی۔ صدر ٹرمپ کے ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ان کے ہاتھ پیر پھول گئے تو وہ وسائل کا مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں بھی ناکام ہوگئے۔ ایسے مواقع پر حالات پر قابو پانے کے لیے یہ ازحد ضروری ہے ۔دراصل دنیا بھر میں انتظامی اور سیاسی ڈھانچوں کا امتحان ایسے ہی وقت میں ہوتا ہے۔ جرمنی کی مثال سب کے سامنے ہے کہ جہاں سوا لاکھ سے زیادہ متاثرین کے باوجود ہلاکتیں ۳ ہزار بھی نہیں ہیں۔ یہ شرح پڑوس کے فرانس ، اٹلی اور اسپین کی بہ نسبت خاصی کم ہے۔ اس وبا کے دوران سویڈن، جنوبی کوریا، جرمنی اور چین وغیرہ نے جس مہارت کا ثبوت دیا ویسی مثال امریکہ نہیں پیش کر سکا۔
سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں نائب وزیر خارجہ کرٹ ایم کیمبل اور رش دوشی کا شمار ایشیائی امور کے ماہرین میں ہوتا تھا۔ ان دونوں نے امریکی جریدے فارن افیئر کے حالیہ شمارے میں ایک مشترکہ مضمون لکھ کر اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ سات دہائیوں میں امریکہ کی عالمی قیادت کا انحصار محض دولت اور فوجی قوت پر نہیں تھا۔ ان کے مطابق امریکی فوقیت کا دارو مدار بہتر طرز حکمرانی کے سبب حاصل ہونے والے قانونی جواز کے ساتھ ساتھ عالمِ انسانیت کی فلاح وبہبود کےلیے پیش کی جانے والی خدمات اور عالمی بحران کی صورت میں فوری مربوط حرکتِ عمل کی صلاحیت پر تھا۔ کورونا وائرس کی آزمائش نے امریکہ کی عالمی برتری کوان تینوں محاذ پر نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ کی ناکامی سے پیدا ہونے والے خلا کو چین کا بڑی سرگرمی اور مہارت سے پُر کرنا اس کو عالمی قیادت کا طاقتور دعویدار بنا دیتا ہے۔ ان ماہرین نے اس صورتحال کا موازنہ 1956 کی برطانوی صورتحال سے کیا ہے۔ اس وقت برطانیہ جیسی عالمی طاقت نہر سوئز کے آپریش میں ناکام رہی اور زوال پذیر ہوگئی۔ ان کے مطابق کورونا کے بعد امریکہ کی عالمی برتری کا بھی اسی طرح خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں بعید نہیں کہ علامہ اقبال کی یہ پیشن گوئی امریکہ اور ٹرمپ دونوں پر صادق آجائے؎
گیا وقتِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا

***


عالمی قیادت کا خواب صرف اسلحہ کی دہشت سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا۔ قوت و حشمت سے لوگ دبک کر بیٹھ تو سکتے ہیں لیکن کوئی پیروی نہیں کرتا۔ علم و فن، عزم وحوصلہ ، یقین وایمان ، صبرو استقامت، دلیری و شجاعت، عدل و انصاف ، حسن اخلاق اور آزمائش کی گھڑی میں بے لوث خدمت خلق جیسی صفاتِ عالیہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اقوام عالم کو امامت کے درجہ پر فائز ہونے کا مستحق بناتی رہی ہیں۔