لاک ڈاون کے شب وروز ’فرصت غنیمت ہے مصروفیت سے پہلے ‘

قارئین دعوت کے تاثرات

گھریلو اجتماعات کو فروغ دیں
ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد
آج اس وبائی مرض کی وجہ سے ہماری مصروفیات اپنے گھروں کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ یقیناً یہ امر ہمارے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہے کہ ہم اپنی مسجدوں میں داخلے سے محروم کر دیے گئے ہیں نماز جمعہ تو درکنار پنجوقتہ نماز بھی مسجد میں جا کر ادا نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے، ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے اپنے ہم اپنے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے تھے۔ آج موقع ہے کہ ہم اپنے بچوں پر اپنی محبت نچھاور کریں اور ان پر توجہ دیں۔ ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گھریلو اجتماعات کا اہتمام کریں۔ گھروں میں ہی نماز باجماعت کا اہتمام کریں۔ جو کتابیں مطالعہ میں نہیں رہیں انہیں مطالعے میں لائیں۔ اس کے علاوہ بالالتزام قرآن وحدیث اور سیرت ولٹریچر کا مطالعہ کریں۔ اپنے اطراف رہنے والے پریشاں حال اور ضرورت مند پڑوسیوں کے کام آئیں۔ دردمندان ملت سے میری اپیل ہے اور الحمداللہ ہم بھی اس سلسلے میں کوششیں کر رہے ہیں۔ آخری اور اہم بات یہ ہے کہ اس خطرناک مرض کے لیے ٹیکہ تو ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا ہے لیکن اس سے چھٹکارا پانے کی آسان ترکیب یہی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں رہیں اور لوگوں سے فاصلہ رکھ کر ملا کریں۔
***
لاک ڈاون کے شر میں خیر کے جلوے
مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی، محبوب نگر
۲۱ مارچ ۲۰۲۰ ہفتہ کے دن میں اپنے افراد خاندان کے ساتھ سسرال محبوب نگر جا پہنچا لیکن واپسی پر لاک ڈاون کا اعلان کر دیا گیا۔ مشورے میں یہ طے پایا کہ سسرال میں رہ کر ہی خیر منانی چاہیے چنانچہ وہیں پڑاؤ ڈال دیا گیا۔ لاک ڈاون کے شر سے جو خیر کے جلوے محبوب کی نگری میں سامنے آئے وہ یادگار ہیں اور ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ کی دعوتِ قلم نے اس کو محفوظ کرنے کا سامان بھی کر دیا۔ اللہ تعالٰی نے لاک ڈاون میں یکسوئی کے وہ لمحات بخشے کہ اکتالیس سالہ زندگی میں جس کا تصور بھی محال تھا، دوسرا بڑا خیر یہ تھا کہ سسرال میں قیام کرنے سے روزآنہ کی اشیائے ضروریہ کی خریدی سے نجات مل گئی تھی، پھر جنوری ۲۰۱۹ کے جان لیوا حادثے کے بعد اس قدر آرام وراحت کا مل جانا قدرتی خیر نہیں تو اور کیا ہے؟ تیسرا خیر یہ کہ ’آسان سیرت النبی ﷺ ‘ کی کتاب جو پروف ریڈنگ کے لیے میرے پاس آئی ہوئی تھی اس کا تصحیح طلب نسخہ جو میں نے بے خیالی میں رکھ لیا تھا اسے دیکھنے کا موقع میسر آ گیا۔ محبوب کی اس بستی میں اعزا واقربا بھی بہت ہیں پورے بیس برس بعد ان سے تفصیلی ملاقات کا موقع ملا تھا۔ وہیں محبوب نگر کے استاذ شاعر جناب ظہیر ناصری صاحب اور بزرگ عالم دین مولانا امیر اللہ خان قاسمی وغیرہ کی دعائیں بھی ملیں۔ آن لائن کلاسیس کے ساتھ ساتھ میرے خسر جناب شیخ سراج الدین صاحب اور برادران نسبتی کی تجوید وتلاوت کی کلاس شروع ہوئی۔ یہ سب علم دوست ہیں۔ تین ماہنامے تعمیر حیات، ماہنامہ حجاب، ہفت روزہ ریڈینس آتے ہیں، اس کے پرانے شمارے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کچھ کتابیں بطور تحفہ مجھے دیں۔ کاش کہ اسی طرح ہماری قوم کتاب دوست ہوتی، کتابیں جمع کرنے اور پڑھنے کا مزاج بناتی۔ نمازیں فرسٹ فلور پر با جماعت ادا ہوتی رہیں۔ چونکہ طویل قیام کا منصوبہ نہیں تھا اس لیے ایک جوڑا کپڑے کے ساتھ یہاں پہنچا تھا، اچانک لاک ڈاؤن سے تھوڑی سی پریشانی ہوئی لیکن معلوم ہوا کہ اہلیہ نے احتیاطاً ایک اور جوڑا کپڑوں کا اسپیر میں رکھ لیا تھا ورنہ ایک ہی لباس میں پورا لاک ڈاون گزارنا پڑتا۔ سوچنے لگا کہ ان غریبوں کا بے سہاراوں کا کیا ہوگا جن کے پاس نہ کھانے کو ہوگا نہ صحیح ڈھنگ کا لباس ہوگا۔ والد محترم سے مشورے کے بعد فوڈ پیاکیج تقسیم کرنے کا کام شروع کیا۔ لاک ڈاون کے بعد ۳۱ مارچ کو جناب محمد عبد الستار صاحب کے مکان ٹیچرس کالونی پر حج سوسائٹی ضلع محبوب نگر نے ۵۰ ہزار روپیوں کا گراں قدر عطیہ جماعت اسلامی ہند کے دہلی ریلیف فنڈ کے لیے پیش کیا۔ کچھ نہ کر کے بھی اتنے بڑے کام میں اللہ تعالی نے شریک فرمایا یہ اللہ کا فضل رہا۔
***
مذہبی تصانیف کا مطالعہ اور تقاریر کی سماعت
انور حسین، اودگیر
لاک ڈاون کی وجہ سے پورے ملک کی نقل وحرکت یکلخت تھم گئی۔ ٹرینیں، پروازیں سب بند ہوگئیں۔ قیامت خیز منظر محسوس ہوا۔ نہیں معلوم مختلف ریاستوں میں مزدوری ومعاش اور کاروباری حضرات کس طرح زندگی گزارنے کے لیے خورد ونوش کا انتظام کر پائیں گے۔ میرے اپنے گھر میں مرد وخواتین اور بچے ملا کر ۱۶ تا ۱۸ افراد اپنے ہی گھر میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ الحمدللہ اول روز سے ہی نمازیں اذاں وجماعت کے ساتھ گھر پر ادا کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ مرد حضرات پہلی صف میں بچے اور خواتین دوسری اور تیسری صف میں نماز ادا کرتے ہیں۔ مطالعہ قرآن سورہ بنی اسرائیل جاری تھا جس میں آیت ۲۵ تا ۲۷ کی تذکیر قابل توجہ رہی جس میں کہا گیا ’’تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے اور اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے لوگوں کے لیے در گزر کرنے والا ہے جو اپنے قصور پر منتبہ ہو کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئیں‘‘۔ عصر کی نماز کے بعد آداب زندگی کی خواندگی، مغرب کی نماز کے بعد بچوں کی تلاوت یسرنا القرآن اور کلمہ کا سیشن، فرزند ڈاکٹر زید حمزہ کی نگرانی میں جاری ہے۔ فجر کی نماز کے بعد تذکیر بالقرآن کی محفل۔ اسی دوران شعبہ خدمت اور مقامی ارکان کو متوجہ کیا گیا کہ وہ ضرورت مندوں اور مستحقین پر توجہ دیں۔ یہ معلوم کر کے دل کو اطمینان ہوا کے مقامی نظم کے علاوہ دیگر تنظیمیں بھی غرباء ومساکین کے لیے راشن کٹس اور خورد ونوش کا نظم کر رہی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کا ملک وملت سے خطاب بتاریخ ۳۱ مارچ ۲۰۲۰ واٹس اپ گروپ سفینہ نجات کے مضامین اور حلقہ ومرکز میں جناب امین الحسن صاحب کی تقاریر، ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب کے بروقت مضامین پڑھنے اور پڑھانے میں وقت گزر رہا ہے۔
***
بڑوں کے لیے تفہیم القرآن اور بچوں کے لیے تجوید کی کلاس
ڈاکٹر سید شاہین، بیڑ
الحمدللہ لاک ڈاون میرے پورے خاندان کے لیے ایک نعمت ثابت ہوا ہے۔ مہاراشٹرا کے ضلعی ہسپتال بیڑ میں بحیثیت فزیوتھراپسٹ میرے لیے لاک ڈاون کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، مجھے روزانہ ہسپتال جانا ہی پڑتا تھا۔ دن کے مختلف اوقات کو مختلف کلاسز (حکومت کی گائیڈ لائن کے مطابق احتیاطی تدابیر کے ساتھ) متعین کیے گئے تھے جو 11 بڑوں کے لیے، 11 بچوں کے لیے تھے جس میں بچوں کے لیے تجوید کے درجات- ڈاکٹر سید شاہین (بذات خود)۔ بچوں کے لیے درجہ حفظ – برادر (فزیوتھراپسٹ)۔ بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے تفہیم قرآن کی کلاس (بذات خود)۔ گیمز، بچوں کے لیے یوگا کلاس- میری والدہ (کینسر کی مریضہ) جواب بھی چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہیں. درس قرآن، میں اور میرے شوہر عامر علی کا کھانا پکانے اور صاف صفائی کا عمل – تمام مرد پانچ وقت کی اذان اور نماز باجماعت ۔ مرد (عورتیں اور بچے بھی شامل) ۔اس کے علاوہ بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے اسلامی کوئینز، ڈرائنگ, دستکاری وغیرہ۔ گھر کا ہر فرد کا روزآنہ امین الحسن صاحب کے ویڈیوز سے استفادہ کرنا۔
***
بچوں کو مادری زبان سکھانے کا موقع ملا
عرفان الٰہی، بریلی
کورونا وائرس اس وقت پوری دنیا کے اعصاب پر طاری ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں لاک ڈاون ہے لیکن کیا کیا جائے کووڈ 19 سے بچنے کا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی تو نہیں ہے۔ پوری دنیا کے طبی ماہرین اور حکومتیں اس موذی وائرس کا علاج اور توڑ ڈھونڈ رہی ہیں جبکہ عوام گھروں میں قید ہیں اور اپنے طور پر فرصت کے لمحات کو کارآمد بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔ میں بھی اسی تگ و دو میں تھا کہ اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ بچوں کو کچھ نیا سکھایا جائے بہت دنوں سے دل میں خلش تھی کہ کانوینٹ نظام تعلیم میں مادری زبان کے لیے بہت کم گنجائش بچی ہے۔ سہ لسانی فارمولہ عملاً صرف چند اسکولوں میں نافذ ہے ایسے میں بچوں کو مادری زبان سکھانے کے لیے اس سے بہتر موقع کب ملے گا؟ یہی سوچ کر میں نے 26 مارچ کو اپنے دونوں بچوں کو اردو سکھانے کا سلسلہ شروع کیا میری بیٹی کی عمر دس سال ہے اور وہ تیسری کلاس میں پڑھتی ہے بیٹے کی عمر تقریبا چھ برس ہے اور وہ درجہ اول کا طالب علم ہے ۔ پہلے ہفتے میں نے اردو کے حروف تہجی سکھانے پر توجہ مرکوز کی اتفاق سے میرے پاس اردو کے حروف تہجی سکھانے کا ایک ایسا فارمولا ہے جس میں حروف کی اشکال کے اعتبار سے زمرہ بندی کی گئی ہے ۔اس ترکیب سے کوئی بھی بچہ ایک ہفتہ میں حروف تہجی سیکھ سکتا ہے ۔ میں نے این سی ای آر ٹی کے اجمیر واقع ریجنل کالج میں اردو تدریس کی ایک ورکشاپ کے دوران ڈاکٹر ڈی آر رینہ سے یہ فارمولا سیکھا تھا جو روایتی طریقہ تدریس سے کہیں بہتر اور نتیجہ خیز ہے۔ گھر اور اسکول دونوں جگہ تجربہ کر چکا ہوں۔ دونوں بچے پہلے ہفتے میں ہی حروف تہجی لکھنے اور پڑھنے کی بنیادی مہارتیں حاصل کر چکے ہیں ۔ دوسرے ہفتے میں حروف کو جوڑ کر الفاظ بنانے اور الفاظ سے جملے بنانے کی مشق بھی کامیاب رہی اس دوران اسٹوری ٹیلنگ میتھڈ یعنی کہانیوں سے زبان سکھانے کا عمل بھی کافی کارآمد ثابت ہوا۔ بیٹی دو مختصر کہانیاں پڑھ چکی ہے بیٹا بھی دو حرفی الفاظ پہنچانے کے قابل ہو گیا ہے۔ بیٹی اپنے دادا جان سے قرآن پاک کا ناظرہ مکمل کرنے کے قریب ہے اور نماز بھی سیکھ چکی ہے۔
فاختہ پروری: لاک ڈاون کے دوران فطرت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان پرندوں کے لیے بہت کم جگہ بچی ہے۔ گوریا جیسا گھریلو پرندہ ناپید ہونے کے قریب ہے میں نے خود مشاہدہ کیا کہ فاختہ کا ایک جوڑا میرے پڑوس میں گھونسلہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا فاختہ پورچ میں لگے پنکھے پر ہر روز تنکے جوڑ کر گھونسلہ رکھنے کی کوشش کرتی لیکن فین چلتے ہی فاختہ کا آشیانہ بکھر جاتا تھا۔ میری اہلیہ نے فاختہ کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے توجہ دلائی تو میں نے اپنے صحن میں ایک خالی گملے میں عارضی گھونسلہ بناکر لٹکا دیا۔ فاختہ کے جوڑے نے دوسرے ہی دن اسے اپنا آشیانہ بنا لیا اور تیسرے دن فاختہ انڈے دے کر بچوں کے انتظار میں بیٹھ گئی۔ فاختہ کے ساتھ میرے بچے بھی ننھے منے چوزوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔لاک ڈاؤن میں انہیں بھی دل بہلانے کا ایک موقع مل گیا ہے۔
***
اسلام اسٹڈیز کے آن لائن ریفریشر کورس میں حصہ لیا
عازم نبیل حامد حسین، اکولہ
لاک ڈاون کی تقریباً پندرہ دن مکمل ہوچکے ہیں ہم نے اس طرح کا لاک ڈاؤن پہلی بار دیکھا ہے۔ کرونا وائرس کی جان لیوا وبا کے پیش نظر اپنی حفاظت کے لیے فرصت کے یہ لمحات میںسر آئے الحمدللہ ان دنوں میں مطالعہ کے لیے کافی وقت ملا۔ تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کیا گیا جس میں مولانا مودودیؒ کی چند بنیادی تصانیف کا دوبارہ مطالعہ کیا گیا اس کے علاوہ تفہیم القرآن جس کا مطالعہ پچھلے دو سالوں سے کر رہا ہوں اب مکمل ہونے کو ہے اور ارادہ ہے کہ اس کے بعد دوبارہ از سرِ نو اس کا مطالعہ کروں گا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز دہلی کی جانب سے شروع کیے گئے آن لائن ریفریشر کورس میں بھی حصہ لیا جو ان لمحات میں نوجوانوں میں دین کی بنیادی سمجھ کو بیدار کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں SIO کا ممبر ہونے کی حیثیت سے خدمت خلق کے کاموں میں بھی حصہ لیا جس میں راشن کٹس کی تیاری اور انہیں مستحق افراد تک پہنچانا اور کچھ افراد کی مالی مدد بھی شامل ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اس مرض سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے اور تمام انسانوں کی حفاظت فرمائے۔
***
عبادتوں کا اہتمام اوربزرگوں کی خدمت
سلمیٰ ایاز محمد
میں ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر ہوں، میں نے ان چھٹیوں کے دنوں سے سیکھا ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت جلد بازی میں کرتے ہیں، جیسے عبادت نہیں سر سے بوجھ اتار رہے ہے۔ دن بھر کی تھکان مصروفیت کے بعد ہم اپنا چین وسکون موبائل میں، گیمز میں اور سوشیل میڈیا پر تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ دوستوں سے باتیں کرکے گپ شپ کرکے ہمیں سکون مل جائے گا، مگر اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمیں چاہیے کہ موبائل میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں کو وقت دیں بزرگوں سے باتیں کریں ان کی تھوڑی سی صحبت میں رہ کر ہم ان سے بہت ساری کارآمد اور مفید باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ انھیں خوش رکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنے بزرگ والدین کو وقت نہیں دیتے حالانکہ وہ روزآنہ ہمارے آنے کا انتظار کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان سے باتیں کریں اور اکیلا پن دور کریں، لیکن ہم اکیلے بیٹھ کر ٹائم پاس کرتے رہتے ہیں۔ ماضی کی یادوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ہمیں اپنوں کو وقت دینا چاہیے ان کے ساتھ خوشی کے لمحات گزارنا چاہیے۔ خود بھی خوش رہیں اور انہیں بھی خوش رکھیں۔ ***
بڑےبزرگوں اور کمزوروں کی خبر گیری کا موقع
محمد غلام رسول قیصر، گولکنڈہ
میں کمپیوٹر انجینیر ہوں۔ میں جانتاہوں کہ مصروف زندگی کیسی ہوتی ہے۔ ایسے میں گھر کے بڑے بزرگوں کے لیے آج کل کوئی بھی وقت نہیں دے پا رہے ہیں۔ مشینوں کی طرح رات دن کام کرتے انسانوں کے لیے اپنے ماں باپ، دادا دادی، خاندان کے بزرگوں رشتے داروں کے لیے وقت نہیں ہے۔ یہ بزرگ، گھر کے افراد کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کوئی ان سے تجرباتِ زندگی کے بارے میں کسی بھی موضوع پر پوچھے اور وہ اسے تشفی بخش جواب دیں۔ لیکن ہمارے زمانے کے نوجوان انہیں خاطر میں نہیں لاتے، ان کو بھی جن کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور جو جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے۔ لیکن خدا کی قدرت سے ان کی خدمت کرنے کے لیے اب ڈھیر سارا وقت میسر آ گیا ہے۔ جو لوگ مصروفیت کی وجہ سے بزرگوں اور کمزوروں کی مدد نہیں کرسکے تھے انہیں اب موقع ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ والدین کی خدمت کرکے انہیں راضی کرنے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ ماں باپ کی رضا میں رب کی رضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے، اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ لہٰذا اس موقع کو غنیمت جانیں اور والدین یا ان میں سے کوئی ایک ہوں تو ان کی خدمت کریں اگر نہ ہوں تو ان کے لیے دعائے مغفرت کریں اور ان کی اولاد کے ساتھ نیک برتاؤ اور بزرگوں اور کمزوروں کی خبر گیریں کریں۔
***