گاندھی اور مودی کے رام راج کا فرق

ہاتھرس کی مظلوم دلت بیٹی سے وقار کےساتھ آخری رسومات کا حق کیوں چھینا گیا؟

ڈاکٹر سلیم خان

 

۲؍ اکتوبر 1869گاندھی جی کا یومِ پیدائش ہے۔ گاندھی جی اگر اب تک باحیات ہوتے تو ان کی عمر 150سال ہو جاتی۔ اس لیے حکومتِ ہند نے یہ سال گاندھی جی کے حوالے سے منایا اور کئی خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا۔ اس کے ابتدا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کو یہ پیغام دیا کہ ’’ہندوستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے کہ صفائی کی بابت گاندھی جی کے نصب العین کو 2019میں 150ویں سالگرہ کے موقع پر پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون کریں‘‘۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ مودی جی کی بی جے پی نے گاندھی جی کی شخصیت کو صفائی ستھرائی مہم تک محدود کردیا اور سماج سے متعلق ان کے افکار و نظریات کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔ گاندھی جی کی عینک کے ایک شیشے پر سوچھّ اور دوسرے پر بھارت لکھ کر پچھلے 6سالوں سے جو پاکھنڈ کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں کہ صاف ستھرے مقام پر پہلے کچرا ڈلوایا گیا اور پھر اس صاف کرنے کا ناٹک کرکے ویڈیو بنائی گئی۔ وقت کے ساتھ اب اس کو دیکھنے والے اور کرنے والے دونوں اوب چکے ہیں۔ گاندھی جی کے ساتھ حکومت کا یہ سلوک دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
گاندھی جینتی سے 10دن قبل ایوان پارلیمان کے اندر صفائی سے متعلق ایک سرکاری رپورٹ پیش کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سی اے جی کی رپورٹ میں ہی بدعنوانی کی گندگی پائی گئی۔ مرکزی حکومت کے ایما پر مختلف وزارتوں کے تحت 2,162.60 کروڑ روپیوں کے خرچ سے درس گاہوں میں جملہ 1,30,703 بیت الخلا تعمیر کیے جانے تھے۔ کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل نے پندرہ صوبوں کے 2,048 اسکولوں میں جانچ کی تو پایا کہ کچھ تو موجود ہی نہیں ہیں اور کچھ نامکمل ہیں۔ ایسے بیت الخلا بھی ہیں جو تکمیل کے باوجود استعمال میں نہیں ہے۔ کہیں پانی کی سہولت نہیں ہے تو کہیں ہاتھ دھونے کی سہولت ندارد۔ کئی مقامات پر تعمیر ناقص ہے اور وہ ناقابل استعمال ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ ان کی دیکھ بھال ٹھیک سے نہیں کی جا رہی ہے۔ عوام سے تعاون مانگنے والی مرکزی حکومت کا اپنا یہ حال ہے کہ اس نے خود صرف 65فیصد کام کرکے ۳۵ فیصد صوبائی حکومتوں کے سر مار دیا۔ اس میں سے بھی کل ہدف کا صرف 33فیصد کام مکمل ہو سکتا ہے۔ یہ ہے وزیراعظم نریندر مودی کا بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا عملی نمونہ۔
اس سال پھر رسم کی ادائیگی کے لیے صدر مملکت رام ناتھ کووند نے گاندھی جینتی کے دن ٹویٹ کرکے لکھا کہ ’’گاندھی جینتی کے دن ممنون ملک کی جانب سے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں‘‘۔ صدر جمہوریہ نے اعلان کیا کہ ”ان کی تعلیمات معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کر کے پوری دنیا کی فلاح و بہبود کا سرچشمہ بنی ہوئی ہیں۔‘‘ صدر کووند جس دنیا کی بات کر رہے ہیں اس میں غالباً اتر پردیش شامل نہیں ہے جہاں ہاتھرس کے اندر عوام اور صوبائی حکومت نے مل کر سچائی، عدم تشدد، محبت اور معاشرتی ہم آہنگی کی چتا نصف شب میں جلا دی۔ ہاتھرس کی بیٹی کے اعزہ و اقارب روتے پیٹتے رہ گئے۔ رام ناتھ کووند کا تعلق نہ صرف اتر پردیش سے ہے بلکہ پسماندہ ذات سے بھی ہے اس کے باوجود وہ اپنی برادری کی لڑکی پر ہونے والے اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت نہیں کر سکے اور نہ ہی تعزیت کی۔ ملک کا اولین شہری اگر اس قدر خوفزدہ ہو تو باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس بے حسی کے بعد یہ الفاظ کہ ’’آئیے ہم سب ایک بار پھر گاندھی جینتی کے موقع پر یہ عہد کریں کہ ہمیشہ حق اور عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے ملک کی ترقی، فلاح و بہبود، صاف ستھرا خوشحال اور مضبوط ہندوستان بنا کر ہم گاندھی جی کے خوابوں کی تعبیر دیں گے‘‘ بے معنیٰ معلوم ہوتے ہیں ۔گاندھی جینتی کے دن وزیر اعظم مودی نے صرف ٹویٹ پراکتفا نہیں کیا بلکہ وہ صبح صبح گاندھی جی کی سمادھی راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور گلہائے عقیدت پیش کیا۔ صدر کووند کو نہ تو انتخاب لڑنا ہے اور نہ جیتنا ہے اس لیے وہ ٹیلی ویژن پرگاہے بہ گاہے نظر آنے کی مجبوری سے بے نیاز ہیں مگر مودی جی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اسی لیے وہ ذرائع ابلاغ میں آنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے بلکہ مصیبت میں بھی مواقع تلاش کر لیتے ہیں۔ سمادھی پر جانے سے قبل انہوں نے گاندھی جی کو یاد کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ’’گاندھی جینتی پر ہم پیارے باپو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی زندگی اور عظیم خیالات سے بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ باپو کے نظریات خوشحال اور مہربان ہندوستان بنانے میں ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے‘‘۔
وزیر اعظم مودی نے بڑے اچھے انداز میں گاندھی جی کے نظریات و خیالات کا ذکر کر کے اعتراف کیا کہ بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال گاندھیائی نظریات صرف ک
تابوں کے اندر بند ہوکر رہ گئی ہیں۔ مودی جی سے اگر کوئی پوچھے کہ گاندھی جی کیا چاہتے تھے تو ان کا جواب ہوگا کہ وہ رام راج چاہتے تھے۔ فی الحال چونکہ گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے وارث برسر اقتدار ہیں۔ گوڈسے کو اپنے لیے نمونہ سمجھنے والی پرگیہ ٹھاکر رکن پارلیمان ہے اس لیے رام راج کا نام آتے ہی سنگھ کے پیش کردہ تصورات ذہن میں آ جاتے ہیں۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ گاندھی جی کے نزدیک رام راج کا کیا مطلب تھا۔ انہوں نے لکھا تھا ’رام راج سے میری مراد ہندو راج نہیں ہے۔ میرے نزدیک رام راج کا مطلب خدا کی ربانی(divine) حکومت ہے۔ میرے لیے رام اور رحیم ایک ہی معبود ہے۔ میں ایک کے سوا کسی کو خدا نہیں مانتا۔ سچائی اور راستبازی کا خدا‘۔ وزیر اعظم نریندر مودی کیا ان خیالات سے کچھ سیکھیں گے اور اس کی رہنمائی میں ملک کو خوشحال بنانے کی کوشش کریں گے؟
گاندھی جی نے اپنی ایک تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’میرے تصور کا رام چاہے اس دنیا میں رہا ہو یا نہیں، بے شک رامائن کا قدیم نمونہ ایسی حقیقی جمہوریت ہے، جس میں غریب ترین شہری کو بغیر پیچیدہ اور مہنگے ضابطوں کے سرعت کے ساتھ انصاف کا یقین ہو‘‘۔ وزیر اعظم کو اپنے ضمیر سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اس کسوٹی کے حساب سے ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟ کیا ہاتھرس کی بیٹی منیشا والمیکی کو بھی جیوتی سنگھ عرف نربھیا کی مانند انصاف ملے گا؟ کیا اس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو بھی سولی پر چڑھایا جائے گا یا انہیں اس لیے بچا لیا جائے گا کیونکہ وہ ٹھاکر ہیں اور وزیر اعلیٰ اپنی برادری کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے؟ منیشا والمیکی راجپوت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس پسماندہ سماج سے ہے جس پر پچھلے پانچ ہزار سالوں سے ظلم و ستم روا رکھا گیا ہے۔ گاندھی جی لکھتے ہیں ’’شاعر کے مطابق کتے کو بھی رام راج میں انصاف ملا‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یوگی کے رام راج میں دلتوں کو یعنی انسانوں کو بھی انصاف ملے گا یا نہیں؟
پچھلے سال دسمبر میں شہر حیدرآباد کے سائبر آباد علاقہ کے اندر ایک 26 سالہ وٹرنری ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کے قتل اور لاش کو جلادینے کی واردات ہوئی۔ ہاتھرس میں یہ دونوں کام ملزمین اور پولیس کے اشتراک سے ہوئے، عصمت دری چار اوباش نوجوانوں نے کی اور لاش کو پولیس نے جلایا۔ حیدرآباد واقعے کے ملازمین کو چند روز بعد واردات کی دوبارہ منظر کشی کے لیے اس مقام پر لے جایا گیا اور اس کام کے کے لیے حیرت انگیز طور پر رات کے ۳ بجے کا وقت منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد حکام نے بتایا کہ ملزمین نے بھاگنے کی کوشش کی تو پولسی عہدیداروں نے ان پر فائرنگ کر دی جس میں پولیس کے تین اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ اس انکاونٹر پر لاکھ اعتراض کے باوجود ملک بھر میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اتر پردیش کی پولیس تو انکاونٹر کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یوگی ڈھٹائی سے ’ٹھوک دینے‘ کی ترغیب دیتے ہیں۔ ابھی حال میں وکاس دوبے اور اس کے ساتھیوں کو ڈنکے کی چوٹ پر فرضی انکاونٹرس میں ہلاک کیا گیا ہے تو ایسے میں سوال ہے کہ منیشا کی آبرو ریزی اور قتل کرنے والوں کا انکاونٹر ابھی تک کیوں نہیں ہوا؟
وزیر اعظم نریندر مودی کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کیونکہ گاندھی جی نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’میرے خوابوں کے رام راج میں راجہ اور رنک کے لیے یکساں حقوق کی یقین دہانی ہے‘‘۔ اگر ایسا ہے تو حیدر آباد کی ڈاکٹر اور ہاتھرس کی مظلومہ کے درمیان یہ فرق کیوں ہو رہا ہے؟ اُس کے قاتل کیوں مارے گئے اور اِس کے قاتل کیوں زندہ گھوم رہے ہیں؟ 30؍جنوری 1948کو ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل کر دیا تھا لیکن اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ہاتھرس کا سانحہ دیکھ کر ان کا ہارٹ فیل ہوگیا ہوتا۔ گاندھی جی کے آخری الفاظ ’ہے رام‘ تھے کیونکہ وہ اس ملک میں رام راج قائم کرنا چاہتے تھے۔ سوئے اتفاق سے گوڈسے نے انہیں رام راج قائم کرنے کی خاطر ہی قتل کیا تھا۔ ہاتھرس کا ظلم گواہ ہے کہ یوگی کے رام راج نے گاندھی جی کے رام راج کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس لیے جب راہل گاندھی نے اس موقع پر اپنے پیغام میں گاندھی جی کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ گویا وہ یوگی اور مودی سرکار پر تنقید کررہے ہیں ’’میں دنیا میں کسی سے نہیں ڈروں گا … میں کسی کی ناانصافی کے سامنے نہیں جھکوں گا، میں جھوٹ کو سچائی سے جیتوں گا اور جھوٹ کی مخالفت کرتے ہوئے میں تمام مصائب کو برداشت کروں گا‘‘۔
اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی نااہلی نے ملک کی عوام کو عدالت کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور کیا۔ مایاوتی تو سپریم کورٹ سے ازخود توجہ دینے کا تقاضہ کر کے خاموش ہو گئیں لیکن ستیاما دوبے، وکاس ٹھاکرے، رودر پرتاپ یادو اور سوربھ یادو نے عدالت عظمیٰ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کر دی۔ عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ اتر پردیش کے معاملے کی جانچ اور ٹرائل شفاف طریقے سے نہیں ہو پائے گی اس لیے اسے اتر پردیش سے دلی منتقل کرنے کی ہدایت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی
اس کی سی بی آئی، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے سبکدوش جج کی قیادت والی ایس آئی ٹی سے جانچ کرائی جائے۔ اتر پردیش کی حکومت جس غیر ذمہ دارانہ انداز میں اپنے افسران کا استعمال اور مجرمین کا بچاؤ کر رہی ہے اس کے پیش نظر یہ جائز مطالبہ ہے بلکہ عدالت کے باہر تو یوگی آدتیہ ناتھ کو وزارت اعلیٰ کی کرسی سے برخواست کر کے صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ویسے مودی سرکار سے یہ توقع کرنا فضول ہی ہے کہ وہ اس موقع پر کوئی سخت اقدام اٹھائے گی لیکن ممکن ہے عقل کے ناخن لیتے ہوئے آگے چل کر یوگی کو دلی بلا لے اور ان کی جگہ کوئی قدرے سمجھدار آدمی کو اس اہم عہدے پر فائز کرے۔
ہاتھرس عصمت دری اور قتل کے معاملہ پر سپریم کورٹ نے خود سے توجہ نہیں دی مگر حیرت انگیز طور پر اتر پردیش کی الٰہ آباد ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔ ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی کے بعد عدالت عالیہ کی لکھنؤ بنچ نے یہ دوسرا جرأتمندانہ قدم اٹھایا ہے۔ اس معاملے میں کورٹ نے انتظامیہ پر حوصلہ افزا سخت تبصرہ کرتے ہوئے یو پی حکومت کے افسران سے جواب طلب کیا ہے۔ منیشا کی موت کے بعد انتظامیہ کی طرف سے آناً فاناً آخری رسومات ادا کرنے کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ مجرموں نے پہلے متاثرہ کے ساتھ بربریت دکھائی اور اس کے بعد اس کے کنبہ کے دکھوں کو دور کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی۔ قبل ازیں، ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہے کہ نہ صرف زندگی بلکہ موت کے بعد بھی پُر وقار طریقہ سے آخری رسومات کی ادائیگی ایک بنیادی حق ہے۔ لاش کو اس کے گھر لے جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ عوامی اہمیت اور عوامی مفاد کا معاملہ ہے کیونکہ اس میں ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں پر الزامات عائد ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف متاثرہ افراد کا استحصال ہوا ہے بلکہ کنبے کے انسانی اور بنیادی حقوق کی بھی پامالی ہوئی ہے۔ ہائی کورٹ نے متعلقہ افسران سے 12 اکتوبر کو پیش ہو کر جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔
عدلیہ کے اس مثبت رویے پر پرینکا گاندھی نے ٹوئٹر پر لکھا، ’’الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کا فیصلہ مضبوط اور حوصلہ افزا ہے۔ پوری قوم ہاتھرس کی متاثرہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ یو پی حکومت کی طرف سے متاثرہ کنبہ کے ساتھ غیر انسانی، غیر منصفانہ رویہ کے درمیان اندھیرے میں امید کی کرن کے مترادف ہے‘‘ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی کے خیمے میں یوگی مخالف موریہ نے بھی اپنی تلوار میان سے باہر نکال لی ہے۔ انہوں نے اپنے مہرے اور غازی آباد کی لونی سیٹ سے بی جے پی رکن اسمبلی نند کشور گرجر کو میدان میں اتارا جو پہلے بھی یوگی کے خلاف ۱۲۰ ارکان اسمبلی کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ چکے ہیں۔ بی جے پی رکن اسمبلی نے گورنر آنندی بین پٹیل کو لکھے خط میں ہاتھرس حادثہ کو لے کر یو پی کے ڈی جی پی سمیت ہاتھرس کے ڈی ایم اور ایس ایس پی پر دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاست سے قطع نظر یہ جائز مطالبہ ہے۔ اس خط کی نقل وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور ریاستی صدر سوتنتر دیو سنگھ کو بھی روانہ کی گئی ہے۔ نند کشور گرجر نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد یہ پہلا حادثہ ہے جس میں پولیس انتظامیہ نے اعلیٰ افسران کے اشارے پر ایک مبینہ آبرو ریزی اور نفرت آمیز طریقے سے کیے گئے قتل معاملے میں اہلِ خانہ کو اعتماد میں لیے بغیر ان کو بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہوئے انہیں ارتھی کو کندھا دینے اور مکھیہ اگنی تک نہیں دینے دیا۔ یہ خط اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اب بی جے پی بھی اس معاملے کی سیاسی تپش محسوس کرنے لگی ہے۔
یوگی کو جمہوریت کی اجتماعی آبرو ریزی کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو ہاتھرس جانے سے روکنا مہنگا پڑا ہے اس لیے کہ خود نریندر مودی نربھیا کے گھر جا چکے ہیں لیکن ان پر سیاست کا الزام لگا کر کسی نے نہیں روکا تھا۔ اوما بھارتی نے بھی یوگی کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل کوئی حکومت اس قدر عدم تحفظ کا شکار نہیں تھی کہ مخالفین کی نقل و حرکت پر ایسی پابندی لگائے۔ ان لوگوں کو اقتدار کی محبت اور اس کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف کچھ زیادہ ہی ستا رہا ہے۔ شاید انہیں احساس ہو گیا ہے کہ اقتدار چھن جانے کے بعد انہیں اپنی بد عنوانیوں کے سبب جیل کی ہوا کھانی ہی پڑے گی۔ ہاتھرس جانے سے روکے جانے پر مظاہرین نے دلی کے جنتر منتر پر ایک عظیم الشان احتجاج کرایا ہے۔ اس میں درجنوں سیاسی و سماجی تنظیموں نے یوگی حکومت کے ساتھ مرکز کی مودی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا نیز، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے استعفیٰ یا برطرفی کا مطالبہ کیا۔ اس سے یوگی سرکار کچھ دباؤ میں آئی اور اس نے ضلع کے ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت 5 پولیس افسران کو معطل کر دیا ہے۔ حکومت نے ایس پی، ڈی ایس پی اور علاقے کے انسپکٹر پر واقعہ کے بعد کارروائی میں لاپروائی برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔
ہاتھرس کی اس اٹھا پٹخ میں بی جے پی کے سابق سکریٹری اور سنگھ کے دانشور رام مادھو نے گاندھی جینتی کی آڑ میں ایک مضمون لکھ کر مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس کے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’گاندھی ازم آزادی اور تزکیہ نفس پر یقین کرنے کا نام ہے۔ آمریت کا فروغ حکومت کی جابرانہ قوت، ذرائع ابلاغ اور مسلسل پروپیگنڈا اور چاپلوس نشانہ بازوں سے ہوتا ہے۔ گاندھی نے ناقدین کا احترام کیا لیکن آمر اختلاف کو برداشت نہیں کر سکتے وہ اپنے خول میں خوشامدیوں سے گھرے رہتے ہیں‘‘۔ اس بیان کا ایک ایک لفظ مودی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس کے بعد رام مادھو مثالوں کے ذریعہ اپنی بات واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہٹلر اور اسٹالن کی یہی کہانی ہے۔ ۱۹۳۳ میں ہٹلر نے اعلان کیا تھا کہ حکومت میں پارٹی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس نے اپنے آپ کو ماہرین سے گھیر لیا اور جو رہنما سامنے آیا اسے تاریخ کی یادداشت میں درج کر دیا۔ اسٹالن نے پارٹی کے اندر اپنے حریفوں اور مخالفین سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو ہٹانا شروع کیا۔ ۱۹۳٤ میں اس کی ابتدا سرگی کوروف کے قتل سے ہوئی اور اختتام ۱۹٤۰ میں لیون ٹروسکی کی ہلاکت پر ہوا۔ اپنی مہم میں ہٹلر اور اسٹالن نے حکومت کی طاقت اور میڈیا پر مکمل انحصار رکھا تھا‘‘ اب یہی مودی کر رہے ہیں۔
رام مادھو کو حال میں بی جے پی نے ان کے عہدے سے محروم کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’آج کی دنیا میں جمہوریت کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ عوام کی آزادی خطرے میں ہے۔ گاندھیائی ایجنڈا ہمیشہ زیادہ کھلے پن، آزادی، اور ایک عزت و وقار کی زندگی میں ہے۔ ایک مہربان ریاست اور آزاد ذرائع ابلاغ عوام کی آزادی کے لیے لازمی ہیں‘‘۔ سنگھ کے راج میں مسلمانوں کو یہ بات یاد دلانی پڑے گی سب جانتے تھے لیکن آر ایس ایس کے ایک دانشور کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑے گا کون جانتا تھا؟ رام مادھو اپنے مضمون کے اختتام میں گاندھی جی کا اقتباس نقل کرتے ہیں ’’میں وہ کہتا ہوا چلا جاؤں گا جو کہہ رہا ہوں، لیکن ایک دن لوگ مجھے یاد کریں گے کہ یہ غریب جو کہتا تھا وہی سچائی تھی‘‘۔ رام مادھو نے اپنے من کی بات گاندھی جی الفاظ میں بیان کر دی اور لکھا ’’گاندھی ازم اس بات کی معرفت ہے کہ گاندھی درست تھے‘‘۔ مودی راج کے اوپر رام مادھو کا یہ تبصرہ گاندھی اور مودی کے رام راج میں فرق کو واضح کرتا ہے۔ والمیکی رشی نے تریتا یگ میں حاملہ سیتا کو اس وقت پناہ دی جب راجہ رام نے رائے عامہ کے دباؤ میں آ کر اپنی بیوی کو محل سے نکال دیا تھا۔ اس کے بعد رام کے بیٹوں لو اور کش کی اپنے آشرم میں پرورش کی۔ آگے چل کر رامائن بھی لکھی ۔۔ کون جانتا تھا کہ سنگھ کے رام راج میں والمیکی کے نام لیوا سماج کی منیشا کے ساتھ ایسا سفاکانہ سلوک ہوگا لیکن ایسا ہوا کیونکہ یہ گاندھی کا نہیں بلکہ مودی کا رام راج ہے۔
***

یوگی کو جمہوریت کی اجتماعی آبرو ریزی کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے رہنماوں کو ہاتھرس جانے سے روکنا مہنگا پڑا ہے اس لیے کہ خود نریندر مودی نربھیا کے گھر جاچکے ہیں لیکن ان پر سیاست کا الزام لگا کر کسی نے نہیں روکا تھا۔ اومابھارتی نے بھی یوگی کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ بات دراصل یہ ہے اس سے قبل کوئی حکومت اس قدر عدم تحفظ کاشکار نہیں تھی کہ مخالفین کی نقل و حرکت پر ایسی پابندی لگائے۔ ان لوگوں کو اقتدار کی محبت اور اس کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف کچھ زیادہ ہی ستا رہا ہے شاید انہیں احساس ہو گیا ہے کہ اقتدار چھن جانے کے بعد انہیں اپنی بدعنوانیوں کے سبب جیل کی ہوا کھانی ہی پڑے گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020