کیجریوال جی:آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر ’عآپ‘ کا ہے

دلی میں ستم ڈھانے والوں کا مغربی بنگال میں نڈا کے قافلے پر حملےکا ماتم

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

 

10 دسمبر 2020جدید ہندوستانی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔ اس روز دلی میں نئی ایوانِ پارلیمان کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور مستقبل کے حوالے سے وزیر اعظم نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت 21 ویں صدی کے بھارت کی امنگیں پوری کرنے کا مقام ہوگا۔ نئی امنگیں کیسی ہوں گی اس کے ایک مثال تو اسی دن دارالخلافہ دلی ہی میں نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کے گھر پر ان کی غیر موجودگی میں حملے سے سامنے آگئیں۔ یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ کولکاتہ میں بی جے پی کے صدر جگت پرشاد نڈا کے قافلے پر بھی حملہ ہوا۔ تو کیا ملک کے باشندوں کی امنگیں ایسی ہوں گی؟ مستقبل کے ہندوستان کا سیاسی ماحول کیسا ہوگا اس کا اندازہ ایوان پارلیمان کی شاہانہ طرز کی عمارت اور اس کے رنگ روغن سے نہیں بلکہ ان تشویش ناک سانحات اور ان پر ہونے والے سیاسی ردعمل سے لگایا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کمپلیکس میں ایوان پارلیمان کی نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے سپنوں کے سوداگر وزیر اعظم نریندر مودی نے کون کون سے خواب کس کس طرح سے فروخت کیے۔
آل انڈیا ریڈیو کے مطابق سنگ بنیاد کی تقریب میں پہلے تو مختلف مذہبی رہنماؤں نے سرو دھرم پرارتھنا کی اور اِس کے بعد اظہارِ خیال کرتے ہوئے مودی جی بولے چونکہ نئی عمارت جدید طرز کی کئی سہولتوں سے آراستہ ہوگی اس لیے اس سے ارکانِ پارلیمان کے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ یہ بالکل درست بات ہے کہ جدید سہولتیں کام کو سہل اور سریع الاثر بناتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون سے کام ہیں جن کے لیے ان آلات کا استعمال کیا جائے گا؟ پچھلے ساڑھے چھ سالوں میں تو وزراء کی سب سے اہم مصروفیت انتخابی مہم چلانا رہی ہے۔ اس کے لیے طرح طرح کے جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے میں وہ لوگ مسلسل مصروف رہے ہیں۔ اپنے مخالفین کو پریشان اور بلیک میل کرنا، ڈرانا دھمکانا اور ان پر حملے کروانا اور جب وہ ڈر جائیں تو انہیں خرید کر صوبائی اقتدار کا تختہ پلٹ دینا یہی سب تو ہوتا رہا ہے! وہ کام اگر سرعت سے ہونے لگے تو اس سے عوام الناس کا کیا فائدہ ہوگا؟
وز یراعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ ملک کا جمہوری نظام صدیوں کے تجربے کے بعد تیار ہوا ہے۔ اس دعویٰ کی حقیقت سے قطع نظر یہ سوال زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ مستقبل میں برسرِ اقتدار طبقہ اس سیاسی نظام کا کیا حشر کرے گا؟ وزیر اعظم نے عوام سے یہ عہد کرنے کی اپیل کی کہ اُن کے لیے قومی مفاد سے بڑا کوئی دوسرا مفاد نہیں ہوگا۔ لیکن ان کی پارٹی تو کبھی اپنے مفاد سے آگے کی سوچتی ہی نہیں۔ اس کی ساری تگ و دو کبھی راجستھان کی حکومت گرانے کے لیے ہوتی ہے تو کبھی مہاراشٹر میں اقتدار کو تبدیل کرنے کی ریشہ دوانیوں میں ہوتی ہیں۔ کیا ملک کے اندر حزب اختلاف کا خاتمہ ہی سب سے اہم قومی مفاد ہے؟ ایک طرف دن رات یہ کالے کرتوت اور دوسری جانب یہ کہنا کہ قومی مفاد مقدم ہے مگر مختلف نظریات اور خیالات سے ایک متحرک جمہوریت کو تقویت ملتی ہے، منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
مذکورہ تقریب کے موقع پر ایوانِ زیریں کے اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ ’نئے خود کفیل اور خوش حال ہندستان‘ کی علامت نئی ایوانِ پارلیمان کی عمارت پوری دنیا کو ہمیشہ آئینی اور جمہوری اقدار کا مثالی پیغام دیتی رہے گی۔ برلا جی نہیں جانتے کہ عمارت تو نہیں بولتی مگر حکم رانوں کا عمل بولتا ہے۔ فی الحال وہ جو کچھ بول رہا ہے اس کا آئین سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ملک میں آئے دن آئینی اقدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور جمہوریت کو پامال کیا جاتا ہے۔ کسان بل کو ایوان بل میں جس طرح شور شرابے کے بیچ منظور کرلیا گیا وہ سب کو یاد ہے۔ قانونی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کیے جانے والے فرضی انکاونٹرس پر نہ صرف فخر جتایا جاتا ہے بلکہ ان کا جشن منایا جاتا ہے۔ دارالحکومت دلی کے اندر منیش سسودیا کے گھر پر ہونے والا حملہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اب اس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چل رہا ہے۔ منیش سسودیا دلی کے نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے گھر پر ہونے والا حملہ نیز اس پر کی جانے والی بیان بازی یہ بتاتی ہے کہ مودی یگ میں قومی سیاست کے انحطاط کا یہ حال ہے کہ ؎
بجھا بجھا کے سجاتا ہے وہ منڈیروں پر
اسے چراغ نہیں روشنی سے نفرت ہے
منیش سسودیا نے خود ایک ویڈیو ٹویٹ کر کے میڈیا کو اس حملے کی اطلاع دی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان کی غیر موجودگی میں بی جے پی کے کارکن گھر کا دروازہ توڑ اندر گھس گئے۔ ان لوگوں نے اہل خانہ پر حملہ کرنے اور توڑ پھوڑ کی کوشش کی۔ اس سنگین الزام کے جواب میں بی جے پی کے سکریٹری ہرش ملہوترا نے الٹا سسودیا پر 12 جولائی 2020 کی ویڈیو وائرل کرنے کا الزام لگا دیا۔ دلی کی پولیس نے بھی ڈپٹی وزیر اعلیٰ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے گھر کے دروازے کی تصویر ٹوئٹر پر ڈال دی اور دعویٰ کیا کہ دروزے کو توڑنے کا الزام بے بنیاد ہے لیکن کم ازکم یہ تسلیم کیا کہ جبراً گھر میں گھسنے کی وارادت تو ہوئی ہے۔ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ایسا اگر کوئی مسلمان کرتا تو اسے لشکر یا جیش سے جوڑ دیا جاتا۔ کسی سکھ کی جرأت ہوتی تو خالصتانی قرار پاتا اور کوئی ہندو بی جے پی کے رہنما کی جانب نظر اٹھا کر دیکھتا تو اس کو اربن نکسل قرار دے کر این ایس اے کے تحت گرفتار کر لیا جاتا لیکن اس بار حملہ آور تو سرکاری داماد بی جے پی والے تھے اس لیے چھ لوگوں کو حراست میں لے کر ان پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ بعید نہیں کہ ابھی تک تو ان کی ضمانت بھی ہو چکی ہو اور وہ اگلے حملے کی تیاری کر رہے ہوں ؟
یہ واقعہ اسی دلی شہر کے اندر رونما ہوا جہاں پولیس نے جامعہ ملیہ کی لائبریری میں گھس کر طلباء اور طالبات کو زدو کوب کیا تھا۔ ان کے جلوس کو روکنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے پر امن مظاہرین کو دلی فساد کا مجرم بنایا تھا مگر حسبِ معمول بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ پولیس کا رویہ یکسر مختلف ہے۔ پولیس یہ بھول جاتی ہے کہ اسے حکم راں جماعت کے نہیں بلکہ سرکاری خزانے سے تنخواہ ملتی ہے۔ ان کا فرض حکومت کا دفاع نہیں بلکہ مظلوم کی حمایت ہے۔ سسودیا کا گھر جس علاقے میں واقع ہے وہاں کے ڈی سی پی ایش سنگھل نے بتایا کہ مظاہرے کے ایک دن قبل بی جے پی کارکن حکم سنگھ نے احتجاج کی تحریری اجازت طلب کی تھی لیکن کورونا کے ضابطوں کی وجہ سے اسے مسترد کردیا گیا۔ پولیس کو معلوم تھا کہ وہ لوگ نہیں مانیں گے اس لیے اضافی دستے تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ بیری کیڈ بھی لگا دیے گئے تھے۔ اس انتظام کے باوجود ۱۵۰ لوگ جمع ہو گئے اور ان میں کچھ رکاوٹوں کو پھاند کر اندر گھس گئے۔ اس کے بعد پولس تفتیش کے بہانے ان پر لگانے کے لیے ان دفعات کو تلاش کرنے لگی کہ خانہ پُری ہو جائے اور وہ بہ آسانی چھوٹ بھی جائیں۔
دنیا میں کسی بھی پارٹی کے لوگ ایسی غنڈہ گردی کریں تو وہ ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے یا معافی مانگتی ہے لیکن بی جے پی نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ الٹا عام آدمی پارٹی پر یہ الزام لگایا کہ وہ غنڈوں کا گروہ بن چکی ہے۔ دلی میں بی جے پی کے نائب صدر اشوک گوئل نے کہا کہ دلی کی صوبائی حکومت تماش بین ہو کر اپنے رہنماؤں کی مجرمانہ سرگرمیوں کو بڑھاوا دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ درگیش پاٹھک نے وزیر اعلیٰ کے گھر پر دھرنا دینے والے میئرس کو منیش سسودیا کی موجودگی میں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ اس کو کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ گوئل نے یہ تو کہہ دیا کہ بی جے پی اس غنڈہ گردی کو برداشت نہیں کرے گی اور اس کے خلاف لڑے گی لیکن بھول گئے اسی شہر میں ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ کا نعرہ کس نے لگایا تھا؟ کس نے یہ دھمکی دی تھی کہ ’بولی سے نہیں تو گولی سے سمجھا دیں گے‘۔ وہ کون تھا جس نے پولیس افسر سے کہا تھا کہ اگر دو دن میں یہ شاہین باغ نہیں ہٹا تو ہم ہٹا دیں گے؟ یہ ساری چیزیں یو ٹیوب پر موجود ہیں اس لیے جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں کو پتھر نہیں مارتے۔
اشوک گوئل نے اپنے کارکنان کی شرمناک حرکت پر معافی مانگنے کے بجائے الٹا اروند کیجریوال اور منیش سسودیا سے اپنے ساتھیوں کی مجرمانہ حرکتوں کے لیے تینوں میئرس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔ یہ چوری اور اس پر سینہ زوری کی بہترین مثال۔ ان بی جے پی والوں نے حال میں کسانوں کے خلاف کیسے کیسے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہیں دیے اور اوچھی بہتان طرازی نہیں کی۔ لیکن کیا ان کو کبھی معافی مانگنے کی توفیق ہوئی؟ کیا ان کی اس بد زبانی کے لیے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ معافی مانگیں گے؟ عام آدمی پارٹی کے خلاف بی جے پی کی یہ مہم محض زبانی بیان بازی تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ لوگ پولیس میں شکایت بھی درج کروا رہے ہیں۔ دلی بی جے پی کے سکریٹری جنرل ہرش ملہوترا کی قیادت میں پارٹی کے ایک وفد نے ڈی سی پی کے دفتر میں پاٹھک اور سسودیا کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ اس شکایت میں بی جے پی کے میونسپل کونسلروں کے قتل کی سازش کا الزام ہے۔ہرش ملہوترا کا کہنا ہے کہ سسودیا کی موجودگی میں کی جانے والی درگیشں پاٹھک کی تقریر کو ساری دلی دیکھ چکی۔ اس میں وہ سرِ عام کونسلرس کو مار ڈالنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس شکایت سے قبل سوِل لائنس پولیس تھانے میں بی جے پی رکن اسمبلی سنجے مہاویر بھی ایک شکایت درج کرا چکے ہیں۔ اس مبینہ قتل کی دھمکی پر وہ جماعت کانپ رہی ہے جس کاشعار ہی فرضی انکاونٹر رہا ہے۔ ایک زمانے تک نریندر مودی نے اس کے سہارے گجرات میں سرکار چلائی۔ امیت شاہ کو ان الزامات کے تحت تہاڑ جیل کی ہوا کھانی پڑی اور آج کل اتر پردیش میں اس پر یوگی جی کو ناز ہے۔ عآپ کے رہنما پاٹھک نے اس ویڈیو میں چھیڑ چھاڑ کر کے انہیں بدنام کرنے کی سازش کا الزام لگایا۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ کی ایک ویڈیو کے جھوٹے ہونے کی تصدیق ٹوئٹر کرچکا ہے۔ یہ ان کی پرانی عادت ہے۔ پاٹھک کے مطابق کسان تحریک سے توجہ ہٹانے کی خاطر بی جے پی والے یہ تماشہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی کا جواب دینے کے لیے اے اے پی نے اپنی ترجمان آتشی مارلینا کو میدان میں اتارا ہے۔ انہوں نے کہا پولیس کی ملی بھگت سے نائب وزیر اعلی کے گھر پر حملہ کیا گیا۔ ایسا واقعہ دلی کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اتنے گر گئے ہیں کہ وہ نائب وزیر اعلیٰ کے اہل خانہ کو مروانا چاہتے ہیں۔ کیا بی جے پی دلی اسمبلی انتخابات میں نقصان کا بدلہ لے رہی ہے؟ ویسے وزیر داخلہ کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ سوال بے جا نہیں لگتا اس لیے کہ وہ مخالفت میں حدود و قیود کے قائل نہیں ہیں۔ جسٹس لویا کے علاوہ اس مقدمے کے سارے گواہوں کا عبرت ناک انجام سب کے سامنے ہے۔ آتشی نے یہ بھی پوچھا کہ کیا امیت شاہ بی جے پی کے غنڈوں کو بھیج کر عام آدمی پارٹی کے سارے رہنماؤں کے گھر والوں پر حملہ کرائیں گے؟ کیونکہ امیت شاہ کے پاس ایک طرف تو پارٹی کے غنڈے ہیں اور دوسری طرف دلی پولیس ہے۔ آتشی کے مطابق غنڈے جب گھر کی طرف بڑھ رہے تھے تب پولیس والے پیچھے پیچھے ٹہلتے ہوئے چل رہے تھے۔ پولیس والے غنڈوں کو روک سکتے تھے لیکن وہ ایک طرف ہو گئے۔ مان لیا جائے کہ آتشی کی ساری باتیں درست ہیں لیکن کیا یہ دلی میں پہلی بار ہو رہا ہے؟ جے این یو کے طلباء کو بی جے پی کے غنڈوں نے ہاسٹل میں گھس کر مارا۔ پولیس تماش بین بنی رہی۔ عام آدمی پارٹی دلی میں برسرِ اقتدار تھی۔ اس نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ پولیس پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس وقت ان لوگوں نے سوچا بی جے پی اپنے نظریاتی مخالفین سے نمٹ رہی ہے۔ عآپ سے اس کا کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے اس لیے وہ حملے کی زد میں نہیں آئے گی۔ امیت شاہ کی پولیس نے جامعہ کے اندر اور باہر زبردست دہشت مچائی۔ اس کے ویڈیوز ساری دنیا بھرمیں پھیل گئے لیکن سسودیا میدان میں نہیں آئے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ وہ برسرِ اقتدار ہیں اس لیے پولیس ان کی حفاظت کرے گی۔ دلی کے فسادات میں معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی مگر عام آدمی پارٹی نے شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لیا یہ سوچ کر کہ مجبور مسلمان بی جے پی کو ہرانے کے لیے اسی کو ووٹ دیں گے۔ عآپ کے بے قصور رہنما طاہر حسین کو جب انکت شرما کے قتل کی سازش میں پھنسایا گیا تو اس کا دفاع کرنے کے بجائے انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تاکہ ہندو ووٹر ناراض نہ ہو۔ اس کے بعد بے شمار بے قصور لوگوں کو فسادی بنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا لیکن جھاڑو حرکت میں نہیں آئی۔ اب جبکہ مصیبت خود پر پڑی تو احتجاج کیا جا رہا ہے۔ یہی سب اگر جامعہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف کیا جاتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ کاش کہ عآپ والے نواز دیو بندی کے ان اشعار سے سبق سیکھتے؎
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا
اُس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
بی جے پی کو اندازہ ہو گیا ہے کہ عآپ کے ساتھ دلی کے عوام تو ہیں لیکن اس کے رہنماؤں میں سڑک پر اتر کر ظلم کے خلاف لڑنے کی جرأت نہیں ہے۔ اقتدار کا اولین استعمال ظلم کے خاتمہ اور عدل کے قیام کی خاطر ہونا چاہیے لیکن اب تو اسے عیش و عشرت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ کسانوں کے معاملے میں بھی عآپ کے نرم رخ کی اصل وجہ یہ ہے کہ دلی سے باہر اس کا اثر و رسوخ صرف پنجاب میں تھا جو اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ بہت تاخیر سے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کسانوں کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے بعد انہیں بھی کشمیری رہنماؤں کی مانند دلی کے اندر گھر میں نظر بند کر دیا گیا لیکن چونکہ انہوں نے کبھی کسی مظلوم کی حمایت میں اپنی آواز بلند نہیں کی تھی اس لیے کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما سورو بھردواج وزیر داخلہ امیت شاہ کو وزیر اعلیٰ کی نظر بندی کرنے کا حوالہ دے کر نائب وزیر اعلی کے گھر پر بی جے پی غنڈوں کے حملہ کی سرپرستی کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور کہتے ہیں دلی پولیس نے بی جے پی کے غنڈوں کی حملہ کرنے میں مدد کی ہے۔
دلی میں یہ پہلی بار تو نہیں ہوا، یہ تو بہت پہلے سے ہو رہا ہے لیکن اب چونکہ خود منیش سسودیا نشانے پر ہیں اس لیے امیت شاہ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ دلی کی سیاست میں ہار گئے تو اب اس طرح ہمیں نمٹائیں گے؟ کمبھ کرن کی نیند سونے والے اروند کیجریوال بھی اب نیند سے بیدار ہوئے ہیں انہوں نے وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کو مخاطب کرنے کے بجائے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے سوال کیا کہ دلی حکومت کے کسانوں کی حمایت پر بی جے پی اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ یہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ نہیں ہے۔ کیجریوال جب تک اس کے لیے بے ضرر تھے انہیں نظر انداز کیا گیا لیکن جب مصیبت بنے تو وہ ان کو اپنے روایتی انداز میں ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے وہ خود بوکھلائے ہوئے ہیں۔ کیجریوال نے اگر مظلوموں کے خلاف اپنے حامیوں کو لڑنا سکھایا ہوتا تو آج وہ لوگ اپنے رہنما کی خاطر دلی سر پر اٹھالیتے لیکن انہوں نے جس بزدلی کا بیج بویا تھا اب اسی کا پھل کھا رہے ہیں۔ کیجریوال جیسے محتاط سیاست دانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ؎
جسے نہ جلنے کی خواہش نہ خوف بجھنے کا
وہی چراغ ہوا کے اثر سے باہر ہے
یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن بی جے پی والوں نے دلی میں حملہ کیا اسی دن کولکاتہ میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے قافلے پر مبینہ طور پر پتھروں اور اینٹوں سے حملہ ہو گیا۔ موٹر گاڑیوں کے قافلے پر جب پتھراؤ ہوا تو اُس وقت وہ ڈائمنڈ ہاربر جا رہے تھے۔ اس حملے میں پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ سمیت کئی لیڈر زخمی ہوگئے۔ مظاہرین نے نڈا کے راستے کو بند کرنے کی کوشش کی اور ٹیلی ویژن چینلس کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس پر مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دَھنکر نے تشویش کا اظہار کیا مگر دلی کے لیفٹننٹ جنرل نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔ اس کے بعد 24پرگنہ ضلع میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جے پی نڈا نے الزام لگایا کہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی زیرِ قیادت ترنمول کانگریس حکومت کے دور میں بد نظمی کی کیفیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں انتظامیہ ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ کاش کہ نڈا جی دلی کی انارکی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے۔
عآپ نے دلی میں جس طرح کے الزامات بی جے پی پر لگائے اسی طرح بی جے پی نے ترنمول کانگریس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ برسر اقتدار ٹی ایم سی کی سازش ہے۔ مغربی بنگال میں بی جے پی سربراہ دلیپ گھوش نے کہا کہ پارٹی صدر جے پی نڈا کے ریاستی دورے کے دوران سیکورٹی میں کوتاہی ہوئی ہے۔ ان کے پروگرام میں پولیس موجود نہیں تھی اس لیے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھا گیا۔ ان الزامات کا جواب ترنمول کانگریس نے اسی طرح دیا جیسے بی جے پی نے دلی میں دیا۔ ترنمول نے الٹا بی جے پی کو نڈّا کے قافلے پر حملہ کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی پہلے ہی بی جے پی پر الزام عائد کر چکی تھیں کہ پارٹی منصوبہ بند سازش کے تحت خود اپنے کارکنوں پر گولی چلواتی ہے۔ نڈا کے قافلے پر حملے کو بھی ممتا بنرجی نے ’’نوٹنکی‘‘ قرار دے دیا اور کہا چونکہ بی جے پی اپنی ریلی کے ذریعہ عوام تک نہیں پہنچ پا رہی تھی اس لیے میڈیا میں تشہیر کے لیے اس نے یہ ڈرامہ کیا۔ یعنی دلی کی کہانی من و عن کولکاتا میں دوہرائی گئی مگر کردار بدل گئے۔
اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جہاں مرکزی وزارت داخلہ نے سسودیا کے گھر پر حملے کو پوری طرح نظر انداز کردیا وہیں جے پی نڈا کے قافلے پر پتھراؤ کو بے حد سنجیدگی سے لیتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کو دلی طلب کرلیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدام ریاستی حکومت کی جانب سے رپورٹ ملنے کے بعد کیا گیا۔ وزارت داخلہ اس معاملے میں پہلے ہی ریاستی حکومت سے لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر رپورٹ مانگ چکی ہے۔ دلی کا وزیر اعلیٰ کیا کہتا ہے اس پر کوئی کان نہیں دھرتا مگر مغربی بنگال یونٹ کے بی جے پی صدر پر وزارت داخلہ حرکت میں آجاتا ہے اور امیت شاہ اس پر اپنے ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ ”بنگال میں بی جے پی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا پر ہونے والا حملہ بہت ہی قابل مذمت ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مرکزی حکومت اس اسپانسرڈ حملے کو مکمل سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ بنگال حکومت کو اس حملے کے لیے ریاست کے امن پسند عوام کو جواب دینا ہوگا‘‘۔
وزیر داخلہ اپنے ٹویٹ میں آگے لکھتے ہیں ترنمول حکومت میں بنگال، ظلم، انارکی اور اندھیرے کے دور میں جا چکا ہے۔ ٹی ایم سی کی حکومت میں مغربی بنگال کے اندر جس طرح سے سیاسی تشدد کو ادارہ جاتی بنا کر انتہا پر پہنچا دیا گیا ہے، وہ جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے تمام لوگوں کے لیے تکلیف دہ اور تشویش ناک ہے۔ وزیر داخلہ نے جو باتیں مغربی بنگال کے بارے میں کہیں وہ سب دلی میں خود ان کی پولیس پر بھی صادق آتی ہے لیکن اس پر مکمل خاموشی ہے۔ امیت شاہ اس تشدد کے بہانے بنگال میں صدر راج بھی نافذ کرواسکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے ممتا بنرجی کو انتخاب سے قبل برخواست کرنے کی غلطی کر دی تو وزیر اعلیٰ کی ساری کوتاہیاں دھل جائیں گی اور ہمدردی کی لہر پر وہ زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا شاہ جی اپنے آپ کو اس حماقت سے روکنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا خود اپنے ہی جال میں پھنس جاتے ہیں۔ خیر سیاسی اٹھا پٹخ سے قطع نظر یہ بات طے ہے کہ ایوانِ پارلیمان چاہے جتنا بھی خوشنما بن جائے ملک کا سیاسی ماحول پوری طرح مکدرّ ہو چکا ہے اور اس حکومت کے ہوتے ہوئے سدھار کا امکان ناپید ہے۔ موجودہ صورت حال پر نواز دیو بندی کا ایک اور شعر صادق آتا ہے؎
شہروں شہروں خونریزی میں شیطانوں کا نام نہ لو
اس سازش کے پیچھے کوئی انساں بھی ہو سکتا ہے
***

وزیر داخلہ نے جو باتیں مغربی بنگال کے بارے میں کہیں وہ سب دلی میں خود ان کی پولیس پر بھی صادق آتی ہیں۔ لیکن اس پر مکمل خاموشی ہے۔ امیت شاہ اس تشدد کے بہانے بنگال میں صدر راج بھی نافذ کرواسکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے ممتا بنرجی کو انتخاب سے قبل برخواست کرنے کی غلطی کردی تو وزیر اعلیٰ کی ساری کوتاہیاں دھل جائیں گی اور ہمدردی کی لہر پر وہ زبردست کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020