وبائی امراض: تاریخ اور مسلمانوں کا طرزِ عمل

احتیاط اور تدابیر اختیار کرتے ہوئے تقدیر پر یقین رکھنا چاہیے

تحریر : ڈاکٹر علی الصلابی
ترجمانی: محمد عزیر ندوی
(ریسرچ اسکالر، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ)

موجودہ حالات میں انسانی ذہن دن بدن بڑھتے ہوئے کورونا وائرس نامی وبائی مرض کی خبروں میں الجھا ہوا ہے کیوں کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اس مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہو چکے ہیں اور بے شمار لوگ خوف وہراس میں جی رہے ہیں۔ یہ صورتحال خصوصاً ان ممالک میں زیادہ بڑھ گئی ہے جہاں اس وباء کا خطرہ سنگین ہو گیا ہے۔
اس قسم کے وبائی مرض کا آنا اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور اس کی تقدیر کی بناء پر ہے۔اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔احسان کا طریقہ اختیارکرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے‘‘ (البقرة: ١٩٥) اس وبائی مرض اور اس سے پیدا شدہ بحران سے خود کو بچانے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہم اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اسباب کو اختیار کریں اور اس کے فیصلہ وتقدیر کو برضا تسلیم کریں۔
طاعون اور وبا ء
طاعون کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں جیسے ہاتھ، کہنی اور پیٹھ وغیرہ پر زخم نمو دار ہوجاتے ہیں اور اسی کے ساتھ سخت تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ مریض الٹی اور دل دھڑکنے جیسے عوارض سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ ابن حجر عسقلانیؒ نے طاعون کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔’’یہ ایسا مرض ہے جو فضاء آلودہ، بدن خراب اور مزاج فاسد کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا زہریلا مادہ ہے جس کی وجہ سے خون فاسد ہو جانے اور اس میں بدبو پیدا ہو جانے کی بنا پر جسم کے نرم ونازک مقامات پر خطرناک ورم آجاتا ہے ۔‘‘اس عبارت کی روشنی میں صاف ظاہر ہے کہ ورم طاعون کے لاحق ہونے کی سب سے ظاہری علامت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ورم ابھار یا غدود کی شکل میں ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ الطاعون غدة كغدة الإبل‘‘ طاعون اونٹ کے غدود کی طرح ایک غدود ہے‘‘
علماء نے طاعون اور وباء کے مابین فرق کیا ہے۔ انہوں نے ’’طاعون کو وباء ہی کہا ہے لیکن وباء کو طاعون شمار نہیں کیا ہے اس لیے کے بسا اوقات طاعون کا پتا نہیں چل پاتا ہے کہ وہ جسم کے کس حصے میں ہے لیکن عام طور پر وباء کے مقام کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔
(۱) عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق عام اصطلاح میں وباء کی تعریف یہ ہے کہ وباء کسی متعین مرض کے پھیلنے کی حالت ہے جس کی وجہ سے اس سے متاثرین کی تعداد کسی محدود معاشرے یا کسی مخصوص جغرافیائی علاقے میں عام حالات کے بالمقابل توقع سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
(۲) وبائیں اور طاعون اسلامی تاریخ کے ادوار میں
اسلامی تاریخ میں مختلف ممالک اور مختلف علاقوں میں کئی وباؤں، طاعون اور کئی اجتماعی امراض نے جنم لیا ہے، مگر ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور خوفناک درج ذیل ہیں:
(1) طاعون عمواس(18ھ/693ء) (2) طاعون جارف(69ھ/688ء) (2) طاعون الفتیات أؤ الاشراف (87ھ/705ء) (4) طاعون مسلم بن قتیبہ (131ھ/748ء) اور اس کے علاوہ مشرق کی مسلم حکومتوں میں عباسی، مملوکی اور ایوبی دور کی وبائیں اسی طرح مغرب کی مسلم سلطنتوں کی وباؤں اور طاعون کی داستانیں بہت دردناک ہیں۔جہاں تک طاعون عمواس کا تعلق ہے تو یہ عمر بن خطاب ؓ کے زمانے میں پھیلا۔ عمواس وہ پہلی جگہ تھی جہاں یہ طاعون پھیلا تھا اس لیے اس کا نام طاعون عمواس پڑ گیا۔ پھر وہاں سے شام میں پھیلا تو پھر شام کی طرف نسبت کردی گئی۔ اس دور میں طاعون کے آنے کا سبب مسلمان اور رومیوں کے درمیان ہونے والی بھیانک جنگیں تھیں جس میں بہت سے لوگ قتل ہوئے تھے۔ لاشوں کے متعفن ہونے کی وجہ سے فضا آلودہ ہو گئی تھی۔ یہ اللہ نے اپنی حکمت کے تحت مقدر کیا تھا۔ لیکن ملک شام میں یہ طاعون شدت اختیار کر گیا جس کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں ہلاک ہو گئے جن میں خاص طور سے امیر وقت ابو عبید بن جراح ؓ، معاذبن جبل ؓ ،یزید بن ابو سفیان ؓ، حارث بن ہشام ؓ وغیرہ۔ اور سہیل بن عمرو اور عتبہ بن سہیل اور ان کے علاوہ بہت سے بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔
(۳) طاعون جارف بصرہ میں ۶۹ ھ میں عبد اللہ بن زبیر ؓ کے زمانے میں پھیلا اس میں مرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ’’جارف‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ اس تین روزہ طاعون میں لوگ سیلاب کی طرح موت کا شکار ہو گئے۔
(۴) 87ھ میں عراق اور ملک شام میں ایک طاعون پھیلا جسے طاعون فتیات (plague girls) کا نام دیا گیا اس لیے کہ یہ طاعون سب سے پہلے نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو لاحق ہوا، پھر مرد حضرات اس سے متاثر ہوئے لیکن بعض حضرات نے اسے قوم کے بڑے اور معزز افراد کے کثیر تعداد میں فوت ہوجانے کی وجہ سے’’طاعون اشراف‘‘ کا نام دے دیا۔
(۵) اموی دور میں جو طاعون آیا تھا وہ طاعون مسلم بن قتیبہ ہے جو کہ 13۱ھ میں آیا اور اس طاعون کا نام اس میں سب سے پہلے شہید ہونے والے شخص کے نام پر رکھا گیا، اور سب سے پہلے شہید ہونے والے مسلم بن قتیبہ تھے، اس لیے یہ انہی کے نام سے موسوم کر دیا گیا، بصرہ میں یہ طاعون تین مہینے تک باقی رہا اور رمضان کے مہینہ میں تو اتنی شدت اختیار کر گیا کہ کسی کسی دن ایک ہزار یا اس سے بھی زیادہ جنازے اٹھائے
جاتے تھے۔
(۶)ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ جب تاتاریوں نے 656ھ/1258ء میں بغداد کو تہس نہس اور ویران کرکے رکھ دیا تھا تو اس وقت مساجد کو بند کر دیا گیا تھا اور باجماعت نماز کو موقوف کر دیا گیا تھا اور بھیڑ بھاڑ پر چند مہینوں کے لیے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ جب چالیس ایام کے بعد یہ وباء ختم ہوئی تو اس وقت تک بغداد بہت بھیانک صورتحال اختیار کر چکا تھا۔ بہت ہی کم افراد تھے جو موت کے چنگل سے بچے ہوئے تھے ورنہ پورا بغداد تباہ وبرباد ہو چکا تھا۔ راستوں میں ہلاک زدگان اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ ان کی لاشیں ٹیلوں کی شکل اختیار کر گئی تھیں، مزید برآں ان لاشوں پر بارش پڑنے کے باعث ان کی شکلیں متغیر ہو گئیں، پھر ان کے سڑنے کی وجہ سے پورے شہر کی فضا بدبو دار اور متعفن ہو گئی اور تیز وتند ہوا کی وجہ سے وباء کی شکل اختیار کرتے ہوئے ملک شام تک پھیل گئی، جس کی بناء پر وہاں بھی لوگ کثیر تعداد میں موت کا شکار ہوگئےتھے۔
(۷)عصر مملوکی میں 748ھ میں ملک شام ایک ایسے طاعون کا شکار ہوا جس نے اس کے اکثر علاقوں کو نیست ونابود کر دیا، طاعون کے زیادہ پھیلنے اور اس میں ہلاکت کی شدت کی وجہ سے اسے ’’طاعون اعظم‘‘ کا نام دیا گیا، اور اس طاعون نے حلب، دمشق اور سواحل کے باشندگان کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اسی طرح حلب میں 795ھ میں ایک وبائی مرض پھیلا جسے فناء عظیم (بڑی ہلاکت) کا نام دیا گیا، اس پوری مدت میں شہر حلب اور اس کی بستیوں کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
(۸)مغربی عربی دنیا بھی عصر مرابطین، موحدین اور مرنیین یہاں تک کہ عصر حاضر میں بھی بہت سے وبائی امراض، متعدد بار بھک مری اور قحط سالی کا شکار ہوئی ہے۔سب سے زیادہ خطرناک طاعون 571ھ میں بلاد مغرب اور اندلس میں پھیلنے والے طاعون کو مانا جاتا ہے اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ سب سے خطرناک طاعون عصر موحدین کا طاعون ہے، اس کے نتائج اس قدر بھیانک نکلے کہ کوئی شخص اس کے خطرات سے محفوظ نہ رہ سکا، حتی کہ خلیفہ یوسف بن یعقوب کے چار بھائی جو اس وقت کے امراء تھے وہ بھی اس کا شکار ہو گئے۔ روزآنہ تقریباً 200 افراد اس کا شکار ہوتے تھے۔
(۹) اس کے علاوہ ایک طاعون مغرب ہی میں 1798ء میں پھیلا، یہ طاعون اسکندریہ سے جانے والے تجار سے متعدی ہو کر تیونس، جزائر اور مغرب تک پھیل گیا۔ اس کے بعد شہر فاس و مکناس سے ہوتے ہوئے رباط تک پہنچ گیا، اس طاعون کی وجہ سے ایک دن میں سو سے زائد اموات ہوتی تھیں۔
(۱۰) ابن عذاری مراقشی نے پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں اندلس میں وبائی امراض کے واقعات کی تاریخ کے تناظر میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ: ’’498ھ/1105ء میں اندلس اور عدوہ میں قحط سالی کا اس وقت خاتمہ ہوا جب لوگوں کو اپنی ہلاکت کا یقین ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مراقش اور اندلس میں خشک سالی کی تباہی کے باعث لوگ گھروں سے بے گھر ہو گئے، معاشی بد حالی اور یکے بعد دیگرے قدرتی آفات نے انہیں بری متاثر کیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ جب بھی آب وہوا خراب ہوتی تو جس نے بھی گزشتہ طاعون کا مشاہدہ کیا تھا فوراً اس کے دماغ میں شدید نفسانی وجسمانی مصیبتوں اور معاشی دشواریوں کے مناظر آ جاتے تھے۔
اسی عرصے میں چھٹی صدی ہجری کی ابتداء میں اندلس اور مغرب مسلسل قحط سالی اور بھک مری کا شکار رہا، قحط کی شدید صورتحال نے فاس وغرناطہ دونوں شہروں کو ملیا میٹ کر دیا، پھر 526ھ/1132ء میں قرطبہ میں بھک مری اور وباء شدت اختیار کر گئی جس کی وجہ سے مہلوکین کی شرح میں بہت اضافہ ہوا، اور ایک مد گیہوں کی قیمت پندرہ دینار تک پہنچ گئی تھی، اندلس اور مغرب کے مابین آپسی دشمنی بطور خاص فوجی محاذ آرائی کے عرصہ میں قدرتی آفات کی لہریں مسلسل رواں دواں رہیں، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
(۱۱) مجموعی طور پر مسلمانوں کی تاریخ اپنے مختلف مراحل اور اسلامی دنیا اپنے مختلف خطوں میں اس طرح کی آفتوں اور بہت سے وبائی امراض کا سامنا کرتی رہی ہے۔ لیکن ان وباؤں کے مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ان جیسے وبائی امراض کے دوران مسلمانوں کا کیا طرز عمل رہا اسلامی عقائد کی روشنی میں اس کے خلاف کیا اقدامات کیے گئے اس سلسلے میں ذیل کی سطور میں روشنی ڈالی جائے گی۔اسلامی تاریخ میں وبائی امراض کے معاشرتی، سیاسی اور روحانی اثراتطاعون اور وبائی امراض کے بڑے بھیانک خطرات رونما ہوتے تھے۔ جن قوموں کو بھی ان کا سامنا ہوتا ہے وہ ہلاک ہو جاتی تھیں اور ریاستوں کے امن کو خطرہ لاحق ہو جاتا تھا اور زوال وانحطاط کا شکار ہو جاتی تھیں۔ بہر حال یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائشں ہوتی ہے جس کو وہ چاہتا ہے آزمائشں میں مبتلا کر دیتا ہے اور یہ وباء اس کے بندوں پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہے جس کے ذریعہ بقصد رحمت یا زحمت اپنے بندوں کی سرزنش کرتا ہے۔وبائی مرض سے ریاست وقوم کے امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے جیسا کہ طاعون عمواس مسلمانوں کے لیے بڑا خطرناک ثابت ہوا تھا، جس نے وقت کے بڑے بڑے امراء سمیت ہزارہا افراد ہلاک کر ڈالے تھے۔ ہلاک شدگان کی تعداد ملک شام کی آبادی کا نصف حصہ تھی۔ مسلمان اس وقت بہت خوف وہراس میں مبتلا ہو گئے۔ انہوں نے روم کی جانب سے خطرہ محسوس کیا اگر اہل روم مسلمانوں کے لشکر کی اس کمی سے واقف ہو جاتے جس سے وہ ملک شام میں دوچار تھے۔ اور اگر اہل روم حملہ آور ہو جاتے تو یقیناً تعینات لشکروں کے لیے ان کا دفاع بہت مشکل ہو جاتا، لیکن مایوسی نے اہل روم کے دلوں کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی حوصلہ
ہی نہ کر سکے۔
(۱۲) معاشرتی نقطہ نظر سے اگر جائزہ لیا جائے تو عہد مملوکی میں وبائی امراض اجتماعی بندھن میں خلل کا باعث بنے جس کے نتیجے میں شہروں اور دیہاتوں کے درمیان آبادی کی کثافت میں بڑا فاصلہ واقع ہوا، کیوں کہ وبائی امراض کی وجہ سے بہت سے دیہات تباہ ہوگئے اور جغرافیائی تبدیلی کی وجہ سے کسانوں کی تعداد کم ہو گئی، مصنوعات کھیتی باڑی اور جانوروں کی پیداور میں کمی واقع ہوئی، اور ان تمام وجوہات کی بناء پر قیمتوں میں اس قدر شدید اضافہ ہوا کہ اس کی وجہ سے معاشی حالات بدحالی کا شکار ہوگئے، بعض لالچی تجار اور کارخانوں کے مالکوں نے اپنے منافع میں اضافہ کی غرض سے بنیادی سامانِ زندگی کی ذخیرہ اندوزی کر کے اس بحران کا بھر پور فائدہ اٹھایا، جب کہ بعض کا رجحان چوری اور دھوکہ دہی کی جانب بڑھ گیا، جس کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہوگیا۔ اس وبائی مرض سے بہت سے اہل تقوی، مذہبی شخصیات، علماء وصلحاء موت کا شکار ہوگئے۔ جس سے مذہبی اتھارٹی میں ایک بڑا خلاء واقع ہوگیا، حتی کہ لوگ اس دور میں اپنے روحانی خلاء کو پر کرنے کے لیے شعبدہ بازوں اور نجومیوں کا سہارا لینے لگے۔
(۱۳)وبائی امراض اور مسلمانوں کے اقدامات
طاعون عمواس کے سلسلے میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ مسلمان طاعون سے متعلق حضورﷺ کے اس قول کو لے کر حرکت میں آگئے کہ ’’جب تم کسی طاعون زدہ علاقے کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر طاعون وہاں پھیل جائے جہاں تم ہو تو وہاں سے راہ فرار اختیار مت کرو۔‘‘ اس حدیث میں اس جانب بالکل واضح اشارہ ہے کہ آج پھیلنے والی وباؤں سے لڑنے کے لیے کورنٹائن کی حکمت عملی سائنسی وعملی دونوں اعتبار سے حدیث کے مطابق ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے نہ صرف وباء زدہ علاقے میں نہ جانے کا حکم دیا بلکہ وباء زدہ علاقے سے باہر نہ نکلنے کا بھی حکم دیا ہے۔ یہ احتیاط اس لیے برتی تاکہ وباء پھیل کر دوسرے علاقوں تک نہ پہنچ سکے۔ یہ حدیث طب نبویﷺ کے اعجازی پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی حدیث کی بنا پر حضرت عمرؓ ملک شام کے سفر کے لیے نکلنے کے باوجود مدینہ لوٹنے پر مجبور ہوئے۔ حضرت عمر ؓ کی مدینہ واپسی موت کے ڈر سے نہیں تھی جیسا کہ اس کی وضاحت خود حضرت عمر ؓنے کر دی ہے کہ جب ابو عبیدہ بن جراح ؓنے آپ سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں تو حضرت عمر ؓنے جواباً ارشاد فرمایا : جی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی ہی تقدیر کی جانب راہ فرار اختیار کر رہے ہیں‘‘۔
اسی وجہ سے بعض علماء نے خروج کو مباح قرار دیا ہے بشرطیکہ خروج اللہ کی تقدیر سے راہ فرار کی نیت سے نہ ہو اور یہ خیال نہ رکھے کہ راہ فرار اسے موت سے بچا لے گی۔ رہی یہ بات کسی شدید ضرورت یا علاج و معالجہ کی غرض سے نکلنے کی تو یہ جائز ہے، اور وباء زدہ علاقے کو چھوڑ کر کسی صاف ستھرے علاقے کی جانب کوچ کرنا درست طریقہ ہے اورحضرت عمر ؓنے بھی اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓسے یہ مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سرسبز وشاداب، تر وتازہ، کثیر چشموں والی زمین سے کسی بلند وبالا دور علاقہ کی جانب کوچ کر لیں، لہذا انہوں نے حکم کی۔یقیناََ اس واقعے میں وبائی امراض سے حفاظت اور اس سے بچاؤ کی تدابیر اور وباء زدہ علاقوں سے دوری بنائے رکھنے کی ہدایت ملتی ہے۔
(۱۴) ابو عبیدہ بن جراحؓ ودیگر صحابہ کرام ملک شام ہی میں قیام پذیر رہے، وباء پھیلنے کے باوجود وہاں سے خروج نہیں کیا۔ ایک روایت میں ہے ملک شام میں وباء حضرت عمرو بن العاص ؓ کے ملک شام کا والی بنائے جانے کے بعد پھیلی، چنانچہ وباء پھیلنے کے بعد انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے لوگو اس طرح کی مصیبت جب آتی ہے تو وہ آگ کی طرح بھڑکتی ہے لہذا اس سے بچنے کے لیے تم پہاڑوں پر پناہ گزین ہو جایا کرو، پھر فوراً حضرت عمرو بن العاص ؓ اور تمام لوگ پہاڑوں پر چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک اللہ تعالیٰ نے ان سے اس وبائی مرض کو دور کر دیا۔ پھر جب یہ خبر حضرت عمر فاروق ؓ کو پہنچی تو انہوں اس عمل کو ناپسند نہیں کیا۔ یہاں ہمیں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمرو بن العاص ؓ نے وباء میں مبتلا افراد کو آپسی دوری (self distancing) بنائے رکھنے کی نصیحت کی تاکہ وبائی مرض سے متاثر ہو کر لوگ گروہی شکل میں ہلاکت کا شکار نہ ہوں۔
(۱۵)بعد کے دور میں مسلمانوں نے طاعون اور وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ عہد مملوکی میں پھیلنے والی بہت سی بیماریاں جن کا سامنا اہل شام ومصر نے کیا ان سے مقابلہ کرنے کے لیے بعض حکم رانوں اور بعض اہل ثروت نے طاعون میں مبتلاء افراد کے علاج و بچاؤ کے لیے اور بخار جیسی بیماری کے علاج ومعالجے کی غرض سے ملک شام کے تمام شہروں میں شفا خانے بنانے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ وبائی مرض کے دور میں لوگ کافی بڑی تعداد میں ہلاک ہو جاتے تھے اور کبھی کبھی لاشیں تین تین ایام تک زمین ہی پر پڑی رہتی تھی کوئی بھی شخص وباء کے ڈر سے انہیں دفنانے کے لیے لے جانے کو تیار نہیں ہوتا تھا، لہذا اس بھیانک صورتحال کے پیش نظر بعض حکام اور بعض اصحاب خیر حضرات نے میت کو دفنانے کے سلسلے میں حانوت نامی دکانیں اور میت کے لیے غسل خانے تعمیر کروائے جہاں شریعت اسلامی کے مطابق غریب مسلمان شہداء کے لیے کفن دفن کا انتظام کیا جاتا تھا۔
(۱۶)ان مشکل حالات میں بھی لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا اور اس سے امید کرنے کی اہمیت کو نہیں بھولے۔ لہٰذا عبادت گزار لوگ اللہ سے توبہ واِستغفار اور کثرت سے عبادت کرنے لگے اور لوگوں نے تقرب الٰہی کے حصول کی نیت سے شراب خانوں کو بند کردیا اور فواحش ومنکرات کے ارتکاب سے باز آگئے۔ سلسلہ صفحہ نمبر ۱۳۔۔۔
(۱۷) کورنٹائن کے سلسلے میں مسلمانوں کے کافی تجربات رہے ہیں۔ 1798ء میں طاعون پھیلنے سے فوراََ پہلے اہل مغرب کورنٹائن لگانے اور مشرق سے آنے والی وباء سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ اگر وہ اس سے بچاؤ میں آج کامیاب نہ ہوسکے تو پھر اس مسئلے کو سلجھانے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ یہ پہلا طاعون تھا جو اسکندریہ میں 1783ء میں شروع ہوا۔
جزائر میں پھیلنے والی وباء سے محمد بن عبداللہ نے اپنی مملکت کو بچانے کے لیے جو احتیاطی تدابیر اختیار کیں وبائی مرض کی روک تھام میں ان کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ ان میں ایک تدبیر یہ تھی کہ اس نے مراقش کی مشرقی سرحدوں پر ایک فوجی زون قائم کیا تھا اور 1792ء میں طنجہ میں مقیم قونصلر اتھارٹی نے ساحل سمندر پر صحت وحفاظت سے متعلق تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا اس وقت آغاز کیا جب وہ جزائر میں منتشر وباء کے خلاف کورنٹائن نافذ کرنے کے لیے گورنر سلیمان کی موافقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
(۱۸)کورونا وائرس اور قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا طرز عمل۔
علاج اور احتیاطی تدابیر لازمی اختیار کریں اس یقین واعتماد کے ساتھ کہ ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی جانب جا رہے ہیں اور یہ یقین ہو اگر ہم اس مرض وآزمائشں میں صبر وتحمل سے کام لیں گے تو ہم اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’الطاعون شهادة لكل مسلم ‘‘ طاعون سے مرنے والا ہر مسلمان شہید ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ جو مسلمان بھی کورونا وائرس کی وجہ سے فوت ہوگا وہ بھی شہید ہے۔ جب کہ مرنے والے کی شہادت کی نیت ہو اور مصیبت پر اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ ہو۔
انفیکشن کی جگہوں سے بچنے اور حکومتی قوانین اور کورنٹائن کے ضابطوں کی بحسن وخوبی پاسداری کی ضرورت ہے اور جہاں تک وباء زدہ علاقے کی بات ہے تو اس میں رہنے اور خروج دونوں کی اجازت ہے لیکن جو وباء زدہ علاقہ میں ہو اور اس سے متاثر ہو گیا ہو اس کے وہاں سے نکلنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے اس لیے وہ وہیں رہے کیوں کہ وہ وہاں سے نکل کر صحت مند لوگوں کو بھی اس مرض میں مبتلا کردے گا۔ اور جو وباء سے متاثر نہ ہوئے ہوں انہیں نکلنے کی اجازت ہے مگر سب لوگ نہ نکلیں کیوں وہاں بیماروں کی دیکھ بھال کے لیے کچھ لوگوں کا رہنا بہت ضروری ہے۔
آخر میں اس جانب بھی اشارہ کرنا مناسب ہے کہ سرکاری اور طبی اداروں کی جانب سے جو ہدایات دی گئی ہیں ان پر بحسن وخوبی عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے اس لیے کہ مرض کی تشخیص اور علامات کے بارے میں ان کے پاس وقیع معلومات ہیں اور یہ سہولت ہر شہر میں ہے اور اس وباء سے چھٹکارا پانے کے لیے لوگوں کے مابین دستِ معاونت دراز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حوالے:
1۔نصیر بهجت فاضل ، الطواعین فی صدر الإسلام و الخلافة الأمویة. ص۱۰۰
2۔موقع قناة الجزیرة ، الوباء ،شبكة الجزیرة ، الدوحة، آخر مشاهدة : 18 مارس 2020 ، أنظر
4علی محمد الصلابی ، سیرة أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب شخصیته و عصره. ص۲۳۱
5نصیر بهجت فاضل ، الطواعین فی صدر الإسلام و الخلافة الأمویة. ص104
6ایضاََ ۱۰۵۔
7۔ایضاََ ۱۰۶
8أبو الفداء الحافظ إبن كثیر ، البدایة و النهایة ج ۱۳ ،ص ۲۰۳
9 مبارك محمد الطراونة ،الأوبئة و آثارها الإجتماعیة فی بلاد الشام فی عصر الممالیك الشراكسة،ص ۴۷۔۴۸
10عبد الإله بن ملیح، عرض كتاب ” جوائع و أوبئة المغرب فی عهد الموحدین ص ۱۲۴
11محمد الأمین البزاز ، تاریخ الأوبئة و المجاعات بالمغرب فی القرنین الثامن عشر و التاسع عشر،ص۹۲
12عبد الحادی البیاض ،الكوارث الطبیعیة وأثرها فی سلوك و ذهنیات الإنسان فی المغرب و الأندلس ص۱۹۔۲۲
13علی محمد الصلابی ، سیرة أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب شخصیته و عصره. ص۲۳۲
14مبارك محمد الطراونة ،الأوبئة و آثارها الإجتماعیة فی بلاد الشام فی عصر الممالیك الشراكسة،ص ۴۶۔۵۴
15علی محمد الصلابی ، سیرة أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب شخصیته و عصره. ص۲۳۳
16ایضا ۲۳۱۔۲۳۲
17مبارك محمد الطراونة ،الأوبئة و آثارها الإجتماعیة فی بلاد الشام فی عصر الممالیك الشراكسة،ص۵۵
ایضا ۵۷
18محمد الأمین البزاز ، تاریخ الأوبئة و المجاعات بالمغرب فی القرنین الثامن عشر و التاسع عشر،ص ۸۷
***

 

’’جب تم کسی طاعون زدہ علاقے کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر طاعون وہاں پھیل جائے جہاں تم ہو تو وہاں سے راہ فرار اختیار مت کرو۔‘‘ اس حدیث میں اس جانب بالکل واضح اشارہ ہے کہ آج پھیلنے والی وباؤں سے لڑنے کے لیے کورنٹائن کی حکمت عملی سائنسی وعملی دونوں اعتبار سے حدیث کے مطابق ہے۔