کورونا کا چیلنج: صحت انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ اخلاقی پہلواہم

وزیر اعظم نریندر مودی سےمذہبی پیشواؤں کی نو نکات پر گفتگو۔کنوینر پروفیسر محمد سلیم انجینئر سے بات چیت

وسیم احمد، دلی

 

گزشتہ دنوں مذہبی رہنماوں کے متحدہ قومی فورم ’ دھارمک جن مورچہ ‘ کے بینر تلے ملک کے اہم ترین مذہبی پیشواوں کی کورونا کے چیلنج پر وزیر اعظم سے آن لائن گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کے کنوینر پروفیسر محمد سلیم انجینئر، نائب امیر جماعت اسلامی ہند تھے۔ گفتگو کے بعد مختلف اخبارات کے نمائندوں نے ان سے ملاقات کی اورکچھ ضروری سوالات کیے جن کے جوابات انہوں نے تفصیل سے دیے۔یہاں پر ان جوابات کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
س: مذہبی پیشواوں کی وزیر اعظم سے آن لائن گفتگو کا مقصد کیا تھا ، اس میں کتنے پیشوا شامل تھے اور یہ گفتگو کس حد تک کامیاب رہی؟
ج: وزیر اعظم کے ساتھ مذہبی پیشواؤں کی یہ گفتگو ان تک کچھ ضروری باتیں پہنچانے کے لیے تھی۔یہ بات چیت ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔ اس میں کل گیارہ لوگ شامل تھے، یہ سبھی مذہبی پیشوا تھے اور کسی نہ کسی مذہب کی نمائندگی کررہے تھے ۔سب نے وقت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی اپنی باتیں کہیں۔ان باتوں میں وبا کے دوران سرکاری اور عوامی سطح پر مثبت اور منفی دونوں طرح کی باتیں سامنے لائی گئیں ۔ عوامی سطح پر گائیڈ لائن پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے اور سرکاری سطح پر ہونے والی انتظامی کمزوریوں کا ذکر ہوا ۔ مندروں ، مسجدوں ، گردواروں اور چرچوں میں انجام دیے جانے والے خدمت خلق کے کاموں پربھی روشنی ڈالی گئی۔ وبا کے دوران دواوں اور خانگی اسپتالوں میں دواوں اور آکسیجن کی کالا بازاری کے علاوہ بڑی بڑی سیاسی ریلیوں اور مذہبی اجتماعات پر کنٹرول نہ کیے جانے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ۔ ان تمام باتوں کو وزیر اعظم نے غور سے سنا اور تمام پیشواؤں کے اظہار خیال کے بعد اختتامی کلمات میں انہوں نے مذہبی پیشواؤں کی سرگرمیوں اور ویکسینیشن پر ان کی بیداری مہم چلانے نیز عبادت گاہوں میں ویکسینیشن کا بندوبست کرنے کی ستائش کی۔ البتہ ان کے پورے بیان میں وبا کے دوران حکومت کی جانب سے سرزد ہونے والی انتظامی کمزوریوں کا کوئی ذکر نہیں آیا البتہ یہ کہا کہ آپ لوگوں کا تعاون ملتا رہا تو ہم سب مل کر ’ ایک بھارت ، سریشٹھ بھارت‘ بناسکتے ہیں اور کہا کہ ہماری یہ ملاقات ہماری ایکتا اور طاقت کی علامت ہے ‘‘۔ بحیثیت مجموعی ان کی گفتگو مثبت رخ پر تھی۔
س: ویکسینیشن کے بارے میں عوام بلکہ پڑھا لکھا طبقہ بھی تذبذب، گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے ، اس پر کچھ بات ہوئی ؟
ج: وزیر اعظم نے مذہبی پیشواؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں میں بیداری لانے اور ان کی ہچکچاہٹ کو دور کرنے میں آپ لوگوں کا رول بڑا کارگر ہوسکتا ہے۔ہمیں لگتا ہے کہ اپنے اپنے طور پر آپ لوگ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
س: آپ لوگ بیداری مہم چلاتے ہیں۔ لوگ بیدار ہوتے ہیں اور ویکسین لینے کے لیے سنٹر پر جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ویکسین ختم ہو گئی ہے اور پھر کب آئے گی کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔ کیا وزیر اعظم کے سامنے یہ بات رکھی گئی؟
ج: ہماری طرف سے جو باتیں پیش کی گئی تھیں ان میں یہ بات بھی شامل تھی۔ ہم نے کل نو نکات پیش کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی پوائنٹ تھا جس کا ابھی آپ نے تذکرہ کیا ہے۔ ہم نے واضح طور پر کہا تھا کہ لوگ ویکسین سنٹر پر بڑی امید لے کر جاتے ہیں مگر وہاں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین ختم ہو چکی ہے، اور مایوس لوٹ جاتے ہیں۔یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اس سمت میں ٹھوس قدم اٹھائے۔ لیکن اپنی گفتگو کے دوران وزیر اعظم نے اس پوائنٹ کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا ۔
س: کورونا کے دوران ملک کی کئی ریاستوں میں بالخصوص یو پی میں ماب لنچنگ کے متعدد واقعات پیش آئے ۔ کیا اس گفتگو میں اس غیر جمہوری عمل پر کوئی بات ہوئی؟
ج: ’’ ماب لنچنگ ‘‘ کا لفظ تو استعمال نہیں کیا گیا ۔ البتہ ’’ منافرت ، تشدد ، قانون ہاتھ میں لینا ‘‘ جیسے الفاظ وزیر اعظم کے سامنے کئی پیشواؤں نے رکھے اور ملک میں ہورہے تشدد، منافرت اور امن کو بگاڑنے والی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور اس پر لگام لگانے اور گنہگاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی گزارش کی اور کہا کہ اس طرح کی جمہوریت مخالف حرکتوں کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کو بنائے رکھنے لیے حکومت مضبوط حکمت عملی تیار کرے ۔
س: ابھی یقینی نہیں ہے کہ کونسی ویکسین کتنے دنوں تک کارگر رہے گی تو وزیر اعظم کو چاہیے کہ اپنے سائنس دانوں سے اس پر ریسرچ کرواکر غیر یقینی والی کیفیت کو دور کریں، کیااس تعلق سے کوئی بات ہوئی ؟
ج: دیکھئے ! ہندوستان ویکسین کا صرف یوزر ہے ، ڈیولپر نہیں۔ حالانکہ ہمارے یہاں بھی ایک میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں اس پر کام ہورہاہے ۔یہ ایک ٹیکنیکل ورک ہے، اس کے بارے میں کوئی ایک ملک رائے قائم نہیں کرسکتا، انٹرنیشنل سائنس دانوں کی ٹیم ہی اس پرکوئی رائے قائم کر سکتی ہے۔یہاں پر ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو ویکسینس اس وقت دستیاب ہیں ،ان کا باہم تقابل کرنا نہایت ہی نازک مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ کمپنیوں کے آپسی کمپٹیشن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی اچھائی اور دوسروں کی مصنوعات کے خلاف افواہیں پھیلا دیتی ہیں۔لہٰذا ویکسین کے بارے میں جو افواہ گردش کررہی ہے، ان پر کان دھرنے کے بجائے جو بھی دستیاب ہو لے لینا چاہیے ۔

س : ’ دھارمک جن مورچہ ‘ کی جانب سے وزیر اعظم کے سامنے اور کیا مطالبات رکھے گئے؟
ج: مطالبات تو کئی تھے ۔ ان میں سے ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ ہیلتھ اسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ گزشتہ برس کورونا کی وجہ سے ہم نے اپنے ملک کے چار لاکھ سے زیادہ افراد کو کھویا ہے ۔اب ہم مزید درد برداشت کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ سرکاری ہیلتھ اسٹرکچر کا موجودہ ڈھانچہ ہماری ضرورت کے بالمقابل بہت کمزور ہے ، لہٰذا حکومت اپنی جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ ہیلتھ سروسز کے لیے مختص کرکے سرکاری اسپتالوں کی صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھائے ۔ اس سے پہلے بھی ہم ’دھارمک جن مورچہ‘ کے پلیٹ فارم سے بذریعہ لیٹر وزیر اعظم سے اس طرح کے تفصیلی مطالبات کرچکے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کے ذہن میں یہ ساری باتیں پہلے سے موجود ہوں گی ۔ اس گفتگو سے ہمارا مقصد اپنی باتیں وزیرا عظم تک پہنچانا تھا اور اس میں ہم کامیاب رہے ۔
اس گفتگو میں پیشواؤں کی جانب سے اخلاقی پہلو پر کافی زور دیا گیا اوربتایا گیا کہ وباوں اور آفتوں کے آنے کی ایک وجہ تو قدرتی وسائل کا غلط استعمال ہے ۔ یہ اس کی سائنٹفک وجہ ہے اور ایک دوسری وجہ بھی ہے جو بہت ہی اہم ہے، وہ ہے اخلاقی پہلو ۔ جب سماج میں ناانصافی ، ظلم اور تشدد ہونے لگتا ہے اور نفرت اور بداخلاقی پھیلتی ہے تو اس کائنات کا خالق ہم انسانوں کو اپنی اصلاح کرنے کا موقع دینے کے لیے ایسی وبائیں بھیجتا ہے ، ہمیں اس موقع کو غنیمت سمجھ کر انفرادی، اجتماعی اور سرکاری طور پر اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم سے کہاں پر غلطیاں ہورہی ہیں۔ دوا اور علاج کے ساتھ ساتھ اخلاقی پہلو پربھی توجہ دینا ضروری ہے، اگر ہم اس بڑی مصیبت سے جلد نجات چاہتے ہیں۔
س: ابھی وزیر اعظم سے آن لائن گفتگو ہوئی ہے۔کیا مستقبل میں بھی براہ راست ملنے کا منصوبہ ہے؟
ج: فی الوقت اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے ۔ البتہ ہم نے وزیر اعظم کے اختتامی کلمات کے بعد اپنی باتیں پیش کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ابھی ہماری مجبوری تھی کہ کورونا کی وجہ سے ہم لوگ آپس میں مل نہیں پائے اور ہمیں وزیر اعظم صاحب کے ساتھ آن لائن گفتگو کرنی پڑی۔ ہم مالک سے دعا کرتے ہیں کہ حالات جلد ٹھیک ہوں اور کورونا سے ہم کو نجات ملے اور ہمیں آپس میں مل بیٹھنے کا موقع ملے۔اس طرح ہم نے مستقبل میں ان سے ملنے کے امکانات کی طرف اشارہ بھی کردیا۔
س: کورونا سے مقابلہ کو مزید مؤثر بنانے کے لیے وزیر اعظم نے کیا کہا اور اس معاملے میں وہ مذہبی پیشواؤں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
ج: اس سلسلے میں انہوں نے ایک بات یہ کہی کہ’’ ہم سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے اور کہا کہ اس وقت جو ہم الگ الگ مذاہب کے پیشواؤں کو ایک ساتھ دیکھ رہے ہیں ،یہ ہماری طاقت ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ لوگوں نے اپنے اپنے اداروں میں کورونا کی بابت بہت کام کیا ہے ۔ اگر آپ لوگوں کا تعاون ملتا رہا تو حکومت آپ کے تعاون سے بڑا کام کرسکتی ہے۔ انہوں نے سماج میں بیداری لانے کے تعلق سے پیشواؤں سے کہا کہ آپ لوگ بہت بڑا رول ادا کر سکتے ہیں ۔ آپ لوگ اس پہلو پر زیادہ توجہ دیں اور ویکسین کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کاازالہ کریں۔ وزیر اعظم نے اپنے بیان میں حکومت کے کچھ پروگراموں کے بارے میں بھی بتایا اور اپیل کی کہ پیشوا اس میں ان کا ساتھ دیں۔ آزادی کے پچھتر سال پورا ہونے پر پورا ایک سال جشن منایا جائے گا ، اس میں مختلف پروگرام ہوں گے۔ آپ لوگوں کا تعاون رہا تو ہم ’ ایک بھارت ،بہتر بھارت‘ بنانے میں کامیاب ہوں گے‘‘۔
س: اس گفتگو میں کن کن مذاہب کے پیشواؤں نے شرکت کی ؟
ج: اس میں ان تمام مذاہب کے پیشوا تھے،جن کے پیروکاروں کی تعداد ملک میں معتدبہ ہے ۔ ہندومذہب میں الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں ، ان نظریات کے پیشواؤں کو بھی اس میں شامل کیا گیا تھا ۔ مذہب اسلام کی نمائندگی میں خود کررہا تھا۔ حالانکہ اس میں مزید پیشواؤں کو شریک کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، مگر کنوینر کے علاوہ صرف دس لوگوں کو ہی شامل کرنے کی اجازت ملی تھی، لہٰذا ممکنہ حد تک تمام مذاہب کے نمائندوں کو شریک کرایا گیا۔اس میں ہندو ، جین، سکھ، عیسائی، شنکر اچاریہ،پیٹھادھیش، برہما کماری، رام کرشن مشن اور اسلام کے نمائندوں نے شرکت کی ۔
س: ’دھارمک جن مورچہ‘ کا اگلا پروگرام کیا ہے؟
ج: ’ دھارمک جن مورچہ ‘ کا اصل کام سماج میں آپسی اعتماد و بھروسہ پیدا کرنا ، منافرت، تشدد اور غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہے ۔مذاہب کے درمیان جو باتیں متفقہ ہیں جیسے انصاف، حسن اخلاق،بھلائی ، خدمت خلق، انسانی اقدار، ان کی تمام مذاہب میں حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ظلم ، حق تلفی اور ناانصافی جیسی برائیوں کو تمام مذاہب میں مسترد کیا جاتا ہے۔ تو یہ جو متفقہ ایشوز ہیں ان پر باہمی گفت و شنید کرکے سماج میں قربت بڑھانے کی کوشش کرنا اس مورچے کا بنیادی مقصد ہے۔ اگر ضرورت پیش آئی اور کسی بات کو حکومت تک پہنچانا ضروری سمجھا گیا تو ہم دوبارہ بھی ملاقات کریں گے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021