کسان یونینوں نے سپریم کورٹ کے مقرر کردہ پینل سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا، کسانوں کے کہنا ہے کہ تمام ممبران ’’قوانین کے حامی‘‘ ہیں

نئی دہلی، جنوری 13: نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، کیوں کہ اس کمیٹی کے تمام اراکین نے اس قانون سازی کی حمایت کی تھی اور وہ ’’حکومت نواز‘‘ ہیں۔

بھارتیہ کسان یونین کے بلبیر سنگھ راجیوال نے منگل کی شام مظاہرین کے ذریعہ منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا ’’کمیٹی کے ممبران قابل اعتماد نہیں ہیں کیوں کہ وہ لکھتے رہے ہیں کہ کس طرح زرعی قوانین کسانوں کے حق میں ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ کسان اصولی طور پر اس کمیٹی کے خلاف ہیں اور یہ حکومت کی طرف سے احتجاج سے توجہ ہٹانے کا ایک طریقہ ہے۔ ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا۔

کرانتی کاری کسان یونین کے سربراہ درشن پال نے کہا کہ وہ کسی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے اور تجویز پیش کی کہ پارلیمنٹ کو اس معاملے پر تبادلہ خیال اور اس کو حل کرنا چاہیے۔

اے این آئی کے مطابق انھوں نے کہا ’’ہم نے گذشتہ رات ایک پریس نوٹ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم ثالثی کے لیے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کسی بھی کمیٹی کو قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں یقین تھا کہ مرکز اپنے کندھوں سے بوجھ ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعے ایک کمیٹی تشکیل دے گا۔‘‘

اس سے قبل منگل کو عدالت نے اگلے احکامات تک نئے زرع قوانین کے نفاذ پر روک لگا دی اور دونوں فریقین کے مابین ثالثی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ بھارتی کسان یونین کے صدر بھوپندر سنگھ مان، انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں جنوبی ایشیا کے سابق ​​ڈائریکٹر پرمود جوشی، زرعی ماہر معاشیات اشوک گلاٹی اور مہاراشٹر شیٹکری سنگٹھن کے صدر انل گھاونت کو کمیٹی کا ممبر مقرر کیا گیا ہے۔

کسان یونینوں نے قوانین کے نفاذ پر روک کے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ قوانین کی منسوخی کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔

کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ بات سامنے آئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ذریعہ تشکیل دی گئی کمیٹی کے چاروں ممبران نے ماضی میں نئے زرعی قوانین کی حمایت کی ہے۔ منگل کو متعدد سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس کی نشان دہی کی اور ان کے مضامین اور بیانات شیئر کیے۔