گورنروں کو اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ منتخب حکام نہیں ہیں: سپریم کورٹ

نئی دہلی، نومبر 6: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ ریاستوں کے گورنروں کو اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ منتخب حکام نہیں ہیں۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے گورنر بنواری لال پروہت کے خلاف پنجاب حکومت کی طرف سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے زبانی طور پر یہ بات کہی۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت نے پروہت پر ریاست کی مقننہ کے ذریعے منظور شدہ سات بلوں پر عمل نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

مقننہ سے منظور شدہ بل گورنر کے دستخط کے بعد ہی قانون بن پاتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 200 گورنرز کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ یا تو بل کو منظوری دے دیں یا اسے مسترد کر دیں یا بعض صورتوں میں اسے صدر کے غور کے لیے محفوظ کر سکتے ہیں۔

بل کو مسترد کرتے ہوئے گورنر اس میں ترمیم تجویز کر سکتے ہیں۔ تاہم مقننہ ان تجاویز کو قبول کرنے کی پابند نہیں ہے اور گورنر کی منظوری کے لیے بل کو اس کی اصل شکل میں دوبارہ منظور کر سکتی ہے۔ اس صورت گورنر کو یا تو منظوری دینی ہوگی یا اسے صدر کے غور کے لیے محفوظ رکھنا ہوگا۔

پیر کو ہونے والی سماعت میں سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے پنجاب حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ زیر التواء بل اہم ہیں اور جولائی میں گورنر کے سامنے رکھے گئے تھے۔

وہیں پنجاب کے گورنر کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو مطلع کیا کہ پروہت نے ان بلوں پر ’’مناسب فیصلے‘‘ لیے ہیں۔

مہتا کی عرضی کا جواب دیتے ہوئے چندرچوڑ نے سوال کیا کہ ’’ایسے معاملات سپریم کورٹ میں پہنچنے کے بعد ہی گورنر کیوں کارروائی کر رہے ہیں؟‘‘

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو روکنا ہوگا۔ ’’آپ سپریم کورٹ آتے ہیں تو گورنر کام شروع کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں آنے سے پہلے ہی گورنروں کو کارروائی کرنی چاہیے۔‘‘

چندرچوڑ نے روشنی ڈالی کہ تلنگانہ کے گورنر نے اپریل میں اسی طرح قانون سازی پر تب عمل کیا جب ان کی تاخیر کے خلاف ریاستی حکومت کی درخواست سپریم کورٹ میں پہنچی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنرز کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ عوام کے ذریعے منتخب نمائندے نہیں ہیں۔

بنچ نے کہا کہ وہ کیرالہ اور تمل ناڈو حکومتوں کی طرف سے دائر کی گئی اسی طرح کی درخواستوں کے ساتھ اگلے جمعہ کو اس معاملے کی سماعت کرے گی۔

اپنی درخواست میں کیرالہ حکومت نے گذشتہ ہفتے عدالت کو بتایا کہ گورنر عارف محمد خان کی جانب سے آٹھ بلوں پر غور کرنے میں تاخیر سے آئین کی بنیادوں کو پامال کرنے اور ریاست کے لوگوں کے حقوق کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

آٹھ میں سے تین بل دو سال سے زیادہ عرصے سے گورنر کے پاس زیر التوا ہیں۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ تین دیگر بل ایک سال سے زیر التواء ہیں۔

اس سے قبل تمل ناڈو حکومت نے گورنر آر این روی پر قانون ساز اسمبلی کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اپنی درخواست میں ڈی ایم کے حکومت نے الزام لگایا کہ روی نے نہ صرف متعدد بلوں کو زیر التواء رکھا ہے بلکہ کئی بدعنوانی کے معاملات میں تحقیقات اور استغاثہ کی منظوری بھی نہیں دی ہے۔