کرناٹک: حالیہ اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں کی نمائندگی میں تناسب کا فقدان

مسلمانوں کی آبادی تقریباً13 فیصد اور اسمبلی میں نمائندگوں کی تعداد محض9 جبکہ لنگایت کی آبادی 17 فیصد ہے اور اسمبلی میں  37لنگایت ایم ایل اے ہیں

نئی دہلی ،18مئی:۔

کرناٹک میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی یوں تو گزشتہ کئی برسوں سے تنزلی کا شکار ہے لیکن حالیہ انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو دیگر برادریوں اور طبقات کے آبادی فیصد کے تناسب میں مسلمانوں کی نمائندگی کا فقدان نظر آتا ہے ۔ ریاست میں  مسلمانوں کی آبادی تقریباً 13 فیصدہے مگر حالیہ   اسمبلی انتخابات 2023 میں صرف 9 مسلم امیدوار کامیاب ہو ئے۔

دکن  ہیرالڈ  میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے مقابلے میں لنگایت برادری کی آبادی فیصد 17 ہے جبکہ 37 لنگایت ایم ایل اے کے طور پر منتخب ہوئے ۔نہ صرف لنگایت بلکہ دیگر ووکلیگاس اور کرباس کو بھی اسمبلی سیٹوں میں زیادہ نمائندگی ملی۔

انڈیا ٹو ماروسے وابستہ سمیع احمد کی رپورٹ کے مطابق تمام 9 مسلم ایم ایل ایز کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے۔خیال رہے کہ کانگریس نے   15 امیدوار  کو ٹکٹ دیا تھا جس میں سے نو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔

کامیاب ہونے والے نو مسلم امیدواروں میں (1)بیدر سے رحیم خان،(2)مینگلورو سے یو ٹی قادر ( 3) نرسمہاراجہ سے تنویر سیٹھ( 4) آصف (راجو) بیلگاوی نارتھ سے  ،(5) شیواجی نگر سے رضوان ارشد،( 6) بی زیڈ ضمیر احمد خان چمبراج پیٹ سے،( 7) گلبرگہ (کالابورگی) شمالی سے کنیز فاطمہ،( 8) اقبال حسین رام نگر سے  اور( 9) این اے  حارث شانتی نگر سے  شامل ہیں۔جنتا دل (سیکولر) نے 23 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا لیکن کوئی بھی جیت نہیں سکا۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسمبلی انتخابات  کے لیے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔کرناٹک اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی اوسطاً 8.5  کے قریب رہی ہے جبکہ 1978 میں یہ سب سے زیادہ  17  فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق 1978 کے اسمبلی انتخابات میں 16 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ اسی سال کے ضمنی انتخاب میں ایک اور کا اضافہ  ہوا  تھا۔ مصنف اور سیاسی مبصر سید تنویر احمد کا کہنا ہے کہ اگرچہ کرناٹک میں مسلمانوں کی اوسط آبادی 13 فیصد کے قریب ہے، لیکن وہاں تقریباً 35 اسمبلی سیٹیں ہیں جہاں ان کی آبادی 15 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان کا حساب ہے کہ ان 35 سیٹوں میں سے مسلمانوں کو تقریباً 25 سیٹوں پر جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں  لیکن ان 25 میں بھی تقریباً سات سیٹیں  ایس سی ایس ٹی  امیدواروں کے لیے ریزرو ہیں۔

کرناٹک کے حالیہ انتخاب میں مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی کے پیچھے مسلم ووٹوں کی تقسیم بھی قرار دیا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد ایسی سیٹیں ہیں جہاں بی جے پی کے امیدوار کی جیت کا فاصلہ بہت کم ہے ۔اس کے علاوہ کانگریس اور جے ڈی ایس کے امیدواروں کے درمیان متعلقہ سیٹوں پر ووٹوں کی تقسیم بھی ہے ۔رپورٹ کے مطابق  مسلم امیدواروں کی شکست کی ایک وجہ کانگریس اور جے ڈی (ایس) امیدواروں کے درمیان متعلقہ سیٹوں پر ووٹوں کی تقسیم ہے۔ کلیان کرناٹک میں بی جے پی کے چھ امیدواروں میں سے چار مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے جیت گئے۔

مسلم ووٹوں کی تقسیم نے بھی بی جے پی کو بہت کم مارجن سے جیتنے میں مدد دی۔ ہومن آباد سیٹ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے سدھو پاٹل نے کانگریس کے راج شیکھر بسو راج پاٹل کو 1594 ووٹوں سے شکست دی جبکہ جے ڈی (ایس) کے امیدوار سی ایم فیض کو 25831 ووٹ ملے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں مسلم ایم ایل ایز کی کم تعداد کی دوسری وجوہات غربت، سیاسی بیداری  کی کمی بھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق  سیاسی سمجھ بوجھ، ہوشیاری  اور ووٹروں کے درمیان رسائی وہ شعبے ہیں جہاں مسلم امیدواروں کو پہلے ٹکٹ اور پھر جیتنے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی  فہم اور سمجھ بوجھ کی وضاحت کرتے ہوئے سیاسی مبصر تنویر احمد کہتے ہیں کہ یہ مناسب ہے کہ مسلم کمیونٹی آنے والے پارلیمانی انتخابات اور آج سے اگلے اسمبلی انتخابات کے لیے کام کر رہی ہے۔ سیاسی بیداری قلیل مدتی کام نہیں ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں مسلم امیدوار کی جیت کے بارے میں  پر امید ہو جائیں تو ان کے ٹکٹ ملنے کے امکانات  بھی بہتر ہوں گے۔

اسمبلی میں نمائندگی کے معاملے کے بعد ریاستی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی کا سوال آتا ہے۔ ایک متنازعہ اور بی جے پی کے حمایت یافتہ کرناٹک وقف بورڈ کے چیئر مین محمد شفیع سعدی نے پانچ وزارتی عہدوں کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلم کمیونٹی کے لیے ایک نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ  کا مطالبہ کیا ہے ۔ اگرچہ یہ مطالبہ سیاسی چال سمجھا جاتا ہے لیکن سنجیدہ مبصرین کا کہنا ہے کہ کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے مضبوط نام ہونے چاہئیں۔

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلم کمیونٹی سے ایک نائب وزیر اعلیٰ اچھا لگتا ہے لیکن اس عہدے کے لیے امیدوار کو مستحق ہونا  بھی چاہیے۔  تمام طبقات کی جانب سے کابینہ میں جگہ حاصل کرنے کے لیے سخت دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے ۔