کانگریس میں دو’’غلاموں ‘‘کا آمنا سامنا

کیاجموں وکشمیر میں کانگریس کی ساکھ داؤ پرہے؟

ایم شفیع میر، جموں و کشمیر

 

یوں تو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کی حالت برسوں سے بگڑی ہوئی ہے جس کا اعتراف کانگریس کے کئی سینئر لیڈر وقتاً فوقتاً کر چکے ہیں اور لگاتار کبھی میڈیا کے سامنے تو کبھی عوامی اجتماعات میں اپنے سیاسی خطابات کے ذریعے کر بھی رہے ہیں لیکن پارٹی کی حالت سدھارنے کیلئے ابھی تک بھی کوئی متفقہ رائے نہیں بن پا رہی ہے۔ ٹانگ کھنچائی اور بھانت بھانت کی بولیوں کے ذریعے جماعت کی ’’ساکھ مٹائی‘‘ کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور نہ جانے کب تک اِس عمل کو جاری رکھا جائے گا۔
کانگریس میں لیڈرشپ کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی جماعت کے پہلوانوں کو آپس میں لڑوایا جا رہا ہے کوئی روک ٹوک کرنے، پوچھنے، سننے، سوچنے والا نہیں۔ کوئی نظم و ضبط نہیں۔ گویا نظریات میں تناؤ ہے جس کی وجہ سے اختلافات کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ ہر ہاتھ کا کنول کی طرف جھکاو ہے، ہاتھ سے ہاتھ کھسکتا جا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ہاتھ کی لکیروں میں صاف طور پر عیاں ہوتا ہے کہ کانگریس کے ستارے گردش میں ہیں۔ اسٹیج سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے، ہاتھوں میں ہاتھ نہیں بلکہ ہاتھوں میں کنول تھمائے جانے کی تیاریوں کا گمان گزرتا ہے، اسٹیج خالی پڑا ہے اور کوئی آسانی سے آکر ’’من کی بات‘‘ کرتا جا رہا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ کانگریس کے یہاں اپنے لیڈروں کا پارٹی کے تئیں آئے روز من خراب ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ کڑوا گھونٹ جلدی جلدی کوئی نہیں پیتا، پھر سیاسی فطرت میں تو کڑوا گھونٹ پینا کنویں میں کودنے کے مترادف ہے کیونکہ سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں کب کس سے دوستی کرنی پڑے اور کب دشمنی کے روپ میں ظاہر ہونا پڑے معلوم نہیں ہوتا اِسی لیے شاید کانگریس کے لیڈر بھی عقل سلیم کا کڑوا گھونٹ پینے کیلئے تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ کسی کو راہل پسند نہیں تو کسی کو پرینکا سے بیر، ایسے ہی بھید بھاؤ اور ہیر پھیر نے ’’کانگریس آئی‘‘ کو ’’کانگریس لڑائی‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جیسے منموہن سنگھ کے دور میں ریموٹ کہیں اور روبوٹ کہیں ہوتا تھا بالکل اُسی طرح سے آج بھی کانگریس خیمے سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے ’’آلا رے آلا!! رندیپ سرجے والا!! کب کھلے گا بند ذہنوں کا تالا؟ سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ملک کی سب سے بڑی جماعت کانگریس میں بھانت بھانت کی بولیاں کیوں بولی جا رہی ہیں کیوں ایک بڑی سیاسی جماعت بکھرتی نظر آرہی ہے اور کیوں اِس صورتحال پر قابو پانے کیلئے کوئی حکمت عملی اپنانے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے؟ کون سنپولا آستین میں بیٹھ کر دودھ بھی پی رہا ہے اور ڈسنے کا کام بھی آسانی سے انجام دے رہا ہے، کیا کانگریس ایسی لیڈرشپ سے محروم ہو گئی ہے جس میں سیاسی شعور ہو، بیداری ہو اور چالاکی ہو؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہر لیڈر خود کو طرم خان سمجھ کر آگے رہنے کی جستجو میں ہے اور پیچھے کھڑے رہنے والے ایک ایک کر کے رفوچکر ہو رہے ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ لیڈروں کی آپسی چپقلش، پسند اور ناپسند کی وجہ سے کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے کی بنیادیں آئے روز کمزور ہوتی جا رہی ہیں، تنظیمی ڈھانچے سے کھسکتی اینٹوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے جو کہ ملک کی عوام کیلئے بھی اک نیا چیلنج ہے، نئے ہندوستان میں کچھ نیا ہونے جا رہا ہے، کوئی نیا متبادل ڈھونڈے جانے کا الارم بج رہا ہے کیونکہ مودی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں سے تنگ ملک کی عوام نے بدلاؤ کا من بنا لیا ہے لیکن متبادل آپشن ہی غائب ہے، وہ ’آپشن‘ اپنا وقار بحال کرانے میں ناکام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ گو کہ روزِ اول سے ہی کانگریس میں دھڑا بندی اور گروپ بندی کا دستور رہا ہے لیکن موجودہ وقت میں قیادت کے فقدان سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ گروپ بندی اور دھڑا بندی کی اِسی دیمک نے کانگریس جیسی بڑی سیاسی جماعت کو ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں کانگریس کے ہر لیڈر کو آگے کنواں اور پیچھے کھائی نظر آرہی ہے، ماضی کے گناہ مٹائے نہیں مٹتے، لیڈر بکھراؤ کا شکار ہو کر قیادت کی نس بندی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
قابل غور ہے کہ کانگریس میں گروپ بندی کا رجحان صرف اعلیٰ قیادت تک ہی محدود نہیں رہا ہے بلکہ ایک وقت میں جموں و کشمیر میں آزاد گروپ اور سوز گروپ کا سلسلہ کافی عروج پر تھا لیکن وقت کی دشوار گزار سیاسی راہوں نے اِن کو تھکا دیا اور دونوں فریقوں میں گروپ ازم کا جنون پھیکا پڑ گیا۔ سیاسی اتار چڑھاؤ نے دونوں دھڑوں کو ایسے گڑھے میں گرا دیا جہاں سے بس ایک ہی آواز گونج رہی ہے کہ جموں و کشمیر کے ساتھ نا انصافی ہوئی۔ کاش یہ آواز اُس وقت بلند ہوئی ہوتی جب سیاسی جنون دونوں دھڑوں میں موجیں مار رہا تھا لیکن افسوس ہے کہ اس وقت عقل مات کھا جانے کی وجہ سے جموں و کشمیر کی عوام کیلئے کچھ کر گزرنے کاجنون، جوش اور ولولہ ’’دھڑہ بندی اور گروپ بندی‘‘ کی نذر ہوگیا۔
موجودہ دور میں جب کہ کانگریس کو اپنا تنظیمی ڈھانچہ ملکی سطح پر مضبوط کرنے کیلئے دھڑا بندی، گروپ بندی اور ٹانگ کھنچائی سے اوپر اُٹھ کر متحد ہونا چاہیے تھا لیکن نہ جانے کیوں سب کچھ اِس کے برعکس ہو رہا ہے؟ بالخصوص ریاست جموں و کشمیر میں کانگریس کے لیڈروں کو دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گروپ ازم سے بچنے کی از حد کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن جموں و کشمیر کانگریس خیمے میں لیڈروں کے مابین تنگ نظری کا ایسا ماحول گرمایا جا رہا ہے جس سے یہ بھی معلوم نہیں رہتا کہ کون لیڈر کہاں اور کس کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
گزشتہ چند ہفتے قبل پارلیمنٹ سے سبکدوش ہوئے غلام نبی آزاد کو گویا کانگریس سے آزادی ملی۔سبکدوشی کے فوراً بعد غلام نبی آزاد کی قیادت میں G-23 کا گروپ کشمیر کے جموں میں وارد ہوا، آمد پر ریاستی سطح کے تقریبا تمام کانگریس لیڈروں نے گروپ کا پرجوش استقبال کیا، پھول مالائیں پہنائی گئیں، مالاؤں سے جھکی گردنوں نے دوسرے ہی روز سر اٹھا کر خطاب کیے تو بولی پہلے سے مختلف تھی۔ متضاد قسم کے بیانات سامنے آئے۔ G-23 کے دورۂ جموں نے جموں و کشمیر کانگریس خیمے میں طوفان برپا کر دیا، کل کے بھیدی بھی کانگریسی ہونے کا راگ الاپنے لگے۔عجیب اتفاق ہے کہ کانگریس کے ہی لوگ کئی خانوں میں بٹ گئے، کچھ لوگ غلام نبی آزاد کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئے تو کچھ حمایتی آزاد کے حق میں نعرے بلند کرتے دکھائی دیے اور کچھ خاموش مزاج لوگوں نے چپ رہنے میں ہی اپنی سیاسی عافیت سمجھی. لہٰذا وہ خاموش ہی رہے، ایسا محسوس ہو رہا تھا اور عوامی حلقوں میں یہ قیاس آرئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ ’’آزاد مخالف‘‘ اور ’’آزاد حمایت‘‘ ماحول کو جنم دینے میں اِنہی خاموش مزاج کانگریس لیڈروں کا مبینہ رول ہے۔ اب حقیقت کیا ہے اور ’’اصلی‘‘ کون ہے اور ’’نقلی‘‘ کون آنے والے دنوں میں اِس راز کی پرتیں بھی کھلیں گی۔
شاہنواز چودھری کی قیادت میں جو ٹولہ غلام نبی آزاد کے خلاف سڑکوں پر اُترا اور احتجاج کیا اُن کا الزام تھا کہ غلام نبی آزاد بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشاروں پر کام کر کے کانگریس پارٹی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پارٹی کے دیوانے احتجاجیوں نے جم کر نعرہ بازی کی اور غلام نبی آزاد کا پتلا بھی نذر آتش کر دیا۔ احتجاجیوں کا کہنا تھا کہ کانگریس نے غلام نبی آزاد کو ہمیشہ اونچائی پر رکھا لیکن آج جب پارٹی کو ان کی ضرورت تھی تو وہ جموں وکشمیر میں پارٹی کو کمزور کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ تک سونیا گاندھی سے کہہ دیا کہ غلام نبی آزاد کو پارٹی سے نکال باہر کر دیا جائے۔ ایسے میں اک گروپ نے آزاد کے حق میں نعرے بلند کیے اُن کا ماننا ہے کہ اصلی کانگریسی تو غلام نبی آزاد ہی ہیں باقی تو خام مال ہے اور جو لوگ غلام نبی آزاد پر بھاجپا کے ساتھ ساز باز رکھنے کے جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگا رہے ہیں حقیقی معنوں میں وہ خود آر ایس ایس کےاشاروں پر ناچتے ہیں۔ جموں و کشمیر میں کانگریس کو کمزور کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ گویا ’’کانگریس مکت‘‘ جموں و کشمیر کی ٹھیکیداری لی ہے۔
اختلاف، اختلاف اور اختلاف کی میں آگ لگاتار سلگائی ہی جا رہی ہے۔ آزاد معاملے پر آہستہ آہستہ خاموشی کا جمود و سکوت ٹوٹ رہا ہے، بالآخر جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر نے بھی کچھ روز بعد اپنی خاموشی توڑ دی۔ میر نے غلام نبی آزاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے دیگر لیڈروں کے ساتھ پارٹی کے اندرونی معاملے کو میڈیا میں موضوع بحث بنایا ہے جس کے نتیجے میں پارٹی کی امیج خراب ہوئی۔ کانگریس کے دو ’’غلام‘‘ اب سرِ عام آگئے ہیں اور یوں جموں و کشمیر کانگریس میں کھلبلی کے کچھ مزید حقائق منظر عام پر آ رہے ہیں۔ ایک بات تو آئینے کی طرح صاف ہوتی نظر آرہی ہے کہ جموں و کشمیر کانگریس میں کھلبلی کی اک اہم وجہ نئے صدر کا چنا جانا بھی ہے کیونکہ یہاں کچھ ایسے لیڈر بھی ہیں جو ’’پک اینڈ چوز‘‘ پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ باضابطہ طور الیکشن کے ذریعے صدر چنے جانے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اختلافات کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ایسے میں عوامی حلقوں میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، کوئی G-23 کو نئی سیاسی جماعت کے طور دیکھتا ہے تو کوئی اِسے اصلی، شدھ گاندھی کانگریس گردانتا ہے۔ بہرحال ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو جس طرح کانگریس میں ’’بغاوت مہم‘‘ کا سلسلہ ایک قدیم روایت رہی ہے، حال کا ’’حال‘‘ بھی کچھ ایسا ہی ہے بلکہ قدرے بدحال ہے۔ گزشتہ چند برسوں کی بات کی جائے تو کانگریس سے شام لال چوہدری، اعجاز احمد خان، وکرم ملہوترا اور چوہدری لال وغیرہ جیسے بڑے لیڈروں نے بغاوت کر کے کانگریس کا ہاتھ چھوڑا لیکن جماعت کے نظم و ضبط میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی جس سے یہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کانگریس بھی قیادت سے لاوارث، یتیم ہے اوربےیار و مددگار ہے بلکہ یوں کہاں جائے کہ ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ والے فارمولے پر عمل پیرا ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ اِسی عملی مشق کی وجہ سے گزشتہ برسوں کی طرح آج بھی کانگریس خیمے میں بغاوتی مہم مزید رفتار پکڑ سکتی ہے اور کئی لیڈروں کے باغی ہونے کا خدشہ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عوامی حلقوں میں آج کل یہ تبصرے زبان زدِ عام ہیں کہ اگر جموں و کشمیر کانگریس نے ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر غلط فہمیوں کا ازالہ نہیں کیا تو جموں و کشمیر کو ’’کانگریس مکت‘‘ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ خیر اب جموں و کشمیر میں کانگریس کی ڈوبتی نیا کو بچانے کی پہل کون کرتا ہے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا ۔
***

نئے ہندوستان میں کچھ نیا ہونے جا رہا ہے، کوئی نیا متبادل ڈھونڈے جانے کا الارم بج رہا ہے کیونکہ مودی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں سے تنگ ملک کی عوام نے بدلاؤ کا من بنا لیا ہے لیکن متبادل آپشن ہی غائب ہے، وہ ’آپشن‘ اپنا وقار بحال کرانے میں ناکام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021