کانپور: ’’لو جہاد‘‘ کے نام پر درج مقدمات میں ایس آئی ٹی کو سازش اور غیر ملکی مالی اعانت کا کوئی ثبوت نہیں ملا

اترپردیش، 24 نومبر: ایک خاص تحقیقاتی ٹیم نے اترپردیش کے کانپور میں مبینہ طور پر ’’لو جہاد‘‘ (Love jihad) کے معاملات میں سازشی پہلو کی جانچ کی ہے۔ دی ہندو نے ایک سینئر پولیس افسر کے حوالے سے بتایا کہ 14 واقعات میں سے 11 مجرمانہ تھے لیکن انھیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ ان معاملات میں ملوث افراد کو غیر ملکی مالی امداد ​​مل رہی ہے یا یہ کوئی منظم سازش تھی۔

یہ ٹیم 14 مقدمات پر بین المذاہب شادیوں کی اطلاع کے بعد قائم کی گئی تھی، جن میں لڑکیوں کے والدین نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم لڑکوں نے ان کی بیٹیوں کو دھوکہ دیا اور ’’انھیں محبت میں پھنسا کر‘‘ ان کا مذہب تبدیل کروایا ہے۔

کانپور کے انسپکٹر جنرل موہت اگروال نے کہا کہ ایس آئی ٹی کی تحقیقات میں غیر ملکی فنڈنگ ​​کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ لیکن کچھ مجرموں نے نام بدل کر نابالغوں کے ساتھ تعلق قائم کر لیے تھے۔

11 مقدمات میں مبینہ جرائم کے انکشاف کے بعد ان میں ملوث افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔ باقی تین معاملات میں ، پولیس کو پتہ چلا کہ خواتین بالغ تھیں اور وہ اپنی مرضی سے مسلمان مردوں کے ساتھ تھیں۔ پولیس افسر نے دی ہندو کو بتایا ’’ایسے معاملات میں کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔‘‘

خبر کے مطابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وکاس پانڈے کی سربراہی میں ایس آئی ٹی نے گذشتہ دو سالوں میں پورے کانپور میں درج 14 مقدمات کی تحقیقات کے بعد پیر کو اپنی رپورٹ اگروال کو پیش کی۔ ان میں سے آٹھ معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی گئی ہیں اور باقی بھی جلد ہی داخل کی جائیں گی۔

پانڈے نے کہا کہ 11 معاملات میں ’’شادی سے پہلے لڑکیوں کے نام تبدیل کرنے کے‘‘ مناسب طریقۂ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی شادیوں کو خصوصی شادیوں کے ایکٹ کے تحت درج بھی نہیں کروایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اکتوبر میں اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ نے ’’لو جہاد‘‘ کے خلاف ایک قانون سازی کی تجویز پیش کی تھی۔ گذشتہ کچھ دنوں میں بی جے پی کے زیر اقتدار دیگر کچھ ریاستوں نے بھی ایسے قانون پر غور کرنے کی باتی کہی ہے۔

آدتیہ ناتھ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے قانون کا جواز پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ صرف شادی کے لیے تبدیلیِ مذہب ناقابل قبول ہے۔ تاہم گذشتہ روز پیر کو ہائی کورٹ نے اپنے اس فیصلے کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ قانون میں اچھا نہیں ہے۔ اور کہا کہ ریاست یا کوئی بھی دو بالغوں کے ساتھ رہنے کی آزادی ختم نہیں کر سکتا۔