بنگال: این آئی اے نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار افراد کے گھروں سے ملے قرآن اور نماز کی کتابوں کو ’’جہادی ادب‘‘ بتایا

(مسیح الزماں انصاری)

نئی دہلی، 24 نومبر: کیا قرآن اور اردو عربی کی کتابیں جہادی ادب ہیں؟ کیا انھیں گھر میں رکھنا جرم ہے؟ کیا ملک میں کسی مسلمان کا داڑھی رکھنا غلط ہے؟ آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ قومی سلامتی ادارے (این آئی اے) نے مبینہ طور پر گھروں میں رکھی ہوئی قرآن، حدیث اور عربی کی کتابوں کو جہادی ادب کہا ہے!

کیا آپ یقین کریں گے کہ جن کے پاس ملٹی میڈیا موبائل بھی نہیں ہیں وہ واٹس ایپ گروپ بنا کر دہشت گردی کی سرگرمی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ جن کے اکاؤنٹ میں صرف 250 روپے ہیں وہ دہشت گردی کی مالی اعانت میں ملوث ہوسکتے ہیں؟ کیا الیکٹریشین کی ڈرل مشین ایک خطرناک ہتھیار ہوسکتی ہے اور اس کا آلہ خانہ اسلحے کا ذخیرہ ہے؟ کیا الیکٹریشین کی سیفٹی جیکٹ بلٹ پروف جیکٹ ہوسکتی ہے؟

بنگال کے مرشد آباد کے مختلف علاقوں سے 19 ستمبر کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں 6 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ اسی دن بنگال سے 3 دیگر افراد کو کیرالہ کے ایرناکلام سے گرفتار کیا گیا تھا، جو وہاں کام کرتے تھے۔ بعد ازاں مرشد آباد سے بھی مزید 2 گرفتاریاں کی گئیں۔ گرفتار تمام 11 افراد پر دہشت گردی کے واقعے کو انجام دینے کی کوشش کرنے کا الزام ہے۔ تاہم متاثرہ خاندانوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔

این آئی اے نے گرفتار افراد پر دہشت گردی کی مالی اعانت، جہادی ادب، اسلحہ رکھنے جیسے دیگر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، جب کہ زمینی خبریں اور متاثرین کے اہل خانہ کے بیانات ایک الگ کہانی بیان کرتے ہیں۔

انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کے افراد نے الزام لگایا ہے کہ این آئی اے کے لوگ زبردستی دروازہ توڑ کر گھر میں گھس آئے، کنبہ میں موجود بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو زد و کوب کرنے کے بعد دھمکی دے کر سادہ کاغذ پر دستخط لے لیے۔

متاثرہ خاندانوں نے این آئی اے پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ وہ گرفتار افراد کے کنبہ، لواحقین اور دوستوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ملزم کے خلاف زبردستی جھوٹے بیانات دینے پر مجبور کر رہے ہیں۔

تمام ملزمان کو پہلے کولکاتا لایا گیا تھا جو اب دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔

انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے 11 گرفتار افراد مں سے ایک لیوین احمد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ابوالکلام نے کہا ’’گرفتاری کے دو ماہ گزر جانے کے باوجود بھی ہم اس سے مل نہیں سکے ہیں۔ ہم بہت غریب ہیں اور بنگال سے دہلی آنا ہمارے لہے بہت مشکل ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ تمام گرفتار افراد کے گھروں میں قرآن، حدیث اور نماز کی کتابیں ملی ہیں، جنھیں این آئی اے نے ’’جہادی ادب‘‘ قرار دیا ہے۔

این آئی اے نے گرفتار افراد کے داڑھی رکھنے پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کنبہ کے افراد سے پوچھ گچھ کی۔

خبر کے مطابق گرفتار کیے گئے بیشتر افراد کے پاس ملٹی میڈیا موبائل بھی نہیں ہے، لیکن این آئی اے نے دعوی کیا ہے کہ وہ واٹس ایپ گروپ پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی تیاری کرتے رہے تھے۔

لیو ین احمد، جن کی عمر 36 سال ہے، کے خاندان نے انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک الیکٹریشین ہے اور دومکل بسنت پور کالج میں الیکٹریشین کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ اس کے پاس ایک ٹول باکس اور حفاظتی کوٹ ہے جو وہ کام کرتے ہوئے پہنتا ہے۔ این آئی اے نے اس کی ڈرل مشین کو خطرناک ہتھیار اور ٹول باکس کو ایک اسلحوں کا ذخیرہ قرار دیا ہے۔

اسی طرح گرفتار افراد میں ایک مرشد حسن بھی ہے، جس کی عمر 25 سال ہے۔ مرشد گذشتہ ایک سال سے کیرلا کے ایرناکلام میں کام کر رہے ہیں۔ این آئی اے نے مرشد حسن کو اس معاملے کا ماسٹر مائنڈ اور بنگال میں القاعدہ کا سربراہ بتایا ہے، جب کہ کنبہ کے مطابق وہ ذہنی طور پر بیمار ہے اور وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے مطابق تمام گرفتار کیے گئے افراد انتہائی غریب خاندان سے ہیں۔ کسی بینک سے لاکھوں کا لین دین نہیں ہوا تھا۔ اور گاؤں کے کسی بھی شخص نے بھی ملزمین کے بارے میں کوئی منفی رائے نہیں دی ہے۔ کسی کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔

کچھ کے اکاؤنٹ میں 50،000 روپیہ مکانات بنانے کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے آئے تھے، جسے دہشت گردی کی مالی اعانت سے جوڑ دیا گیا ہے۔

گرفتار کیے گئے افراد میں 45 سالہ ابو سفیان بھی ہے جو مدھیہ پورہ گاؤں کے رانی نگر علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور پیشے سے درزی ہے۔ سفیان کا بڑا 15 سالہ بیٹا ویلڈنگ کا کام کرتا ہے۔ این آئی اے کی ٹیم رات کے ڈھائی بجے سفیان کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر میں گھس گئی اور مبینہ طور پر کنبہ کے افراد کو زد و کوب کیا۔

سفیان کے گھر بیت الخلا کے سوختے کے لیے ایک بڑا گڑھا کھودا گیا تھا، جسے این آئی اے نے سرنگ کے طور پر بیان کیا ہے۔

ابو سفیان کی بینک تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے کھاتے سے 6000 روپے سے زیادہ کی منتقلی نہیں ہوئی ہے، لیکن این آئی اے نے اس پر دہشت گردی کی مالی اعانت اور لاکھوں کی لین دین کا الزام عائد کیا ہے۔

این آئی اے نے سفیان کی گھر سے ویلڈنگ مشین ضبط کی ہے جسے وہ ویلڈنگ کے کام کے لیے استعمال کرتا تھا۔

اسی طرح گرفتار افراد میں مرشد آباد کے دومکل کا 34 سالہ ال ماؤن بھی ہے، جو پچھلے دو سالوں سے کیرلہ میں کام کرتا ہے۔ این آئی اے نے اس کو گرفتار کیا ہے اور اس پر دہشت گردی کی مالی اعانت کا الزام عائد کیا ہے، جب کہ اس کے کھاتے میں صرف 250 روپے ملے۔

کیرالہ سے گرفتار 29 سالہ مینُل کاتعلق بنگال کے مرشد آباد کے گاؤں مدھوبن سے ہے۔ وہ اپنے 3 بھائیوں کے ساتھ کیرلہ میں ایرناکلام کے ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ 19 ستمبر کو این آئی اے کی ٹیم نے اسے اس کے گھر سے گرفتار کیا اور مبینہ طور پر اسے بری طرح مارا پیٹا۔ گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ مینُل منڈل داڑھی رکھتا ہے اور پنج وقتہ نمازی ہے۔

کنبہ کا دعوی ہے کہ مینُل کے کھاتے سے کسی بھی طرح کا کوئی بڑا لین دین نہیں ہوا ہے۔

انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے مینُل کے بھائی انعام نے کہا ’’مینُل پر کبھی کوئی کیس نہیں ہوا، اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ اگر آپ گاؤں کے کسی بھی شخص سے اس کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ اس کے سلوک کے بارے میں گواہی دیں گے۔ میرے بھائی کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے۔‘‘

گرفتار افراد میں ایک 22 سالہ طالب علم نجم الثاقب بھی ہے۔ وہ کمپیوٹر سائنس سے فارغ التحصیل ہے۔ این آئی اے نے اسے گرفتار کیا اور اس کا لیپ ٹاپ توڑ دیا۔ این آئی اے نے ثاقب کی والدہ سے پوچھ گچھ کی کہ اس نے داڑھی کیوں رکھی ہے؟

این آئی اے نے ان گرفتاریوں کے سلسلے میں القاعدہ کے ایک بڑے نیٹ ورک کا انکشاف کرنے کا دعوی کیا تھا۔

یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ تمام افراد کا تعلق القاعدہ سے ہے اور ان کے پاس سے متعدد ڈیجیٹل سامان، تیز دھاردار ہتھیار اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی ہیں۔

یہ دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستان میں مقیم القاعدہ کے دہشت گردوں نے انھیں سوشل میڈیا کے ذریعے شدت پسند بنایا تھا اور انھیں دہلی سمیت کئی اہم مقامات پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔

ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر)، اے پی ڈی آر اور بندی مکتی مورچہ کی مشترکہ ٹیم نے ان دعووں کی حقیقت جاننے کے لیے مرشد آباد کا دورہ کیا۔

اے پی سی آر مغربی بنگال کے سیف علی نے، جو اس مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے، انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ ’’این آئی اے کے ذریعہ گرفتار تمام ملزمان کے گھر میں گھس کر ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر سادہ کاغذ پر دستخط لیے گئے۔ اہل خانہ کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ انھیں کیوں گرفتار کیا جارہا ہے اور انھیں کہاں لے جایا جارہا ہے۔‘‘

سیف نے کہا ’’گرفتار افراد میں مرشد حسن کو این آئی اے نے ماسٹر مائنڈ ثابت کرنے کے لیے اس کے اہل خانہ، رشتہ داروں اور دوستوں کو گھر سے اٹھا کر اور بی ایس ایف کیمپ میں ان پر تشدد کر کے ان پر دباؤ بنا رہی ہے کہ وہ مرشد کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی گواہی دیں۔ کچھ رشتہ داروں سے بیانات لے بھی لیے گئے ہیں اور کچھ سے بیانات لینے کے لیے ابھی بھی اذیتیں دی جارہی ہیں۔‘‘

اے پی سی آر کے قومی کوآرڈینیٹر اور وکیل شعیب انعامدار نے بتایا کہ اے پی سی آر کے ذریعہ متاثرہ خاندانوں کو قانونی امداد فراہم کی جارہی ہے۔

ان گرفتاریوں سے متعلق گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سب بہت ہی مخلص اور شائستہ تھے اور کسی کا بھی کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ گاؤں کے لوگ این آئی اے کی اس کارروائی اور اس کی بیان کی گئی باتوں پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔

(بشکریہ انڈیا ٹومورو)