ڈونلڈ ٹرمپ : دوست دوست نہ رہا

دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

کورونا کی دوائی کو لے کر ہندوستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ تنازع پر ایک حکایت یاد آگئی ۔ کہیں پڑھا تھا کہ ایک مرتبہ کچھ ماہرین حیوانیات میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ بندریا اپنی اولاد سے کس قدر محبت کرتی ہے۔ کچھ لوگ کا خیال تھا کہ وہ اپنی جان سے زیادہ اپنی اولاد کو چاہتی ہے جیسا کہ انسانوں کی ماں اپنے بچوں کے لیے اپنی جان دے دیتی ہے لیکن کچھ اس سے متفق نہیں تھے ۔ خیر اس مفروضے کو تجربے سے گزارنے کے لیے انہوں نے ایک بندریا کو اس کو بچے سمیت حوض کے درمیان بنے چبوترے کے پاس بیٹھا دیا اور پانی کی سطح بڑھانے لگے ۔ سطح آب جب کچھ اونچی ہوئی تو بندریا اپنے بچے کے ساتھ چبوترے پر چڑھ گئی ۔ پانی کی سطح کومزید اونچا ہوتے ہوئے دیکھ کر بندریا نے بچے کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا ۔ جب پانی بندریا کے ناک تک آگیا تو بندریا اپنے بچے کو چبوترے پر رکھ اوپر کھڑی ہوگئی ۔ تجربہ ختم ہوگیا اور یہ نتیجہ اخذ کرلیا گیا کہ جب اپنی جان پر بن آتی ہے تو سارے تعلقات پامال ہو جاتے ہیں۔ کورونا کی قیامتِ صغریٰ نے اس منظر کی جھلک پیش کردی ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے انسان مال و اسباب، رشتے ناطے اور دوستی یاری سب داوں پر لگادے گا۔
کلورو کوین نام کی دوا ملیریا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ فی الحال ترقی یافتہ دنیا میں نہ مچھر ہے اور نہ ملیریا اس لیے یہ دوائی ہندو پاک جیسے ترقی پذیر ممالک میں بنتی اور کھپتی ہے۔ کلورکوین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دل کا عارضہ سے محفوظ کورونا کے معالجین کی خاطر مفید ہوسکتی ہے لیکن سائنسی حلقہ میں یہ حتمی بات نہیں ہے کیونکہ اس تحقیق کا دائرہ بہت محدود ہے مزید مطالعہ درکار ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق یہ کلوروکوین انفلوئنزہ اور دوسرے وائرل انفیکشن کو روکنے میں ناکام رہی ہے لیکن یہ قیاس ہے کہ کورونا کا جرثومہ اس کے ذریعہ قابو میں آجائے گا۔ یونیورسٹی اور مینی سوٹا کے سائنسداں اس کی افادیت پر کام کررہے ہیں لیکن اب تک کووہ کسی ٹھوس ثبوت نہیں فراہم سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوڈ اور ڈرگس کے انتظامیہ نے اسے کووڈ 19 کا علاج تسلیم نہیں کیا ۔ یہ اور بات ہے صدر ٹرمپ اس پر فدا ہوگئے۔ ایسے میں یہ اندیشہ بھی پیدا ہوتا کہ کہیں یہ نقصان دہ تو نہیں ؟ کورونا سے ہلکے متاثرین کی حد تک تو اس کا ستعمال ہونے لگا ہے لیکن جو اس بری طرح اس کی لپیٹ میں آگئے انہیں یہ دوا نہیں دی جارہی ہے۔ دل ، جگر،گردہ اور آنکھ پر اس منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔اس لیے ڈاکٹر کی صلاح کے بغیر اس کا ستعمال ہر گز نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس سائنسی حقائق سے قطع نظر فی الحال دنیا میں کورونا کے سب سے زیادہ مریض اور ہلاکتیں امریکہ میں ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے عصرِ حاضر کا سپر پاور کن مشکلات سے دوچار ہے ۔ ایسے میں امریکیوں نے ہندوستان سےہائیڈروکسی کلورکوین درآمد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے قبل بھارت ادویات کی برآمد پر پابندی لگا چکا تھا ۔ اس معاملے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود فون کرکے وزیراعظم مودی سے درخواست بھی کی لیکن اس کا جواب سردمہری کی صورت میں ملا ۔ اقوام متحدہ میں عالمی حفظان صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ اور نے 31جنوری 2020کوکورونا کے عالمی وباء ہونے کا اعلان کردیا مگر ٹرمپ اس کا چینی وائرس کہہ کر مذاق اڑاتے رہے ۔ فروری کے اواخر میں ہندوستان آئے اور دہلی کے فساد سے آنکھ موند کر لوٹ گئے ۔ ساری دنیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ ہندوستان کے امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں ۔ اس دوستی کا خیال کرکے حکومت ہند امریکی گزارش کو وہاں پھیلی تباہی کے بہانے شرف قبولیت دےکر استثناء کے طور پر خاموشی سے فاضل اسٹاک روانہ کردیتی تو یہ معا ملہ خاموشی کے ساتھ نمٹ جاتا اور اس سے ہند امریکی تعلقات مزید بہتر ہوجاتے لیکن مودی سرکار میں دور اندیشی کے ساتھ ساتھ قوت فیصلہ کے فقدان نے سارا کھیل بگاڑ دیا ۔
صدر ٹرمپ نے ٹرمپ نے سنیچر۴ اپریل کو فون کرکے درخواست کی تھی لیکن مودی جی دیا بتی جلانے میں مصروف تھے ۔ اس کے بعد اتوار اور پیر کا دن بھی گزر گیا مگرہماری حکومت سوتی رہی۔ امریکہ کی درخواست پر سرد مہری کا مظاہرہ کرنے والی مودی سرکار یہ بھول گئی کہ انکل سام کا گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو اسے ٹیڑھی کرکے نکالنے کا فن بھی آتا ہے۔ آخر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا ۔ ۷ اپریل کی صبح ۴ بجے (ہندوستانی وقت کے مطابق) ٹرمپ نے دھمکی دی کہ”اگر ہندوستان کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے اہم دواؤں کی برآمد نہیں کرتا ہے تو اسے امریکہ کا بدلہ جھیلنا پڑ ے گا۔‘‘ ٹرمپ کی تنبیہ کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستان نے کلوروکوین کے ساتھ تقریباً 25 ادویات پر لگی برآمدات کی پابندی اٹھالی ۔ مرکزی کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت نے مدافعتی مزاحمت میں اضافہ کرنے اوردرد کش ادویات کے علاوہ وٹامن کی برآمدات کا راستہ بھی صاف کردیا۔امریکہ کی دھمکی سے ۶ گھنٹے بعد کیا جانے والا یہ فیصلہ اگر دھمکی سے پہلے ہوجاتاجاتا تو ملک بلا وجہ کی ذلت سے بچ جاتا ۔ اس رسوائی کے لیے مودی سرکار پوری طرح ذمہ دار ہے۔
کلورو کوین کے اس تنازع نے ہند امریکی تعلقات کی قلعی کھول دی ۔ وزیر اعظم مودی کی براک اوبامہ سے بہت گہری دوستی تھی ۔ اوبامہ نے مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ان پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی کو اٹھالیا اور امریکی دورے کے موقع پر غیر معمولی استقبال کیا ۔ اس میں مودی جی کا کوئی کمال نہیں تھا ان کی جگہ اگر یوگی ادیتیہ ناتھ کی بھی لاٹری لگ جاتی تب بھی یہی معاملہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے خیمےمیں تھا اور امریکہ میں ڈیموکریٹ مرکز سے بائیں بازو والے نظریات کے حامل ہے اس لیے ان کے اقتدار میں آتے ہی ہند امریکی تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں ۔ ریپبلکن پارٹی کے صدور کی عام طور سے پاکستان پر نظر کرم رہتی ہے۔ اسی بناء پربل کلنٹن کے اٹل جی سے اچھے تعلقات تھے۔ مودی جی کے ہیلری کلنٹن کی جانب جھکاو کی یہی وجہ تھی حالانکہ مودی بھکت ٹرمپ کی مسلم دشمنی کے سبب دوسری جانب تھے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ کو طالبان سے معاہدہ کرنے کی خاطر پاکستان کی ضرورت پیش آئی اور ہند امریکی تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہوگئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پچھلا سال ایک بھیانک خواب کی طرح تھا ۔ ان کے خلاف مواخذے کی قراد داد امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کرلی ۔ٹرمپ کی عدم مقبولیت میں اس قدر اضافہ ہوگیا تھا کہ دوبارہ امیدواری مشکوک ہوگئی ۔ ایسے میں مودی جی ’ ہاوڈی مودی ‘ کا تماشا کرنے کے لیے ہیوسٹن پہنچے اور ہندوستانیوں کے جم غفیر سے خطاب کیا۔ کشمیر کے اندر اپنی حماقت کی پردہ داری کے لیے مودی کو اس کی ضرورت تھی ۔ انہوں نے امریکہ میں جاکر یہ اعلان کیا کہ ہندوستان میں سب کچھ چنگا ہے اور ٹرمپ سے بابائے قوم کا خطاب لے کر لوٹ آئے۔ واپس آنے کے بعد احسانمندی کے طور پر فروری 2020کے اواخر میں ٹرمپ کو نمستے کرنے کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی اس لیے کہ این پی آر اور این آر سی کے خلاف کامیاب تحریک نے مودی غیر مقبول کردیا تھا ۔ دہلی انتخابی ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانا کے لیے انہیں ایک کھیل تماشے کی ضرورت تھی ۔ یہ دونوں دورے غیر سرکاری تھے اس لیے ان میں کوئی اہم معاہدہ نہیں ہوا صرف عوام کو بیوقوف بنایا گیا اور سرکاری تجوری سے کروڈوں روپیوں کی ہولی کھیلی گئی۔ شاہ جی اکثر کہا کرتے ہیں کہ اگر بی جے پی ہار جائے گی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے لیکن کلوروکوین کے معاملے ٹرمپ دھمکی کے اثرات کو دیکھ کر عمران خان ضرور خوش ہوئے ہوں گے ۔ ایسے میں ہاتھ جوڑ کر نمستے ٹرمپ کہنے والوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

ٹرمپ کی تنبیہ کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستان نے کلوروکوین کے ساتھ تقریباً 25 ادویات پر لگی برآمدات کی پابندی اٹھالی۔ مرکزی کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت نے مدافعتی مزاحمت میں اضافہ کرنے اور درد کَش ادویات کے علاوہ وٹامن کی برآمدات کا راستہ بھی صاف کر دیا