تاریخ میں پہلی بار دنیا کے تین ارب انسان گھروں میں محصور

کرونا وائرس کے تباہ کن اثرات سے کوئی ملک محفوظ نہیں۔ایک حقیر جرثومہ نے حکمرانوں کو ان کی اوقات دکھادی

اعجاز ذکا سید

اپنے اطراف چھائے ہوئے اس قیامت خیز اور مایوسی کے اندھیروں کے درمیان بالآخر امید کی ایک کرن تو نظر آئی۔ سوامی ناتھن ائیر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ دنیا بھر میں پھیلنے والے کورونا وائرس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دوبارہ جیتنے کے سارے امکانات کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ کیسے اس وائرس سے نمٹتے ہیں، ڈاکٹرز اور سیول سوسائٹی کے لوگ کس دانش مندی سے اس چیلنج کا مقابلہ کرتے ہیں۔ امکان ہے کہ اور بھی کئی لاکھ لوگ اس سے متاثر ہوں گے اور ہزاروں لوگ موت کا شکار ہو جائیں گے۔ سینئر تجزیہ نگار لکھتا ہے اگر اس کے برعکس ایک اچھی صورت حال پیدا ہوجائے تب بھی صدر امریکہ کسی اور کو مورد الزام ٹہرا کرشکست سے بچ نہیں سکیں گے۔ لیکن اس واقعی تشویشناک اور سنگین وبائی حالات میں ٹرمپ کی فتح و شکست کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس پر پریشانی کا اظہار کیاجائے۔
کیوں کہ یہ صورت حال صرف آزاد دنیا کے صدر کے مستقبل کے لیے ہی پریشان کن نہیں ہے۔ ٹرمپ کے دیے ہوئے نام کے مطابق یہ چھوٹا سا نظرنہ آنے والا چینی وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر بھاری تعداد میں جانوں کا نذرانہ وصول کر رہا ہے اور اس نے ہماری روزمرہ کی زندگی کو اس طرح بدل کے رکھ دیا ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس نے ہماری طرز زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کر دیے ہیں۔ہم اپنے ہی پیاروں کی موجودگی اور قربت سے بھی خوف زدہ ہیں بلکہ ہمیں اپنے سائے سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ انسانوں کا ایک دوسرے سے ملنا جو بہت ہی قابل قدر تھا وہ بھی قابل نفرت اور دہشت و ڈر کا باعث بن گیا ہے۔یقین نہیں آتا کہ کیسے ایک چھوٹے سے جرثومے نے بنی نوع انسان کو عاجز کرکے رکھ دیا ہے اور گزشتہ کئی صدیوں سے جاری سائنس وٹکنالوجی کی تمام تر ترقیوں کے باوجود اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔
قدرت نے پھر ایک بار یہ دکھا دیا کہ ہم اس طرح کے چیلنجوں اور اس کی پوری منصوبہ بندی کے سامنے کتنے حقیر اور بے بس ہیں۔ ایک طرح سے فطرت ہمیں سبق سکھا رہی ہے اور اتنے برسوں میں ہم نے اس کے ساتھ جو زہریلا سلوک کیا ہے اور جو بداعمالیاں کی ہیں وہ سب لوٹ کر ہمارے پاس آ رہا ہے۔ انسانوں نے صدیوں سے، بالخصوص پچھلے کم وبیش دو سو سال میں جو کچھ بویا ہے آج اسی کی فصل وہ کاٹ رہے ہیں۔
ہم نے کرہ ارض کو تباہ کیا اس کی فضاوں، سمندروں اور دریاوں کو زہر آلود کیا، جنگلات کا صفایا کیا، قدرت کے قیمتی وسائل کو بے تحاشہ لوٹا کھسوٹا۔ ہم نے اپنی زمین کو نہ صرف اپنے لیے ناقابل رہائش بنا دیا بلکہ خدا کی بے زبان مخلوقات کے لیے بھی رہنے کے لائق نہ چھوڑی۔
ہم جو زمین میں ہر طرف اکڑ کر پھرتے تھے، تیز رفتار ہوائی جہازوں کے ذریعے تھوڑی ہی دیر میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتے تھے، آج زمین پر آگئے ہیں۔ ہمارے شہر اور قصبات تباہ وبرباد اور ویران ہو چکے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ممالک ہی نہیں بلکہ شہروں اور دیہاتوں کے درمیان بھی ناقابل تسخیر قسم کی سرحدیں اور دیواریں کھڑی ہوگئی ہیں۔اسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ اس نظر نہ آنے والے قاتل کے ہاتھوں اب تک 60,000 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد اسپتالوں میں بھرتی کرائے گئے ہیں یا انہیں کورنٹائین میں ڈالا گیا ہے۔ کورنٹائین بھی ایک عجیب اور ڈراونا لفظ ہے آج کا بچہ بچہ تک اس سے واقف ہوچکا ہے۔
تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ دنیا کے تین ارب لوگ لاک ڈاون کے ذریعے اپنے اپنے گھروں میں محصور کردیے گئے ہیں، وہ اپنے ہی گھروں میں قیدیوں کی طرح رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔لوگوں کی زندگی ہالی ووڈ کی سائنس فکشن پر بنی ڈسٹوپیائی فلموں سے زیادہ بھیانک ہو چکی ہے۔ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ دنیا کے خاتمے کی پیشین گوئی والے مناظر ہماری زندگی میں کبھی حقیت بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے بھی آسکتے ہیں۔
پوری دنیا میں بے بس لوگوں کی کثیر تعداد کے تعلق سے تشویش بڑھتی جارہی ہے اور یہ تشویش ان کی صحت سے زیادہ ان کے معاشی مستقبل اور ان کی بقا کے تعلق سے ہے۔ اس بحران سے متاثر ہر ملک میں لاکھوں لوگ بے کار بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں دنیا کے کم وبیش تمام ہی ممالک کے لوگ شامل ہیں۔ لاکھوں افراد پلک جھپکتے میں اپنی سہولت بخش ملازمت اور روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔
مختلف ممالک کی معیشت تاریخ کی سب سے بدترین عالمی کساد بازاری کی طرح تیزی سے گر رہی ہے اور بدقسمی یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اور آزاد سرمایہ داریت کی وجہ سے عالمی معیشت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ چین، جہاں سے اس تباہی کا آغاز ہوا وہی سب سے زیادہ متاثر ہے۔ وہی چین جو کئی برسوں سے پوری دنیا کے کارخانے کا کام کر رہا تھا عالمی معیشت کو چلا رہا تھا آج پریشانی کا شکار ہے۔
مشرق وسطیٰ بھی بری طرح متاثر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات اور بھی خراب ہو جائیں گے۔ تیل، جو اس خطے کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہے اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور آج اس کی قیمت پانی کے برابر ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ عالمی کساد بازاری کے بعد تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب خلیج کی معیشت پہلے ہی سے مشکلات کا شکار ہے ۔ایک طرح سے یہ بحران عالمی سطح کا ہے جس نے بلا مبالغہ ہر ملک اور ہر معیشت کو ایک انتشار اور تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ کوئی بھی ملک اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ اور اس معاشی پریشانی کا شکار ترقی یافتہ، طاقت ور، ترقی پذیر وغریب سبھی ممالک اور وہاں کے دولت مند وغریب ہر طرح کے لوگ ہوں گے لیکن جس طرح ہر بحران اور پریشانی میں ہوتا آیا ہے اسی طرح آج بھی غریب اور محروم طبقات اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور وہ بھی اس سے نہیں بچ سکیں گے جو دوسروں کی بہ نسبت بہتر حالت میں ہیں۔ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سب ہی ممالک نے معاشی راحت کے لیے مختلف عبوری منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ نے ۲ ٹریلین ڈالر کے ریلیف پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ اس خطرناک بیماری سے لڑنے کے لیے ہندوستان نے 1.7 ٹریلین روپے اور پاکستان نے 1.25 ٹریلین روپے کی امدادی راحت کا اعلان کیا ہے۔ یہ بحران ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک کے لیے اور بھی زیادہ پریشانی کا سبب بنے گا جہاں دنیا کے سب سے زیادہ غریب لوگ رہتے ہیں اور جو پہلے ہی سے معاشی گراوٹ کا شکار ہیں۔ نقدی کی کمی اور قرض سے دبے ہوئے پاکستان کے لیے تو یہ بہت ہی برا وقت ثابت ہوگا۔
ہندوستان کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے اگرچہ حکم راں طبقے کے کچھ لیڈرس اپنی شان وشوکت کے فریب سے لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میڈیا کے کچھ باشعور لوگوں کی جانب سے اس کی رپورٹنگ ہو رہی ہے کہ اس بحران نے غریبوں کو انتہائی شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ نقل مقامی کیے ہوئے لاکھوں مزدور اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے بلا مبالغہ ایک وقت کے کھانے کے محتاج ہوچکے ہیں۔
کیا یہ تمام امدادی منصوبے اور معاشی خیرات حقیقت میں ان لوگوں کو کچھ راحت دیں گے جو اس وقت شدید ضرورت مند ہیں؟ ہمارے ممالک میں نوکر شاہی اور کرپشن کی جو حالت ہے اس میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے۔ ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ حکومتیں اپنے ملک کے سب سے زیادہ محروم اور ضرورت مند طبقات کی مدد اور ان کے بچاو کے لیے اپنے اختیار میں جو کچھ ہے اس موقع پر ان سب کا بھر پور استعمال کریں گی۔
اس کے علاوہ سب سے اچھی راحت تو ہمارے وہی قدیم فلاحی ادارے ہیں جو ہر ایسے انسانی بحران کے وقت مصیبت کے مارے انسانوں کی بے لوث خدمت کے جذبے سے آگے آتے ہیں اگرچہ انہیں بھی یہاں کے خود پسند نوکر شاہی اور اسے چلانے والے گھٹن زدہ نظام نے پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔لیکن تنہا حکومتوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ضرورت مندوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرے گی۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اطراف رہنے والے ضرورت مندوں کی مدد کرنی ہوگی۔ اگر ہم ان کی معاشی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی بستیوں میں موجود بیماروں اور بزرگوں کو کھانے پینے کی اشیا اور دوائیں پہنچاکر ہی ان کا تعاون کرنا ہوگا۔ البتہ اس بات کا ضرور لحاظ رکھیں کہ اس دوران سماجی فاصلہ رکھنے کی جو ضروری احتیاطی تجاویز دی گئی ہیں ان کی بھی پابندی ہو۔
آخری بات کہنے کی یہ کہ جہاں ہم اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو اپنے گھروں میں آرام اور حفاظت میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں شام، ترکی، یونان اور برما جیسے کئی ممالک کے وہ لاکھوں پناہ گزینوں اور معاشی مہاجرین جن پر ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی ہے ان کو بھی یاد کریں جو طویل عرصے سے مصیبت کا شکار ہیں۔ وہ مسلسل جنگوں اور نسل کُشی کی وجہ سے کھلے میدانوں یا تنگ وتاریک خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ بھوکے اور بے گھر ہیں، اس ہلاکت خیز بیماری کا خطرہ ان کو ہم سے بہت زیادہ ہے۔ صحت کے اس تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران میں ان پر وائرس کا حملہ مرے پر سو درّے کے برابر ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ ان سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر ان کی زندگیو۱ں میں کوئی تبدیلی تو نہیں لا سکتے لیکن ان کے لیے دعائیں تو کر سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان شا اللہ ہم تاریخ کے اس بدترین بحران سے بچ کر نکلیں گے اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بن کر اٹھیں گے۔ ہم ایک چھوٹے سے وائرس کو اس بات کا موقع نہیں دیں گے وہ ہمیں شکست دے۔

(اعجاز ذکا سید ایک ایوارڈ یافتہ صحافی اور خلیج کے ایک انگریزی
اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں)