ڈاکٹر عابد اللہ غازی:نظام تعلیم میں تجدید کے نقیب

اسلامی نہج پر نظام تعلیم و تربیت کے داعی کی زندگی کے نقوش

اشہد رفیق ندوی

ڈاکٹر عابد اللہ غازی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ خبر غیر متوقع نہ تھی مگر دل اس پر یقین کو تیار نہ تھا۔ جانا تو ایک دن سب کو ہے۔ محترم غازی صاحب بھر پور زندگی گزار کر، قوم وملت کی خوب خدمت کر کے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان میں یقیناً بہت خوبیاں تھیں۔ آج ان کی زندگی کا ایک ایک صفحہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے بالخصوص، تعلیم و تہذیب کی دنیا میں انہوں نے جو انقلابی کارنامے انجام دیے ہیں دنیا اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان خدمات کے ایک پہلو کو درج ذیل مضمون میں قلمبند کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عابد اللہ غازی (۶؍جولائی ۱۹۳۶ء) انبیہٹہ پیرزادگان میں پیدا ہوئے۔ دیوبند کے آغوش میں پلے بڑھے، علی گڑھ نے تعلیم وتہذیب سے آراستہ کیا، ہارورڈ یونیورسٹی کے جان کارٹر سے معروضی مطالعہ وتحقیق کے گُر سیکھے، عملی تگ ودو کی نوبت آئی تو جان بوجھ کر فروغ تعلیم وتہذیب کی مشکل راہ کا انتخاب کیا اور اس پر مستزاد استاذ گرامی ڈاکٹر ذاکر حسین کی اس نصیحت کو حرز جاں بنایا کہ ’’جو کام کرو، دل لگا کر کرو، اگر وہ اس قابل ہے کہ کیا جائے تو اس قابل بھی ہے کہ اچھی طرح کیا جائے‘‘۔ فروغ تعلیم وتہذیب کا مقدس پیشہ اختیار کرنے کے ساتھ ہی مقدس سرزمین پر خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا، مکہ ومدینہ کے اسفار کے درمیان امت مرحومہ کے حالات کا چشم بصیرت سے مشاہدہ کیا اور اس کے افلاس وادبار کو دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہے۔ بالآخر اس سے نبرد آزمائی کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ شوہر نامدار کی اصابت رائے اور عزمِ پختہ کو دیکھتے ہوئے بیگم ڈاکٹر تسنیمہ خاتون غازی نے کمال وفا شعاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دشت غربت میں تا عمر ساتھ دینے کا یقین دلایا۔
قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ سعودی عرب کی سرزمین ان پر تنگ ہونے لگی تو انکل سام کی دھرتی پر پناہ ملی۔ یہاں کا ماحول، تعلیم و تہذیب کچھ بھی مشرقی جوڑے کے لیے ساز گار نہ تھی، اسی ماحول میں رنگ جائیں یہ بھی ممکن نہ تھا، اپنے آپ کو کسی طرح بچالے جائیں تو نئی نسل کا کیا ہوگا؟ اس احساس اور فکر مندی نے انقلابی ذہن کو مزید مہمیز دی اور وہ مغرب کی سرزمین پر نئی نسل کی پاکیزہ تعلیم اور صالح تربیت کے لیے انقلابی تحریک کے اولین محرک بن گئے۔ وحی الٰہی کے پہلے لفظ ’اقرا‘ کے نام سے ایک ادارہ کی بنیاد رکھی۔ نام کی برکت، مشن کی عظمت اور پروگرام کی جاذبیت نے اسے چند برسوں میں ایک عالمی تحریک بنادیا جو آج ’’اقرا انٹرنیشنل ایجوکیشنل فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور اپنے عظیم مشن اور مبسوط نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔
اقرا کا پس منظر
اقرا کے بانیان نے اپنا پہلا موٹو ’’اقرا باسم ربک الذی خلق‘‘ کو بنایا، ان کے ذہن ودماغ میں یہ خیال جاگزیں تھا کہ جس موٹو نے ایک ایسے شخص کو معلم انسانیت بنا دیا جو اُمی تھا، بالکل پڑھا لکھا نہ تھا، اس پیغام کو لے کر اٹھا تو انسانی تاریخ میں عظیم انقلاب برپا کر دیا، اس کے زمانے کی ساری قوتیں اور تہذیبیں اس کے قدموں میں آگئیں۔ بلاشبہ اس وحی میں اتنی طاقت ہے کہ وہ ہر زمانے میں ہر تہذیب پر غالب آ سکتی ہے۔ اس وحی کی طاقت اور اثر میں کوئی کمی نہیں ہے۔ افسوس کہ اس کے حاملین نے حوصلہ چھوڑ دیا ہے۔ تعلیم وتفقہ سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر تہذیبی، معاشی اور سیاسی محاذ پر اپنے آپ بے حیثیت ہو گئے ہیں۔ آج مسلمانوں کی تعداد کم نہیں مگر وہ معاصر ترقیات سے اتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ان کا کسی میدان میں کوئی وزن باقی نہیں رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسلام جو بلاشبہ علم کا معدن ومخزن بن کر آیا تھا اسے محض ایک نظریہ اور ایک خیال کی حیثیت سے متعارف کرایا جا رہا ہے، بالکل ویسے ہی جسے دیگر افکار ونظریات کی دکان میں ایک فکر یا نظریہ یہ بھی رکھ دیا گیا ہو اور اس کی حیثیت بھی اچھوت کی ہو۔
اقرا کا نظریہ
اقرا نے مضبوطی کے ساتھ یہ آواز بلند کی کہ اسلام ایک مکمل دین اور مکمل تہذیب ہے، اس کا آفاقی پیغام ابدالآباد تک کے لیے ہے اور ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی اس کے اندر صلاحیت موجود ہے۔ ہر عمر اور ہرطبقہ کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کا صحیح طور پر ادراک کریں۔ ذمہ داران اقرا نے محسوس کیا کہ اس پیغام کو سمجھنے کے لیے ایک جدید منظم اور مبسوط نظام تعلیم کی ضرورت ہے، موجودہ مروجہ نظامہائے تعلیم معاصر ضروریات کی تکمیل کے لیے کمزور ثابت ہو رہا ہے، وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مروج نظام کے صالح اقدار کو باقی رکھتے ہوئے جدید نظام تعلیم سے ہم آہنگ نیا نظام تشکیل دیا جائے چنانچہ اقراء نے خوب سوچ سمجھ کر ایک مبسوط لائحہ عمل طے کیا اور اس کے مقاصد یہ متعین کیے :
۱۔ نئی نسل کے لیے دلچسپ، مستند اور خوبصورت انداز میں لٹریچر تیار کیا جائے جس میں انہیں بامقصد زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا اور سکھایا جائے کہ یہ نسل اپنے وجود سے بنی نوع انسان کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
۲۔ اسلامی مطالعات کو جدید اسلوب اور جدید تکنیک کے ساتھ پیش کیا جائے۔
۳۔ مختلف مذاہب کے درمیان بامقصد تفہیم وتفاہیم کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کے عقائد واقدار کے پاس ولحاظ کی ترغیب دی جائے۔
۴۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اس بات کی پیش کش کہ وہ اسلامی اسکولوں کے لیے مختلف سطحوں پر پیشہ ورانہ طور سے تعلیمی مواد فراہم کریں۔
۵۔ اقرا کو ایک پیشہ ورانہ تحریک کے طور پر منظم کرنا جس میں اسلام اور دیگر مذاہب کا مطالعہ صاف ذہن سے کیا جاسکے۔
اقرا کا مبسوط پروگرام
مذکورہ مقاصد کی روشنی میں گزشتہ ۴۰ برسوں سے ڈاکٹر عابد اللہ غازی منصوبہ بند طریقہ سے ایک جامع اسلامی نظام تعلیم ترتیب دینے میں مشغول تھے۔ انہوں نے جز وقتی اور ہمہ وقتی دونوں طرح کے اسکولوں کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر نیا نصاب تیار کیا ہے۔ یہ نصاب درج ذیل خصوصیات کا حامل ہے۔
۱۔ یہ نصاب بچوں کی عمر، اہلیت اور دلچسپی کو ملحوظ رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ بچے اسے بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ خوشی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ یہ بچوں کے اندر احساس ذمہ داری، نظم وضبط اور تابعداری کے اوصاف پیدا کرتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ دین کو سیکھنے کی فطری خواہش کی تکمیل میں معاون ہوتا ہے۔
۲۔ جدید طریقہ تدریس اور جدید وسائل تدریس کو استعمال کرتے ہوئے مستند اسلامی معلومات فراہم کرتا ہے۔
۳۔ اسلامی اصطلاحات کو ہر عمر اور ہرگروپ کا لحاظ کرتے ہوئے استعمال کیا گیا ہے اور مشکل الفاظ واصطلاحات کی فرہنگ بھی کتاب کے ساتھ دی گئی ہے۔
۴۔ تعلیمی ایام کے لحاظ سے کلاس روم کے لیے اسباق کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
۵۔ نصابی مواد میں مزید پختگی پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامی تدابیر کا بہترین انتظام ہے۔
اقرا کا نصابی لٹریچر
ڈاکٹر غازی نے صرف نصاب ہی مرتب نہیں کیا بلکہ اپنے نصاب کے مطابق نصابی کتاب، مشقی کتاب اور ٹیچر گائیڈ بھی اعلیٰ معیار پر تیار کیں۔ اس کی بنیاد دینی مدارس کی روایتی کتابوں پر ہی رکھی گئی ہے۔ اس میں اقرا ٹیم کا کردار یہ رہا ہے کہ معاصر زبان اور اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تجدید کاری کے ذریعہ اسے معاصر ذہنوں کے معیار کے مطابق بنا دیا ہے۔ اس نصاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ علاقائی، مسلکی اور مذہبی عصبیت سے پوری طرح پاک ہے۔ اس میں اسلام کی تمام ابدی اور آفاقی تعلیمات شامل کی گئی ہیں جو رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
مطالعہ کے موضوعات
نظامِ تعلیم میں انقلابی تبدیلی کوئی آسان کام نہ تھا، خاص طور سے کئی صدیوں پر محیط اسلامیات کے مبسوط نظام کا تجزیہ کرنا اور اصل مواد کو باقی رکھتے ہوئے پیش کش کی راہیں تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ڈاکٹر غازی کی ٹیم نے اس جوکھم بھرے کام کا بیڑا اٹھایا اور حق یہ ہے کہ اس کا حق ادا کر دیا۔ اس پیچیدہ عمل کے لیے ماہرین تعلیم، راسخ العلم علماء ومحققین کی خدمات حاصل کیں اساتذہ وسرپرستوں سے مشورے طلب کیے پھر نئے نصاب کی بنیاد درج ذیل موضوعات پر رکھی۔
٭ قرآن مجید
٭ حدیث اور سیرت
٭ عقیدہ، فقہ اور اخلاقیات
٭ عربی زبان وادب
٭ اسلامی سماجیات
پروگرام کے اہم اور نمایاں پہلو
اقرا کایہ پروگرام بدلتے ہوئے مسلم سماج کی ضرورتوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو گیا، دنیا بھر میں اس کا زبردست استقبال ہوا، مسلم ممالک کے علاوہ ترقی یافتہ یورپی ممالک نے بھی اسے مشعل راہ جانا اور اس چراغ سے سے چراغ جلائے۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ اور حکومت پاکستان نے اعزازات سے سرفراز کیا، عالمی سطح پر مقبول تعلیمی اداروں نے ڈاکٹر غازی اور ان کی ٹیم کو تسلیم کر لیا اور اصلاح تعلیم کی مشاورتی کمیٹیوں، اساتذہ کی تربیت اور نصاب کی ترتیب وتدوین کے لیے یہ ان کے ساتھ ان کے ساتھی بھی Resource Persons کی حیثیت سے دنیا بھر میں مدعو کیے جاتے ہیں اور اپنے تجربات سے فیض پہنچاتے ہیں۔
مدارسی نظام کی اصلاح
ڈاکٹر غازی اسکولوں میں اسلامیات کے کامیاب تجربہ کے بعد دینی مدارس کے نظام ونصاب کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے۔ سب سے پہلے ہندوپاک میں مروج نظام تعلیم کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا کہ کہاں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ مروج کتاب کی فی زمانہ اہمیت باقی ہے یا نہیں؟ طریقہ تدریس میں تبدیلی کی گنجائش کہاں کہاں ہے؟ مختلف الخیال مدارس میں مشترک قدریں کیا کیا ہیں؟ اس جائزہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ دینی مدارس کے نظام ونصاب میں تبدیلیوں کی بھر پور گنجائش ہے۔ اقراء کے تجربات سے مدارس کو کافی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، ڈاکٹر غازی اور ان کی ٹیم نے اربابِ مدارس سے ملاقاتیں کیں، لیکچر دیے، معاون لٹریچر کا تعارف کرایا، اربابِ مدارس کے ساتھ ساتھ متعدد سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں سے رابطہ کیا جس کےنتیجہ میں الحمد للہ ایک فضا بنی اور کچھ مدارس جزوی تبدیلیوں کے لیے اور متعدد مدارس بڑی تبدیلی کے لیے آمادہ دکھائی دیے۔ڈاکٹر غازی کو اس سلسلے میں زیادہ بڑی کامیابی سنگاپور سے ملی۔ وہاں کی نیم سرکاری تنظیم مجلس علماء اسلام نے اس جوہر قابل کی صلاحیت کو پہچانا، اسے خوب جانچا، پرکھا، بالآخر اپنے یہاں کے دینی تعلیم نصاب ونظام کو زمانہ سے ہم آہنگ بنانے کی پوری ذمہ داری ان کے سپرد کر دی۔ ڈاکٹر غازی کی ٹیم نے وہاں کے مدرسی نظام تعلیم اور اس کے بنیادی مواد اور سماجی وجغرافیائی حالات کا مطالعہ کیا اور علماء وماہرین تعلیم کے مشورہ سے وہاں کے لیے ایک مبسوط نظام مرتب کرایا، جو اقرا ہی کے طرز پر جملہ اسلامی وسماجی علوم پر مشتمل ہے اور طلبہ کی عمر وصلاحیت کے لحاظ سے بتدریج آسان سے مشکل کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ نصاب ۷ برسوں پر مشتمل ہے جو کلاس ۶ تا ۱۲ کا احاطہ کرتا ہے۔ یہاں بھی تدریسی وسائل میں وہ تمام چیزیں مہیا کی گئی ہیں جو معاصر تعلیمی اداروں میں رائج ہیں۔ مثلاً نصابی ریڈر، مشقی کتاب، رہنمائے معلم وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں تیار ہو کر نافذ ہو گئیں اور وہاں کا قدیم دینی تعلیم کا نظام نئے آہنگ میں جدید نظام تعلیم سے آنکھیں ملانے کے قابل ہوگیا۔
سنگاپور ماڈل
سنگاپور کے لیے بنایا گیا نظام ونصاب ہندوپاک کے مدارس کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نصاب ہندوستانی مدارس میں مروجہ کتابوں اور مواد کا پوری طرح احاطہ کرتا ہے۔ اس میں قرآن مجید کی مکمل تفسیر، حدیث کی کتابوں میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک اور مسند احمد کا بھر پور تعارف کرایا، کتاب کی مکمل خواندگی کے بجائے ہر مجموعہ حدیث سے منتخب احادیث کی تعلیم وتدریس کا نظم ہے۔ فقہ اسلامی میں عبادات واخلاق کے ساتھ فقہ المعاشرہ اور فقہ المعاملات پر علیحدہ کتابیں تیار کرائی گئی ہیں۔ تفسیر، حدیث وفقہ کی تعلیم کے ساتھ ان کے اصول، قواعد، تاریخ اور دیگر پہلوؤں سے تدریس کے لیے مواد شامل کیا گیا ہے۔ جب کہ بڑے دینی مدارس میں یہ پہلو بالعموم نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر غازی نے ہند وپاک کے لیے مدارس کا عملی نمونہ تیار کر دیا ہے، اس خطہ میں انقلاب کی صدا ایک صدی پہلے سے بلند ہو رہی ہے۔ مگر عملی نمونہ کسی نے نہیں پیش کیا۔ ڈاکٹر غازی کا یہ عظیم الشان کارنامہ بہت قابل قدرہے اور بڑے پیمانے پر ان کے تعارف کی ضرورت ہے تاکہ اس عظیم الشان ماڈل سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔
اسلامی مطالعات کا ہم نصابی پروگرام
ڈاکٹر غازی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسلامی موضوعات پر مشتمل ایک جامع پروگرام مرتب کیا ہے۔ وہ مغرب میں اسلامیات پر جدید لٹریچر کی رفتار ومعیار سے مطمئن نہیں ہیں، مستشرقین کے ذریعہ جو مواد منظر عام پر آتا ہے وہ کچھ قابل قدر خوبیوں کے ساتھ مضرتوں سے بھرا ہوتا ہے اور مسلم علماء و اسکالرس جو مواد پیش کررہے ہیں وہ زمانہ کے معیار پر پورا نہیں اترتا چنانچہ انہوں نے معروف ومعتبر علماء کی مدد سے قرآن، عقیدہ، فقہ اسلامی اور اخلاقیات پر علیحدہ لٹریچر تیار کرایا جو پری یونیورسٹی تک زیر تعلیم طلبہ کے لیے بالخصوص اور عام مسلمانوں کے لیے بالعموم بہت ہی مفید ہے۔ڈاکٹر عابد اللہ غازی نے دیوبند سے اقرا کا پہلا سبق لیا اور علی گڑھ پہنچ کر ’علم بالقلم‘ کا شعار گلے سے لگایا اور اس کا پیغام دل میں اتار لیا، ڈاکٹر غازی بجا طور پر اس بات کے مستحق تھے کہ وہ ایسا تعلیمی نظام متعارف کرائیں جس کی جڑ دیوبند میں ہو اور جس کا طریقہ، اسلوب اور معیار علی گڑھ سے مستعار لیا گیا ہو۔ قدیم وجدید کی آمیزش نے دینی تعلیم وتربیت کا جو نظام دنیا کے سامنے پیش کیا، بلاشبہ یہ ایک تجدیدی کارنامہ ہے۔ نظام میں تبدیلی کی خواہش بہت لوگوں کے دلوں میں مچلتی رہی، تقریریں اور جلسے بھی خوب خوب ہوئے، مگر ڈاکٹر غازی نے اس مطلوبہ نظام کی عملی تصویر پیش کرکے ملت کا ایک بڑا قرض ادا کر دیا۔ بلاشبہ آج کے زمانہ میں اسلامی نظام تعلیم کی تجدید کے سب سے بڑے داعی اور نقیب کہلانے کے مستحق ہیں۔افسوس کہ یہ تابندہ ستارہ بھی غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
[email protected]
( مضمون نگار، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی ،علی گڑھ کے سکریٹری ہیں)

ڈاکٹر غازی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسلامی موضوعات پر مشتمل ایک جامع پروگرام مرتب کیا ہے۔ وہ مغرب میں اسلامیات پر جدید لٹریچر کی رفتار ومعیار سے مطمئن نہیں ہیں، مستشرقین کے ذریعہ جو مواد منظر عام پر آتا ہے وہ کچھ قابل قدر خوبیوں کے ساتھ مضرتوں سے بھرا ہوتا ہے اور مسلم علماء و اسکالرس جو مواد پیش کررہے ہیں وہ زمانہ کے معیار پر پورا نہیں اترتا چنانچہ انہوں نے معروف ومعتبر علماء کی مدد سے قرآن، عقیدہ، فقہ اسلامی اور اخلاقیات پر علیحدہ لٹریچر تیار کرایا جو پری یونیورسٹی تک زیر تعلیم طلبہ کے لیے بالخصوص اور عام مسلمانوں کے لیے بالعموم بہت ہی مفید ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021