معمولاتِ رمضان اور خواتین کی صحت

خان عرشیہ شکیل، نالا سوپارہ ویسٹ

ماہ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کے کیا کہنے۔ اس مہینے میں فرض کا درجہ ستر گنا بڑھ جاتا ہے اور نوافل فرض کا درجہ پا لیتے ہیں۔ اس مہینے میں ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خیر وعافیت سے رہے تاکہ روزوں کی تعداد پوری کر سکے اور زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اپنے رب کو راضی کر سکے۔ اس طرح رمضان مغفرت کا ذریعہ ثابت ہو جائے۔
بے شک یہ مہینہ اللہ کے طرف سے بندوں کے لیے رحمت، برکت اور مغفرت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اگر اس سے ہم خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرنا ہو گا۔
بے مقصد فون کالس، لمبی گفتگوئیں، سوشل میڈیا پر بلا ضرورت وقت گزاری یا ٹیلی ویژن دیکھنا وغیرہ جیسے مشاغل سے پرہیز کرنا ہو گا۔
رمضان میں خواتین پر چونکہ دوہری ذمہ داری، ایک سحری وافطاری کی تیاری اور دوسرے گھر میں موجود بچوں اور بزرگوں کے لیے ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کا انتظام بھی کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ گھر کے دیگر کام جیسے صاف صفائی، کپڑے دھونا، برتن دھونا وغیرہ بھی شامل ہے. اگر ہم نے منصوبہ بندی سے کام کیا تو انشاءاللہ ہم تمام کاموں کو احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں مثلاً ہم طے کر لیں کہ اس مہینے میں کن کن کاموں کو انجام دینا ہے اور کب اور کیسے کرنا ہے۔ ہمیں سونے جاگنے، گھر کے کام، عبادات وغیرہ کے لیے ایک چارٹ مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے کاموں کو اچھے طریقے سے انجام دے سکیں۔
اس ماہ میں خصوصی طور پر فرض نمازوں کے علاوہ نوافل، تلاوت قرآن اور دعاوں و اذکار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بے شک یہ چیزیں و دماغ اور روح کو تقویت بخشتی ہے اور انسان کو پرہیزگاری عطا کرتی ہیں۔ ایک صحت مند جسم ہی ان تمام کاموں کو کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے اس لیے خواتین کو خاص طور پر اپنی صحت کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔
غذائیں۔۔۔ گیہوں، چاول، دالیں، چنے وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیے جو ہمیں توانائی بخشتے ہیں۔ پروٹین والی غذائیں جیسے گوشت، انڈے، دودھ، دہی، پنیر، سبزیاں اور سلاد وغیرہ کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ سحری اور افطار میں کھجور ضرور کھائیں۔ کھجور میں موجود شوگر فوراً خون میں مل جاتی ہے اور ہمیں توانائی بخشتی ہے۔ تلی ہوئی چیزیں زیادہ استعمال نہ کریں کیونکہ یہ تیزابیت پیدا کرتی ہیں۔ مرچ مسالوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ ڈاکڑ زوئی ولیمز کہتی ہے کہ زیادہ چکنائی وزن بڑھاتی ہے اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ سادہ غذائیں استعمال کریں۔
متوازن صحت بخش غذا ضروری ہے تاکہ کمزوری نہ ہو لیکن اس کا خاص خیال رکھا جائے کہ صبح سے شام تک بھوکے ہیں تو ہم افطار میں بہت زیادہ نہ کھا لیں یا پھرروزہ رکھنا ہے تو سحری میں بہت زیادہ نہ کھا لیں کیونکہ ایسا کرنا ہم کو نفع سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ ہم کو لگتا ہے کہ روزے کی حالت میں ہمارا جسم کمزور ہو گیا ہے اور ہم زیادہ کھا لیں گے تو ہمیں بھر پور توانائی مل جائے گی لیکن ہمارا یہ سوچنا غلط ہے۔ اللہ نے ہمارے جسم میں ایک ایسا میکنزم بنایا ہے جو روزے کے حالت میں ہمارے بدن کی اضافی چربی کو موثر انداز میں ختم کر دیتا ہے جو کینسر جیسے مہلک مرض سے بچاؤ کرتا ہے۔ 2016 میں جاپانی سائنسدان یوشینوری اوسومی جسے میڈیسن کا نوبل پرائز دیا گیا ہے۔ انہوں نے کینسر سے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان اگر 25 سے 28دن تک بھوکا رہے تو اس کا جسم، باڈی میں موجود گلے سڑے حصوں کو کھا جاتا ہے اور اضافی چربی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی اضافی خلیے بنتے۔ جو کینسر سے بچاؤ کے لیے بہترین عمل ہے۔
قدرت نے ہمارے لیے جو بھی ہدایت بھیجی ہے وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون۔‘‘ اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا ہی ہے کہ روزہ رکھو۔
بے شک رمضان ضبط نفس کے لیے لائحہ عمل دیتا ہے۔ اللہ ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021