نو مسلم اور قبول اسلام کے بعد مسائل

نو واردان اسلام کا مکمل خیال رکھنا داعی امت کا اہم کام

محمد انس فلاحی مدنی

دعوت وتبلیغ یا مطالعہ اسلام کے نتیجے میں جب غیر مسلم پر اسلام کی صداقت وحقانیت واضح ہو جاتی ہے تو وہ ہر طرح کے مصائب ومشکلات، عائلی ومعاشرتی رکاوٹوں کے باوجود اسلام قبول کر لیتا ہے۔ اس نوارد کے قبول اسلام کا جب تک اس کے اہل خانہ اور خاندانی سربراہوں کو علم نہ ہو اسے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن ایمان ایسی شئے ہے جسے خفیہ نہیں رکھا سکتا اس کا اظہار واعلان وہ خود سے کر ے یا نہ کرے اس کے مزاج و رویے کی تبدیلی اس کے قبول اسلام کا پتہ دیتی ہے اور یہ حقیقت اس کے اہل خانہ پر آشکارا ہوتی ہے کہ ان کے گھر کا ایک فرد اسلام قبول کر چکا ہے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑ چکا ہے۔
اس کا اسلام قبول کرنا اپنے آبائی مذہب ودھرم سے بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ قبول اسلام غیر مسلم سماج میں ہر تعلق اور رشتے سے بغاوت اور جنگ کے مترادف شمار ہوتا ہے۔نووارد اسلام کے قبول اسلام کی خبر پر اس کے لیے غیر مسلم والدین اور اقربا کا رد عمل فطری ہوتا ہے۔ وہ اسے سب سے پہلے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر طرح کے خطرات اس کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ اسے عزیز تر رکھنے والے والدین یا اقرباء اس سے قطع تعلقی کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ مرحلہ نوواردِ اسلام کے گھریلو ماحول یا اس کے والدین واقربا کے مزاج اور رویے کے مطابق کبھی مختصر، طویل یا طویل تر ہوا کرتا ہے۔ یہ مرحلے ہر نو مسلم کی سماجی اور مالی حیثیت کے مطابق ہوتے ہیں۔
نو مسلم پر افہام وتفہیم کے اس مرحلہ کے ختم ہوتے ہی دوسرے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں جس سے وہ اسلام ترک کرکے اپنے آبائی مذہب پر لوٹ آئے۔ اسے ترکِ اسلام پر آمادہ کرنے کے لیے مختلف طریقے اور مختلف حربے استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ حربے اور طریقے سب نو مسلموں کے لیے یکساں اور مشترکہ ہوتے ہیں اور کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ اس میں زیادہ انحصار اس بات کا ہے کہ نو مسلم کی اپنی پوزیشن اور حیثیت کیا ہے۔ اگر وہ گھر میں بڑا ہے تو اس کے ساتھ ایک طریقہ اور اگر گھر میں وہ چھوٹا ہے یا لڑکی ہے تو دوسرے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں ان چند مشترکہ مسائل کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس سے عام طور پر نو مسلم دو چار ہوتے ہیں۔
اہل خانہ کی مخالفت اور دباؤ
نو وارد اسلام کا قبول اسلام اس کے غیر مسلم خاندان اور معاشرے کے لیے بڑا جھٹکا ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں افہمام وتفہیم میں ناکامی کے بعد وہ اس کی پر زور مخالفت شروع کر دیتے ہیں اور دباؤ بنانے کے لیے ہر حربہ اور ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں مارنا پیٹنا، بے تحاشا زد وکوب کرنا، بھوکا پیاسا رکھنا، گھر میں بند رکھنا اور گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دینا۔ یہ مرحلہ نو مسلم پر بہت سخت ہوتا ہے جو اسے صرف اپنے آبائی دھرم سے بغاوت کے نتیجے میں سہنا پڑتا ہے۔ اس نو مسلم کی ایمانی حمیت و حرارت دیدنی ہوتی ہے۔ وہ اسلام کی خاطر اپنے والدین اور اقربا کے ظلم و ستم کو سہتا ہے۔ اسلام ایسی کیا شے ہے کہ چند روز میں اس کے اندر اپنے عزیز ترین لوگوں کے خلاف کھڑا کر دیتی ہے؟ وہ رب العالمین پر ایمان کی طاقت ہی ہے کہ وہ اسے ہر طرح کے ظلم و ستم کے سہنے کے لیے آمادہ اور تیار کر دیتی ہے۔ یہاں پیدائشی مسلمانوں کے لیے غور و فکر کا مقام ہے کہ وہ ایمان کی ایسی ناقابل تسخیر قوت سے کیوں محروم ہیں۔ انہیں پیدائشی طور پر حاصل ایمان ہر طرح کی مشکلات پر ثابت قدم کیوں نہیں رکھ پاتا۔ ان کے ایمان میں ایسی کیا کمی ہے جو انہیں اپنے گھر اور معاشرے میں جاری جاہلانہ رسم ورواج اور بدعات وخرافات کے مقابلے میں سینہ سپر نہیں کرتی۔ نو مسلموں کی آپ بیتیوں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کی مصیبتیں اسلام کی خاطر برداشت کرتے ہیں۔ یہاں ایسے چند نو مسلموں کی آپ بیتیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ میں ایمانی قوت اور اسلام کی تاثیر پیدا کرنے کے لیے مفید ہو گا۔
محمد اکرم ( سابقہ نام وکرم سنگھ) نے ۲؍اکتوبر ۲۰۰۲ء کو اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے بعد ان پر سختیاں شروع ہو گئیں۔ وہ اپنے انٹرویو میں قبول اسلام کے بعد ان پر ٹوٹنے والے مصائب و مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرے گھر والے مجھے ستانے لگے، مجھ پر سختیاں کی گئیں، میرے والد نے مجھے پانچ پانچ دن کمرہ میں بند رکھا، کمرہ میں بند رہ کر بھی میں نے نماز نہیں چھوڑی، میرے دل میں خیال آیا کہ دنیا والےغلط کام کر کے، چوری کر کے جیلوں میں بند ہو جاتے ہیں اور پولیس کی سختیاں سہتے ہیں، میں اپنے مالک کی بہت ہی سچی بات کے لیے گھر میں بند ہوں اور میرے گھر والے ہی مجھے مار رہے ہیں۔ یہ سوچ کر مجھے اس پٹائی میں عجیب مزہ آتا تھا‘‘ (نسیم ہدایت کے جھونکے، مرتبہ مفتی روشن قاسمی ج:۲ ،ص :۱۹۴)
انٹرنیشنل چرچ کے پادری کولن چیک نے جب ۲۰۰۲ء میں اسلام قبول کیا تو عیسائی دنیا میں بھونچال آگیا۔ انہوں نے کولن چیک کو اسلام سے پھیرنے کی متعدد کوششیں کیں۔ کولن چیک اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ’’مجھے مرتد کرنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے میرے پاس کئی قسم کے وفود آئے اور سوڈان کے اندر اور باہر کی دنیا سے کبار مسیحی پادری میرے پاس آتے رہے اور ترغیب وتحریص سے لے کر مکمل بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی مجھے دی جاتی رہیں اور بے حد وحساب لالچ، مکرو فریب دے کر آزمایا جاتا رہا، تاہم اسلام کو میں نے پوری تحقیق کے بعد گلے لگایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے جس کے لیے میرا سینہ کھولا تھا میں اس اسلام پر مزید طاقت ور اور مضبوط ہوتا گیا اور مسیحی زعماء کی کوشش مجھے راہِ حق سے ہٹانے میں ناکام ہو گئیں۔ جب چرچ مجھ سے بالکل مایوس ہو گیا تو مجھے جسمانی طور پر نقصان پہنچانے سے ڈرایا گیا اور اپنے بعض ایجنٹوں کے ذریعہ مجھے اغوا کے بعد قتل کرنے کی کوشش کی گئی‘‘۔(نسیم ہدایت کے جھونکے، ج:۴، ص: ۱۷۳) الغرض نو مسلم کو جسمانی زد وکوب، قتل دھمکیاں اور لالچ دے کر اسلام سے پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
معاشرتی مشکلات
نو مسلم اہل خانہ کا دباؤ و مخالفت اور ظلم وستم سہہ رہا ہوتا ہے کہ اس پر معاشرتی دباؤ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ نو مسلم اگر خاتون ہے تو اسے اہل خانہ قید وبند کی اذیتیں دیتے ہیں لیکن اگر وہ مرد ہے تو اس پر قید و بند اور ظلم و ستم کا یہ سلسلہ بہت زیادہ دراز نہیں ہوتا، وہ گھر سے فرار ہو جاتا ہے۔ اگر نہ بھی ہوا تو اس کے ساتھ اجنبیوں والا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایسے شخص پر معاشرتی دباؤ بنانے کی ہر ممکن کو شش کی جاتی ہے، معاشرے کی قد آور شخصیات کے ذریعے اسے سمجھانے اور دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معاشرتی دباؤ نو مسلم کو توڑنے اور جھنجوڑنے والا ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے عزیز ترین اور قریب ترین دوست بھی مخالف ہو جاتے ہیں اور دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ سماجی بائیکاٹ کا یہ مرحلہ بہت صبر آزما اور توڑ دینے والا ہوتا ہے۔ ایک نو مسلم اس مرحلے میں کس طرح کی ذہنی، نفسیاتی اور اعصاب شکن مصائب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ۔
جائیداد سے محرومی
نو مسلم، قبول اسلام کے بعد گھر والوں کی مخالفت، دباؤ، ظلم وستم اور سماجی بائیکاٹ کی مشکلات سے ہی دو چار نہیں ہوتا بلکہ اس کے غیر مسلم والدین اقرباء اور اعزہ اس کے اسلام کو ترک کرنے اور آبائی دین پر واپس لوٹ آنے کے لیے جائیداد سے محرومی کی دھمکی دیتے ہیں بلکہ محروم بھی کر دیتے ہیں۔ نو مسلم کو ایمانی قوت اور اسلام کی دولت اسے ہر شئے سے عزیز تر محسوس ہوتی ہے اس لیے وہ اسلام کی دولت کے آگے دنیوی مال ودولت اور جائیداد کو ہیچ تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مال و جائیداد سے محرومی بھی اس کے ایمان کو متزلزل نہیں کرتی ہے۔ جائیداد سے محرومی اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ ایمان کی دولت پا کر اپنے آپ کو سب سے غنی محسوس کرتا ہے۔
معاشی مشکلات
جائیداد سے محرومی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نو مسلم معاشی پریشانی اور مشکلات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ بہت سے نو مسلم ایسے ہوتے ہیں جو خود کفیل ہوتے ہیں وہ کسی کمپنی یا روزگار سے وابستہ ہوتے ہیں انہیں اس طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن بڑی تعداد نو مسلم مرد وخواتین کی ایسی ہوتی ہے جنہیں اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بر سر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو تے ہیں۔ یہ مجبوری ان کے نفس پر بڑی گراں گزرتی ہے۔ مسلم معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ نو واردِ اسلام کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش کریں نہ کہ اس کی وقتی ضرورت پوری کرنے پر اکتفا کریں۔
رہائش کی مشکلات
نو مسلم مرحلہ وار اعصاب شکن مصائب ومشکلات، ظلم وستم اور مال ودولت سے محرومی کے بعد گھر چھوڑنے پر بھی مجبور ہوتا جاتا ہے۔ یہ بڑا سخت امتحان اور سنگین موقع ہوتا ہے جب وہ اپنے گھر سے اسلام کی خاطر اور اس کی حفاظت کے لیے اپنے عزیز از جان والدین، بھائی بہن اور اقرباء کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کے بعد اسے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ ایسے میں اسے بڑے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلم دعاۃ اس سلسلے میں کامیاب کوششیں کر رہے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے کو نو مسلموں کے مسائل کا صحیح ادراک نہیں ہے وہ ان کی ضرورت کا احساس نہیں کرتے، ان کی کفالت پر اجر وثواب سے بھی وہ غافل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم داعیوں کو ابھی دقتوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ داعی اسلام مولانا محمد کلیم صدیقی نے اپنے ایک انٹرویو میں نو مسلموں کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ ’’دعوت کی راہ میں ایک اہم ترین مسئلہ اسلام قبول کرنے والے ان نو مسلموں کا ہے جن میں سے اکثر کو ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ ان خوش قسمت افراد کے تربیتی، اقتصادی اور معاشرتی مسائل سے دعوت کا کام کرنے والے نبرد آزما ہو رہے ہیں، لوگ جماعت میں بھیجتے ہیں، مدارس میں رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں کوششیں کی جا رہی ہیں مگر بظاہر حق ادا تو کیا بلکہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہو پاتا۔ پوری دنیا کے داعیوں کا تجربہ ہے کہ اگر اسلام قبول کرنے والا مہاجر نو مسلم تربیت کے ساتھ اقتصادی اور معاشرتی طور پر سیٹ ہو جائے، اس کے پاس ایسا نظم ہو کہ وہ اپنے گھر والوں خاندان والوں یا عزیزوں کو اپنے گھر چند روز مہمان رکھ سکے تو رفتہ رفتہ اس کے اہل خانہ، بھائی بہن، ماں باپ بھی اسلام میں آجاتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اگر وہ در بدر پھرتا رہے اور اپنی ضروریات کے لیے سوال کرتا پھرے تو پھر وہ دوسروں کو دعوت دینے کی ہمت تو کیا کرتا خود آنے والوں کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ہم لوگ اپنے خاندان اور گھر میں رہ کر ایک مہاجر نو مسلم بھائی کے درد اور حال کو نہیں سمجھ سکتے‘‘۔(نسیم ہدایت کے جھونکے،ج:۴،ص:۵۴۔۵۵)- داعی اسلام مولانا محمد کلیم صدیقی کے اس انٹرویو سے نو مسلموں کے مسائل کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اور مسائل کا حل بھی ملتا ہے۔ ضرورت صرف اقدام اور عملی جدوجہد کی ہے۔ یہاں نو مسلموں کو پیش آنے والے چند کا مصائب ومسائل کا تذکرہ ہے اس کے علاوہ دیگر قانونی اور سماجی مسائل ہیں جن سے بھی انہیں دوچار ہونا پڑتا ہے۔
(مضمون نگار ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ ہیں)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021