پیر محمد مونس : جدوجہدآزادی کا ایک فراموش کردہ کردار

چمپارن کے مظلوم کسانوں کا مسیحاجس نے گاندھی جی کی توجہ ان کی طرف مبذول کروائی تھی

افروز عالم ساحل

چمپارن کے کسانوں کا درد جان کر گاندھی جی 1917 میں پہلا ستیہ گرہ کرنے چلے آئے۔ ستیہ گرہ کے تجربات ونتائج نے تو آزادی کے لڑائی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ یہ آزادی کے دیوانوں کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ یہاں کے باشندوں میں آزادی کے لیے ایک دیوانگی تھی۔ انہی دیوانوں میں ایک شخص تھا جس نے اپنی ساری زندگی ملک کی آزادی حاصل کرنے، ہندو مسلم اتحاد کو قائم رکھنے اور اس کے سماجی تانے بانے کو بچانے میں لگا دی تھی، جو اپنا سب کچھ قربان کر کے غریبوں اور کسانوں کے مسائل کو اٹھاتا رہا، جس کی صحافت ایک سماجی تحریک کی مثال بنی اس سچے محب وطن صحافی کا نام ہے پیر محمد مونس۔

پیر محمد مونس نے بطور صحافی اپنے مضامین کے ذریعے جتنے مسائل اٹھائے وہ تمام پورے ہندوستان میں کافی موضوع بحث بنتے رہے۔ گاندھی جی بھی ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ ان کی پیدائش 1892 میں بہار کے ضلع چمپارن کے بیتا شہر کے ایک مڈل کلاس خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام پھتنگن میاں تھا۔ وہ ان پڑھ تھے اور معمولی کام کیا کرتے تھے۔

مشہور صحافی گنیش شنکر ودیارتھی 15 فروری 1921 کو اپنے اخبار ’پرتاپ‘ میں لکھتے ہیں، ’مجھے کچھ ایسی ذی روح کے درشن کرنے کا موقع ملا ہے جو ایک کونے میں چپ چاپ پڑی رہتی ہے دنیا ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ان گدڑی کے لعلوں کا جتنا کم نام ہوتا ہے ان کا کام اتنا ہی عظیم اور عوام کے لیے مفید ہوتا ہے۔ وہ خود چھپے رہیں گے اور شہرت کے وقت دوسروں کو آگے کر دیں گے مگر کام کرنے اور مشکلات کا سامنا کرنے میں سب سے آگے رہیں گے۔ پیر محمد مونس بھی اسی قبیل کی ذی روحوں میں سے ایک تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو صرف کام کرنا جانتے تھے۔ چمپارن میں گوروں کے تشدد سے وہاں کے شہری بہت پریشان تھے، ان کا جینا دوبھر ہوگیا تھا۔ ملک کے کسی بھی لیڈر کی توجہ اس طرف نہیں گئی مگر میرے دوست پیر محمد مونس بتیا اور چمپارن واسیوں کی حالت پر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ انہوں نے ہی مہاتما گاندھی کو چمپارن کی دکھ بھری کہانی سنائی تھی جس کے بعد ہی مہاتما گاندھی یہاں آئے اور چمپارن کی زمین انگریزوں سے پاک ہوئی تھی۔ دراصل یہ پیر محمد مونس کے انقلابی لفظ ہی تھے جو گاندھی کو چمپارن کھینچ لائے اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ گاندھی کے ستیہ گرہ کی وجہ سے تحریک آزادی کو پَر لگ گئے اور چمپارن کی ایک الگ پہچان بنی۔

ایک ’بدمعاش صحافی‘

غلامی کے دور میں پیر محمد مونس نے بچپن سے ہی انقلاب کا راستہ اختیار کیا اور ان کے قلم نے انگریزوں کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ انہوں نے کسانوں کے مسائل کو اس انداز میں اٹھایا کہ اسے سیدھا ہندوستانی عوام کے دلوں میں پہنچا دیا اور برطانوی حکومت کو دہشت زدہ کر دیا۔ اسی لیے انگریزی حکومت نے ان کو دہشت گرد صحافی قرار دیا تھا۔

برطانوی دستاویزوں کے مطابق -’’پیر محمد مونس اپنی مشکوک صحافت کے ذریعہ چمپارن جیسے بہار کے پچھڑے علاقے سے ملک اور دنیا کو آگاہ کرنے والا اور گاندھی کو چمپارن تک آنے پر مجبور کرنے والا خطرناک اور بدمعاش صحافی تھا۔ ‘‘

جب گاندھی چمپارن میں تھے تو انہیں سب سے زیادہ پریشانی ہندی زبان کی وجہ سے ہوئی، کیونکہ انہیں ہندی کچھ خاص نہیں آتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چمپارن میں ہی ہندی سیکھی، جس میں پیر محمد مونس نے ان کی سب سے زیادہ مدد کی۔ مونس چمپارن میں ہمیشہ گاندھی کے ساتھ رہے اور زیادہ سے زیادہ ان کی مدد کی۔ انگریزوں نے گاندھی کی مدد کرنے والے 32 افراد کی ایک فہرست تیار کی تھی جس میں دسواں نام پیر محمد مونس کا تھا۔ اس کا ذکر 12 ستمبر 1917 کو چمپارن کے سپرینٹنڈینٹ آف پولیس سی ایم مارشم کے ذریعہ ترہت ڈیویژن کے کمشنر ایل ایف مورشد کو لکھے ایک خط میں ملتا ہے۔ اس خط میں مونس کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ، ’’بتیا کا پیر محمد مونس، جس کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن وہ ایک خطر ناک شخص ہے اور عملی طور پر بدمعاش ہے۔ ‘‘

ایک اور خط میں پیر محمد مونس کے بارے میں انگریزوں نے لکھا ہے۔ ’’گاندھی کو مدد پہنچانے میں سب سے اہم شخص ہے پیر محمد مونس۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، وہ بتیا راج اسکول میں استاد تھا۔ اسے وہاں سے برخاست کر دیا گیا کیونکہ وہ 1915 یا اس کے آس پاس مقامی انتظامیہ کے خلاف اکسانے والے مضامین لکھتا تھا۔ وہ بتیا میں رہتا ہے اور لکھنؤ کے’پرتاپ‘ میں نامہ نگار کے طور پر کام کرتا ہے۔ ’’پرتاپ‘‘ ایک ایسا اخبار ہے جو چمپارن کے سوال پر خطرناک خیال رکھتا ہے… مونس بتیا کے تعلیم یافتہ اور نیم تعلیم یافتہ عوام ولیڈروں اور رہنماؤں کے درمیان لنک کا کام کرتا ہے۔ ‘‘

یہ خط بتیا کے سب ڈویژنل آفیسر ڈبلیو ایچ لیوس نے ترہت ڈویژن کے کمشنر کو لکھا تھا۔ واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ لیوس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ پرتاپ لکھنؤ سے نہیں، کانپور سے نکلتا ہے۔ مونس بتیا راج سکول میں نہیں بلکہ گرو ٹریننگ اسکول میں استاد تھے۔

پیر محمد مونس کے خاندان کی آخری وارث ہاجرہ خاتون کو ان کی ماں رابعہ خاتون نے انگریزوں کے اپنے گھر پڑنے والے چھاپوں کے واقعات سنائے تھے۔ ہاجرہ کو یہ اب بھی یاد ہیں۔ ایک بار پولیس نے چھاپہ مارا وہ گاندھی کا کوئی خط تلاش کر رہے تھے۔ کئی کاغذوں کو تو دادی نے ٹائلیٹ میں لے جا کر چھپا دیا تھا۔ ایک کتاب کے صفحات پلٹتے وقت ایک خط پولیس کو مل گیا۔ دادا (مونس) فورا اسے منہ میں رکھ کر نگلنے لگے۔ ایک پولیس والے نے ان کے منہ میں ہاتھ ڈال دیا تو دادا اس کی دو انگلیوں کو چبا گئے۔ وہ پولیس والا چلّانے لگا تو دادا نے کہا تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کا خط پڑھنے کی؟

راج کمار شکلا نہیں بلکہ مونس کی وجہ سے گاندھی جی چمپارن آئے

دلچسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی اگرچہ چمپارن اپریل 1917 میں آئے، لیکن چمپارن کے دیہاتوں میں اس تعلق سے بحث 1915 کے آخر ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ اس کی تصدیق 4 مارچ 1916 کو بہار اسپیشل برانچ انٹیلی جنس رپورٹ سے ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں لکھا ہے – ’دیہاتوں میں یہ افواہ پھیلی ہے کہ جنوبی افریقہ میں ایک بار ہندوستانیوں کو جس گاندھی نامی شخص نے بھڑکایا تھا، وہ تقریر کرنے آ رہا ہے۔ ‘ اور یہ بحث مونس کے تحریر کردہ ایک پرچے کی وجہ سے ہی ہو رہی تھی۔ اس خفیہ رپورٹ میں ’پرتاپ‘ پریس سے شائع اس پرچے کا بھی ذکر ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں گاندھی کو چمپارن بلا کر لانے کا سارا کریڈیٹ راجکمار شکلا کو دیا گیا ہے۔ جبکہ دستاویزات سے یہ بات ثابت ہے کہ راج کمار شکلا، پیر محمد مونس کے ذریعے ہی گاندھی کو جانتے تھے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گاندھی کے آنے کی بحث 2015 کے آخری یا 2016 کے ابتدائی مہینوں میں کس طرح ہونے لگی؟ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ لکھنؤ اجلاس میں راج کمار شکلا اکیلے نہیں گئے تھے بلکہ پیر محمد مونس اور ان کے خاص دوست ہری ونش سہائے بھی ساتھ گئے تھے اس کا ذکر ملک کے پہلے صدر راجندر پرساد نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔

لکھنؤ اجلاس سے چمپارن واپس لوٹنے کے بعد راجکمار شکلا نے گاندھی جی کو 27 فروری 1917 کو خط لکھا۔ اس خط نے گاندھی جی کو کافی متاثر کیا اور اسے پڑھتے ہی گاندھی جی کا چمپارن آنے کا ارادہ اور پکا ہوا۔ دراصل یہ خط شکلا نے پیر محمد مونس سے لکھوایا تھا۔ پٹنہ کالج کے پرنسپل اور مؤرخ ڈاکٹر کے کے دتہ کو گاندھی جی کے نام لکھا یہ خط مونس کے گھر سے ملا تھا۔ اس کے بعد اسکالر نے اس کی تائید کی کہ یہ خط پیر محمد مونس نے ہی لکھا تھا۔ اس کے بعد ایک دوسرا خط خود پیر محمد مونس نے گاندھی جی کو 22 مارچ 1917 کو بھیجا، جس میں انہوں نے چمپارن کے سلسلے میں بہت سی باتوں اور واقعات کا ذکر کیا۔ اس کے جواب میں گاندھی نے 28 مارچ 1917 کو یہ پوچھا کہ وہ مظفرپور کس راستے سے پہنچ سکتے ہیں؟ اور یہ بھی جاننا چاہا کہ اگر وہ تین دنوں تک چمپارن میں ٹھہریں، تو جو کچھ دیکھنے کی ضرورت ہے، وہ سب دیکھ سکیں گے یا نہیں؟ یہ خط ابھی پہنچا بھی نہیں تھا کہ 3 اپریل 1917 کو انہوں نے شکلا جی کو تار دیا کہ میں کلکتہ جا رہا ہوں، وہاں بھوپیندر ناتھ بسو کے مکان پر رکوں گا، آکر وہیں ملو۔ اس تار کے ملتے ہی فورا راجکمار شکلا، شیخ گلاب وشیتل رائے کے ساتھ کلکتہ چلے گئے‘

مونس کے گھر پہونچے گاندھی

گاندھی جی جب پہلی بار 22 اپریل 1917 کو بتیا پہنچے تو ہزاری مل دھرم شالہ میں تھوڑا رک کر براہ راست پیر محمد مونس کے گھر ان کی ماں سے ملنے پیدل چل پڑے۔ وہاں مونس نے ہزاروں دوستوں کے ساتھ گاندھی جی کا استقبال کیا۔ اس کی پوری رپورٹ پرتاپ اخبار میں بھی شائع ہوئی تھی۔

اردو سے بھی تھی محبت

پیر محمد مونس ہندی زبان کے ساتھ ساتھ اردو بھی بخوبی جانتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ہندی-اردو کو ایک ساتھ شامل کرنے کا کام کیا۔ بنارسی داس چترویدی کی طرف سے تحریری توتا رام سناڈھے کی سوانح عمری ’فجی دویپ میں گیارہ سال‘ کتاب کو ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا تو وہیں ’ہندوستان سلطنت مغلیہ‘ کا اردو سے ہندی ترجمہ کیا۔ ’فجی دویپ میں گیارہ سال‘ … یہ وہی کتاب تھی جس سے غیر مقیم ہندستانیوں کی حالت کی طرف ملک متوجہ ہوا۔ اس وقت اردو لکھنے کا اقتصادی پہلو کافی مضبوط ہوا کرتا تھا۔ آچاریہ شیو پوجن سہائے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں -’مسلمان ہو کر ہندی کی خاطر انہوں نے جو کام کیا اس کا قرض چکانا ہندی پریمیوں کا فرض ہے۔ اردو کا سہارا پکڑتے تو غریبی کا ڈنس نہ سہتے۔‘

غریبی کے دن

پیر محمد مونس کی زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ 8 اپریل 1945 کو پیش آیا جب ان کا اکلوتا جوان بیٹا محمد سلیمان 8-9 ماہ تک بیمار رہ کر مر گیا۔ مونس کو اس واقعے سے بڑا جھٹکا لگا۔ ان کا بیٹا بھی ہندی، انگریزی اور اردو تینوں زبانیں جانتا تھا۔

پیر محمد مونس کی فقر وفاقے کی شکار زندگی کی کہانی ان کی آخری وارث ان کی پوتی ہاجرہ خاتون سناتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’دادا کے پاس کھیت تھا، لیکن وہ کھیتی پر توجہ نہیں دیتے تھے انہوں نے ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں ہی اپنا وقت لگایا۔ انگریزوں نے بھی اقتصادی طور پر کافی نقصان پہنچایا۔ ہماری ماں بتاتی ہیں کہ وہ کبھی کبھی صرف ایک مرچ پیس کر کھا لیتی تھی۔ مرچی لگنے پر بہت سارا پانی پی کر اپنا پیٹ بھرتی تھی۔‘

یہ حالات تھے ایک سچے محب وطن، ہندی مصنف کے جو بہار ریاستی ہندی ادب کانفرنس کا بانی تھا اور جس نے 40 سال سے زیادہ اس زبان کی خدمت کی ہے۔ پیر محمد مونس نے اپنی زندگی کے معاشی مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اگرچہ آزادی ملنے کے بعد ملک میں کانگریس کی حکومت بنی ڈاکٹر راجندر پرساد ہندوستان کے پہلے صدر بنے، جن کے ساتھ ہی پیر محمد مونس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا تھا۔ مگر کسی نے بھی ان کی غربت اور پریشانی کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی انگریزوں کی طرف سے ان کی ضبط کی گئی املاک کو واپس دلایا۔

ملک کی آزادی کے لیے مونس نے اپنی پوری زندگی غربت میں گزاری اور غربت میں ہی 23 ستمبر، 1949 کو اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے اپنے قلم سے ہندوستان کی بہت خدمت کی لیکن اس کے بدلے میں انہیں کچھ نہیں ملا۔ ایک اچھا سماج اور اچھی قوم اپنے ہیروز کو عزت اور اچھی شناخت دیتے ہیں لیکن چمپارن کے مونس کو ہندوستانی قوم وحکومت نے بالکلیہ فراموش کر دیا۔ ایک عظیم صحافی جس نے اپنے قلم سے ایک مردہ قوم کو جگانے کی کامیاب کوشش کی لیکن جب قوم جاگ گئی تو اپنے جگانے والے کو ہی بھلا بیٹھی نہ اس کے نام پر توجہ دی گئی نہ کام پر۔ سڑکوں اور چوراہوں پر تو دور کی بات ہے مونس لائبریریوں میں بھی نہیں ملتے۔

پیر محمد مونس نے کبھی کہا تھا ’وہی زبان زندہ اور بیدار رہ سکتی ہے جو عوام کی ٹھیک ٹھیک نمائندگی کرے۔‘ تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جنہیں ان کی قوم یاد رکھتی ہے ان کی نوجوان نسلیں یاد رکھتی ہیں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ پیر محمد مونس کو نہ صرف ان کی قوم نے بلکہ اس سماج نے بھی بھلا دیا، جن کی بھلائی کے لیے وہ اپنی آخری سانس تک جد وجہد کرتے رہے۔

 


پیر محمد مونس ایسے مجاہد آزادی تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی آزادی کی جنگ لڑنے میں لگا دی۔ انہوں نے بطور صحافی اپنے مضامین وخیالات کے ذریعہ جتنے کچھ مسائل کو عوام کے سامنے رکھا وہ تمام پورے ہندوستان میں کافی موضوع بحث بنتے رہے۔ گاندھی جی بھی ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ ان کی پیدائش 1892 میں بہار کے مغربی چپمارن ضلع کے بیتا شہر کے ایک مڈل کلاس خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام پھتنگن میاں تھا۔ وہ ان پڑھ تھے اور معمولی کام کیا کرتے تھے۔