پطرس بخاریؔ: زندگی کی حقیقتوں سے مزاح پیدا کرنے والا فن کار

یکم اکتوبر کو یوم پیدائش کے موقع پر خصوصی پیشکش

احتشام الحق آفاقی، رامپور

 

اردو کے صاحب طرز مزاح نگار، دسیوں کتابوں کے مترجم سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری دنیائے ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ سلیم الطبع، نرم مزاج، خوش گو، تقریر و تحریر میں قائدانہ صلاحیت سے لبریز تھے۔ ان کو اردو اور انگریزی زبان پر یکساں عبور تھا۔ اس کے علاوہ وہ کئی اور زبانیں بھی جانتے تھے اور اس کو لکھ پڑھ بھی لیتے تھے۔ ان کی پیدائش یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں ہوئی۔ پطرس بخاری نے ابتدائی تعلیم گھر پر مکمل کی شعری ذوق اپنے والد سے ورثے میں حاصل کیا۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ فارسی کی بنیادی کتابوں کی تعلیم بھی گھر سے ہی پائی۔ 1912 میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور سے ایف اے کی ڈگری مکمل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے انگریزی ادبیات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلستان بھی گئے اور کیمبرج یونیورسٹی کے ایمانوئل کالج سے انگریزی ادب میں Tripos (تریپوس) کی ڈگری حاصل کی۔
پطرس بخاری کی انگلستان سے واپسی کے بعد 1922 لاہور کالج میں بحیثیت لیکچرار تقرری ہوئی جہاں وہ 1935 تک منسلک رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تدریس ن۔ م راشد، فیض احمد فیض، کنہیا لال کپور، اقبال سنگھ، الطاف قادر، حفیظ ہوشیارپوری اور حنیف رامے جیسے اردو کے فنکار پطرس بخاری کے شاگرد ہوئے۔ فنون لطیفہ پر مہارت کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں ریڈیو کے باقاعدہ قیام کے بعد انہیں 1936 میں تدریسی کے عہدے سے ریڈیو کی طرف منتقل کر دیا گیا اور کچھ عرصے کے بعد وہ ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ پطرس بخاری نے ہی سب سے پہلے انڈین براڈ کاسٹنگ کا نام آل انڈیا ریڈیو منظور کرایا جو تخفیف شدہ ہوکر انگریزی میں (AIR) ہوا جو آج تک چل رہا ہے۔ پطرس بخاری جس وقت ڈائریکٹر جنرل تھے اسی وقت ریڈیو پر نشر ہونے والی زبان پر ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا تھا جس کو انہوں نے بحسن وخوبی انجام بخیر تک پہنچایا۔ ریڈیائی زبان کے مسئلہ کے حل کے لیے پطرس بخاری نے چھ ماہرین لسانیات کی تقریریں نشر کروائیں۔ ان ماہرین لسانیات میں بابائے اردو مولوی عبد الحق، ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرشاد، سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر تارا چند، اردو کے ادیب و دانشور ڈاکٹر برج موہن دتاتریا کیفی اور ڈاکٹر آصف وغیرہ شامل تھے۔ اس مخمصے کے بعد طے پایا کہ ریڈیائی زبان کے لیے ایک ایسی فرہنگ کی ضرورت ہے جس میں نا تو اردو الفاظ ہوں اور نہ ہندی کے بلکہ آسان ہندوستانی اور عوام فہم زبان ہو۔ اس فرہنگ کو مرتب کرنے کا کام مولوی چراغ حسن حسرت اور ایچ دت ’سیانا‘ کے سپرد ہوا اور اس کی نظر ثانی کے لیے ڈاکٹر دو ونشنی، ڈاکٹر رفیق الدین کی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پطرس بخاری تقسیم ہند و پاک کے بعد پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے مستقل مندوب مقرر ہوئے۔ اقوام متحدہ میں خطیبانہ صلاحیت کی وجہ سے ہر چہار سو چھائے ہوئے تھے چونکہ انہیں انگریزی زبان پر مہارت حاصل تھی۔ ان کے خطیبانہ آفرینش کے متعلق لکھا ہے کہ ’’اقوامِ متحدہ میں پطرس بخاری کی تقریروں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ خواہ وہ جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے یا سلامتی کونسل میں یا کسی کمیٹی میں، اچھی تقریر کے شائقین وہاں پہنچ جاتے۔ گیلریاں صحافیوں کے علاوہ خود اقوامِ متحدہ کے کارکنوں سے بھر جاتیں۔ انگریزی پر ان کی قدرت، الفاظ کا انتخاب، اندازِ خطابت اور طرزِ استدلال میں وہ خوبیاں تھیں جنہوں نے سب کو گرویدہ بنا رکھا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی تیونس کے مسئلہ پر تقریر ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تقریر نے تیونس کے مسئلے کو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بھی بنایا اور خود پطرس بخاری کی خطابت کو دنیا بھر کے اخباروں نے دل کھول کر سراہا‘‘
پطرس بخاری نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ سے کیا۔ وہ عموماً تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے Peter Watkins کا قلمی نام اختیار کیا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے مشن اسکول پشاور کے ہیڈ ماسٹر سے قلبی تعلق کا اظہار تھا۔ جس کے لفظ پیٹر کے فرانسیسی تلفظ نے پیر احمد شاہ کو پطرس بنا دیا۔ اس وقت سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر M.E Hardy تھے جو پطرس بخاری کو ایک کالم کا سولہ روپیہ معاوضہ ادا کرتے تھے جس کی قدر اس زمانے میں تین تولہ سونے سے زائد تھی۔
پطرس بخاری کی شخصیت مختلف خصوصیات سے آراستہ ہے۔ ان کی مزاح نگاری کو خصوصیت کے ساتھ سراہا جاتا ہے۔ یقیناً ان کا مزاح سراہنے کے قابل بھی ہے۔ ان کی تحریروں میں صاف اور سادہ مزاح کا عنصر غالب ہے۔ وہ اپنے قارئین کو ہنسنانے کے لیے موضوع تلاش کرنے ادھر اُدھر قطعی نہیں بھٹکتے بلکہ عام زندگی کی حقیقتوں پر مبنی مزاح پیش کرتے ہیں۔ یہ موضوعات انہیں ان کے قرب و جوار میں مل جاتے ہیں۔ پطرس بخاری کی مزاح کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مزاح میں طنز کا نشتر شامل نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے قارئین کو صرف اور صرف زیر لب مسکرانے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ پطرس بخاری زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہوئے الفاظ سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ ان کو دل سے داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ سادگی، صفائی، روانی، محاورات کے برجستہ استعمال اور شگفتگی کی بدولت ان کے مضامین میں ایک کشش ہے۔ ان کی تحریروں کے مطالعے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اپنے کسی دوست سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں ہم کلام ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’مضامین پطرس‘ کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں:’’اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں‘‘
’’جو صاحب اس کتاب کو کسی غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں وہ پہلے اس ملک کے لوگوں سے اجازت حاصل کرلیں‘‘
پطرس بخاری نے مزاح میں بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جتنا لکھا اور جو کچھ لکھا وہ ادب اردو کے صنف مزاح میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ رشید احمد صدیقی پطرس بخاری کی مزاح نگاری کے متعلق رقم طراز ہیں: ’’پطرس بخاری کی ظرافت بندھے ٹکے تفریحی موضوعات، عام روایتی کرداروں اور لفظی ہیر پھیر سے بے نیاز ہوتی ہے۔ ہر جگہ ہر بات میں انہوں نے خوش طبعی اور زندہ دلی کا پہلو نکالا ہے جیسے صحرا کو مسکرا کے گلستاں بنا دیا ہو۔ پطرس بخاری کی ظرافت عام طور سے مفرد ہوتی ہے مرکب نہیں۔‘‘
پطرس بخاری کے مزاحیہ مضامین میں: ہاسٹل میں پڑھنا، کتے، مرحوم کی یاد میں، اردو کی آخری کتاب، لاہور کا جغرافیہ، سنیما کا عشق، میں ایک میاں ہوں، سویرے جو کل آنکھ میری کھلی، مریدپور کا پیر، انجام بخیر، اب اور تب، بچے، دوست کے نام، اخبار میں ضرورت ہے‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ہاسٹل میں پڑھنا: پطرس بخاری کے مزاح کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس مزاحیہ مضمون میں پطرس نے ایک ایسے طالب علم کی تصویر کشی کی ہے جس کو ہاسٹل میں رہ کر پڑھائی کرنے کا بے حد شوق ہے لیکن اس کے گھر والے حد درجہ قدامت پسند ہیں جس کی وجہ سے اتنی آسانی سے اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا نہیں ہوتا ہے۔ لڑکا جب انٹر میں تھرڈ ڈویزن سے پاس ہوتا ہے گھر میں ہر طرف خوشیوں کا ماحول ہوتا ہے۔ رشتے داروں میں مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ لوگ لڑکے کے گھر والوں کو مبارکباد دیتے ہیں۔ گھر والوں کی خوشیوں کو دیکھتے ہوئے لڑکے نے ولایت جا کر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن گھر والے نہیں مانے۔ لڑکے کی ضد کے آگے جھکتے ہوئے گھر والوں نے لاہور جاکر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی لیکن اس شرط پر کہ وہ ہاسٹل میں نہیں بلکہ وہ ایک رشتے کے دور کے ماما کے گھر پر رہے گا۔ اس کے بعد لڑکا ماما کے گھر پر رہ کر تعلیم حاصل کرتا ہے لیکن وہ اس دوران بار بار فیل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے والدین اسے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ چونکہ لڑکے کے والدین کا خیال تھا کہ ’’گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ کا ایک دوزخ ہے‘‘ بالآخر لڑکا ہاسٹل میں رہتے ہوئے بی اے کا امتحان پاس کرلیتا ہے۔ اس متعلق لڑکے کی زبانی سنیے:
’’یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے‘‘
پطرس بخاری کے چند مضامین سے مزاح کے مختلف حسیت ملاحظہ ہوں: ’’اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے‘‘
۔ کالج میں پڑھنا
’’تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ اب میری حالت تصور میں لائیں تو معلوم ہوگا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہے۔‘‘
۔ مرحوم کی یاد میں
’’کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ ہمیں اگر اس وقت دیکھیں تو یقیناً یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے۔ ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سْروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیۃ الکرسی آپ کے ذہن سے اْتر جائے گی۔ اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں‘‘
’’خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتے بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا‘‘
۔ کتے
’’میاں دھوبی! یہ کتا کیوں پال رکھا ہے؟ صاحب کہاوت کی وجہ سے اور پھر یہ تو ہمارا چوکیدار ہے۔ دیکھیے! امیروں کے کپڑے میدان میں پھیلے پڑے ہیں۔ کیا مجال کوئی پاس تو آجائے۔ جو لوگ ایک دفعہ کپڑے دے جائیں پھر واپس نہیںلے جا سکتے‘‘
۔ اردو کی آخری کتاب
’’لاہور تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسرا دلی سے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور پشاور کے راستے اور یو۔ پی کے حملہ آور دہلی کے رستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں۔ مؤخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہیں۔ یہ بھی تخلص کرتے ہیں اور اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں‘‘
’’ لاہور میں قابل دید مقامات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور میں ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں۔ پہلے اینٹوں اور چونے سے دیوار کھڑی کرتے ہیں اور پھر اس پر اشتہاروں کو پلستر کر دیا جاتا ہے جو دبازت میں رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا ہے۔ شروع شروع میں چھوٹے سائز کے مبہم اور غیر معروف اشتہارات چپکائے جاتے ہیں، مثلاً ’’اہل لاہور کو مژدہ‘‘ ’’اچھااور سستا مال‘‘۔ اس کے بعد ان اشتہاروں کی باری آتی ہے جن کے مخاطب اہل علم اور سخن فہم لوگ ہوتے ہیں، مثلاً ’’گریجویٹ درزی ہاؤس‘‘ یا ’’اسٹوڈنٹوں کے لیے نادر موقع‘‘ یا ’’کہتی ہے ہم کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘
۔ لاہور کا جغرافیہ
’’آج کل لوگ نام بھی تو عجیب عجیب رکھ لیتے ہیں۔ غلام رسول، احمد دین، مولا داد ایسے لوگ تو ناپید ہی ہو گئے ہیں، جسے دیکھیے نظامی گنجوی اور سعیدی شیرازی بنا پھرتا ہے‘‘
۔ اخبار میں ضرورت ہے
مختلف نقاد پطرس بخاری کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں پطرس بخاری کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ حکیم یوسف حسن پطرس بخاری کے بارے میں کہتے ہیں: ’’اگر میں یہ کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہند و پاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس بخاری کے مضامین دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس بخاری کے مضامین بھاری رہیں گے‘‘ غلام مصطفیٰ تبسم کا خیال ہے کہ: ’’ پطرس بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری ہے اور پھر اْسے بیان پر قدرت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اْس کا مزاح پڑھنے والوں کے دل میں شگفتگی پیدا کر دیتا ہے‘‘ ڈاکٹر خورشید السلام کہتے ہیں کہ: ’’ان کے اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں انگریزی ادب کا اثر موجود ہے اور اندازِ بیان میں تخیل کا عمل فرحت اللہ بیگ سے زیادہ قریب ہے‘‘
بہر حال پطرس بخاری کے مزاح کی خوبیوں میں سے ایک غالب خوبی یہ ہے کہ انہوں نے عام زندگی کی حقیقتوں سے مزاح پیدا کرکے اردو ادب کو اپنا مقروض کر دیا ہے۔ جس کے لیے وہ تادیر اہل ادب کے دلوں میں زندہ و تابندہ رہیں گے ۔

پطرس بخاری کی ظرافت بندھے ٹکے تفریحی موضوعات، عام روایتی کرداروں اور لفظی ہیر پھیر سے بے نیاز ہوتی ہے۔ ہر جگہ ہر بات میں انہوں نے خوش طبعی اور زندہ دلی کا پہلو نکالا ہے جیسے صحرا کو مسکرا کے گلستاں بنا دیا ہو۔ پطرس بخاری کی ظرافت عام طور سے مفرد ہوتی ہے مرکب نہیں‘‘ (رشید احمد صدیقی)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020