وطن عزیز کے حالات اور ہماری حکمت عملی

ظلم کے خلاف مزاحمت فطرت کی پکار بھی اور دینی فریضہ بھی

تیما عبدالرؤف خالد، وانم باڑی

آج ہندوستان میں عوام بالخصوص مسلمان سی اے اے این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اصولی حیثیت سے اس طرح کے احتجاج کی ضرورت اور دین میں اس کی کیا حیثیت سے ہے اس سے مسلمانوں کا واقف ہونا ضروری ہے۔ یہ بات تو اچھی طرح واضح ہے کہ کالا قانون سی اے اے کی بنیاد نا انصافی اور امتیاز پر ہے۔ نا انصافی ظلم کو جنم دیتی ہے۔ اس قانون کی پارلیمنٹ میں جو کرونالوجی بتائی گئی ہے اس کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہمارے ملک کا ہر طبقہ بالخصوص غریب بہت زیادہ متاثر ہوگا۔ اسی لیے اس قانون کو غیر منصفانہ، ظالمانہ اور جابرانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بنیادی طور پر ظلم کے خلاف مزاحمت کرنا نہ صرف انسان بلکہ جانوروں کی بھی فطرت ہوتی ہے۔ آج تک ایسا کوئی جاندار مشاہدے میں نہیں آیا جو اس وقت مزاحمت یا حفاظت کی کوشش نہ کرے جب اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔ قوموں کی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کے اندر مزاحمت کی صلاحیت کتنی ہے۔ ہر ظالم چاہتا ہے کہ مظلوم اس کے آگے مکمل طور پر خود سپرد ہوجائے اور بزدلی اور مداہنت کا رویہ اختیار کرے۔ اگر مظلوم یہ رویہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے ختم کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ظلم سے نجات مزاحمت کے بغیر حاصل ہوئی ہو یا ظالم خود رحم کھا کر ظلم سے باز آگیا ہو۔ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس راہ میں قدم قدم پر آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ قربانی کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں لیکن ظلم سے نجات پانے کے لیے مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا متبادل (Alternative) بھی نہیں ہے۔ مزاحمت کے نتیجے میں دو باتیں ہو سکتی ہیں یا ظالم کو شکست اور ظلم سے نجات ملے گی یا مظلوم کے خاتمہ پر معاملہ ختم ہوتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
(۱) ظلم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنا نہ صرف فطرت کی پکار ہے بلکہ یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے ’’جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘ (سورہ شوریٰ آیت 39) (۲) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ جب کسی ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو عنقریب اللہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔ (۳)۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ ’’انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک مقصد انسانوں کو ظلم وزیادتی سے نجات دلانا ہے‘‘ (۴) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جہاں فرعون کو بندگی رب کی دعوت دی وہیں فرعون سے مطالبہ بھی کیا کہ ’’بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دے اور ان پر ظلم نہ کرے۔ (۵) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے مکّہ میں حلف الفضول نامی ایک ادارہ تھا جو مظلوموں کی داد رسی کرتا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس ادارے سے منسلک تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں ایک دن اس ادارے کو یاد کرکے فرمایا کہ اگر اس طرح کا کوئی ادارہ آج ہوتا تو میں ضرور اس سے وابستہ ہوتا۔
(۶) اسلاف کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگیوں کی سرگرمیوں میں اہم کام ظلم کے خلاف مسلسل جدوجہد رہا تھا۔ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کو ان کی زندگی میں تین حکمرانوں کے دور میں جیل میں ڈال گیا۔ کوڑوں کی مار سہنی پڑی یہاں تک کہ قید کے دوران ہی زہر کے نتیجہ میں آپ کی موت واقع ہوگئی۔ یہ نہ صرف امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے ساتھ بلکہ ہر دور اور ہر زمانے میں حق پرست لوگوں کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔
مزاحمت کی شکل Nature کیا ہو۔
۱۔ ظلم کے خلاف مسلح جدوجہد Armed Struggle حکومتوں کی ذمےداری ہوتی ہے فرد یا عوام کو فیصلہ کرنے اور اقدام کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ لہذا مسلح مزاحمت کے لیے کسی بھی طرح کی خفیہ سازشوں Under Ground Work سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔ خفیہ طریقے سے جو تبدیلی لائی جاتی ہے وہ خفیہ سازشوں ہی سے ختم بھی کر دی جاتی ہے۔
۲۔ مزاحمت پر تشدد Violent بھی نہیں ہونا چاہیے۔ انسانی تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح سے مزاحمت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ خصوصاً موجودہ دور میں حکومتوں کے پاس جو فوج اور پولیس منظم ہوتی ہے عوام اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی رفتار کے ساتھ یہ پر تشدد گروہ ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے کو مارنے لگتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ اس طرح کی کارروائی سے بالعموم معصوم عوام ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اگر خون خرابہ ہوجائے تو اس کے لیے آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی۔
۳۔ آپ کی جان پر راست حملہ ہوتا ہو تو اس وقت آپ اپنے بچاؤ کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔ اسلام اور ملکی قانون دونوں آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں۔
۴۔ اسلام عام حالات میں اور جمہوری حکومت کی موجودگی میں پرامن مزاحمت Peaceful Resistance ہی کی تعلیم دیتا ہے۔
۵۔ کامیابی اور نا کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
دراصل یہ آزمائش اللہ تعالی کی طرف سے ایک امتحان ہے کہ ہم ظلم کو مٹانے، عدل قائم کرنے اور اس دوران میں بندگان خدا تک دین اسلام کا پیغام پہنچانے میں کتنی سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں۔
احتیاطی تدابیر (Precautionary Measures)
۱۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ مظلوم ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے ردعمل (Reactions ) میں کچھ ظالمانہ حرکتوں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے پوری طرح سے محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ھے۔ ورنہ ظالمانہ رد عمل بھی آخرت میں قابلِ باز پرس ہے۔
۲۔ کالا قانون CAA سے صرف مسلمان متاثر نہیں ہوں گے بلکہ مستبقل میں دوسری اقلیتیں Minorities اور خصوصاً غریب طبقہ بھی متاثر ہونے والا ہے۔ لوگوں میں اس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا اس مسئلے کو ملی مسئلہ سے زیادہ ملکی مسئلہ کی حیثیت سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور اس احتجاج میں دوسرے لوگوں کو شامل کرنے بلکہ انہیں آگے بڑھانے کی مستقل کوشش کرنی چاہیے اور اس طرح اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ Communal Colour اختیار کرنے سے بچانے کی ضرورت ہے ۔
۳۔ ایسے تمام نعروں سے سختی سے پرہیز کیا جائے جو ملک دشمنی پر مبنی ہو یا جن سے ایسا پیغام جاتا ہو کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا مسئلہ در اصل ملّی مسئلہ ہے۔
کرنے کا کام: اس وقت ظلم کے خلاف تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر سطح پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ذرائع ابلاغ، خصوصاً پرنٹ و الکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے رائے عامہ کی بیداری اور ذہن سازی کا کام کیا جائے۔ عوامی سطح پر پر امن احتجاج کے ساتھ ساتھ قانونی سطح پر عدالت عظمی میں مقدمہ کے ذریعے سے، الغرض ہمہ جہتی انداز میں کوشش کرنا چاہیے۔ نیز لگے بندھے ایک ہی طریقہ پر اکتفا کرنے کے بجائے نت نئے نئے طریقے اختراع کرنا چاہیے۔ مگریہ بات یاد رہے کہ یہ تمام طریقے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملکی قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ ظلم کے خلاف یہ مہم عارضی اور وقتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے مختلف قسم مسائل وقفے وقفے سے آتے رہیں گے۔ ان مسائل میں ہم کو فعال انداز سے جدوجہد کرنا چاہیے مگر اس کے ساتھ ہی ہماری اصل توجہ مستقل طور پر ہماری حسب ذیل جو ذمہ داریاں ہیں ان پر بھی رہنی چاہیے بلکہ زیادہ تر توجہ اور Focus وقتی مسائل سے زیادہ ہماری مستقل ذمہ داریوں پر ہونی چاہیے ۔
مستقل ذمہ داریاں :
۱۔ دعوتی کام جاری رہنا چاہیے۔ اس وقت برادران وطن کو خصوصی طور پر اسلامی نقطہ نظر سے عدل کو قائم کرنے کی اہمیت اور ظلم کو مٹانے کی ضرورت بتایا جائے۔
الحمداللہ آج پورے ہندوستان میں غیر مسلم بھائیوں کو مساجد اور مساجد کا کردار بتانے کے لیے پروگرام کیے جا رہے ہیں۔ ہر مسجد والے کوشش کریں کہ سال میں کم سے کم ایک مرتبہ اس طرح کا پروگرام بنائیں۔ رمضان المبارک میں افطار کے وقت بلا کر ان کے ساتھ افطاری کرنے اور پھر انہیں نماز باجماعت کا مشاہدہ کرانے کا اہتمام کریں۔
۲۔ دعوتی کام کے ساتھ ساتھ امت کی اصلاح کا کام دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے کرتے رہنا چاہیے۔
۳۔ جس سماج میں ہم رہتے ہیں اس سماج کو سماجی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی، اور سیاسی حیثیت سے اونچا اٹھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
۴۔ خدمت خلق کے کام کو منظم انداز سے وسیع پیمانے پر بلا لحاظ مذہب و ملت کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات بطور یاد دہانی پھر سے بتا دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں پوری طرح سے چوکنا Vigilant رہنے اور نظر رکھنےکی ضرورت ہے کہ احتجاج پر امن ہو۔ ہر قسم کے تشدد سے پاک ہو۔ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرنے سے بچایا جائے اور طبقاتی کشمکش سے بھی دور رکھا جائے اور ملکی مفاد کے خلاف نعرے نہ لگائے جائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ظالموں کو اس بات کی ہدایت دے کہ وہ ظلم اور نا انصافی سے باز آجائیں اور جلد از جلد اس وقت ظلم اور نا انصافی کا جو منصوبہ بنایا جا رہا ہے اس کو نا کام بنا دے اور ہم سب کو ہر قسم کی مصیبتوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھے۔ آمین