محمد انور حسین،اودگیر
ملک میں قیام امن کے لیے نامورصحافیوں و دانشورں کی اپیل
ملک کے 28 سینئر صحافیوں اور مختلف نامور اخبارات کے مدیران کی جانب سے ملک کے قانونی اداروں اور اہم عہدہ داروں سے اپیل کی گئی کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت پر خاموشی اختیارنہ کریں بلکہ اس ماحول کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کریں۔
اس اپیل پر دستخط کرنے والوں میں کل 28 نام ہیں ۔اپیل کا عنوان ’’ملک میں باضابطہ بپا کردہ نفرت کے ماحول میں قانونی اداروں کی خاموشی حل نہیں ہے‘‘ رکھا گیا جس میں ملک کے تمام قانونی اداروں اورعہدہ داروں سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت کے ماحول کو کنٹرول کرنے میں اپنا نمایاں رول ادا کریں ۔
پچھلے چند سالوں سے طے شدہ طریقہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے اور باضابطگی کے ساتھ تشدد اور جارحیت کو فروغ دیا جارہا ہے ۔چاہے وہ الیکشن ہو ،دھرم سنسد ہو ،سیاسی ریالی ہوں یا فلم کی نمائش، ہر جگہ سے تشدد پھیلانے اور نفرت بڑھانے کی پر زور کوشش ہورہی ہے اور میڈیا بھی اس کی نشریات میں بھر پور تعاون کر رہا ہے ۔
سوالیہ نشان تو ملک کے اہم لیڈروں اور عہدہ داروں کی خاموشی پر ہے کیونکہ متشدد بیانات دینے اور نفرت پھیلانے والوں کا کوئی مواخذہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
پچھلے چند سالوں کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ منصوبہ بند طریقہ سے نفرت کا بازار گرم کرنے کی کوشش جاری ہے ۔کووڈ 19 کے آغاز میں تبلیغی جماعت کو بدنام کیا گیا اور ساتھ میں ’’ کورونا جہاد ‘‘ جیسے نعروں کے ذریعے مسلمانوں کا سماجی ومعاشی بائیکاٹ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ میڈیا نے باضابطہ طریقے سے کورونا جہاد کے موضوع کو اپنے غلط پروپیگینڈہ کے لیے استعمال کیا۔
تشدد کے لیے ابھارنا اور نفرت پھیلانا دستور میں درج آزادی کے خلاف عمل ہے لیکن ملک کے بیشتر سیاسی لیڈر چاہے وہ ملکی سطح کے ہوں یا ریاستی سطح کے کوئی بھی اس عمل کو مذموم قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔بلکہ بعض دفعہ ان کی خاموشی اور بعض دفعہ ان کا عملی کردار نفرت کے فروغ میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ اس طرح کا عمل ان کے عہدہ اور ذمہ داریوں کے اعتبار سے غیر قانونی بن جاتا ہے۔پولیس کا رول بھی اس ماحول میں مشکوک اور غلامانہ ذہنیت کا غماز رہا۔ پولیس نے یا تو ان نفرت کے سوداگروں کادفاع کیا یا اگر کارروائی بھی کی تو معمولی دفعات لگا کر ۔
اپیل میں یہ بات بھی کہی گئی کہ ملک کے صدر جمہوریہ ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،دیگر ہائی کورٹ کے ججس،الیکشن کمیشن اور دیگر قانونی اداروں کو چاہیے کہ وہ ملک میں بڑھتے تشدد اور نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے اپنی دستوری اختیارات کا استعمال کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی طرح یہ تشدد اور نفرت کا ماحول ختم ہو۔
مزید اپیل کی گئی کہ صحافتی ادارے جیسے پریس کونسل آف انڈیا ،نیوز براڈکاسٹرس اینڈ ڈیجیٹل اسوسی ایشن اورصحافت سے جڑے تمام ادارے اس بات کا نوٹس لیں اور بڑھتے ہوئے نفرت کے ماحول کو کم کرنے میں اپنی اخلاقی اور دستوری ذمہ داری کی ادائیگی کا ثبوت دیں ۔جبکہ بہت سے صحافتی ادارے نفرت کی تشہیر کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔
دسمبر 2021 کے بعد سے مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقہ سے نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ہریدوار میں دھرم سنسد کے اندر مسلمانوں کے خلاف خوب زہر افشانی کی گئی ۔آزادی اظہار رائے کی دھجیاں اڑائی گئیں مذہب کی آزادی اور دوسرے مذاہب سے روداری کی ساری حدیں توڑ دی گئیں لیکن ان کے خلاف کوئی مضبوط کارروائی نہیں کی گئی ۔
مسلم خواتین کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بلی بائی ایپ کے ذریعے مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کی مذموم کوشش جاری ہے۔ ابھی ایک مسئلہ ختم ہی نہ ہونے پایا تھا کہ دوسرا مسئلہ سامنےلایا جا رہا ہے ۔
ابھی حجاب کے موضوع پر ملک بھر میں سیاست جاری ہے جس کا فائدہ یو پی الیکشن میں اٹھایا گیا۔ حجاب کے مسئلہ کو نفرت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ملک بھر میں مسلم خواتین وطالبات کو پریشان کیا گیا۔
فروری اور مارچ 2022 میں ملک کی مختلف ریاستوں میں چلنے والی الیکشن کی تشہیر کے دوران ملک کے فرقہ پرست سیاستدانوں نے بہت سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے اور اقلیت خصوصا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگے۔ لیکن الیکشن کمیشن جیسی با اختیار ادارے کی کارکردگی نہ صرف مایوس کن رہی بلکہ ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آزادی سلب ہوچکی ہے ۔
ابھی حال میں کشمیری پنڈتوں پر ہونے والے ظلم کی داستان پر جو فلم بنائی گئی اس کے پس پردہ مقاصد میں کشمیری پنڈتوں کی بھلائی تو محسوس نہیں ہوئی البتہ اسے ہندو مسلم نفرت کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ دوران فلم تھیٹر میں اور تھیٹر کے باہر جس طرح کی نعرہ بازی اور ہنگامہ برپا کیا جارہا ہے وہ صاف واضح کر رہا ہے کہ کس طرح یہ فلم کا منصوبہ نفرت کی سیاست کے لیے بنایا گیا ہے ۔
اگر ان تمام واقعات کو ملاکر دیکھیں تو بات صاف ہے کہ پورے ملک میں ایک خوف یا ہسٹیریا کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ ہندو خطرہ میں ہیں اور مسلمان ہندووں کے لیے اور ملک کے لیے خطرہ ہیں۔
اس وقت ملک ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہوا ہے آزاد ،فلاحی اور سیکولر جمہوریت کی پسندیدہ قدروں کو کھلے عام پامال کیا جا رہا ہے ۔نفرت پر مبنی نظریات اور نفرت انگیز اقدامات ،تفرقہ وتشدد کے واقعات ایک منصوبہ بند طریقہ سے انجام دیے جارہے ہیں جو ملک میں قانون سے بالاتر سیاست کا رجحان پیدا کر رہے ہیں۔ملک میں سرکاری عہدوں پر حلف لینے والے لوگ بھی اپنے قول وعمل سے نفرت کو بڑھانے کے ذمہ دار ثابت ہورہے ہیں اس عمل میں ان کا بڑا سہارا ملک کا میڈیا بنا ہوا ہے ۔
اس لیے یہ کام نہ صرف اہم نہیں ہے بلکہ فوری کرنے کا ہے کہ ملک کے قانونی عہدوں پر فائز ذمہ داران چیف جسٹس سے لے کر میڈیا کہ ذمہ داران تک سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دستوری اور انسانی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نفرت کے اس ماحول کو بدلنے کی کوشش کریں۔ میڈیا اپنا مثبت رول ادا کرے اور نفرت پھیلانے والوں سے سوال کرے ۔
اس طرح کی اپیل کرنے والوں میں جو لوگ شامل تھے ان میں نمایاں نام این رام چیف ایڈیٹر دی ہندو ،آر راج گوپال ایڈیٹر دی ٹیلی گراف ،آر وجے شنکر ایڈیٹر فرنٹ لائن ،تیستا سیتلواد اور کیو ڈبلیو نقوی جیسے لوگ شامل تھے ۔
ملک کے نامور اور تجربہ کار صحافیوں اور دانشوروں کی آواز یا اپیل کا کیا اثر ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا، ان لوگوں کی جرات کو سلام جنہوں نے اپنے سچ بولنے کا حق ادا کیا لیکن ہم کیا کررہے ہیں صرف شکوہ یا کچھ اور بھی؟
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ان جرات مند افراد کی آواز اور ان کی اپیل گو کہ ملک میں بریکنگ نیوز نہیں بن سکی لیکن تبدیلی کی شروعات ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہے ۔ یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ آج بھی اس ملک میں ان کے لیے آواز اٹھانے والے ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف بولنے والے لوگ موجود ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی آوازوں کو بلندی عطا کریں ان کا ساتھ دیں ان کا ساتھ لیں اور ملک میں موجود نفرت کے ماحول کو محبت میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔
افسوس تو یہ ہے کہ امت خواب غفلت میں ہے ۔نہ عبرت ہے نہ سبق ۔
اکابر اپنی شہرت کے ڈنکے بجارہے ہیں ،سیاسی لیڈران اپنے ووٹ بٹور رہے ہیں ۔علماء اپنے قلعوں کو محفوظ کر رہے ہیں سوائے چند ایک کے باقی جماعتیں اللہ اللہ کر رہی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کو حالات کے شعور کے ساتھ مناسب لائحہ عمل سمجھ نہیں آتا وہ حالات کو بدل نہیں سکتی اور مزید زوال کی طرف گامزن ہو جاتی ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے مسلم دانشور ،علماء ،جماعتیں ،مدارس کے ذمہ داران اور سیاسی لیڈر سب مل کر ملک میں بڑے پیمانے پر ان نفرت پھیلانے والے عناصر سے بات چیت کریں ،ان کی غلط فہمیاں دور کریں انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائیں کہ مسلمان اس ملک کے لیے اور یہاں بسنے والے ہندووں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں ۔اسلام انسانیت کے لیے کبھی بھی خطرہ نہیں رہا بلکہ وہ تو ایک نظام رحمت ہے ۔اس کے علاوہ کمزور طبقات اور دلتوں کے حقوق کے لیے اور ان کو عدل و انصاف دلانے کے لیے کام کریں۔ پورے ملک میں مسلم دانشوروں کو دیگر امن پسند افراد کے ساتھ مل کر ملک کے قانونی اداروں کے ذمہ داران ،پولیس ،عدلیہ اور انتظامیہ کے عہدیداران کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وہ نوجوان جنہیں بھکت کہا جاتا ہے ان سے بھی ڈائیلاگ کا ٹھوس منصوبہ ترتیب دیا جانا چاہیے۔دشمن سے دوری مزید دشمنی بڑھاتی ہے اور دشمن سے قربت محبت کی امید جگاتی ہے ۔
یہ کام فوری طور پر کرنےکا ہے اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔دشمن نفرت کو عام کرنے میں اپنی پوری قوت جھونک رہا ہے جبکہ ہم محبت کا پیغام عام کرنا چاہتے ہیں لیکن سستی اور کاہلی ہماری راہ میں حائل ہے۔ ملت کو اس کیفیت سے باہر آنا پڑے گا ۔ملک کے ہر خاص وعام مسئلہ میں اپنی آواز بلند کرنی پڑے گی ۔ہماری زندگیاں اور ہمارا مستقبل جدوجہد ہی سے عبارت ہے وگرنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
***
***
تشدد کے لیے ابھارنا اور نفرت پھیلانا دستور میں درج آزادی کے خلاف عمل ہے لیکن ملک کے بیشتر سیاسی لیڈر چاہے وہ ملکی سطح کے ہوں یا ریاستی سطح کے کوئی بھی اس عمل کو مذموم قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔بلکہ بعض دفعہ ان کی خاموشی اور بعض دفعہ ان کا عملی کردار نفرت کے فروغ میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ اس طرح کا عمل ان کے عہدہ اور ذمہ داریوں کے اعتبار سے غیر قانونی بن جاتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 تا 09 اپریل 2022