سیرت صحابیات سیریز(۲۳)

میزبان رسول ؐحضرت ام معبد خزاعیہؓ

جن کے حق میں حضورؐ نے خیروبرکت کی دعا مانگی تھی
جس زمانے میں آفتاب اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہورہاتھا، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ جانے والے راستے پر قدید نام کی ایک چھوٹی سی بستی صحرا کے متصل واقع تھی۔ اس میں ایک مختصر سا غریب خاندان اپنی زندگی کے دن بڑے عجیب انداز میں گزار رہا تھا۔ اس گھرانے کی ساری متاع لے دے کے ایک خیمہ، بکریوں کے ایک ریوڑ، گنتی کے چند برتنوں اور مشکیزوں پر مشتمل تھی۔ خاندان کا سربراہ ایک جفاکش بدوی تمیم بن عبدالعزیٰ خزاعی تھا۔ اس کا بیشتر وقت بکریاں چرانے میں گزرتا تھا۔ تمیم کی بیوی اس کی بنت عم عاتکہ بنت خالد تھی۔ دونوں کا تعلق بن خزاعہ کی شاخ بنی کعب سے تھا۔ عاتکہ ایک پاک دامن، باوقار اور بلند حوصلہ خاتون تھیں اور اپنی کنیت ’’ام معبد‘‘ سےمشہور تھیں۔ وہ عربوں کی روایتی مہمان نوازی سے خاص طور پر متصف تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایثار اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا، افلاس اور تنگ دستی کے باوجود وہ قدید سے گزرنے والے مسافروں کی نہایت خوش دلی سے میزبانی کیاکرتی تھیں اور ان کی خدمت اور تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھیں۔ پانی، دودھ، کھجوریں، گوشت جو کچھ میسر ہوتا مہمانوں کی خدمت میں پیش کردیتی تھیں۔ جب کوئی مسافر ان کے خیمے میں سستا کر آگے روانہ ہوتا تو اس کی زبان پر ام معبد کے لیے تعریف و تحسین اور دعائیں ہی دعائیں ہوتی تھیں۔ اس طرح ام معبد کا نام مسافروں کی بے لوث خبر گیری اور خدمت و تواضع کی بہ دولت دور دور تک مشہور ہوگیا تھا اور لوگ ان کی عالی حوصلگی اور شرافت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔
بعثت نبوی کے تیرہویں سال تک ام معبد کو خلق خدا کی خدمت کرتے سالہا سال گزر چکے تھے اور وہ جوانی کی منزلوں سے گزر کر پختہ عمر کو پہنچ چکی تھیں ۔ اس وقت رحمت عالمﷺ عرب کے صحرا نشینوں میں ’’صاحب قریش‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ تمیم اور ام معبد کے کانوں میں بھی ’’صاحب قریش‘‘ اور آپؐ کی دعوت کی بھنک پڑچکی تھی تاہم وہ زندگی کی ڈگر پر اپنے معمول کے مطابق چلتے رہے ۔ ان غریب اور سادہ مزاج بدویوں کے لیے یہ بڑا کٹھن کام تھا کہ ایسی باتوں کی تحقیق کے لیے دور دراز کی خاک چھانتے پھریں لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن ان کی صحرائی قیام گاہ ان صاحب قریش کی طلعت اقدس سے جگمگا اٹھے گی اور کائنات ارضی و سماوی کا ذرہ ذرہ اس کے مکینوں کی خوش بختی پر رشک کرے گا۔
ربیع الاول ۱۳ بعثت میں رحمت عالمﷺ نے ارض مکہ کو الوداع کہا۔ اور تین راتیں غار ثور میں گزار کر عازم مدینہ ہوئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عامر بن فہیرہؓ مقدس قافلے کے آگے آگے عبداللہ بن اریقط الیثی پیدل چل رہا تھا، وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود ایک قابل اعتماد شخص تھا اور مکہ سے مدینہ جانےوالے تمام راستوں سے واقف تھا۔ اسی لیے حضورﷺ نے اسے راستہ بتانے کے لیے اجرت پر اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک سانڈنی پر سرور عالمؐ اور حضرت صدیق اکبرؓ سوار تھے اور دوسری پر حضرت عام بن فہیرہؓ اور عبداللہ بن اریقط۔ یہ مختصر قافلہ قدید کے مقام پر پہنچا تو حضرت اسماؓ (ذات النطاقین) بنت صدیق اکبرؓ نے غار سے روانگی کے وقت جو کھانا ساتھ کیا تھا وہ ختم ہوچکا تھا اور سرور عالم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس محسوس ہورہی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ام معبد کی شہرت سن رکھی تھی اور انہیں یقین تھا کہ اس کی قیام گاہ پر کھانے پینے کا کچھ انتظام ہوجائے گا۔ چناں چہ یہ مقدس قافلہ ام معبد کےخیمے پر جاکر رکا۔ وہ اس وقت اپنے خیمہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ان دنوں خشک سالی نے سارے علاقے پر قیامت ڈھا رکھی تھی اور اس وجہ سے ام معبد کے گھرانے پر کٹھن وقت آن پڑا تھا۔ بڑی تنگی ترشی سے گزر بسر ہورہی تھی۔ حضورﷺ نے ام معبد سے فرمایا ’’دودھ، گوشت، کھجوریں، کھانے کی کوئی چیز بھی تمہارے پاس ہوتو ہمیں دو، ہم اس کی قیمت ادا کریں گے‘‘
ام معبد نے بصد حسرت جواب دیا ’’خدا کی قسم اس وقت کوئی چیز ہمارے گھر میں آپ کو پیش کرنے کے لیےموجود نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو فوراً حاضر کردیتی‘‘۔
اتنے میں حضورﷺ کی نظر ایک مریل سے بکری پر پڑی جو خیمے میں ایک طرف کھڑی تھی۔ آپؐ نے فرمایا : ’’معبد کی ماں اگر اجازت دو تو اس بکری کا دودھ دوہ لیں‘‘۔
ام معبد نے کہا’’: آپ بڑے شوق سے دودھ دوہ لیں مگرمجھے امید نہیں کہ یہ دودھ کا ایک قطرہ بھی دے‘‘۔
اب وہ بکری حضورﷺ کے سامنے لائی گئی۔ آپؐ نے پہلے اس کے پاوں باندھے اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دعا کی : ’’الہیٰ اس عورت کی بکریوں میں برکت دے‘‘۔
اس کے بعد چشم فلک نے ایک تحیر خیز نظارہ دیکھا۔ سید المرسلین ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر جوں ہی بکری کے تھنوں کو چھوا، تھن فی الفور دودھ سے بھر گئے اور بکری ٹانگیں پھیلا کر کھڑی ہوگئی۔ حضورؐ نے ایک بڑا برتن منگا کر دودھ دوہنا شروع کردیا یہ برتن جلد ہی لبا لب بھر گیا۔ آپؐ نے پہلے دودھ ام معبد کو پلایا، اس نے خوب سیر ہوکر پیا پھر آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو پلایا جب وہ بھی سیر ہوگئے تو آخر میں آپؐ نے خود پیا اور فرمایا ساقی القوم اخرم (لوگوں کو پلانے والا خود آخر میں پیتا ہے) اس کے بعد حضور ﷺ نے دوبارہ دودھ دوہنا شروع کیا یہاں تک کہ برتن لبالب بھر گیا۔ یہ دودھ رحمت عالم ﷺ نے ام معبد کے لیے چھوڑدیا اور آگے روانہ ہوگئے۔
ام معبد ؓ کا بیان ہے کہ جس بکری کا دودھ سرور کونین ﷺ نے دوہا تھا وہ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت تک ہمارے پاس رہی۔ ہم صبح و شام اس کا دودھ دوہتے تھے اوراپنی ضرورتیں بہ خوبی پوری کرتے تھے۔
طبقات ابن سعد کی ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر ام معبد ؓ نے ایک بکری ذبح کرکے سرور عالمﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو کھانا کھلایا اور ناشتہ بھی ساتھ کردیا۔ لیکن دوسرے اہل سیر نے بکری ذبح کرنے کا ذکر نہیں کیا۔
رحمت عالمﷺ کے تشریف لے جانے کے تھوڑی بعد ام معبدؓ کا شوہر اپنے ریوڑ کو لے کر جنگل سے واپس آیا۔ خیمہ میں دودھ سے بھرا ہوا برتن دیکھ کر حیران رہ گیا اور پوچھا : ’’معبد کی ماں یہ دودھ کہاں سے آیا؟‘‘
ام معبد ؓ نے جواب دیا:
خدا کی قسم ایک بابرکت مہمان عزیز کا یہاں ورود ہوا۔ اس نے بکری کو دوہا۔ خود بھی اپنے ساتھیوں سمیت سیر ہوکر دودھ پیا اور یہ دودھ ہمارے لیے بھی چھوڑ گیا‘‘۔
پھر اس نے تفصیل کے ساتھ سارا واقعہ بیان کیا۔
ابو معبد تیم نے کہا ’’ذرا اس کا حلیہ تو بیان کرو‘‘
ام معبد ؓ نے بے ساختہ سید البشر ﷺ کا جو حلیہ مبارک بیان کیا تاریخ نے اسے اپنے صفحات میں محفوظ کرلیا ہے۔ اس نے کہا:
’’ پاکیزہ صورت ، حسین و جمیل ، روشن چہرہ، بدن نہ فربہ نہ نحیف، متناسب الاعضاء، خوبصورت آنکھیں، بال گھنے اور لمبے، سیدھی گردن، آنکھ کی پتلیاں روشن، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگریالے بال، خاموش ہوتے تو نہایت باوقار معلوم ہوتے، تکلم دلنشین، دور سے دیکھنے میں نہایت سجیلے اور دلربا، قریب سے نہایت شیریں و خوبرو، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام الفاظ کی کمی و بیشی سے پاک، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی کی جیسی پروئی ہوئی ( یعنی مسلسل و مربوط اور برمحل) ، میانہ قد کہ کوتاہی سے حقیر نظر نہ آئے ، نہ ایساطویل کہ آنکھ وحشت زدہ ہوجائے، شاخ تازہ و خوش منظر کی مانند عالی قدر ، رفقاء ایسے کہ ہر وقت گردوپیش رہتے ، جب وہ کچھ کہتے ہیں تو بڑی توجہ سے سنتے ہیں اور جب وہ حکم دیتے ہیں تو تعمیل کیلیے لپکتے ہیں ، مخدوم ، مطاع، مالوف نہ ادھوری بات کرنے والے اور نہ ضرورت سے زیادہ بولنے والے‘‘
ابومعبد یہ صفات سن کر بول اٹھا کہ خدا کی قسم یہ تو وہی صاحب قریش تھے جن کا ذکر ہم سنتے رہتے ہیں۔ میں ان سے جاکر ضرور ملوں گا۔
حضرت ام معبدؓکے قبول اسلام کے متعلق دو مختلف روایتیں ہیں ۔ ایک روایت یہ ہے کہ ان کے کانوں میں ’’صاحب قریش‘‘ کی بھنک پہلے سے پڑ چکی تھی۔ چناں چہ جب پہلے پہل ان کی نظر سرور کونینﷺ کے رخ انور پر پڑی تو ان کے دل نے گواہی دی کہ یہ وہی صاحب قریش ہیں جوتوحید کے داعی اور نیکی و ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ بکری کا واقعہ تھا تو انہیں قطعی یقین ہوگیا کہ مہمان عزیز اللہ کے سچے رسول ہیں چناں چہ وہ اسی وقت صدق دل سے مسلمان ہوگئیں اور حضورؐ نے ان کے لیے دعائے خیر و برکت مانگی۔
دوسری روایت یہ ہے کہ حضورؐ کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے کے بعد ابو معبدؓ اور ام معبدؓ دونوں میاں بیوی ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور رحمت عالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سعادت ایمانی سے بہرہ مند ہوئے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکار صحابیاتؓ سے ماخوذ )

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022