آسام میں مذہبی اقلیتوں کی تعریف ضلع کے لحاظ سے کی جانی چاہیے، سی ایم ہمنتا بسوا سرما نے اسمبلی میں کہا

نئی دہلی، مارچ 30: آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے آج کہا کہ ریاست میں مذہبی اقلیتوں کی تعریف ضلع کے لحاظ سے مختلف ہونی چاہیے۔

نیوز 18 کے مطابق سرما نے ریاستی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اگر مذہب، ثقافت اور تعلیم کو خطرہ ہے تو ہندوؤں کو بھی اقلیت قرار دیا جا سکتا ہے۔” انھوں نے کہا کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی اقلیت ہیں۔

چیف منسٹر نے مزید کہا کہ چوں کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، لہذا ان کی حکومت فیصلے کا انتظار کرے گی۔

پی ٹی آئی کے مطابق انھوں نے کہا ’’میں حکومت آسام کو اس کیس میں فریق بنانے کی کوشش کروں گا اور اقلیتوں کی ضلع وار تعریف کرنے پر اپنے خیالات پیش کروں گا۔ مقدمہ مذہبی اقلیت پر ہے، لسانی اقلیت پر نہیں۔‘‘

سپریم کورٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے ملک میں اقلیتوں کی حیثیت سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کر رہی ہے۔

اپنی عرضی میں اپادھیائے نے دلیل دی ہے کہ ہندو دس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اقلیت ہیں، لیکن وہ اقلیتوں کے لیے موجود سرکاری اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ یہ 10 ریاستیں لداخ، میزورم، لکشدیپ، کشمیر، ناگالینڈ، میگھالیہ، اروناچل پردیش، پنجاب اور منی پور ہیں۔

27 مارچ کو مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریاستوں کو کسی کمیونٹی کو اقلیت قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔

اسمبلی میں آج خطاب کے دوران سرما نے کہا کہ آسام کے کئی اضلاع میں مسلم کمیونٹی کی اکثریت ہے۔

پی ٹی آئی کے مطابق سرما نے کہا ’’آسام میں وہ [مسلمان] اب کئی اضلاع میں اقلیت میں نہیں ہیں۔ اب صورت حال اور خطرے کے ادراک کے لحاظ سے ہندو بھی ایک ریاست میں اقلیت بن سکتے ہیں۔‘‘

2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام کی کل 3.12 کروڑ آبادی کا 61.47 فیصد ہندو ہیں۔ پی ٹی آئی نے رپورٹ کیا کہ مسلمان ریاست کی کل آبادی کا 34.22 فیصد ہیں اور کئی اضلاع میں اکثریت میں ہیں۔ عیسائی برادری ریاست میں کل آبادی کا 3.74 فیصد ہے، جب کہ سکھ، بدھ مت اور جین مل کر ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔