عورتوں کو مخصوص دائرے میں مکمل آزادی حاصل

خواتین گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ علمی و سماجی سرگرمیاں بخوبی انجام دے سکتی ہیں

وسیم احمد ،دلی

خواتین کو اللہ نے عظیم صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سماجی کام بھی بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے دین اسلام انہیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی کھلی آزادی دیتا ہے ۔جس طرح ایک مرد کو دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ہر طرح کے کام کرنے کی آزادی ہے اسی طرح اسلامی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے خواتین بھی تمام کام کر سکتی ہیں۔ صلاحیتوں کے استعمال میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں بے شمار ایسی مسلم خواتین گزری ہیں جنہوں نے علمی، سیاسی، سماجی ودیگر میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر کے اسلام کو خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے والے پروپیگنڈوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ البتہ مردوں اور عورتوں کے مزاج، فطرت اور جسمانی ساخت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ذمہ داریاں دونوں میں تقسیم کر دی گئی ہیں۔ ایک کو ذریعہ معاش کا ذمہ دار بنایا گیا ہے تو دوسرے کو گھر اور خاندان کے نظم ونسق کا نگراں۔ پھر ان دونوں کو ایک دوسرے کا معاون مددگار کہا گیا۔ امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے ’ھادیہ‘ ای میگزن کا ایک سال مکمل ہونے پر ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مسلمان خواتین کی بنیادی ذمہ داری ان کا گھر اور خاندان ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گھر میں قید ہو کر رہ جائیں۔ اسلام نے مسلم خواتین کے کردار کو گھر تک محدود نہیں رکھا ہے۔ وہ بنیادی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کو بہتر بنانے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کا رفیق کہا ہے اور دونوں کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ معروف کا حکم دیں اور منکرات سے روکیں۔ اسی طرح قرآن میں حصول علم کی فضیلت، اوامر و نواہی، اقامت دین اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کے متعلق احکام کے مخاطب مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ ہم صحابیات بالخصوص امہات المومنین کا اسوہ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ ایک بڑی تاجر تھیں۔ مکہ کے سارے تاجروں کی جتنی تجارتیں تھیں، ان سب سے زیادہ حضرت خدیجہ ؓ کی تجارت تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی معمولی تاجر نہیں تھیں۔ دور دور تک ان کا کاروبار پھیلا ہوا تھا۔ حضرت عائشہؓ علم میں بہت ممتاز تھیں۔ ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ آدھا علم امت نے ان سے سیکھا ہے۔ حضرت ام سلمیٰ ؓ غیر معمولی مدبر و مشیر تھیں۔ بعض اہم حالات میں بلکہ تاریخ کے مشکل ترین مرحلوں میں ان کے مشوروں سے بہت ہی پیچیدہ گتھیاں سلجھی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم خواتین کا کردار اور ان کا دائرہ عمل بہت وسیع ہے۔ اسلام نے عورتوں پر معاشی سرگرمیوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی، لیکن آزادی دی کہ گھر کی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اگر وہ سماج کے مختلف امور میں رول ادا کرنا چاہیں، اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہیں تو اس کا پورا موقع انہیں حاصل ہے۔
جدید مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب نے عورت پر کاموں کا بوجھ ڈالا ہے اور انہیں گھر سے باہر نکالا ہے جس کی وجہ سے وہ دُہری ذمہ داریوں کے بوجھ سے پریشان ہوگئیں اور استحصال کا شکار بن گئیں۔ اس وقت دنیا کے سامنے ایسی معتدل اور متوازن سرگرمیوں کی ضرورت ہے جو مسلم خواتین کے اندر بیداری لانے کا سبب بنیں اور یہ بتائیں کہ سماج میں ان کا کیا رول ہو سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں مسلم سماج، مسلمان عورتیں اور مسلمان خاندان اسلام دشمن طاقتوں کی جارحیت اور ان کی سازشوں کی شدید زد میں ہیں۔ خود ہمارے ملک میں کئی سالوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے، چاہے وہ طلاق کا مسئلہ ہو یا حجاب کا۔ یہ صورت حال ساری دنیا میں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم خواتین کو اسلامی تعلیمات سے بیگانہ بنا دیں۔ اس کے لیے میڈیا، سوشل میڈیا ان کے لیے بہت ہی اہم آلہ کار اور کارآمد پلیٹ فارم بنے ہوئے ہیں۔ اب میڈیا صرف مواصلات کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ ذہن سازی، لوگوں کے رویے، مزاج اور قدروں پر اثر انداز ہونے کا ایک بہت ہی طاقتور ذریعہ بن گیا ہے۔ اس کا جواب معتدل اور متوازن صحافت کے ساتھ ساتھ علم وتحقیق کا عمل تیز کر کے دیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے کہ علم وتحقیق کو اسلام میں خاص اہمیت دی گئی ہے۔ پہلی وحی اقراء کی آیت حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کے چھ سو برس بعد اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد اللہ زمین پر اپنے آخری نبی کے لیے پیغام بھیجتا ہے تو اس میں کسی عبادت کا حکم نہیں دیتا بلکہ ’ اقرا ‘ یعنی پڑھنے کا حکم دیتا ہے جس میں علم کا ذکر ہے، قلم کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آخری نبی کی قیادت میں ایک نئی دنیا تعمیر ہونے والی ہے۔ ایک نئی تہذیب وجود میں آنے والی ہے۔ اس تعمیر میں دین اور علم دونوں کا رول بنیادی ہو گا۔ اس آیت میں ’ اقرا‘ کا جو حکم ہے یا دیگر آیتوں میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ صرف مردوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے روشن دور میں خواتین نے علوم کے میدان میں غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ اسلامی تاریخ کا دوبارہ احیا کیا جائے۔ اس وقت دنیا میں علمی وفکری کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ خواتین علمی کاموں کے لیے خود کو وقف کریں، اس کے لیے انہیں گھر چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گھر میں رہتے ہوئے گھریلو ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے بھی وہ یہ سارے کام انجام دے سکتی ہیں۔
***

 

***

 جدید مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب نے عورت پر کاموں کا بوجھ ڈالا ہے اور انہیں گھر سے باہر نکالا ہے جس کی وجہ سے وہ دُہری ذمہ داریوں کے بوجھ سے پریشان ہوگئیں اور استحصال کا شکار بن گئیں۔ اس وقت دنیا کے سامنے ایسی معتدل اور متوازن سرگرمیوں کی ضرورت ہے جو مسلم خواتین کے اندر بیداری لانے کا سبب بنیں اور یہ بتائیں کہ سماج میں ان کا کیا رول ہو سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں مسلم سماج، مسلمان عورتیں اور مسلمان خاندان اسلام دشمن طاقتوں کی جارحیت اور ان کی سازشوں کی شدید زد میں ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022