اردو صحافت کے دو سو سال : تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے

نئی نسل کی اردو سے عدم دلچسپی ،وسائل کی کمی اور ناقص معیار جیسے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت

افروز عالم ساحل

’دہلی میں اردو اخباروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، ان میں سے 85 اخباروں کو سرکاری اشتہارات بھی مل رہے ہیں۔ اردو اخبارات کے سرکولیشن کی بات کی جائے تو اب یہ 15 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ باتیں یقیناً اردو جاننے والوں کے لیے فخر سے کم نہیں ہے۔‘ لیکن تصویر کا دوسرا رخ تھوڑا الگ ہے۔ دہلی کے ان 85 اردو اخبارات میں ’جدید ان دنوں‘ سب سے بڑا اخبار ہے۔ لیکن دہلی میں اردو جاننے والوں نے شاید ہی اس اخبار کو کسی اسٹال یا کسی کے گھر پر دیکھا ہو۔ یہی نہیں، اردو کا عالم یہ ہے کہ اردو اخبار کی منڈی کہلانے والے علاقے اوکھلا و فتح پوری میں بھی کل ملا کر صرف 8275 اردو اخبار ہی فروخت ہوتے ہیں۔ یعنی اردو صحافت اب اپنی گراوٹ کے دور میں ہے۔ اردو اخبارات اس قدر حاشیے پر جا چکے ہیں کہ ان کا سرکولیشن اب لائبریریوں سے بھی غائب ہوتا جا رہا ہے۔

اردو صحافت کے حوالے سے ایسے کئی چونکا دینے والے حقائق منظرعام پر آئے ہیں۔ اور ان حقائق کو منظر عام پر لانے کا کام خود ایک اردو صحافی نے کیا ہے۔ اس صحافی نے اردو زبان میں ایک کتاب ’دہلی میں عصری اردو صحافت : تصویر کا دوسرا رخ‘ لکھی ہے۔ دراصل یہ کتاب جے این یو میں کیے گئے ان کے ریسرچ کا نتیجہ ہے۔ اس صحافی کا اصل نام شرافت علی ہے جو اردو صحافت کی دنیا میں شاہد الاسلام کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ شاہد الاسلام ان دنوں روزنامہ ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے نیوز ایڈیٹر ہیں۔

واضح رہے کہ شاہد الاسلام کی کتاب ’دہلی میں عصری اردو صحافت : تصویر کا دوسرا رخ‘ سال ۲۰۱۶ میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نے شائع کیا ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں دارالحکومت دہلی میں ریڈرشپ کے اعداد وشمار کے تعلق سے سوال پر شاہد الاسلام بتاتے ہیں کہ ان اعداد وشمار کا تعلق اصل ریڈرشپ سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق حکومت کی پالیسی سے ہے۔ ۲۰۱۴ کے بعد حکومت کی ایک پالیسی آئی جس میں ان اخبارات کی مزید جانکاری طلب کی گئی تھی جن اخبارات کا سرکولیشن ۴۵ ہزار سے زیادہ تھا۔ اس میں بہت سارے اردو اخبار پھنس رہے تھے۔ دراصل یہ پالیسی، ضابطہ بندی کے نام پر نکیل کسنے والی کوشش ہے۔ ایسے میں جو اخبار ’فائل کاپی‘ نکالنے تک ہی محدود تھے، ان پر اس کا اثر سب سے زیادہ پڑا۔ اس کی زد میں معصوم مرادابادی صاحب کا اخبار بھی آگیا۔ وہ ایک روزنامہ اور ہفت روزہ اخبار نکالتے تھے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اردو اخبارات کی ریڈرشپ کے اعداد وشمار ملک کا کوئی بھی شخص یا ادارہ صحیح طور پر نہیں بتا سکتا ہے۔ پرانے سرکاری اعداد وشمار کو دیکھیں گے تو آپ سر پیٹ لیں گے۔ حالانکہ موجودہ دور حکومت میں صورتحال کافی حد تک بدل چکی ہے۔ اس سے پہلے کی حکومتوں میں کہانی یہ تھی کہ اخباروں نے جو اعداد وشمار پیش کر دیے حکومت انہیں کو مان لیتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے جن اخباروں نے آر این آئی میں یہ بتایا تھا کہ ان کے اخبار کی روزانہ ۷۵ ہزار کاپیاں شائع ہو رہی ہیں، وہی اب ۲۵ ہزار سرکولیشن بتانے کی بھی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔

شاہد الاسلام کہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی منظرنامہ میں اردو اخبارات کی اشاعت گھاٹے کا کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر کے اشتہارات چونکہ عمومی طور پر اردو اخبارات کو نہیں ملتے یا کم ملتے ہیں، اشتہارات کے حصول کے معاملہ میں حکومت کے اشتہارات پر ان کا زیادہ انحصار ہوا کرتا ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے جو اشتہارات ملتے تھے وہ اب تقریباً نہیں کے برابر ہو گئے ہیں۔ ڈی اے وی پی نے اشتہار تقریباً بند کر دیا ہے۔ انہوں نے کاغذوں میں اتنا الجھا دیا ہے کہ اردو اخباروں کے مالکین ان شرائط کو ہی پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ کارپوریٹ کے اخباروں کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ ان کو پرائیویٹ سیکٹر سے بھی اشتہارات مل جاتے ہیں، لیکن عام اردو کے اخباروں کے سامنے وجود وبقا کا مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اخبار کو کیسے چلائیں اور کیسے زندہ رکھیں۔

شاہد الاسلام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اردو اخباروں کے عام قارئین کی تعداد کافی کم ہو چکی ہے۔ کوویڈ کے بعد حالات مزید بدل گئے ہیں۔ نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والی عمومی مسلم آبادی، جس کا دعویٰ ہے کہ مادری زبان اردو ہے، اس کی اکثریت بھی اُردو اخبارات شوق سے خریدتی ہے نہ پڑھتی ہے۔ ان دنوں اردو اخبارات کی ریڈرشپ کا معاملہ یہ ہے کہ اردو بولنے والوں میں چند فیصد لوگ ہی ایسے ہیں جو اردو اخبار کو اخبار سمجھ کر خریدتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسی اخبار کو خریدتے جس میں ان کی خبر یا تصویر لگی ہوتی ہے۔ یا پھر مدرسے کے وہ فارغین جن کو اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں آتی، وہ خود کو اپڈیٹ رکھنے کے لیے اردو اخبار خریدتے ہیں۔

اردو خبار پڑھنے والے قارئین کی تعداد میں کمی کی وجوہ کے سوال پر شاہد الاسلام کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اولاً نئی نسل اردو سے بہت زیادہ رغبت نہیں رکھتی، ثانیاً اردو اخبارات کا مزاج وانداز بھی ایسا نہیں ہے جو عام قارئین کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ اردو کے باشعور قاری چاہتے ہیں کہ اردو اخبارات انہیں انگریزی اخبارات کے معیار کے برابر نہیں تو کم از کم تھوڑے بہت معیار کے تو ملیں۔ وہ ایسے ہوں جن کو دیکھ کر پڑھنے کو دل چاہے اور پڑھنے کے بعد کوفت نہ ہو خبر ہو تو تازہ معیاری اور معتبر ہو، مضمون ہو تو اس سے معلومات میں اضافہ ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ جو لوگ اردو کے اخبارات ورسائل نکالتے ہیں وہ عزم وحوصلے، محنت وجانفشانی اور صلاحیت میں کسی سے کم تو نہیں ہوتے لیکن ان کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہوتے ہیں ان کے پاس اپنا جیسا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ نتیجتاً وہ اردو داں طبقہ جس کا اردو سے کوئی مفاد وابستہ نہیں، خبروں اور حالات حاضرہ سے واقفیت کے لیے عموماً اردو اخبار نہیں خریدتا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک کڑوی حقیقت یہ بھی ہے کہ زیادہ تر اردو اخبارات مفادات خصوصی کے تحفظ کے شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ خبروں کی درجہ بندی اور پیشکش میں محدود نظریوں پر کاربند رہنے والی ادا غالباً عام قارئین کو اردو اخباروں کی جانب مائل نہیں کر پاتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عوامی دلچسپیوں والا مواد بسا اوقات پس پشت چلا جاتا ہے یا پھر انہیں اردو اخباروں میں نمایاں اہمیت نہیں دی جاتی، اس کے برخلاف ہندوستانی مسلمانوں کے غم میں آنسو بہانے والی ملی تنظیموں کی خبریں بہ اہتمام شائع کی جاتی ہیں، جن کے ذریعہ اکثر ’زبانی جمع وخرچ‘ کو راہ دیتے ہوئے خود کو مسلم دوست قرار دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

شاہد الاسلام مزید بتاتے ہیں کہ اردو اخبارات میں پیشہ واریت کی کمی تو ہے ہی، اسٹاف کی کمی بھی بہت زیادہ ہے۔ کئی اخبار تو ایسے ہیں جہاں محض تین چار لوگ ہی کام کرتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو میں اچھا لکھنے والوں کی بھی کمی ہے۔ اور جو اچھا لکھنے والے ہیں وہ مفت میں نہیں لکھیں گے۔ انہیں ان کا متوقع معاوضہ اردو اخبار والے دیتے۔ ایسے میں جو مضامین بھی مفت میں مل جائیں انہیں مال غنیمت سمجھ کر شائع کر دیتے ہیں۔ یہی نہیں، اس بلند صحافت کا عالم یہ ہے کہ دہلی کے بیشتر اردو اخبار پاکستان کی ویب سائٹس سے مضامین چرا کر بغیر کسی حوالہ کے اپنے اخبار میں شائع کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام اردو اخبارات نے مختلف ملی رہنماؤں کو گود لے رکھا ہے یا یوں کہیے کہ ملی رہنماؤں نے اخبارات کو گود لے رکھا ہے۔‘

دارالحکومت دہلی میں اردو صحافت کے چہرے کو لے کر شاہد الاسلام کی یہ باتیں اور ان کی کتاب بے حد حیران کرنے والی اور تشویش ناک ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر جیسے مشہور نامہ نگاروں نے اردو صحافت کو نئی بلندیاں دی ہوں اس ملک میں اردو صحافت کی یہ حالت واقعی افسوسناک ہے۔

شاہد الاسلام ایک نوجوان صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بہار کے مونگیر سے کیا اور اب دہلی کی صحافت میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں سائنسی پس منظر رکھنے والا طالب علم تھا۔ مجھے اردو اچھی طرح نہیں آتی تھی، اس کے برعکس میری ہندی کافی اچھی تھی۔ لیکن میرے چچا نے مجھے زبردستی اردو سے بی اے کرنے کا مشورہ دیا۔ 1995 میں میں نے اردو آنرس میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی مونگیر سے قومی تنظیم کے لیے لکھنا شروع کیا۔ کافی مشکل سے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو زبان میں ایک مضمون لکھ پایا جسے قومی تنظیم کے ایڈیٹر فرید صاحب نے ایڈٹ کر کے شائع کیا۔ اس سے مجھے بہت حوصلہ ملا اور یہیں سے میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ صحافت میرا پہلا شوق ہے۔ مونگیر کے بعد پٹنہ اور پھر رانچی میں قومی تنظیم کے لیے کام کرکے صحافت کی باریکیوں کو سمجھا۔ 2006 میں دہلی کے ہندوستان ایکسپریس میں شمولیت اختیار کی اور اب تک یہیں ہوں۔ اس دوران میں نے جے این یو سے ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کر لی ہے۔ میری یہ کتاب ایم فل میں کی گئی تحقیق کا نتیجہ ہے۔

شاہد الاسلام کے پاس مرکزی دھارے کی صحافت کے کارپوریٹ کلچر میں گھل مل کر آرام سے زندگی گزارنے کا راستہ بھی تھا، مگر انہوں نے ایک مقصد کے تحت اردو صحافت کے مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ یہ مقصد اردو صحافت کو دوبارہ اس کی کھوئی ہوئی بلندیاں واپس دلانے کا ہے۔ یہ مقصد نئی نسل کے نوجوان صحافیوں کو ان کے راستے میں آنے والی مشکلات سے آگاہ کرانے کا ہے اور ساتھ ہی اس شعبہ سے وابستہ موثر اور ذمہ دار لوگوں کی آنکھیں کھلوانے کا ہے۔ امید ہے کہ شاہد الاسلام کی یہ کاوش ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی اور اردو صحافت ان کی کتاب کو بطور آئینہ استعمال کرے گی۔

***