نئی قومی تعلیمی پالیسی اور اردو کا المیہ

اردو اور عربی کا پالیسی میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ سہ لسانی فارمولامیں مقبول عام زبان نظر انداز !

محمدمحب الحق

 

پروفیسر شعبہ سیاسیات ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
زبان صرف ترسیل کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ کسی فرد یا گروہ کی شناخت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ زبان کا تعلق کسی خاص قوم یا مذہب سے نہیں ہوتا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر زبان کسی خاص تہذیب و ثقافت، جغرافیائی حدود اور تاریخی پس منظر کی نمائندگی کرتی ہے۔ لہٰذا کسی زبان میں رائج تشبیہات و تلمیحات استعارے اشارے و کنایے اور ضرب الامثال وغیرہ کی صحیح تفہیم اس کے تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی پس منظر میں ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبانوں کے عروج و زوال کی داستان قوموں کے عروج و زوال سے جڑی ہوتی ہے۔ ریٹا مائے براؤن کے مطابق ’’زبان کسی تہذیب کا روڈ میاپ ہوتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ اس کے پروردہ کہاں سے وارد ہوئے اور کس جانب گامزن ہیں‘‘۔”Language is the road map of a culture. It tells you where its people came from and where they are going”
اردو زبان میں بین العلومی تحقیق (Inter-disciplinary Research) کے فقدان کے سبب زبانوں کے فروغ اور نشو ونما میں سیاسی اقتدار (Political power) اور مملکت/ ریاست کے رول پر خاطر خواہ مواد دستیاب نہیں ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں ہمیں سیاست میں دلچسپی ہو یا نہ ہو سیاست کو ہم میں دلچسپی ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں مملکتوں کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہے جو اپنے جغرافیائی حدود میں کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے کے لیے خود مختار ہیں۔ ایسی حالت میں سماج کے تمام اداروں پر مملکت/ حکومت کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی ملک کا تعلیمی نظام، درس وتدریس کی زبان اور طریقہ کار کا فیصلہ مملکت کرتی ہے جس کے دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کو اس تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی
۲۹؍ جولائی ۲۰۲۰ کو مرکزی کابینہ نے نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کو منظوری دے دی اور ساتھ ہی ساتھ چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل اس تعلیمی پالیسی کی تلخیص بھی جاری کر دی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’قدیم اور ابدی ہندوستانی علوم وافکار اس پالیسی کے وضع کرنے میں مشعل راہ رہے ہیں‘‘۔
"The rich heritage of ancient and eternal Indian knowledge and thought have been a guiding light for this policy”
نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کا بغور مطالعہ کریں تو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ایک نظریاتی تعلیمی پالیسی ہے۔ جس کے بہت ہی دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ لیکن افسوس کہ اردو زبان کے سادہ لوح دانشور اور اخباروں کے کالم نگار پالیسی میں شامل ذیلی عنوان ’’کثیر اللسانیت اور زبان کی قوت‘‘ (Multi lingualism and power of language)کے تحت بظاہر مادری زبانوں کے فروغ پر مسرت کا اظہار کرتے نظر آئے۔حالاں کہ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خالص ہندوستانی زبان ہونے کے باوجود پوری تلخیص میں کہیں بھی اردو کا ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے اس امر سے متعلق لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ ہائر ایجوکیشن سکریٹری امیت کھرے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجوزہ تعلیمی پالیسی کے پیراگراف ٢٢.٦ ، ٤.١٢ اور ٢٢.١٨ میں دستور اساسی کے آغاز میں شیڈول میں شامل تمام زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں اردو بھی شامل ہے۔
’’ انہوں نے مزید کہا کہ سازش کے تحت یہ بات بھی چھپائی جا رہی ہے کہ ان پیراگراف میں ہندی کا بھی ذکر نہیں ہے بلکہ آٹھویں شیڈول کی تمام زبانوں کا ذکر ہے۔ حالاں کہ امیت کھرے کی اس بات سے متفق ہونا مشکل ہے کیوں کہ ہندی ملک کی سرکاری زبان ہے اور اس کی اشاعت و ترقی کے لیے حکومت خصوصی طور پر کوشش کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل تقریباً تمام زبانیں مادری زبان کی حیثیت سے اندراج کرانے والے لوگوں کی شرح کے اعتبار سے منفی رجحان پیش کر رہی ہیں وہیں ہندی بولنے والوں کی تعداد میں نہایت ہی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ۱۹۷۱ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ہندی ٣٦.٩٩ فیصد لوگوں کی مادری زبان تھی۔ جو ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں بڑھ کر ٤٣.٦٣ لوگوں کی مادری زبان ہو گئی۔ ہندی اور انگریزی کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب ماہرین لسانیات ملک کی دوسری زبانوں کے مستقبل کو لے کر تشویش کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان کی قابلِ فخر کثیر اللسانیت (Linguistic diversity) کو خطرہ لاحق ہے اور اسی طرح اگر دوسری زبانوں کا زوال ہوتا رہا تو بہت جلد ملک دو لسانی ہو کر رہ جائے گا۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 اور مادری زبانیں
قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ میں یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ حکومت نے مادری زبان کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات کہی ہے کہ بچے کے ذہن میں نئے افکار و خیالات دوسری زبانوں کی نسبت مادری زبان میں زیادہ بہتر طریقے سے آتے ہیں۔ واضح طور پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جہاں تک ممکن ہے پانچویں جماعت تک لیکن ترجیحی طور پر آٹھویں جماعت یا اس سے آگے تک کی تعلیم مادری زبان / گھریلو زبان/ مقامی زبان/ علاقائی زبان میں ہوگی‘‘۔(پیرا۔٤.١١) "Wherever possible, the medium of instructions until at least Grade 5, but preferably till Grade 8 and beyond, will be the home language/ mother tonguage/ local language/ regional language.”
مادری زبانوں کے سلسلے میں حکومت کی یہ پالیسی بظاہر ان ہندوستانی زبانوں کے حق میں نیک شگون ہے جو پہلے تو استعماری استبداد کا شکار ہوئیں اور اس کے بعد انہیں حکومت کی مسلسل بے حسی کا سامنا کرنا پڑا۔ پرائمری ایجوکیشن کے لیے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا یقیناً قابلِ ستائش ہے۔ لیکن اوپر کے پیراگراف میں مادری زبان کے ساتھ تین اور اصطلاحات گھریلو زبان (Home language)، مقامی زبان (Local language)، اور علاقائی زبان (Regional language) استعمال کی گئی ہیں جس کی وجہ سے کنفیوژن اور تضاد پیدا ہوتا ہے۔ یہاں ایک پریشان کن مرحلہ یہ ہے کہ ان تینوں اصطلاحات کی وضاحت مشکل ہے۔ کون سی زبان گھریلو، مقامی اور علاقائی ہے۔ اس کا تعین کن بنیادوں پر ہوگا۔ مادری زبان اور ان تینوں زبانوں میں یکسانیت یا تضاد پائے جانے کی صورت میں ابتدائی تعلیم کی زبان کیا ہوگی؟ لکھنؤ، دہلی، مراد آباد، حیدر آباد، رامپور، بنگلور، کلکتہ، ممبئی وغیرہ جیسے شہروں کے باشندوں کی مادری گھریلو، مقامی اور علاقائی زبان کا تعین کیسے ہوگا؟ اتر پردیش، بہار، جھار کھنڈ، مہاراشٹر، تلنگانہ، مدھیہ پردیش وغیرہ جیسی ریاستوں میں شہریوں کی مادری، گھریلو، مقامی اور علاقائی زبانوں کا تعین کس طرح کیا جائے گا؟ ظاہر سی بات ہے ان باتوں کا تعین اپنے آپ میں ایک دشوار گزار عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ مادری زبان کے ساتھ ان اصطلاحات کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ایسا دانستہ طور پر یہ کہا گیا ہے جس کے پیچھے کچھ خاص اغراض و مقاصد ہیں؟ حکومت کو ان باتوں کی وضاحت کرنی چاہیے۔
جن طلبہ و طالبات کی مادری زبان اردو ہے ان کے لیے یہ فارمولا پریشان کن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طالب علم سہ لسانی فارمولے کے تحت جب تین زبانوں کا انتخاب کرے گا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ انگریزی عالَم کاری (Globalization) کے اس دور میں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی وجہ سے طالب علم کی پہلی پسند ہوگی۔ ہندی چوں کہ ملک کی سرکاری زبان ہے جس کے فروغ کے لیے مرکزی حکومت اور بہت ساری صوبائی حکومتیں مسلسل کوشش کرتی رہتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہندی ملک میں ترسیل کا ذریعہ (Lingua Franca) کی حیثیت حاصل کرتی جا رہی ہے لہٰذا طالب علم اس کی افادیت کے پیش نظر ہندی کا انتخاب کرنا چاہے گا۔ ایسی حالت میں تیسری زبان کا مسئلہ اہم ہوگا۔ تیسری زبان کے طور پر طالب علم ظاہر سی بات ہے اپنے صوبے کی سرکاری زبان کو ترجیح دے گا مثلاً مغربی بنگال میں رہنے والا طالب علم بنگالی تمل ناڈو میں رہنے والا تمل، کرناٹک میں رہنے والا کنڑ وغیرہ منتخب کرنا چاہے گا۔ واضح ہو کہ فی الوقت کسی بھی صوبے کی پہلی سرکاری زبان اردو نہیں ہے۔ ایسی حالت میں مادری زبان کی حیثیت سے اردو کا فروغ بہت مشکل ہوگا۔ جن صوبوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے ان میں اردو کی کیا حالت ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔
چوں کہ سہ لسانی فارمولے کا اطلاق سرکاری اور غیر سرکاری یا نجی دونوں طرح کے اسکولوں پر ہوگا۔ (پیرا۔٤.١١) اس لیے وہ تعلیمی ادارے جو اردو کے ساتھ فارسی اور عربی کی تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ انہیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس تعلیمی پالیسی میں جو سہ لسانی فار مولا پیش کیا گیا ہے اس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سہ لسانی فارمولے کے انتخاب میں صوبوں کو آزادی دی جائے گی اور کسی بھی صوبے پر کوئی بھی زبان جبراً تھوپی نہیں جائے گی۔ سہ لسانی فارمولے کے تعین یا انتخاب میں صوبوں، علاقوں اور یقیناً طلبہ کی پسند کا خیال رکھا جائے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سہ لسانی فار مولے کے انتخاب کے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ ان میں دو زبانیں ہندوستانی ہوں۔ (پیرا۔٤.١٣) "The three language farmula will continue to be implemented ……. there will be a greater flexibility in the three language formula and no language will be imposed on any state. The three languages learned by children will be the choices of states, regions, and of course the students themselves, so long as at least two of the three languages are native to india.”
(para 4.03)
مندرجہ بالا سطروں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں صوبائی حکومتوں کا بہت اہم کردار ہو گا اور مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کو درس وتدریس کی زبان کے تعین اور سہ لسانی فارمولا کے نفاذ کے سلسلے میں چند اہم شرائط کے ساتھ خود مختاری عطا کرتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ اس سے علاقائی اور مقامی زبانوں کا فروغ ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن اردو کا مسئلہ ملک کی دوسری زبانوں سے مختلف ہے کیوں کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس کے بولنے والے کسی ایک ریاست، خطے یا علاقے میں نہیں رہتے بلکہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں اردو کے سلسلے میں مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی مخصوص پالیسی کی ضرورت تھی۔ لیکن خصوصی پالیسی تو کُجا قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کے دستاویز میں اردو کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی اور کلاسیکی زبانیں
اس پالیسی میں کلاسیکی زبانوں کی بقا اور فروغ کی بات کی گئی ہے۔ پیرا ٤.١٨ میں باضابطہ ملک کی کلاسیکی زبانوں میں تمل، تلگو، کنڑ، ملیالم، اڑیا اور اس کے ساتھ ساتھ پالی، فارسی اور پراکرت کا ذکر کیا گیا ہے۔ سنسکرت کے علاوہ متذکرہ زبانیں بھی اسکولوں میں طلبہ کو مہیا کرائی جائیں گی اور ان زبانوں کے فروغ کی کوشش کی جائے گی۔ فارسی کو ملک کی کلاسیکی زبانوں کی فہرست میں شامل کرنا یقیناً قابلِ ستائش ہے۔
غیر ملکی زبانوں میں عربی کا شامل نہ ہونا
قومی تعلیمی پالیسی کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ غیر ملکی زبانوں کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے ثانوی سطح پر طلبہ کے لیے انہیں مہیا کرایا گیا ہے۔ پیرا ٤.٢٠ میں کہا گیا ہے۔ ’’ہندوستانی زبانوں اور انگریزی کے علاوہ غیر ملکی زبانیں جیسے کوریائی، جاپانی، تھائی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، پُرتگالی اور روسی بھی ثانوی سطح پر طلبہ کو مہیا کرائی جائیں گی۔‘‘” In addition to high quality offerings in Indian languages and English, foregion languages, such as Korean, Japanese, Thai, French, German, Spanish, Portuguese, and Russian will able be offered at the secondary level……” (para 4.20)
مندرجہ بالا سطروں میں جہاں غیر ملکی زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں پُرتگالی کے بعد اور روسی تحریر ہے۔ روس کے بعد وغیرہ تحریر نہیں ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں صرف یہی زبانیں دستیاب ہوں گی۔ قابل غور ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں عربی کا ذکر نہیں ہے جب کہ عربی دنیا کی پانچ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ عربی کا اس طرح نظر انداز کر دیا جانا سمجھ سے باہر ہے۔ عربی دنیا کے بیس سے زیادہ ممالک کی زبان ہے اور ساتھ ہی ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد عرب ممالک میں ملازمت کرتی ہے جن کا ملک کی معیشت میں بڑا اہم رول ہے۔ علاوہ ازیں عرب دنیا سے ہندوستان کے قدیم دور سے تعلقات رہے ہیں۔ اس لیے عربی کو اس طرح نظر انداز کرنا ملک کے قومی مفاد (National Interest) میں نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ اردو اور عربی دو ایسی زبانیں ہیں جن کا قومی تعلیمی پالیسی میں کہیں ذکر نہیں ہے حالاں کہ ملک کے تناظر میں ان دونوں زبانوں کی بڑی
اہمیت ہے۔
دستورِ ہند اور زبانیں
دستورِ اساسی کے حصہ / باب XVII میں دفعہ ٣٤٣ سے ٣٥١ تک سرکاری زبان کا ذکر ہے۔ دفعہ (۱) ٣٤٣ کے تحت ہندی دیوناگری رسم الخط کے ساتھ ملک کی سرکاری زبان ہوگی۔ دفعہ (۲) ٣٤٣ کے مطابق انگریزی دستورِ اساسی کے نافذ ہونے کے پندرہ سال تک یونین میں یعنی (مرکزی حکومت کی سطح پر) استعمال ہوتی رہے گی۔ بعد ازیں ١٩٦٣ میں Official Language Act بنایا گیا جس کے تحت ہندی اور انگریزی دونوں کو ملک کی سرکاری زبانوں کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ قابلِ غور ہے کہ دستورِ اساسی نے کسی بھی زبان کو قومی زبان (National Language) کا درجہ نہیں دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ریاستوں کو آزادی دی گئی ہے کہ وہ ریاستی سطح پر سرکاری زبان / زبانوں کا تعین خود کریں۔
دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول (Eighth Schedule) میں۲۲ زبانیں شامل ہیں۔ یہ بائیس زبانیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱- ہندی ۲- بنگالی ۳- مراٹھی ٤- تلگو ۵- تمل ٦- گجراتی ۷- اردو ۸- کنڑ ۹- اڑیا ۱۰- ملیالم ۱۱- پنجابی ۱۲- آسامی ۱۳- میتھلی ١٤- سنتالی ۱۵- کشمیری ١٦- نیپالی ۱۷- سندھی ۱۸- ڈوگری ۱۹- کونکنی ۲۰- منی پوری ۲۱- بوڈو ۲۲- سنسکرت
مردم شماری ٢٠١١ اور ہندوستان میں زبانوں کا منظر نامہ
ہندوستان میں ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی روشنی میں زبانوں سے متعلق مندرجہ ذیل اعداد وشمار قابل غور ہیں۔
٭ ہندی ملک کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی کل تعداد ٥٢،٨٣،٤٧،١٩٣ ہے جو ملک کی آبادی کا ٤٣.٦٣ فیصد ہے۔
٭ ۱۹۷۱ کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی کی ٣٦.٩٩ فیصد لوگوں کی مادری زبان ہندی تھی جس میں ۲۰۱۱ تک تقریباً ۷ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دستور ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل ۲۲ زبانوں میں کسی بھی زبان میں بولنے والوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا ہے۔ بلکہ گجراتی، کشمیری اور منی پوری کے علاوہ آٹھویں شیڈول کی تمام زبانوں کے بولنے والوں کی شرح میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔
٭ شہریوں کی مادری زبان کی حیثیت سے ہندی کے بعد بنگالی ملک کی دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو ملک کی 8.03فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔
٭ مراٹھی 6.86%، تیلگو 6.70%، تامل 5.70%، گجراتی 4.58%شہریوں کی مادری زبان ہونے کے ساتھ بتدریج تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے مقام پر ہیں۔
مردم شماری ۲۰۱۱ اور ملک میں اردو کا منظر نامہ
۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ملک میں اردو کو بحیثیت مادری زبان کے اندراج کرانے والوں کی کل تعداد ٥،٠٧،٧٢،٦٣١ ہے جو ملک کی کل آبادی کا 4.19فیصدہے۔ اس طرح مردم شماری میں شہریوں کی مادری زبان کی حیثیت سے اندراج ہونے والی زبانوں میں اردو کا مقام ساتواں ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ۲۰۰۱ کی مردم شماری میں اردو کو مادری زبان کی حیثیت درج کرانے والوں کی کل تعداد ٥،١٥،٣٦،١١١ تھی جو شرح کے اعتبار سے ملک کی کل آبادی کا 5.01فیصد تھا۔ آٹھویں شیڈول میں شامل کسی بھی زبان میں اس قدر غیر معمولی گراوٹ نہیں دیکھی گئی ہے۔ شیڈول میں شامل زبانوں میں صرف اردو اور کونکنی ایسی زبانیں ہیں جن کے بولنے والوں کی شرح، آبادی بڑھنے کے ساتھ بڑھی نہیں ہے بلکہ کم ہوئی ہے۔
شمس الرحمن علوی نے اپنے مضمون ("Census Data on language reveals a surprise about urdu”, The wire 6 July 2018) میں ایک چونکانے والے نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی کل آبادی 3.85کروڑ ہے لیکن یہاں صرف 1.08کروڑ لوگوں نے اردو کو اپنی مادری زبان کی حیثیت سے اندراج کرایا ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ صرف مسلمان ہی اردو کو مادری زبان کی حیثیت سے درج کراتے ہیں تو بھی اتر پردیش کے صرف 28فیصد مسلمانوں نے اردو کو اپنی مادری زبان بتایا ہے۔
اس سلسلے میں راقم کا ماننا یہ ہے کہ مردم شماری کے وقت لوگوں میں اردو کو مادری زبان کی حیثیت سے درج کرانے کے سلسلے میں بیداری نہ ہونے، اردو اور ہندی میں فرق نہ کرنے اور ساتھ ہی ساتھ مردم شماری کے وقت گھر گھر جا کر اطلاعات جمع کرنے والے کارندوں/کارکنوں کی لسانی عصبیت اور اردو دشمنی کی وجہ سے اتر پردیش میں اردو کو صرف 28فیصد لوگوں کی مادری زبان کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔ اگر اردو سے متعلق بیداری مہم نہیں چلائی گئی تو ۲۰۲۱ کی مردم شماری میں یہ تعداد اور کم ہو سکتی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ دیہاتوں میں اور بعض اوقات شہری علاقوں میں بھی جو لوگ اردو یا ہندوستانی کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں، مردم شماری کے وقت وہ یہ سمجھ کر کہ اگر انگریزی نہیں بولتے تو ہندی ہی بولتے ہیں۔ لہٰذا وہ مادری زبان میں اردو کی جگہ ہندی درج کرادیتے ہیں۔ اردو اور ہندی میں مماثلت اور لکھنے میں دیوناگری رسم الخط کا استعمال کرنے کی وجہ سے بھی اردو کی جگہ ہندی درج کرادیا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ’’میرے محبوب ‘‘، ’’آرزو‘‘، ’’نکاح‘‘ اور ’’مغل اعظم‘‘ جیسی اردو فلموں کو ہندی فلم کہا جائے گا تو پھر اردو کو ہندی کہنے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے۔ اس تجزیے کا مقصد اردو اور ہندی میں پائی جانے والی مماثلت اور ان دونوں زبانوں کے درمیان گہرے رشتے کو اجاگر کرنا ہے اور اس بات پر زور دینا ہے کہ ان دونوں زبانوں کا فرق اور امتیاز واضح کرنا رسم الخط کے بغیر بہت مشکل ہے۔ اسی لیے ان دونوں زبانوں کی خوبصورتی اور امتیاز کو قائم رکھنے کے لیے ان دونوں زبانوں کے اپنے اپنے رسم الخط کو بھی قائم رکھنا ضروری ہے۔
آج اردو ملک میں قائم مدارس اسلامیہ اور کچھ صوبوں میں موجود اردو میڈیم اسکولوں کی وجہ سے ہندوستان کی ۱۰ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف ٪٤ طالب علم مدارس میں پڑھتے ہیں۔ ایسی حالت میں اردو کے مستقبل سے متعلق عصری تعلیمی اداروں اور اردو کی روٹی کھانے والے دانشوروں کو فکر مند ہونا ہوگا اور اسے قائم رکھنے کی سعی کرنا ہوگا۔ اردو کی مقبولیت کا پیمانہ جو لوگ بالی ووڈ میں اس کے استعمال، مشاعروں اور ریختہ کی کامیابی کو بتاتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ زبانیں وجود میں آتی ہیں اور مختلف اسباب کی بنیاد پر یا تو کسی دوسری غالب زبان میں ضم ہو جاتی ہیں یا پھر حاشیے پر چلی جاتی ہیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ پالی اور پراکرت اس ملک کی مقبول ترین زبانیں تھیں جو آج اپنا وجود تقریباً کھو چکی ہیں۔گنیش دیوی (Ganesh Devi) ملک کی ممتاز ماہر لسانیات ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۰ میں (People’s Linguistic Survey of India) کرتے وقت ٧٨٠ زبانوں کی فہرست تیار کی اور یہ انکشاف کیا کہ ملک کی تقریباً ٦٠٠ زبانیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔ گزشتہ ٦٠ سالوں میں (۲۰۱۰ کے سروے کے مطابق) ۲۵۰ زبانیں پوری طرح ختم ہو چکی ہیں۔ یقیناً اردو، بنگالی، تمل، تیلگو، وغیرہ بڑی زبانیں ختم ہونے کے خطرے کا سامنا کرنے والی زبانوں میں شامل نہیں ہیں لیکن ان زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا تشویش کا باعث ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبانوں کی مقبولیت اور عروج کا تعلق اس کے بولنے والوں کے سیاسی غلبے سے بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ہندی اور انگریزی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو اس تناظر میں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ میں جو سہ لسانی فارمولا پیش کیا گیا ہے اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ ملک کی امتیازی کثیر اللسانیت (Multilingual diversity) کو قائم رکھتے ہوئے ہی سہ لسانی فار مولے کا نفاذ ہونا چاہیے۔
محبانِ اردو کو خصوصی طور پر بیدار مغزی کا ثبوت دینا ہوگا۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دستور کے آٹھویں شیڈول میں شامل تقریباً تمام زبانوں کی جغرافیائی حدود ہیں یا ان کے بولنے والے کچھ خاص خطوں میں موجود ہیں۔ لیکن اردو ایک قومی زبان کی حیثیت رکھتی ہے جس کے بولنے والے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں/صوبوں کی تشکیل کی گئی تو اردو کی بنیاد پر کوئی صوبہ/ریاست قائم نہیں کی گئی۔ لہٰذا آج کسی بھی ریاست کی پہلی سرکاری زبان اردو نہیں ہے۔ ایسی حالت میں قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کے تحت سہ لسانی فارمولا اردو کو نظر انداز کرتا محسوس ہو رہا ہے۔ اردو کے فروغ کی ذمہ داری ریاستوں پر ڈالنے کے بجائے موجودہ مرکزی حکومت کو اردو کے سلسلے میں خصوصی پالیسی اور ہدایات جاری کرنا چاہیے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبانوں کی مقبولیت اور عروج کا تعلق اس کے بولنے والوں کے سیاسی غلبے سے بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ہندی اور انگریزی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو اس تناظر میں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ میں جو سہ لسانی فارمولا پیش کیا گیا ہے اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020