مولانا رفیق قاسمی مقصد کو مسلک پر ترجیح کا پیغام دے گئے

تحریک اسلامی کے لیے گراں قدر خدمات ۔ مختلف شخصیتوں کا خراج

مولانا رفیق احمد قاسمی رکن مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند 6 جون 2020 ء کو انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ عز وجل مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ مولانا جماعت اسلامی ہند کے صف اوّل کے قائدین میں سے تھے۔ دین اسلام کی سربلندی اور ملت اسلامیہ کی سرخروئی کے لیے آپ کی تڑپ اور جد وجہد مثالی تھی۔ مولانا نے خاص طور معاشرے کی اصلاح اور ملی اتحاد وبین مذہبی یکجہتی کے محاذ پر خوب کام کیا اور اپنی کوششوں کے اثرات چھوڑے ہیں۔ مولانا کے انتقال کے ساتھ ہی دفتر دعوت کو تعزیت نامے اور مضامین ملنےشروع ہوگئے۔ چونکہ ان سب کا یہاں احاطہ ممکن نہیں ہے اس لیے اختصار کے ساتھ کچھ حصے پیش ہیں۔
محمد رضی الرحمن قاسمی (ینبع ، مدینہ طیبہ) رقم طراز ہیں:
مولانا رفیق قاسمی رحمہ اللہ سے میری ملاقاتیں المعہد الدینی الاسلامی، حیدرآباد میں ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی ایک آمد میں وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر سا خطاب کیا تھا؛ البتہ ایک بار مفصل توسیعی خطبہ دیا تھا، جس میں بنیادی طور پر اسی موضوع پر گفتگو کی تھی کہ مختلف مکاتب فکر، جماعتوں اور اداروں کو باہمی افکار ونظریات اور طریقۂ کار میں اختلاف کے باوجود کس طرح متفق رہنا چاہیے اور ان سے وابستہ افراد کو کس طرح امت کو متفق رکھنے کی سعی کرنی چاہیے۔ کسی قدر مفصل لیکچر کے بعد سوال وجواب کا بھی طویل سیشن رہا اور بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔
مولانا رفیق قاسمی رحمہ اللہ کی جن باتوں نے میرے دل پر گہرے نقش ثبت کیے، ان میں ایک ان کا مرتب اسلوب گفتگو تھا کہ لیکچر میں ساری باتیں ایک دوسرے سے مربوط اور لڑی میں پروئی جیسی تھیں، مرتب گفتگو محاضر کی بات کو واضح طور پر سامعین تک پہونچاتی ہے اور بنیادی نکات کو یاد رکھنا سامعین کے لیے آسان ہوتا ہے اور اس پوری گفتگو کے پیچھے محاضر کا جو نظریہ اور ہدف ہوتا ہے، وہ بھی سامعین تک بے غبار پہنچتا ہے۔ مولانا قاسمی رحمہ اللہ کی دوسری بات جو دل ونگاہ کو بہت بھائی وہ آپ کی جامہ زیبی اور نستعلیق شخصیت تھی، اللہ عز وجل نے وجیہ وشکیل بنایا تھا، اس پر لباس کی ان کی خوش ذوقی مستزاد، پہلی نگاہ پڑتے ہی جاذبیت محسوس ہوئی اور ساتھ میں کچھ وقت گزارنے پر ان کی با وقار شخصیت نے دل میں اس رنگ کو اور گہرا کیا۔ تیسری بات جو آج بھی دل پر نقش ہے وہ وقار کے ساتھ ان کی ظرافت و بذلہ سنجی تھی، اتنے سنجیدہ موضوع پر مفصل محاضرہ اور طویل سوال وجواب کے سیشن کے باوجود کسی قسم کی اکتاہٹ نہیں محسوس ہوئی کہ دوران گفتگو گاہے گاہے مفید باتیں بھی اس طرح ہنستے مسکراتے جملوں میں کہہ گئے کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی؛ لیکن ساتھ ہی فکر کے ایک نئے در کو بھی وا کر گئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں، جس سیاق وسباق میں یہ سوال میں نے پوچھا تھا، انہوں نے احترام کے ساتھ محبت میں لپٹی میری شوخی کو محسوس کر لیا اور اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے دار العلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کیا ہے، مظاہرعلوم سے بھی کسب فیض کیا ہے۔ جماعت اسلامی سے عرصہ دراز سے ذمہ دارانہ وابستگی ہے، بریلوی مکتب فکر کے علماء ومشائخین کے ساتھ بھی رہنے اور ان سے غیر رسمی استفادہ کا موقع ملا ہے۔ میرا تعلق تمام اداروں، تنظیموں اور مکاتب فکر کے لوگوں سے احترام والا ہے، میں دو آتشہ نہیں سہ آتشہ ہوں۔ رحمه الله وادخله فسیح جناته وألهم أهله و ذویه الصبر والسلوان۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کا اظہار تعزیت
مولانا رفیق احمد قاسمی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد چند سال درس وتدریس میں گزارے اس کے بعد تحریک جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہو گئے، پوری زندگی جماعت اسلامی ہند کے مشن کی کامیابی وحصول کے لیے لگا دی تا آنکہ خالق حقیقی سے جاملے۔ مولانا مرحوم اپنی سادگی، منکسر المزاجی اور ملنساری کی وجہ سے ہر طبقہ کے لوگوں میں مقبول تھے۔ اعتدال، توازن اور کشادہ نظری ان کا طرہ امیتاز تھا، مولانا مرحوم کا ایک امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے خصوصی دعوتی روابط رکھتے تھے اور مشترکہ مسائل کے حل کی خاطر ہمیشہ جد وجہد کرتے رہتے تھے۔ مولانا مرحوم بارہا جمعیۃ علماء ہند کے اجلاسوں اور پروگراموں میں شریک ہوئے اور اعتدال کا دامن نہ چھوڑا۔ ایسی شخصیت کا داغ مفارقت دے جانا ہمارے لیے ایک سانحہ ہے۔
مولانا مدنی نے جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سعادت اللہ حسینی اور ارکان گرامی ورفقاء سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں دعاکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جملہ متعلقین بالخصوص جماعت اسلامی ہند کے کارکنان کو صبرجمیل عطا فرمائے اور جماعت کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے۔صدر جمعیۃ علماء ہند نے ارباب مدارس، جماعتی رفقاء اور جملہ مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی مغفرت اور ترقی درجات کے لئے دعاء کریں۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، سکریٹری تصنیفی اکیڈمی بتاتے ہیں :
مولانا مرحوم کا ایک امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ مختلف مذاہب کے رہ نماؤں سے خصوصی دعوتی روابط رکھتے تھے۔ ’دھارمک جن مورچہ‘ کے تحت انہیں مشترکہ مسائل کے حل کی خاطر مشترکہ جد وجہد کرنے کے لیے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ مذہبی رہ نما بھی ان پر بہت اعتماد کرتے تھے اور ان کی خوب قدر وستائش کرتے تھے۔ اسی طرح مسلمانوں کے مختلف مسالک ومکاتبِ فکر کے علماء اور دینی رہنماؤں سے بھی ان کے قریبی تعلقات تھے۔ خاص طور پر حلقۂ دیوبند کے اکابر، علماء اور نمائندہ شخصیات سے ان کے بے تکلف تعلقات تھے اور وہ حضرات بھی ان سے انسیت، محبت اور اپنائیت محسوس کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے جماعت اور حلقۂ دیوبند میں کافی حد تک دوریاں کم ہوئیں اور قربت بڑھی۔ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم کے متعدد مواقع پر ان کے اسفار سابق امرائے جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری اور مولانا سید جلال الدین عمری کے ساتھ ہوئے۔ وہاں ان مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ان کے خطابات بھی ہوئے۔ مولانا کی حیثیت ایک ’زنجیر‘ کی سی تھی جو ذمے دارانِ جماعت کو حلقۂ دیوبند کے اکابر سے جوڑے ہوئے تھے۔ افسوس کہ ان کی وفات سے یہ زنجیر ٹوٹ گئی ہے۔ وہ مسلمانوں کی دینی تنظیموں کے کل ہند وفاق ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند کے بھی رکن تھے۔
مفتی تنظیم عالم قاسمی، حیدرآباد لکھتے ہیں:
اس خبر نے ہم سب کو رنجیدہ کر دیا کہ مولانا محمد رفیق قاسمی سابق سکریٹری (برائے شعبہ اسلامی معاشرہ) اور رکن مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند کا اچانک دل کے دورہ سے انتقال ہوگیا اور وہ ہم سب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ ان کے نام کے ساتھ لفظ ’’ قاسمی‘‘ جڑا ہوا تھا اس لیے فطری طور پر مجھ جیسے ہزاروں فضلائے دیوبند کو ان سے انسیت تھی اور جماعت کا ایک فرد محسوس ہوتے تھے تاہم شروع میں یہ اعتراض ذہن میں ضرور گردش کرتا تھا کہ یہ ایک قاسمی ہو کر بھی جماعت اسلامی سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک اچھے عہدے پر ہیں اور نمایاں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس سے یہ تو یقین ہوگیا تھا کہ جماعت اسلامی ہند کسی خاص گروہ اور مسلک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو مسلک اور جماعتی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر محض اسلام کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ اس کی وسعت اور جامعیت کی دلیل کے لیے یہ کافی تھا کہ مولانا رفیق قاسمی وہاں ایک اچھے عہدے پر رہتے ہوے کام کر رہے تھے اور انہیں وہاں کافی عزت حاصل تھی تاہم یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ مولانا کے لیے کیا مجبوری تھی کہ ایسی جماعت جس سے علمائے دیوبند کو فکری اختلاف ہے اسے انہوں نے اپنی دینی وعلمی سرگرمیوں کے لیے منتخب کیا، حالاں کہ مولانا ان علماء ربانیین کے شاگرد تھے جن کو اساطین دیوبند کہا جاتا ہے اور جن کے نام کو مسلک دیوبند میں بڑی اہمیت حاصل ہے چنانچہ قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا سید فخرالدین احمد شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، مولانا ابراہیم بلیاوی استاذ حدیث وادب دارالعلوم دیوبند، مولانا محمد زکریا شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور وغیرہ وہ اصحاب علم ہیں جنہوں نے منہج دیوبند کی تائید میں متعدد کتابیں لکھی ہیں اور جو اس جماعت کے طاقت ور قائدین تصور کیے جاتے ہیں۔ ان حضرات سے راست کسب فیض کے باوجود حلقۂ دیوبند میں کام کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں ملا اور اس مسلک میں وہ رسوخ کیوں نہیں ہو سکا جو عام طور پرفارغین دیوبند کو ہوا کرتا ہے۔ یہ شبہ اس لیے بھی تھا کہ دارالعلوم دیوبند میں شعبۂ مناظرہ موجود ہے جس میں مختلف جماعتوں سے مناظرہ کی مشق کرائی جاتی ہے اور بعض وہ عقائد جن کو اہل دیوبند صحیح تصور نہیں کرتے ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے دلائل کی قوت پیش کرتے ہیں اور ان باتوں پر طلبہ کو جمنے کی دعوت دیتے ہیں جن کو انہوں نے نصوص کی روشنی میں صحیح سمجھا ہے اور جو اکابر دیوبند کا موقف ہے۔ مودودیت بھی ہمارے مناظرے کا موضوع بحث ہوا کرتا تھا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
یہ سمجھ سے بالا وبرتر تھا کہ آخر مولانا رفیق قاسمی پر ان کوششوں کی چھاپ کیوں نہیں پڑی جیسا کہ عام طور پر وہاں سے فیض یافتہ طلبہ پر پڑتی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دارالعلوم سے نکلنے کے بعد وہ کسی اور مسلک یا جماعت سے سمجھوتہ کرنے تیار نہیں ہوتے اور اپنی قائم کردہ حدود سے نکلنا نہیں چاہتے اور اگر کوئی نکلنا چاہتا ہے اور دوسری تنظیم یا جماعت سے قریب ہونا چاہتا ہے تو اس پر تنقیدوں اور اعتراضات کی بارش شروع کر دی جاتی ہے۔ اس لیے بہت سے سلجھے ہوئے ذہن کے لوگ اگر دوسرے مسلک یا جماعت کے اصول وآئین کو سمجھنا بھی چاہتے ہیں تو تنقیدوں اور لعن طعن کے خوف سے ہمت نہیں کر سکتے۔
شہر حیدرآباد اور ریاست تلنگانہ کے مختلف اضلاع کے پروگراموں میں میری ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اتفاق سے میں بھی بحیثیت مقرر بعض پروگراموں میں شریک تھا۔ ان کے لب ولہجہ اور انداز تخاطب سے اندرون قلب کا درد چھلکتا تھا اور تحریک اسلامی کو پوری قوت استدلال کے ساتھ وہ پیش کرتے تھے جس سے یہ یقین ہوگیا تھا کہ مکمل اعتماد اور اخلاص کے ساتھ یہ جماعت سے وابستہ ہیں، یہ ان کی مجبوری نہیں بلکہ ان کا یہ علمی، دینی اور دعوتی انتخاب ہے۔ ایک بڑے مقصد کے لیے جزئیات وفروعیات کے اختلاف کو انہوں نے فراموش کر دیا ہے اور اس سر زمین پر اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور اس کی خصوصیات وامتیازات سے سارے انسانوں کو واقف کرانے کے لیے جماعتی حد بندیوں کو توڑ کر تمام فضلائے دیوبند کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
پروگرام کے اختتام پر بالخصوص علماء کی نششت میں سوال وجواب اور باہمی اظہار خیال کا موقع دیا جاتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کے بہت سے فضلاء مولانا سے جماعت اسلامی سے اپنی وابستگی کی وجہ دریافت کرتے تھے اور بعض جزئیات کا حوالہ دیتے تھے جن کے سبب ان کا تحریک اسلامی سے اختلاف ہے بلکہ بسا اوقات ان حضرات کی آواز بلند ہوجاتی تھی اور لب ولہجہ سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ بڑے غصے میں ہیں لیکن مولانا بڑے تحمل سے کام لیتے ان کی پوری بات سنتے اور ہر ایک کی بات سنتے پھر مکمل اطمینان کے ساتھ ہر ایک کا مدلل جواب دیتے : جماعت اسلامی کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے کبھی ان چھوٹے چھوٹے مسائل کی طرف توجہ نہیں دی اور اختلاف وانتشار پیدا کرنے والی چیزوں کو کبھی اپنی تحریک کا مقصد نہیں بنایا بلکہ جماعتی اور مسلکی تعصب سے اوپر اٹھ کر اس نے اسلام کو اپنا نصب العین بنایا۔ یہ وہ بنیادی سبب ہے جس نے مجھے اس سے وابستہ ہونے پر مجبور کیا اور اگر آپ میں سے کسی کو اب بھی اختلاف ہو تو اختلافی باتوں کو چھوڑ کر ان مسائل میں آپ اس تحریک کا ساتھ دیں جو متفق علیہ ہیں۔ ملت اسلامیہ کی بیداری اور دفاع اسلام سے لے کر برادران وطن کو اسلام کی دعوت پیش کرنے تک کا جو خوب صورت اور مستحکم نظام جماعت اسلامی نے اختیار کیا ہے اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ فاصلے کو کم کیجیے اور مسلک کی حفاظت سے زیادہ دین کی حفاظت اور اس کی اشاعت پر زور دیجیے۔ مولانا کی یہ وہ باتیں ہیں جن سے میں بڑا متأثر تھا اور ان کو اپنے خیال میں حق بجانب سمجھتا تھا۔ ان کی یہ صالح فکر اور وسعت ذہنی ہمیشہ یاد رہے گی۔ انہوں نے مسلک اور جماعتی گروہ بندی سے بالا تر ہو کر محض اسلامی مشن کے لیے جو کام کیا اس میں ہم سب کے لیے بڑا پیغام ہے اور یہ عنداللہ قبولیت کی بات ہوگی کہ وہ اسی مثبت اور کار نبوت مشن پر اخیر دم تک قائم رہے اور دنیا سے گئے تو دین کی یہ تڑپ ان کے سینے میں موجزن تھی جو امید ہے کہ ان کے لیے نجات کا ذریعہ ثابت ہوگی۔وہ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کے ساتھ غیر مسلموں کو اسلام سے قریب کرنے کے لیے پوری زندگی کوشش کرتے رہے اور اس کے لیے مختلف مذہبی رہنماؤں سے انہوں نے رابطہ کیا اور باہمی تعلقات کو مستحکم کیا۔ان کے تواضع، انکساری سادگی اور اخلاق سے اپنوں کے علاوہ غیر بھی بڑے متأثر تھے۔وہ وجیہ انسان تھے اور ہر جگہ ممتاز نظر آتے تھے، ان کے قول وعمل میں تضاد نہیں پایا گیا اس لیے بھی ان کی بات میں اثر پیدا ہوگیا تھا، ان کی یادیں انمٹ نقوش ثابت ہوں گی۔
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر سلیم خان مولانا مرحوم کے ساتھ اپنی رفاقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جماعت اسلامی ہند اور علماء و مشائخین کے درمیان گو ناگوں وجوہات کی بنیاد پر ایک بُعد تھا اس فاصلے کو مولانا قاسمی صاحب کی محبت بھری شخصیت نے پاٹ دیا۔ دارالعلوم دیو بند تو خیر ان کی مادرِ علمی تھی۔ انہوں نے نہ تو خود اپنے آپ کو کبھی اس سے الگ سمجھا اور نہ دیو بند کے اکابرین نے انہیں غیر جانا لیکن دیگر مکتبہ فکر علماء سے بھی مولانا کے نہایت قریبی تعلقات تھے۔ مرکز میں علماء کا تربیتی اجتماع ایک انوکھا خیال تھا لیکن مولانا کی نگرانی میں وہ خواب بحسن وخوبی شرمندۂ تعبیر ہوا۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے ان تربیتی اجتماعات میں شرکت کی سب کے سب جماعت کے ساتھ مولانا کے گرویدہ ہوکر لوٹے۔ ان مرکزی اجتماعات کے بعد مختلف صوبوں میں مجلس علمائے ہند کا قیام وانصرام مولانا رفیق قاسمی صاحب کی ایک انقلابی پیش رفت ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے اور اس کےدور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مولانا کواس عظیم خدمت کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ ممبئی آنے کی خبر ملتی تو ملاقات کے لیے طبیعت بے چین ہوجاتی تھی لیکن سیکڑوں ملاقاتوں کے بعد بھی ان کے تئیں احترام میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مولانا قاسمی کے تعلق سے اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ بے تکلف تھے یا نہیں تھے۔ شاید وہ تو تھے مگر میں نہیں تھا لیکن میں بھی تو بے تکلف تھا جو دل میں آتا پوچھتا اور جو جی میں آتا بول دیتا۔ پھر بھی اندر سے آواز آتی نہیں ایسا نہیں تھا۔ وہ کیسا تعلق تھا اس کو الفاظ کی مدد سے بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ کسی نا معلوم شاعر کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
اُس کا وجود میرے تصور کا معجزہ
جیسا میں اس کو سوچ لوں ویسا دکھائی دے
ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی لکھتے ہیں:
مولانا رحمہ اللہ، خندہ رو، روشن جبیں، علم وعمل کے پیکر، بے شمار نیک خصلتوں کے مالک اور فاضل مادر علمی دارالعلوم دیو بند تھے۔ الحمد للہ راقم الحروف ہر مکتب فکر کے علماء کرام سے حسن ظن اور ان کے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہے۔ احقر کو 2013ء میں پی جی آئی ہاسپٹل سے اپنی بھانجی کے علاج کےلیے رجوع ہوا تھا۔ ان دنوں مجھے فوری طور پرکچھ روپیوں کی ضرورت پڑی۔ وطن اور شہر لکھنؤ سے کافی دور کسی سے شناسائی نہ کسی سے کچھ تعلقات، ایسی صورت میں جماعت اسلامی نے ان دنوں صرف مسلم ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے ناطے وہ مدد کی جسے راقم الحروف کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ اس سے جماعت اور اہل جماعت سے محبت اور بھی بڑھ گئی۔ اللہ اسے برقرار رکھے۔ آہ! جماعت نے اپنے ایک عظیم فرزند کو کھو دیا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ حضرت رحمہ اللہ کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور جماعت کو حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
محب اللہ قاسمی(دلّی) اپنے تعزیتی کلمات یوں بیان کرتے ہیں:
یقیناً اب مولانا محترم اس دنیا میں نہیں ہیں مگر آپ کی یادیں آپ کی باتیں ہم سب کے دلوں میں بسی رہیں گی جنہیں کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔مولانا محترم اتحاد ملت کے بڑے علم بردار تھے۔ وہ فروعی اختلافات کو ملت کے بنیادی مفاد اور مسلمانوں کے نصب العین کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر اس کو روکنے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہے اور بھر پور جد وجہد کی۔ علماء کرام کو ایک دوسرے کے قریب لاتے رہے۔ اقامت دین کے لیے مشترکہ کوششوں کی دعوت دیتے رہے۔ برادران وطن کے مذہبی رہنماؤں سے ربط اور اسلامی تعلیمات کو ان کے مابین پیش کرتے ہوئے دین کا پیغام سناتے رہے اور اسلامی معاشرے کے لیے ماحول سازگار کرتے ہوئے علماء کرام کو مشترکہ کوششوں کی دعوت دیتے رہے۔ مولانا رفیق احمد قاسمی عوام کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے ہوئے تعلق باللہ پر خصوصی زور دیا کرتے تھے۔ آپ با اخلاق، ملنسار اور اپنے نورانی چہرے اور پر اثر گفتگو سے لوگوں کے دلوں پر نقش چھوڑ جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے، مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین