دنیا كى پہلى یونیورسٹى ، مراقش كى جامعہ ا لقروین

ایک عظیم دانش گاہ جو باره صدیوں سے مسلسل علم کے چشمے بہارہی ہے

عما ره رضوان ،نئى دلى

ہم جب علم ودانش كے نقشے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یونیورسٹیوں كے نام پر آكسفورڈ، كیمبرج، ہارورڈ اور كولمبیا یونیورسٹى جیسے نام نظر آتے ہیں حالانكہ نہ آكسفورڈ قدیم ترین یونیورسٹى ہے اور نہ ہى ہارورڈ بلكہ مراکش كے شہر فاس میں واقع القروین یونیورسٹى دنیا كى قدیم ترین یونیورسٹى ہے جو پورے تسلسل كے ساتھ اب تک مختلف كورسز میں علم وتحقیق كا سرچشمہ بنى ہوئى ہے۔
جب پورا یوروپ جہالت كى تاریكى میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت مشرق وسطى اور شمالى افریقہ علم كى روشنى میں نہا رہا تھا۔ عباسى خلافت (750-1258) کے دور میں پورا خطہ خوشحالى، ترقى اور علم وحكمت كى وجہ سے پورى دنیا میں جنت نظیر تھا۔ اس خطہ میں مختلف ثقافتیں پروان چڑھ رہى تھیں، نئے نئے تجربات كیے جارہے تھے، اہل علم كى قدر افزائى كى جارہى تھی، سوچنے سمجھنے پر كوئى بندش نہ تھی بلكہ نئے نئے افكار وتحقیقات پر دل كھول كر نوازا جاتا تھا۔وہ زمانہ جو دینِ اسلام لیے بھی زریں دور تھا اس میں فاطمہ الفہرى نام كى ایک نوجوان خاتون نے 859ء میں شہر فأس میں قروین یونیورسٹى كى بنیاد ركھى۔ یونیسكو اور گینز بک آف ورلڈ ریكارڈز كے مطابق قروین یونیورسٹى دنیا كى سب سے پہلى یونیورسٹى ہے جہاں پر بلا انقطاع تعلیم كا سلسلہ جارى ہے۔ دنیا كى اہم اور مشہور یونیورسٹیاں جیسے آكسفورڈ، كیمبرج اور كولومبیا یونیورسٹیز تقریباً آٹھ صدیوں بعد وجود میں آئیں۔ تیونس كى جامعہ الزیتونہ كو یہ شرف حاصل ہے كہ اس كى بنیاد قروین یونیورسٹى سے پہلے اموى دور خلافت كے 737ء میں ڈالى گئى۔ اس زیتونہ یونیورسٹى نے زمانے كے بہت سارے مدّوجزر دیکھے اور كئى بار اس كى رونقیں ماند بھی پڑیں اور پھر دوباره آباد بھی ہوئیں۔ جامعہ الزیتونہ ان معنوں میں بھی محدود تھی كہ اس میں صرف اسلامیات كے ساتھ ساتھ سماجى علوم كى تدریس ہوتى تھی، اس كے برخلاف قروین یونیورسٹى كا دامن زیاده كشاده تھا، یہاں پر قال الله وقال رسول كے ساتھ ساتھ سائنسى علوم كى بھی تعلیم ہوتى تھی اور مشرق ومغرب ہر جانب سے علوم كے شیدائى قروین كا رخ كرتے تھے۔ جامعة القروین كے بعد عالمى شہرت یافتہ ازہر یونیورسٹى قاہره كا نام آتا ہے جس كى بنیاد فاطمى دور خلافت میں 970ء میں معز الدین بالله كے ہاتھوں پڑى۔ اس طرح سے دنیا كى قدیم ترین یونیورسٹیاں عالم اسلام كے دامن میں پائی جاتی ہیں اور یہ تینوں یونیورسٹیاں تین ادوار كى نمائندگى كرتى ہیں۔
فاطمہ الفہرى حجاز كے ایک متمول گھرانے سے تعلق ركھتى تھیں انہوں نے اپنے والد محمد بن عبد الله الفہرى كے ساتھ مراکش كى طرف ہجرت كى اور اپنے والد كے ساتھ تجارت میں خوب ہاتھ بٹایا یہاں تک كہ الفہرى خاندان فأس کا سب سے بڑا تجارتى خاندان ہوگیا۔ والد كى وفات كے بعد فاطمہ نے طے كیا كہ اس دولت كو كسى ایسے كام میں لگایا جائے جس سے انسانیت بھی فائده اٹھائے اور والد كے لیے صدقہ جاریہ بھی ہو۔
قروین یونیورسٹى میں پروفیسر إدریس فاسى الفہرى بڑے فخر سے بیان كرتے ہیں كہ شہر فأس میں فاطمہ الفہرى نے پہلے ایک بڑی جامع مسجد بنوائى پھر اس كے پہلو میں قروین یونیورسٹى كى بنیاد ركى گئى۔ فاطمہ الفہری جامعہ قروین كى تعمیر کی خود نگرانى كرتى تھیں اور پورى پابندى سے روزوں كا اہتمام كرتى تھیں، اس جامعہ كى تعمیر میں ان كى حسساسیت و دیانت كا یہ عالم تھا كہ كارندوں كو ہدایت تھی كہ جامعہ قروین كى تعمیر میں انہیں كھیتوں كى مٹى استعمال ہو جسے پہلے خرید لیا گیا ہے۔
چنانچہ جامع القروین كى تعمیر مكمل ہو گئى تعلیم وتعلم كے حلقے قائم ہو گئے اور اپنے قیام كے بالكل ابتدائى زمانے ہى میں اس یونیورسٹى كے مختلف شعبوں میں تحقیق وریسرچ كا كام شروع ہو گیا اور جدید یونیورسٹیوں كى طرح سیمینار، سیمپوزیم اور مباحثوں ومناظروں كا چلن رواج پا چكا تھا۔ قروین یونیورسٹى كى مركزى لائبریری اس وقت كى سب سے بڑى لائبریری تسلیم كى جاتى تھی جس سے دور دراز كے لوگ بھی استفادے كے لیے آتے تھے، مركزى لائبریری كے علاوه ہر شعبہ میں الگ الگ لائبریریاں بھی قائم تھیں۔ یہ لائبریری ابھی بھی عوام الناس كے لیے كھلى رہتى ہے جس میں اس یونیورسٹى كى بانى فاطمہ الفہرى كى ڈپلوما كى ڈگرى لكڑى كے ایک بورڈ پر آج بھی آویزاں ہے۔ مختلف موضوعات پر 4000 سے زائد قدیم مخطوطات ابھی بھی اس میں محفوظ ہیں جو اہل علم كے لیے كشش كا باعث ہیں۔ گزشتہ سال سوشل میڈیا پر جامعہ القروین كے شعبہ طب وجراحت كى ایک ڈگرى زیر بحث آئى اور اس كى صداقت پر سوالیہ نشان اٹھایا جانے لگا، اس وقت جامعہ كے وائس چانسلر ڈاكٹر أمال جلال نے پریس كے ذریعے یہ صفائى دى كہ سوشل میڈیا پر گردش كرنے والى ڈگرى بالكل اصلى ہے اور اس كى اصل كاپى رباط كے سركارى میوزیم میں ابھی بھی موجود ہے۔ ڈاكٹر جلال بڑے فخر سے كہتے ہیں كہ جس وقت یہ ڈگرى طب كى تعلیم كى تكمیل پر تفویض كى گئى تھی اس وقت فاس كے قاضی بھی موجود تھے۔ ڈاكٹر جلال نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا كہ یونیسكو اور گینز بک آف ورلڈ ریكارڈ نے بھی تسلیم كرلیا ہے كہ قروین یونیورسٹى تاریخ كى سب سے قدیم یونیورسٹى ہے۔
شعبہ مخطوطات سے وابستہ ریسرچ اسكالر محمد زین العابدین كہتے ہیں ’’طب كى سب سے پہلى ڈگرى 1207ء میں حكیم عبد الله بن صالح الكتامى كو قاضى شہر عبد الله طاہر كے ہاتھوں عطا كى گئى تھی اس وقت شعبہ كے دیگر اساتذه حكیم ضیاء الدین المالقى ابو البیطار، حكیم ابو العباس بن مفرج النبطى اور حكیم ابوعمر الأشبیلى بھی موجود تھے‘‘۔
وائس چانسلر ڈاكٹر أمال جلال كہتے ہیں’’قروین یونیورسٹى اپنى طویل ترین تاریخ میں ایک دن كے لیے بھی بند نہیں ہوئى اور بغیر كسى انقطاع كے تعلیم و تعلم كا سلسلہ جارى رکھے ہوئے ہے۔ شروع میں اس یونیورسٹى میں بھی صرف اسلامیات كى تعلیم دى جاتى تھی مگر دو صدیوں كے بعد ہى اس كے نصاب میں ریاضیات، فلكیات، طب وفلسفہ وغیره جدید علوم شامل كر لیے گئے‘‘۔
مشہور مراکشى مورخ اور سفیر عبد الہادى التازى اپنى كتاب ’’جامعہ القروین‘‘ میں لكھتے ہیں ’’جب ہم یہ كہتے ہیں كہ قروین یونیورسٹى سب سے قدیم یونیورسٹى ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے كہ یہ یونیورسٹى روز اول سے ہى تعلیم وتدریس كا سلسلہ جارى ركھے ہوئے ہے، اس کے برعكس جامعہ الزیتونہ جو اگرچہ اس سے پہلے وجود میں آئى لیکن اس كو كئى بار بندشوں كا منہ دیكھنا پڑا اور جامعہ ازہر كو بھی حالات كى مار جھیلنى پڑى۔ قروین كو بغداد، دمشق اور قاہره سے دور رہنے كا فائده ہوا اور زمانے كے مدّوجزر اس كا بال بیكا نہ كر سكے‘‘
قروین یونیورسٹى اوّل روز سے ہى حكم رانوں كے جبر وتسلط سے آزاد رہى ہے، فاطمہ الفہرى نے تعمیر كے بعد اپنى پورى دولت جامع القروین كے نام وقف كردى تھی اور پھر ان كى اقتداء میں دیگر اصحاب ثروت نے بھی اوقاف كا ایک پورا جال بچھا دیا تھا۔ مورخ عبد الہادى التازى اپنى كتاب ’’ جامع القروین‘‘ میں لكھتے ہیں كہ بسا اوقات یونیورسٹى كا بجٹ مملكت وقت كے بجٹ سے بڑا ہوتا تھا اور حكومتِ وقت كو اپنے بجٹ كے خسارے كو پورا كرنے كے لیے جامعہ القروین كى طرف رجوع كرنا پڑتا تھا۔ صدیوں تک یہ یونیورسٹى نہ صرف خود كفیل رہى بلكہ حكومت وقت كو بھی اپنے گرانٹ سے مستفید كراتى رہى‘‘
جامعہ القروین كو یہ شرف بھی حاصل رہا كہ اس كى طرف رجوع كرنے والے ہر خطے سے تھے۔ جو لوگ اندلس اور اشبیلیا سے بغداد اور دمشق كا رخ كرتے تھے ان كے قدموں كو یہ یونیورسٹى چند ماه یا چند سال كے لیے روک لیتى تھی اور جو لوگ حصول علم كى خاطر جزیرة العرب یا بغداد، دمشق، قاہره سے اندلس كے لیے عازم سفر ہوتے تھے ان كے قدم بھی فاس میں رک جاتے تھے تاكہ چند ماه قروین كے احاطے میں قیام كر كے كسبِ فیض كرلیا جائے۔ ڈاكٹر أمال جلال اس ضمن میں ابن خلدون، ابن رشد، ابن الخطیب، ابن البیطار جیسے اساطین كا نام لیتے ہیں جن كى كتابوں اور علم وفضل كا موجوده دنیا قرض نہیں اتار سكتى۔ڈاكٹر جلال یونیورسٹى كى تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے كہتے ہیں كہ یونیورسٹى كى لائبریری میں ایسے ایسے مخطوطے ہیں جو دنیا كى كسى اور لائبریری كو نصیب نہیں۔ تیسرى صدى ہجرى اور اس سے پہلے كے مخطوطات بھی اس لائبریری كى اہمیت كو چار چاند لگا رہے ہیں۔ اس میں ابن سینا اور ابن خلدون كے ہاتھوں كے لكھے ہوئے مخطوطات بھی ہیں۔جب ڈاكٹر جلال كے سامنے یہ سوال ركھا گیا كہ اس یونیورسٹى سے صرف عالم اسلام نے ہی فائده اٹھایا ہے اور آپ اسلامى تاریخ كے اساطین كا نام لیتے ہیں تو ان كا برملا جواب تھا ” ایسا بالكل نہیں ہے، اس یونیورسٹى كا دامن بہت وسیع ہے، پہلے دن سے ہى اس نے ہر طالب علم كے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔ عصر وسطى كے مشہور یہودى حاخام موسى بن میمون (میموندیس) جو اندلس میں پیدا ہوئے اور تعلیم كى غرض سے قروین یونیورسٹى میں داخل ہوئے اور ابن افلح اور ابن رشد سے فائده اٹھایا، تعلیم كى تكمیل كے بعد كچھ سال موسى اسى یونیورسٹى میں طب كے استاد بھی رہے، اسى طرح گربرٹ دوریاک اشبیلیا سے قروین طلب علم كے لیے آئے اور بعد میں 999 تا 100ء سالویسٹر دوم كے نام سے رومن كیتھولک چرچ پر بابائے روم كى حیثیت سے مسند نشین ہوئے۔ یہ واحد عیسائى رہنما ہیں جنہیں عربى زبان پر قدرت حاصل تھی اور انہوں نے یوروپ جاكر عربى زبان كو لازمى زبان كى حیثیت سے داخل نصاب كرایا تھا‘‘قروین یونیورسٹى كو مراکش میں جو مركزى حیثیت حاصل ہے اس كى بنا پر ہر صاحب اقتدار نے اس كى جانب توجہ كى اور اس كى خدمت كو اپنے لیے باعث سعادت تصور كیا۔ عوام میں اس كى قدر ومنزلت كى وجہ سے ہر تخت نشین بادشاه نے سب سے پہلے یہاں پر حاضرى دى اور اس طرح سے عوام الناس كى تائید كو اپنى طرف موڑا۔ فرانسیسى استعمار كے خلاف بھی یہ یونیورسٹى ہمیشہ انقلاب كى نقیب بنى رہى۔ اسى لیے فرانسیسى جنرل لؤیس ہائبر لویٹى نے بارہا كوشش كى کہ اس كے دروازوں پر تالے ڈلوا دے مگر وه ناكام رہا۔كورونا وائرس كے اس وبائى دور میں جب کہ ہر جگہ دانش گاہوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں اس یونیورسٹى نے ان حالات میں بھی اپنا ایک الگ وطیره اپنا ركھا ہے، سماجى دورى كا لحاظ كرتے ہوئے اس كے ریسرچ كے دروازے كھلے ہیں۔ ریسرچ اسكالرس برابر لائیبریری سے استفاده كرتے ہیں البتہ كلاسز كو آن لائن كلاسز میں بدل دیا گیا ہے۔ وائس چانسلر آفس كے پبلک ریلیشن افسر محمد العلام كا كہنا تھا كہ جب یونیورسٹى نے اپنے سخت ترین حالات میں اپنے دروازے بند نہیں كیے تو یہ حالات تو وقتى ہیں یہ بھی ختم ہو جائیں گے مگر ہمارا تعلیمى سلسلہ منقطع نہ ہوگا۔
***


 

كورونا وائرس كے اس وبائى دور میں جب کہ ہر جگہ دانش گاہوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں اس یونیورسٹى نے ان حالات میں بھی اپنا ایک الگ وطیره اپنا ركھا ہے، سماجى دورى كا لحاظ كرتے ہوئے اس كے ریسرچ كے دروازے كھلے ہیں۔ ریسرچ اسكالرس برابر لائیبریری سے استفاده كرتے ہیں البتہ كلاسز كو آن لائن كلاسز میں بدل دیا گیا ہے