خریدوفروخت کے اسلامی اصول

اسلامی نظام معیشت میں ہوس،مفادپرستی اور خودغرضی کوکنٹرول کرنےکا میکانزم موجود

طفیل ندوی، ممبئی

نبی کریم ﷺ کا ارشادمبارک ہے’’ونہی رسول ﷺ من بیع المضطر‘‘جبراورزبردستی کی بیع مت کرو۔شریعت اسلامی میں تجارت اورمعاملات کوبڑی اہمیت حاصل ہےدنیاکےکسی بھی مذہب نےتجارت یعنی خریدوفروخت کو وہ مقام اوراہمیت نہیں دی جودین اسلام نے دی ہےاسلام خریدوفروخت کےان طورطریقوں کی حوصلہ افزائی کرتاہے جس میں کسی قسم کادھوکہ نہ ہو اورایسے طریقوں سے منع کرتاہےجس میں کسی قسم کےدھوکےاورفریب کااندیشہ ہو۔ دین اسلام نے تجارت کی حوصلہ افزائی کی ہے اورسودکوحرام قراردیاہے۔نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام ؓ کی سیرتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ رسول ﷺ اعلان نبوت سےقبل تجارت سے وابستہ تھے۔آپﷺ کی ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کاسبب بھی تجارت ہی تھا حضرت خدیجہ ؓ قریش کی ایک باعزت خاتون تھیں اوران کاتجارتی قافلہ شام کے علاقے میں جایاکرتاتھا وہ خودتجارت کے لیے نہیں جاتی تھیں بلکہ ان کے نمائندےاورکارندے جاتےتھے تجارت کےسارےعمل کاانحصارصرف نمائندوں پرہوتومعاملہ اتنا بھروسےمند نہیں رہتا اس لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہاکوتلاش ہوتی تھی کہ کوئی دیانت داراورقابل اعتماد آدمی ان کی تجات کوسنبھالے چنانچہ آپ کی نظر انتخاب رسول اللہ ﷺ پر پڑی تھی۔
دین اسلام کاایک نمایاں وصف ہےکہ نہ تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح لوگوں کوکھلی چھوٹ دیتاہے اورنہ ہی ساہوکارانہ آہنی زنجیروں میں جکڑتاہےبلکہ اس کا رویہ اعتدال پر مبنی ہے ۔اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو تجارت کے ذریعےکسب مال کی ترغیب دیتاہےوہیں ایسے رہنمااصول بھی پیش کرتاہےجن کو ملحوظ رکھنااشدضروری ہےان اصولوں کی پابندی کرکےجوبھی لین دین کیاجائے وہ شریعت کی نگاہ میں جائز تصورہوگا خواہ وہ دورجدیدکی ہی پیداوارکیوں نہ ہو یعنی اسلام کارویہ معتدل ہونےکے ساتھ ساتھ جامع اورلچکداربھی ہو اور جوہردورکے تقاضوں کوپوراکرسکتاہے۔اس میں شبہ نہیں کہ اسلام جہاں معاشی ترقی کاخواہاں ہےوہیں دینی ،روحانی اوراخلاقی ہدایات کامعلم بھی ہےجن کی خلاف ورزی کرکےفلاحی نظام معشیت کاقیام ممکن نہیں اس لیے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ انسان حصول مال کی خاطر شتربےمہارکی طرح ہوجائےاورحلال وحرام کاامتیازہی ختم کردےکیوں کہ اس طرح معاشی بگاڑپیداہوتاہےجس سے پورامعاشرہ متاثرہوئے بغیرنہیں رہتا۔اسی لیے اسلامی ریاست میں صرف ان لوگوں کو کاروبارکی اجازت ہوتی ہے جو تجارت کے سلسلےمیں اسلام کے دیے ہوئے احکام سے واقف ہوں ۔چناں چہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کافرمان ہے’’لابیع فی سوقنا الامن تفقہ فی الدین‘‘ہمارےبازاروں میں وہی خریدوفروخت کرےجسےدین (تجارتی احکام )کی سمجھ ہو۔
تیرہویں صدی ہجری میں مالکی فقیہ محمد بن احمد الرہونی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے شیخ ابومحمدکے حوالےسے نقل کیاہےکہ انہوں نے مراقش میں محتسب کو بازاروں میں گشت کرتےدیکھاجوہردوکان کے پاس ٹھہرتا اوردوکان داروں سے اس کے سامان کےمتعلق لازمی احکام کے بارےمیں پوچھتااوریہ دریافت کرتاکہ ان میں سودکب شامل ہوتاہےاوروہ اس سے کیسے محفوظ رہتاہے؟ اگروہ صحیح جواب دیتا تو اس کودوکان میں رہنے دیتا اوراگراسے علم نہ ہوتاتو اسے دوکان سے نکال دیتا اورکہہ دیتا تیرےلیے مسلمانوں کے بازارمیں بیٹھناممکن نہیں تولوگوں کو سود اورناجائز کھلائے گا۔اس سے معلوم ہواکہ اسلامی طریقہ تجارت میں شتربےمہارآزادی،ہوس،مفادپرستی اور خودغرضی کوکنٹرول کرنےکا شاندارمیکانزم موجودہےکیوں کہ یہی وہ خرابیاں ہیں جومعاشرےکے اجتماعی مفادات پراثراندازہوتی ہیں اورمعاشی بےاعتدالیوں اورنا ہمواریوں کاباعث بنتی ہیں بلکہ یہاں حدودوقیود ہیں جن کے ساتھ بھی معاشی اورتجارتی ترقی حاصل کی جاسکتی ہے جس کی مثالیں ہمارےپاس موجودہیں اورجس کے نقوش تاریخ کے اوراق پرجلی حروف سے ثبت ہیں ۔اس کی مثال صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی مقدس جماعت ہےجن میں اکثرتجارت پیشہ تھےاوران کی تمام کاروباری سرگرمیاں شریعت کے تابع ہی ہوتی تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے معاشی میدان میں بےمثال ترقی کی ہرطرف مال ودولت کی فراوانی آسودگی اورخوشحالی عام تھی اوروسیع مملکت میں کوئی زکوٰۃ قبول کرنے والا نہ ملتاتھا معاشی اعتبارسے کمزورترین افرادبھی زکوٰۃ اداکرنےکے قابل ہوگئے تھے جواس بات کا بین ثبوت ہےکہ معاشی ترقی کے لیے بےقید آزادی ناگزیرنہیں بلکہ یہ مقصد حدودوقیودکےاندررہ کربھی حاصل کیاجاسکتاہے۔اس کے لیے اسلام میں تجارت کے تعلق سے واضح اصول وضوابط سے روشناس کرایاگیا ہےاصول آفاقی ،ہمہ وقتی اور حقیقی ہیں اگردنیاکے کسی بھی حصہ میں یہ زیرعمل لائے جائیں توہمیشہ مثبت نتائج کے حامل ہوتےہیں آج اگر ان اصولوں کو اپنالیاجائے تودنیاسے تجارتی لوٹ کھسوٹ ،سود، ملاوٹ،اشیاءکی قلت اور مہنگائی جیسی معاشی برائیاں ختم کی جاسکتی ہیں ۔اسی طرح سے اسلام نے جواشیاء حرام قراردی ہیں ان کومال تجارت بنانا اور ان کی خریدوفروخت کرنا بھی حرام ہےان اشیاءمیں شراب نوشی،افیون ،ہیروئن،لاٹری،سٹہ بازی،سودی لین دین،اخلاق سوزفلمیں ،اخلاق سوزناول،کتابیں اوررسالےشامل ہیں۔ ارشادخداوندی ہے’’یسئلونک عن الخمروالمیسرقل فیھمااثم کبیر‘‘آپ سے شراب اورجوئےکی نسبت سوال کرتےہیں توکہہ دیں ان دونوں میں بڑاگناہ ہےحضور ﷺ کافرمان ہے’’ان اللہ ورسولہ حرم بیع الخمروالمیتۃ والخنزیروالاصنام‘‘یقیناً اللہ اور اس کے رسول ﷺ نےشراب ،مردار،خنزیراوربتوں کی خریدوفروخت کوحرام قراردیاہےایک اور موقع پرآپ ﷺ نے ارشادفرمایا ’’ان اللہ اذاحرم شیئاحرم ثمنہ‘‘اللہ تعالی نے جس چیز کوحرام قراردیاہے اس کی قیمت کوبھی حرام قراردیاہے۔
اسی طریقےسے ناپ تول میں کمی کرنےوالوں کے لیے کہاگیاکہ جب تم کسی کوکوئی چیز پیمانےسےناپ کردوتوپوراناپواورتولنےکے لیے صحیح ترازوکااستعمال کرو ۔یہی طریقہ درست اور اسی کاانجام بہترہےکہیں اللہ تعالی نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کووعیدبیان کرتے ہوئےفرمایا’’ویل للمطففین الذین اذااکتالوا علی الناس یستوفون‘‘بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ،جن کاحال یہ ہےکہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کرلیتےہیں توپوراپورالیتےہیں مگرجب وہ کسی کو ناپ کردیتےہیں تو گھٹاکردیتےہیں ان آیتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید ہے جودوسروں سے اپناحق وصول کرنے میں بڑی سرگرمی دکھاتےہیں لیکن جب دوسروں کاحق دینےکاوقت آتاہےتو دھوکہ اورفریب سے کام لیتےہیں ۔نبی کریم ﷺ نےتجارت کے حوالےسے ایک جامع حدیث بیان فرمائی ہے ’’التجار الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘کہ سچااورامانت دارتاجرجنت میں نبیوں ،صدیقین،شہداءاورصالح لوگوں کے ساتھ ہوگا محدثین اوراہل علم کہتےہیں کہ اس ارشادمیں نبی کریم ﷺ نے دونوں باتوں کااحاطہ کیا ہے۔پہلی یہ کہ گفتگومیں سچاہو ،دوسرایہ کہ مال کے معاملےمیں امانت دارہو ،یعنی بات طےکرتےوقت جھوٹ نہ بولتاہواورفروخت کے وقت مال میں کمی نہ کرتاہو یہی دوباتیں خریدوفروخت کی بنیاد ہیں کہ بات سچی ہونی چاہیے اورمال خالص ہوناچاہیےلیکن بطورتاجر ان دونوں باتوں پر عمل آسان کام نہیں ہے ایک تاجرکے لیے اس رتبےکا حصول ناممکن تونہیں ہے لیکن مشکل ضرورہے ۔گفتگومیں سچائی کے متعلق نبی کریم ﷺ نےفرمایا کہ وہ آدمی جوقسم کھاکر مال بیچتاہے اس کامال بک توجاتاہے لیکن اس میں برکت نہیں رہتی ۔حضرت عبداللہ بن اوفی ؓسےروایت ہےکہ ایک شخص نےبازارمیں بیچنے کے لیے کوئی سامان رکھااوراس کے بیچنےکےسلسلےمیں قسم کھائی تویہ آیت نازل ہوئی ’’ان الذین یشترون بعھداللہ وایمانھم ثمناقلیلا‘‘جولوگ اللہ کے قراراوراپنی قسموں پرتھوڑاسامول لیتےہیں ان کاآخرت میں کچھ حصہ نہیں قیامت کےدن اللہ تعالی نہ ان سے بات کرےگااورنہ ہی ان کی طرف نگاہ کرے گااورنہ ان کو پاک کرے گااوران کے لیے دردناک عذاب ہےاس لیےآپ نے خریدوفروخت کی ہر ایسی قسم کی مذمت فرمائی ہے جس میں دھوکہ اورفریب ہو،جس میں جھوٹ اوربددیانتی ہو یاجس میں عام لوگوں کوپریشانی اورنقصان ہو ایسی صورتوں کو’’غش‘‘یعنی دھوکےسے تعبیر فرمایا اورانہیں ممنوع قراردیا ’’من غشنافلیس منا‘‘جس نے ہمیں تجارت میں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔


 

اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو تجارت کے ذریعےکسب مال کی ترغیب دیتاہےوہیں ایسے رہنمااصول بھی پیش کرتاہےجن کو ملحوظ رکھنااشدضروری ہےان اصولوں کی پابندی کرکےجوبھی لین دین کیاجائے وہ شریعت کی نگاہ میں جائز تصورہوگا خواہ وہ دورجدیدکی ہی پیداوارکیوں نہ ہو