امریکہ میں سیاہ فاموں کے احتجاج میں سفید فام بھی شریک

عبدالباری مومن ،بھیونڈی

امریکہ میں احتجاج صرف ایک شخص کی موت کے خلاف سادہ سا احتجاج نہیں ہے بلکہ امریکہ کی جمہوریت پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ اس کی دستوری بنیادوں پر ایک گہری ضرب ہے۔ امریکہ اپنی جمہوریت پر فخر کرتا ہے لیکن اس وقت اس کے ماضی اور حال کا چہرہ ساری دنیا کے سامنے برہنہ ہو چکا ہے۔
1790ء میں امریکہ کے دستور کے جنم لینے کے ایک سال بعد کی مردم شماری کے مطابق کالے امریکیوں کی تعداد آبادی کا 19.3 فیصد تھی لیکن انہیں ہمیشہ غلام سمجھا گیا۔ وہ اپنے آقاؤں کی جائیداد مانے جاتے تھے۔ جانوروں کی مانند ان کی خریدو فروخت ہوتی تھی۔ انہیں کوئی شہری حقوق حاصل نہیں تھے۔ 1861ء سے لے کر 1865ء کے دوران امریکی خانہ جنگی میں تقریباً 6 لاکھ امریکی مارے گئے۔ اس کے بعد کے اگلے پانچ سالوں میں امریکہ کے دستور میں چودھویں اور پندرہویں ترمیم کے تحت کالوں کو ووٹنگ کے حقوق حاصل ہوئے اور اس وقت کالی نسل کے ووٹرس کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ یہی نہیں بلکہ ان کو امریکی سیاسی ایوانوں میں بھی داخلہ ملا۔ وہاں کی سینٹ میں بھی وہ شامل ہوئے ہوئے 1877ء میں ان اصلاحات کا خاتمہ کر دیا گیا۔ جنوبی امریکہ کی اکثر ریاستوں نے ووٹنگ کا حق ان سے چھین لیا ان کی رہائش پر پابندیاں لگائی گئیں عبادت گاہوں پر پابندی لگائی گئی۔ ہوٹلوں اور دیگر مقامات میں داخلے کی پابندی لگائی گئی۔ ان کے سفر پر پابندی لگائی گئی گی۔ عوامی مقامات پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیے جانے لگے گے یہاں تک کہ 1896ء کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ میں کالوں اور گوروں کے درمیان نسلی تفریق کو درست قرار دے دیا گیا۔ اب کیا تھا ان پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں پر پر ہجومی تشدد کھل کر کیا جانے لگا۔ قانونی اقدمات سے کہیں زیادہ تعداد میں ہجوم کے سامنے ان پر تشدد کیا گیا ۔ان کو کاٹ ڈالا گیا، جلایا گیا۔ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ ان کی یادیں آج بھی تصویروں میں قید ہیں یہاں تک کہ ان تصویروں کو پوسٹ کارڈ کی شکل میں بھی عام بھی کیا گیا۔ ایک مدت تک کالے لوگ ان چیزوں کو برداشت کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ ایک عرصے بعد 1950ء سے 1960ء کے عرصے کے دوران اس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی ان کی معاشی بد حالی اسی طرح باقی رہی۔ ان کے خلاف تشدد کے واقعات بند نہیں ہوئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں پہلی سی شدت نہیں رہی۔ لیکن پولیس کے ظلم سے ان کو نجات نہ مل سکی۔ اس کا قہر آج بھی ان پر برس رہا ہے۔ آج امریکی آبادی میں کالوں کی تعداد 12 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کی تعداد کہیں زیادہ یعنی 38 فیصد ہے۔ انہیں جرائم میں ملوث کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ سفید امریکی سپاہیوں کے کالے قیدیوں پر ظلم کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پولیس کی ٹریڈ یونینیں جو بہت مضبوط ہیں اور اکثر قانونی داؤ پیچ کی مدد سے انہیں بچا لیتی ہیں۔ اکثر اوقات شک کا فائدہ مجرموں کے بجائے پولیس والوں کو ملتا ہے۔ پولیس والوں کے بیانات کو عدالت آسانی سے تسلیم کر لیتی ہے۔ امتیازی سلوک پر مبنی مسلسل جاری ظلم وبربریت کی مثال ایک سفید پولیس افسر کے تشدد میں کالے امریکی جارج فلائیڈ کی ہلاکت ایک تازہ ترین واقعہ ہے۔ لیکن اس نسلی تفریق کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ کالے لوگ بھی اس امتیازی سلوک کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ 2020ء کا احتجاج اسی کی ایک بڑی علامت ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جیسے نسل پرست شخص کو اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا گیا۔ آج ٹرمپ کے دوسرے دور کے صدارتی الیکشن کے موقع پر ایک طرف تو اس نے کورونا وائرس کی بیماری کے خلاف لڑنے میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور اب وہاں انتخاب کے موقع پر گورے امریکیوں میں یک قطبیت پیدا کرنے (Polarization) کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ میں نسل پرستی کو جس طرح برداشت کر لیا جاتا ہے اس سے یہ مشکل ہی معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ احتجاجات امریکہ کے حالات میں کسی طرح کی تبدیلی کا باعث بنیں گے لیکن امید جاگ رہی ہے۔ صرف کالے امریکی ہی اس احتجاج میں شامل نہیں ہیں بلکہ اس میں سفید نسل کے بہت سے لوگ بھی شامل ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ میں انسانیت کو گہرا زخم لگا ہے۔ اس احتجاج نے نسلی تفریق پر مبنی احساسات کو کم کر دیا ہے۔ شاید ٹرمپ کے لیے یہ چیز اونٹ کے پہاڑ کے نیچے آجانے کے مترادف ہوگئی۔ امریکی عوام میں یہ احساس پیدا ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کے اعتراف کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب شاید حقیقی جمہوری اصولوں کی پاسداری کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭