مواصلاتی شعبے کا بحران اور عوام کی پریشانیاں

انٹرنیٹ ملک کی 40فیصد آباد کی ضرورت

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

اس وقت ملک کے مواصلاتی شعبے (Telecom Sector) کی جو صورتحال ہے وہ بھی کسی قومی ایمرجنسی سے کم نہیں ہے پورا مواصلاتی شعبہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے بلکہ تقریباً تباہ ہوچکا ہے. اور اب اس کے منفی اثرات سے ملک کے عوام بری طرح متاثر ہونے والے ہیں۔
ہندوستان میں مواصلاتی شعبے کی کمپنیاں ایک ایک کر کے برباد ہو رہی ہیں نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں جو موبائل اور انٹرنیٹ موجود ہے اس کی خدمات بھی بے حد متاثر ہونے لگی ہیں۔ مثلاً ان کا نیٹ ورک مسلسل خرابی کا شکار ہونے لگا ہے اور قیمتیں بار بار بڑھتی جا رہی ہیں۔
موبائل اور انٹرنیٹ آج ہماری زندگی کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ اس وقت ملک کی آبادی کا تقریباً چالیس فیصد حصہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے اور ہماری روز مرہ زندگی کا ایک بڑا حصہ اس پر منحصر ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے عزیز واقارب سے گفتگو، بینکوں سے لین دین، طبی خدمات، ٹرانسپورٹ سرویس، ہوم ڈیلیوری اور دیگر سہولتیں سب کچھ انہی موبائل کمپنیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی انٹرنیٹ سہولت کی مرہون منت ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق ہندوستان میں ۳۰ سے ۴۰ لاکھ لوگ کسی نہ کسی طرح اس کے ذریعے اپنے روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے صنعت کاروں سے لے کر چھوٹی صنعتوں کے مالک اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اس وسیلے کے استعمال کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان میں ای کامرس کے شعبے کا دائرہ کار امریکہ ویورپی ممالک کے مقابلے میں کم ہے لیکن وہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گویا یہ ذاتی زندگی سے لے کر کاروباری زندگی تک کے لیے بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ یہ تمام سہولتیں دراصل ماضی کی حکومتوں کی دور اندیشی کا نتیجہ تھیں جنہوں نے 1994 میں قومی مواصلاتی پالیسی (National Telecom Policy) کے ذریعہ خانگی سرمایہ کاری(Private investment) کی ترغیب دی۔
اس پالیسی کے تحت کمپنیوں کو مقررہ فیس کے عوض لائسنس جاری کیے گئے۔ اڈجیسٹیڈ گراس ریونیو (AGR) قانون کے تحت حکومت اور کمپنیوں کے درمیان معاہدہ ہوا کہ مجموعی محصولات پر لائسنس کے لیے 8 فیصد اور اسپیکٹرم کے لیے 3 تا 5 فیصد حکومت کو ادا کرنا ہوگا۔
حکومت اور کمپنیوں کے مابین تنازعہ اسی AGR کو سمجھنے میں ہوا۔ محکمہ مواصلات کا استدلال یہ ہے کہ AGR میں کمپنی کے تمام محصولات شامل ہیں۔ جب کہ کمپنیوں کا کہنا یہ ہے کہ AGR کو بنیادی خدمات سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہی مشتمل ہونا چاہیے چنانچہ حکومت اور کمپنیاں دونوں اپنی اپنی تعبیر کے مطابق آگے بڑھتے رہے اور اس دوران واجب الادا رقم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اس معاملے کو سلجھانے کے لیے اور کمپنیوں کی جانب سے اسپیکٹرم، جرمانہ اور سود کی جو رقم حکومت کو واجب الادا ہے اس کی وصولی کرنے کے لیے آج سے سترہ سال قبل حکومت نے عدالت کا رخ کیا تھا۔
2015 میں عدالت برائے ٹیلی کام تنازعات (TDSAT) نے کمپنیوں کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا. حکومت نے اس مسئلہ کو پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے 24 اکتوبر 2019 کو ٹیلی کام عدالت TDSAT کے احکام کو مسترد کرتے ہوئے محکمہ مواصلات کے حق میں فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے مواصلاتی شعبے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ AGR کے قواعد وضوابط کے تحت عدالت نے بچی ہوئی تین چار کمپنیوں کو حکم دیا کہ ایک لاکھ سینتالیس ہزار کروڑ روپے کی بقایا رقم فوری ادا کردی جائے. اس فیصلے کے تحت وڈافون کو 53 ہزار کروڑ روپے اور ائیرٹل کو 35 ہزار کروڑ روپے ادا کرنے ہوں گے. عدالت عظمیٰ نے غضب ناک انداز میں کہا کہ یہ رقم بلا تاخیر ادا کردی جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں عدالت کی توہین متصور کرتے ہوئے مقدمہ چلانے کی دھمکی بھی دے دی۔ کمپنیوں نے کہا کہ وہ یہ رقم نہیں ادا کر سکتے۔ جواب میں حکومت نے اس مسئلے کے حل کے طور پر کہا کہ کمپنیاں اپنا تخمینہ خود کرلیں اور رقم ادا کریں. اس کے بعد کمپنیوں نے کہا کہ وہ جملہ رقم میں سے 3/1 حصہ ہی جمع کر سکتے ہیں اور اس رقم کو جمع کرنے کے لیے بھی انہیں 20 سال کا عرصہ درکار ہے.
حکومت نے پھر ایک بار سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ کمپنیوں کو اپنا تخمینہ کرنے کی یا ازسر نو کسی نئے تخمینے کی اجازت کسی صورت میں بھی نہیں دے سکتی کیوں کہ یہ بھارتی عوام کے ساتھ ایک مذاق ہوگا۔ اس موقع پر عدالت نے حکومت کے رویہ کی بھی سخت مذمت کی اور کہا کہ وہ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کرسکتی ہے اور یہ کہ عدالت ایسا نہیں ہونے دے گی. عدالت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ائیرٹیل نے 10 ہزار کروڑ روپے ادا کردیے جب کہ وڈافون نے کہا کہ وہ رقم ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور فی الحال 3.5 ہزار کروڑ روپے ہی ادا کرسکتی ہے۔ اس نے عدالت سے مہلت مانگی لیکن عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے پاس فوری طور پر ادا کرنے کے لیے رقم ہے ہی نہیں۔
حکومت کا رویہ بھی اس معاملے میں دوہرا، غیر سنجیدہ اور نا قابل فہم نظر آتا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اس کا کوئی مناسب حل تلاش کرتی کیوں کے ان دونوں کی عدالتی رسہ کشی میں نقصان نہ صرف کمپنیوں کا ہوگا بلکہ ان کمپنیوں کے بند ہونے سے بینکوں، ملازمین اور صارفین کو بھی خسارہ ہوگا۔ G2 اسکام کے بعد عدالت نے 122 کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر دیے تھے۔ اس کے بعد بھارت میں بس ایم ٹی این ایل، بی ایس این ایل، وڈا فون، ائیرٹیل اور جیوجیسی پانچ کمپنیاں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری کمپنیاں اپنے آخری ایام گن رہی ہیں۔ عدالت کے فیصلے کے بعد وڈافون کا اپنی خدمات کو جاری رکھنا مشکل نظر آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنا کاروبار بند کر دے گی۔ اگر وُڈا فون کمپنی اپنا کاروبار بند کر دے گی تو اس کی واجب الادا رقم بھی ڈوب جائے گی۔ اس کے اثاثے فروخت کرنے پر بھی اس کی پابجائی ممکن نہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس کمپنی کے پچاس ہزار ملازمین بھی اپنے روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔ اس کمپنی کے بند ہونے کے بعد میدان میں صرف دوہی کمپنیاں رہ جاتی ہیں ان میں جو زیادہ طاقتور ہوگی بازار پر اس کی اجارہ داری (monopoly) قائم ہو جائے گی اور اس کے بعد صارفین کا استحصال بھی خوب ہوگا۔ اس کی خرابیاں نظر آنی شروع بھی ہو چکی ہیں. یہی موبائل خدمات جو کچھ عرصہ قبل کافی سستی ہوا کرتی تھیں اب ان کے داموں میں بتدریج اضافہ ہونے لگا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اگر حکومت کوئی ٹھوس نتیجہ خیز اقدامات نہ اٹھائے تو بالاخر یہ ناقابل یقین حدتک مہنگی ہوجائیں گی جس کا اثر انٹرنیٹ سے جڑی ملک کی ایک بڑی آبادی، انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار اور روزگار سے جڑے ہوئے لوگوں اور مختلف چھوٹی چھوٹی صنعتوں پر پڑے گا۔

عدالت کے فیصلے کے بعد وڈافون کا اپنی خدمات کو جاری رکھنا مشکل نظر آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنا کاروبار بند کر دے گی۔ اگر وُڈا فون کمپنی اپنا کاروبار بند کر دے گی تو اس کی واجب الادا رقم بھی ڈوب جائے گی۔ اس کے اثاثے فروخت کرنے پر بھی اس کی پابجائی ممکن نہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس کمپنی کے پچاس ہزار ملازمین بھی اپنے روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔